🌹 اردو نصیحتیں 📚
🌹 اردو نصیحتیں 📚
January 18, 2025 at 07:10 PM
✝️ صلیب ۔۔۔۔ 🐎🐎گھوڑے ۔۔۔۔۔ ☪️ ہلال ••••••••••••••••••••••••••••••• https://whatsapp.com/channel/0029VaAyKKF3rZZZt01lW90b تصویر میں موجود “The Cross and The Crescent” ایک مشہور کتاب ہے Dr Jerald F Dirks کی۔ یوں تو ڈاکٹر ڈیرکس کے بچوں کی نفسیات، عربی گھوڑوں کی تاریخ اور تقابل ادیان کے حوالے سے دو سو سے زائد تحقیقی مضامین کئ مشہور عالمی جرنلس میں شائع ہوچکے ہیں، پر اس کتاب کی مقبولیت عالم اسلام میں بہت زیادہ رہی ہے، “الصليب و الهلال" کے نام سے عربی میں بھی اس کا ترجمہ موجود ہے۔ کتاب امیزون کے علاوہ مکتبہ الشاملہ پر بھی موجود ہے۔ کم و بیش پونے تین سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب دراصل ڈاکٹر جیرالڈ کے عیسائ داعیہ اور یونائیٹیڈ میتھوڈسٹ چرچ کے منسٹر بننے سے لیکر اسلام قبول کرنے تک کی خوبصورت روداد ہے۔ میں عموماً ایسی کتابیں خود پڑھتا ہوں اور پڑھنے کی تجویز بھی کرتا ہوں۔ وجہ صرف یہ نہیں کہ اس سے ہمیں کسی کی دلچسپ آپ بیتی معلوم ہوتی ہے بلکہ اس سے اسلام کے وہ زریں اور نادر گوشے بھی ہمارے سامنے آتے ہیں جو عموماً ہماری روایتی دینی تعلیمات اور اسلام کو سمجھنے سمجھانے کی ہماری رسمی اپروچ کا حصہ ہی نہیں رہے ہیں۔ مجھے نہیں علم کہ اردو میں اس کتاب کا کوئ ترجمہ ہوا بھی ہے یا نہیں، البتہ جنہیں انگریزی یا عربی سے واقفیت ہو انہیں اسے ضرور پڑھنا چاہئے۔ مغرب میں اسلام کے حوالے سے خاص بات یہ رہی ہے کہ اسے اپنانے والے بیشتر اعلیٰ درجے کے محقق و سائنٹسٹ یا اپنے سابقہ مذاھب کے پیشوا رہے ہیں۔ ڈاکٹر جیرالڈ بھی کچھ ایسے ہی تھے، ان کے قامت کا اندازہ آپ مختصراً یوں لگا سکتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔ آپ نے ہارورڈ کالج سے الوہیت Divinity میں بیچلرس کیا۔ دو دو ماسٹرز کئے، ایک ہارورڈ سے Master of Divinity اور دوسرا ڈینور یونیورسٹی سے Masters in Child Clinical Psychology، اور پھر ڈینور یونیورسٹی سے ہی Child Clinical Psychology ہی میں PhD بھی کیا۔ چونکہ آپ کا بیچلرس اور ماسٹرس ڈیوائنٹی / الوہیت کے موضوع پر تھا اسلئے دوران تعلیم ہی آپ کو بطور “عیسائ داعی” لائسنس بھی مل گیا تھا، اور عیسائیت کی ترویج کرتے کرتے کچھ ہی سالوں میں آپ کو یونائیٹیڈ میتھوڈست چرچ میں “منسٹری” کا عہدہ بھی حاصل ہوگیا جسے آپ چرچ کے سرپرست اعلی کے طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ ۱۹۹۳ میں آپ مشرف بہ اسلام ہوئے اور پھر جامعہ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ ریاض سے ۱۹۹۸ میں اسلامک اسٹڈیز میں سرٹیفکیٹ کورس بھی مکمل کیا۔ اسلام لانے کے بعد دو دہائیوں سے زیادہ تک آپ نے امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اسلام اور تقابل ادیان پر سیکڑوں لیکچرز دیا۔ ۔۔۔۔۔۔ ۲۰۱۹ میں آپ کا انتقال ہوگیا۔۔۔ رحمه الله و أسكنه الجنة! ظاہر سی بات ہے کہ جب آپ کتاب پڑھیں گے تو آپ کو انکی مکمل جرنی تفصیل سے معلوم ہوگی، البتہ انہیں کی زبانی کچھ دلچسپ باتیں اختصار کے ساتھ میں یہاں لکھ رہا ہوں👇 بچپن میں میرے آبائ گھر سے بس چند قدموں کے فاصلے پر لکڑی سے بنا ایک پرانا میتھوڈسٹ چرچ تھا، جسمیں ایک بڑی سی گھنٹی، پریئر ہال اور سنڈے میں بائبل پڑھنے کے لئے دو کلاس رومس بھی ہوتے تھے۔ میں سنڈے صبح گھنٹی بجتے ہی اپنی پوری فیملی کے ساتھ وہاں پہونچ جاتا تھا۔ وہاں ہم عبادت کرتے، بائبل سیکھتے اور دوسروں کے لئے کھانے پینے کا بھی انتظام کرتے تھے۔ جن دنوں میں ہائ اسکول پہونچا ہمارا یہ قریبی چرچ بند ہوگیا اور پھر ہر سنڈے ہم پاس کے قصبے والے چرچ میں جانے لگے، جہاں دھیرے دھیرے میں خود لوگوں کو تبلیغ بھی کرنے لگا۔ رفتہ رفتہ آس پاس کے چرچوں میں بھی میں نے دعوت دینا شروع کیا اور پوری کمیونٹی بالخصوص نوجوانوں کے درمیان میں ایک جانا پہچانا مذھبی نام بن گیا۔ سترہ سال کی عمر میں جب میں نے ہارورڈ کالج جوائن کیا تب تک میرا ھدف بالکل واضح ہوچکا تھا کہ مجھے دینیات ہی میں پڑھ کر چرچ داعیہ بننا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ میں نے Divinity / الوہیت کا موضوع اپنے بیچلرس کے لئے منتخب کیا۔ کالج کے ساتھ ہی پہلے ہی سال میں نے دو سیمسٹرز پر مشتمل تقابل ادیان کا ایک اضافی کورس بھی جوائن کرلیا جسے تقابل ادیان کے ماہر پروفیسر اسمتھ پڑھاتے تھے اور جن کا اختصاص عیسائیت اور اسلام کا تقابل تھا۔ میری دلچسپی اسلام میں بہت ہی کم اور ھندو و بدھ ازم میں کچھ زیادہ تھی، وہ اسلئے کہ اسلام کے مقابلے یہ دونوں میرے لئے زیادہ نئے تھے اور مجھے کچھ نیا سیکھنا تھا، اور اسلام کے حوالے سے تو مجھے پہلے سے ہی پتہ تھا کہ یہ عیسائیت سے ہی ملتا جلتا مذھب ہے۔ گرچہ میری دلچسپی اسلام پر بہت کم تھی، پر سمیسٹر امتحان کے لئے مجھے “قرآن میں وحی کا تصور” پر ڈیزرٹیشن لکھنا تھا۔ اب چونکہ پاس ہونے کے لئے دئے گئے موضوع پر لکھنا ضروری تھا اسلئے میں نے کچھ آدھا درجن کتابیں اسلام پر جمع کیں جو غیرمسلموں کی لکھی ہوئ تھیں، ساتھ ہی قرآن کے دو مختلف تراجم بھی لے آیا۔ کالج میں اس سیمیسٹر عیسائ دینیات میں میں نے اتنا اچھا مظاہرہ کیا کہ ہارورڈ کالج نے مجھے Hollis Scholar کا خطاب بھی دیا، اسی سال میں نے یونائیٹیڈ چرچ میں باقاعدہ داعیہ کی حیثیت سے کام بھی شروع کردیا اور میری کارکردگی کے چلتے اگلے ہی سال مجھے دعوت کا باقاعدہ لائسنس بھی دے دیا گیا۔ کچھ ہی وقتوں میں میری دعوتی سرگرمیوں کے چلتے چرچ سے مجھے اسکالرشپ بھی ملنی شروع ہوگئ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب میری پوزیشن داعیہ سے اوپر چرچ “منسٹر” کی ہوچکی تھی، میں اپنی ذمہ داریاں بخوبی انجام دے رہا تھا، میرے سیشن میں بڑی بھیڑ بھی جمع ہوتی تھی۔ ظاہراً سب کچھ تھا پر میں اندر سے اب کچھ پریشان ہونے لگا تھا، چونکہ مذھب کے حوالے سے میرا مطالعہ وسیع تھا اس لئے کچھ شبہات تھے جو مجھے کھائے جارہے تھے۔۔۔۔ مثلاً چرچ کی تاریخ کب سے ہے، بائبل کا اوریجنل قدیم ٹیکسٹ موجودہ مروجہ بائبل سے مختلف کیوں ہے، تثلیث کا موجودہ تصور چرچ کی قدیم تاریخ اور قدیم بائبل سے تطبیق کیوں نہیں رکھتا ہے جس نے تثلیث کا تصور کبھی دیا ہی نہیں تھا۔۔۔۔؟۔ وغیرہ وغیرہ!۔۔۔۔۔ میرے اندر جاری ان تمام خانہ جنگیوں کے باوجود ابھی بھی میں خود کو عیسائ ہی کہتا تھا کہ ایسا کہنا میری ذاتی شناخت اور مجھ سے وابستہ مذھبی ذمہ داریوں کے لئے ضروری بھی تھا۔ اور ایسا بھی نہیں تھا کہ ان اشکالات کے چلتے میری مذھبیت میں کچھ کمی آگئ تھی، میں چرچ جاکر پابندی سے عبادت کرتا تھا، اپنی روزمرہ زندگی انہیں اصولوں پر گزارتا تھا جو میں نے چرچ کے سنڈے اجتماعات سے سیکھے تھے۔ البتہ اب میری سوچ بدل رہی تھی، میں اندر سے انسانوں کے بنائے ہوئے عقائد سے دھیرے دھیرے دور ہورہا تھا۔ ساتھ ہی امریکہ میں بڑھتی بے دینی، جرائم، طلاق کا تناسب، چرچ میں چائلڈ ابیوز، مالی خرد برد جیسی چیزیں بھی مجھے پریشان کرتی رہتی تھیں۔ میں اپنے اندر و باہر کے اختلاف سے جوجھ ہی رہا تھا کہ زندگی کے اس مرحلے میں میرا سابقہ کچھ مسلمانوں سے ہونا شروع ہوا۔ دراصل میں اور میری بیوی عربی نسل کے گھوڑوں کی تاریخ پر کافی دنوں سے کچھ تحقیقی کام کر رہے تھے۔ اس دوران عربی مسودات کے تراجم کی فراہمی کے حوالے سے ۱۹۹۱ میں ہمارا پہلا تعارف “جمال” سے ہوا جو ایک عرب نزاد امریکی تھے۔ ٹیلیفون پر بنیادی گفتگو کے بعد ایک دن جمال ہمارے گھر آئے، ہماری ریسرچ سے متعلق عربی سے انگریزی میں کچھ تراجم کئے اور مشرق وسطیٰ میں عربی گھوڑوں کی تاریخ کے حوالے سے بھی کچھ باتیں کیں۔ دوپہر میں ہمارے گھر سے جانے سے قبل جمال نے ہم سے درخواست کی کہ کیا وضوء کے لئے وہ ہمارا واش روم استعمال کرسکتے ہیں اور کیا مصلی کے طور پر انہیں کچھ کاغذ یا اخبار مل سکتے ہیں۔ ہم نے دے دیا پر بعد میں ہمیں احساس ہوا کہ پیپر کے بجائے ہمیں مصلے کے لئے کوئ بہتر چیز دینی چاہئے تھی۔ جمال نے نماز ادا کی اور چلے گئے۔ دعوت کا کتنا موثر و پیارا انداز تھا کہ انہوں نے نہ ہم سے کچھ پوچھا اور نہ ہی اسلام کے بارے میں ہمیں کوئ تبلیغ کی، پر جو کیا وہ ہر ممکنہ دعوت پر بھاری تھا۔ اگلے تقریباً سولہ مہینے جمال سے ہماری ملاقاتیں بڑھتی گئیں، پہلے ہم دو ہفتے میں ایک بار ملتے تھے اور اب ہفتے ہفتے ملنے لگے۔ ان ملاقاتوں میں کبھی بھی جمال نے نہ تو مجھے اسلام کی دعوت دی اور نہ ہی مجھ سے کبھی میرے مذھب و عقیدے کے حوالے سے کوئ سوال کیا۔ کچھ نہ کہنے کے باوجود میں انجانے طور پر بہت کچھ دیکھتا اور سیکھتا گیا۔۔۔۔۔ جمال کا وقت پر عبادت کرنا، ان کی پرسنل و پروفیشنل زندگی کی اخلاقیات، ان کا اپنے دونوں بچوں کی پرورش کا مثبت طریقہ وغیرہ۔ جمال ہی نہیں، جمال کی بیوی کا بھی اسلوب میری بیوی کے ساتھ بالکل انہیں جیسا ہی پرکشش تھا۔ ۔۔۔۔۔ عربی گھوڑوں کی تاریخ پر گفتگو کے دوران جمال نے عربوں اور اسلام کی کہانیاں، محمد (صل اللہ علیہ وسلم) کے اقوال اور قرآنی آیات کے معانی کا بھی گاہے بگاہے تذکرہ کرنا شروع کردیا، پر اتنا ہی جتنا کہ ہماری بنیادی گفتگو سے کسی نہ کسی حوالے سے جڑے ہوئے ہوں۔ دھیرے دھیرے ایسا ہوگیا کہ اب ہر ملاقات میں تقریباً تیس منٹ کی گفتگو اسلام پر ہونے لگی، لیکن جمال اتنی ذہانت کے ساتھ اسلامیات کو بات چیت کا حصہ بناتے تھے کہ اس کا کوئ نہ کوئ رابطہ ہمارے اساسی موضوع “عربی گھوڑوں کی تاریخ” سے جڑا ہی ہوتا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔ جمال کی ایک اور بیحد خوبصورت بات تھی کہ انہوں نے عقائد کے حوالے سے دوران گفتگو کبھی ایسا نہیں کہا کہ “یہی حقیقت ہے” بلکہ ہمیشہ یوں کہا کہ “اسلام میں ایسا ہے”، یعنی اشارتاً بھی کبھی میرے عقائد کی یک لخت نفی کرکے مجھے ٹھیس نہیں پہونچائ۔ ۔۔۔۔۔چونکہ جمال نے میرے عقائد پر کوئ سوالیہ نشان لگایا ہی نہیں اس لئے کبھی مجھے بھی خود کو ڈیفینڈ کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئ۔ جب جمال سے ہمارا ٹھیک ٹھاک تعلق بن گیا تو اب انہوں نے کچھ اور عرب نزاد امریکی مسلم فیملیز سے ہمیں متعارف کروایا جنمیں وائل، خالد اور کچھ اور نام بھی تھے۔ میں نے یہاں بھی مشاہدہ کیا کہ اخلاقیات کے معاملے میں عملاً یہ لوگ بھی اپنے آس پاس کی امریکی فیملیز سے بہت اعلیٰ درجے کے تھے۔ دسمبر ۱۹۹۲ کی بات ہے کہ اب میں نے خود سے سوالات کرنا شروع کردیا۔۔۔۔ میں کہاں ہوں اور کر کیا رہا ہوں؟۔ ۔۔۔۔ ان سوالات کے پیچھے کے محرکات تھے ۔۔۔۔ میرا گزشتہ سولہ مہینوں میں عرب مسلمانوں سے بڑھتا رشتہ جو اب میری پوری سوشل لائف کا پچہتر فیصدی تک ہوچکا تھا، انکی اعلیٰ اخلاقیات، بائبل کے تحریف شدہ ہونے پر میرا یقین، تثلیث یا عیسی علیہ السلام کی الوہیت پر میرا عدم ایمان (سچ تو یہ ہے کہ غیر ارادی طور پر میں عیسائ ہوتے ہوئے بھی توحید کے ہی عقیدے پر تھا)، اور ساتھ ہی امریکی معاشرے کے بڑھتے جرائم اور اخلاقی گراوٹیں وغیرہ۔ ۔۔۔۔ نوبت تو یہاں تک آچکی تھی کہ میں خود سے یہ بھی پوچھنے لگا کہ آخر وہ کون سی بنیادی چیز ہے جو مجھے میرے مسلم دوستوں سے جدا بناتی ہے؟۔ ۔۔۔۔ پل بھر کو خیال آیا کہ کیوں نہ میں جمال اور خالد سے بات کروں، پھر میں یہ سوچ کر پیچھے ہٹ گیا کہ میں نے تو آج تک کبھی ان سے اپنے مذھب پر کچھ کہا ہی نہیں تو اب کیوں ایسا کچھ شروع کروں۔ ۔۔۔۔۔ جب کچھ نہ سوجھا تو میں نے الماری سے وہ تمام کتابیں نکالیں جو گریجویشن کے وقت “قرآن میں وحی کا تصور” پر ڈزرٹیشن لکھنے کے لئے میں نے جمع کی تھیں، اور پھر دسمبر کے اختتام سے قبل آدھے درجن سے زیادہ کتابیں، قرآن کی دو مختلف تفاسیر کے تراجم اور سیرت کی ایک کتاب میں نے دوبارہ پڑھ ڈالی۔۔۔۔۔ اور روز مرہ کی ملاقاتوں میں میں نے خالد، جمال اور باقی مسلم دوستوں سے اس باب میں کچھ بتایا تک نہیں۔ مسلم دوستوں سے بھلے ہی میں نے کچھ نہ بتایا پر اپنی بیوی سے ہر روز تفصیلی تبادلۂ خیال کرتا رہتا تھا۔ دسمبر ۱۹۹۲ کے آخری ہفتے تک میں کم از کم اس نتیجے پر تو پہونچ چکا تھا کہ میرے اپنے عقیدے اور اسلامی اصولوں میں قدرے یکسانیت ہے۔ مجھے اس بات کی بھی تصدیق ہوچکی تھی کہ محمد (صل اللہ علیہ وسلم) پیغمبر ہیں، اور صرف ایک اللہ ہی واحد خدا ہے۔۔۔۔۔۔ پر اب بھی کوئ فیصلہ لینے میں میرے اندر ہچکچاہٹ موجود تھی۔ میرے سامنے میری موجودہ شناخت حائل تھی، میں عیسائ تھا، اعلیٰ تعلیم یافتہ، پریکٹسنگ چائیلڈ سائکولوجسٹ، مشہور داعیہ اور چرچ منسٹر تھا۔۔۔۔ شناخت باقی رکھنے کی لالچ میں میں نے سوچا کہ کیوں نہ میں ایک ایسا عیسائ ہی رہوں جس کے عقائد مسلمانوں جیسے ہی ہوں۔ دسمبر ۱۹۹۲ کا بالکل آخری ہفتہ تھا۔ ہمیں اپنے تحقیق کا کے حوالے سے مشرق وسطیٰ کے سفر کے لئے امریکی پاسپورٹ درکار تھا۔ فارم بھرتے وقت “مذھب” والے خانے میں بنا کچھ سوچے میں نے “Christian” لکھ دیا۔ میری بیوی نے صرف اتنا سوال کیا کہ “آپ نے مذھب کی جگہ کیا بھرا ہے؟”۔ میں نے زور سے ہنس کر جواب دیا “کرسچین”، اور پھر دوڑ کر بیوی کو صفائ دینے پہونچ گیا کہ “آخر میں کرسچین ہی تو ہوں، مسلمان تو نہیں ہوا نا”۔ ۔۔۔۔۔ میرے ردعمل پر بیوی نے نرمی سے کہا کہ “میرے پوچھنے کا مطلب یہ نہیں بلکہ بس اتنا تھا کہ کیا لکھنا ہے Christian یا Protestant یا پھر Methodist ؟”تاکہ میں بھی اپنے فارم میں وہی لکھوں۔ ۔۔۔۔۔۔ مجھے سمجھ آگیا تھا کہ غیر پوچھے گئے سوال پر بھی آدمی صفائ تب ہی دیتا ہے جب چور کی داڑھی میں تنکا آگیا ہو۔ ۔۔۔۔ میرا چور بھی پکڑا گیا تھا، پھر بھی میں اپنی ۴۳ سال پرانی شناخت اتنی آسانی سے چھوڑنے پر آمادہ نہ تھا۔ جنوری ۱۹۹۳ کا آخری ہفتہ، میری بیوی کے سوال کو ایک ماہ گزر چکا تھا۔ کتابیں اور دو قران تراجم پڑھ کر میں نے دوبارہ الماری میں رکھ دیا تھا۔ اب میرے زیر مطالعہ قرآن ترجمہ و تفسیر کا ایک تیسرا نسخہ تھا۔ ۔۔۔۔ ایک عرب ہوٹل جہاں میں اکثر جاتا رہتا تھا، ایک دن اپنی چائلڈ سائکولوجی پریکٹس کے لنچ ہاور میں کھانا کھانے گیا۔ ایک چھوٹی سی ٹیبل دیکھ کر بیٹھا اور زیر مطالعہ قرآن ترجمہ کو وہیں سے پڑھنا شروع کیا جہاں نشان رکھ چھوڑا تھا۔ تھوڑی دیر میں محمود (ہوٹل کا مالک) آیا، مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا، اور بنا کوئ کمنٹ کئے میرا آرڈر لیکر چلا گیا۔ کچھ وقت بعد ایمان (محمود کی بیوی) میرا آرڈر لیکر آئ، کھانا ٹیبل پر رکھتے ہوئے نرمی سے پوچھا “آپ قرآن پڑھ رہے ہیں، مسلم ہیں کیا؟” ۔۔۔۔۔۔ میں نے کچھ غیر اخلاقی جھنجھلاہٹ بھرے انداز میں جواب دیا “No / نہیں”۔ ایمان کھانا رکھ کر بنا کچھ بولے چلی گئ۔ میں نے قرآن سائیڈ میں رکھا اور شرمندگی بھری سوچ میں پڑگیا کہ یہ ہو کیا رہا ہے میرے ساتھ، میں ایسا تو نہ تھا، میری پرورش ایسی تو نہیں تھی، میں تو اپنی آفس کے کلرک اور کیشیئر تک کو سر اور میم ہی کہہ کر بلاتا ہوں، ایمان نے کوئ ایسا سوال تو کیا ہی نہ تھا جس پر میرا ایسا غیر اخلاقی ردعمل جائز ٹھہرتا۔ ۔۔۔۔۔۔ پھر جب ایمان کھانے کا بل لیکر آئ تو الفاظ سے کھیلتے ہوئے میں نے کہا “شاید میرا آپ کو جواب دینے کا انداز کچھ غیر مناسب تھا، اگر تمہارا سوال گاڈ کے ایک ہونے سے متعلق تھا تو میرا جواب ہاں ہے، اگر تمہارا سوال محمد (صل اللہ علیہ وسلم) کے نبی ہونے پر تھا تو بھی میرا جواب ہاں ہے”۔۔۔۔۔ ایمان نے بڑی نرمی سے کہا ۔۔۔۔۔ “سر، کوئ بات نہیں، بعض لوگوں کو کچھ زیادہ وقت لگ جاتا ہے”۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ سچ تو یہ ہے کہ ایمان کے سامنے میں ایک طرح سے شہادہ قبول بھی کرچکا تھا، پر میں خود کے اندر اور باہر میں ابھی بھی انٹلیکچؤل ورڈ پلے کھیل کر خود کو بے وقوف بنا رہا تھا کہ بھلا میں مسلمان کب ہوا، میں ایک اللہ اور محمد کی نبوت کا اعتراف کرتا ہوں پر میں نے یہ تو نہیں کہا کہ میں مسلمان ہوں، میں تو ابھی بھی عیسائ اور چرچ منسٹر ہی ہوں۔ مارچ ۱۹۹۳، رمضان کا وقت ۔۔۔۔۔ پانچ ہفتوں کی چھٹی پر میں اپنی بیوی کے ہمراہ مڈل ایسٹ آگیا۔ چونکہ یہاں بھی ہم اپنے عرب امریکی دوستوں ہی سے منسلک میزبانوں کے ساتھ تھے اسلئے ہم میاں بیوی نے طے کیا کہ انکا ساتھ دینے کو ہم بھی روزہ رکھیں گے۔ ہمیں لگا کہ کوئ حرج نہیں اسلئے ہم ساتھ دینے کو پنج وقتہ نماز بھی انہیں کے ساتھ پڑھنے لگے۔ سچ کہوں تو میں ایسی پیچیدہ حالت میں پہونچ چکا تھا کہ کوئ میرا عقیدہ پوچھے تو شاید بنا سانس لئے میں پانچ منٹ کی تقریر کرسکتا تھا کہ ۔۔۔۔”میں عیسائ پیدا ہوا، میں نے عیسائیت کی تعلیم حاصل کی، داعی اور چرچ منسٹر ہوں، بچوں کا اچھا پریکٹسنگ سائکولوجسٹ ہوں، مجھے پتہ ہے کہ مروجہ بائبل تحریف شدہ ہے، میرا عیسی علیہ السلام کی الوہیت اور تثلیث پر بالکل ایمان نہیں، میرے نزدیک صرف ایک گاڈ ہے، محمد (صل اللہ علیہ وسلم) اسکے نبیوں میں سے ایک ہیں”۔۔۔۔۔۔ پر پانچ منٹ بعد بھی سوال سوال ہی باقی رہے گا کہ میں عیسائ ہوں یا مسلمان؟۔ مشرق وسطیٰ کی زیارت کے ہمارے آخری ایام تھے۔ میں ایک دن اپنے ایک عمر دراز میزبان جنہیں انگریزی بالکل نہیں آتی تھی کے ساتھ اردن کے کسی دیہی علاقے کی ایک چھوٹی سی سڑک پر چہل قدمی کر رہا تھا۔ دوسری سمت سے ایک ضعیف شخص نے “سلام علیکم” کہہ کر ہم سے ہاتھ ملایا۔ ہم تین تھے، ان دونوں کو انگریزی نہیں آتی تھی اور مجھے عربی۔ ضعیف نے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔۔ “مسلم؟”۔ ۔۔۔۔۔۔۔ اس کے سوال پر میں مکمل پھنس سا گیا تھا، میرا کوئ ورڈ پلے یا خود کو جھوٹی تسلی دینے والا مونولوگ اب کام ہی نہیں کر رہا تھا، میں چاہتا بھی تو کیا ڈائیلاگ بازی کرتا، ان دونوں کو انگریزی آتی نہیں تھی اور میں عربی میں ڈائیلاگ بازی کر نہیں سکتا تھا، ہم تین کے علاوہ وہاں کوئ چوتھا بھی نہ تھا جو میرے لئے مترجم کا کام کردیتا، ایسا بھی نہیں تھا کہ سوال مجھے سمجھ ہی نہ آیا ہو، میرے پاس یہ کہنے کی بھی گنجائش نہ تھی کہ سوچ کر بعد میں بتاتا ہوں، مجھے فوری جواب دینا تھا اور سوال جس قدر سمپل تھا اس کے بموجب جواب کے لئے میرے پاس “نعم Yes” یا “لا No” کے علاوہ کوئ تیسرا آپشن بھی نہیں تھا۔۔۔۔۔۔ اس بار انٹلیکچؤل ورڈ پلے کو طاق پر رکھ کر میں نے خود سے سچ بولنے کی ہمت جٹائ، من میں اللہ کا شکر ادا کیا اور عربی میں ایک لفظ جس کا مفہوم مجھے پتہ تھا، کہہ ہی دیا ۔۔۔۔۔ "نعم"۔ صرف اس ایک "نعم" نے میرے تما انٹلیکچول ورڈ گیمز کو پیچھے ڈال دیا، سالوں سے میرے اندر چل رہی میری نفسیاتی شناخت کی جنگ کو مات دے دی۔۔۔۔ الحمد للہ، میں اب اندر باہر دونوں سے مسلمان ہوچکا تھا۔۔۔۔۔۔ ۳۳ سالوں سے میرے ساتھ رہ رہی میری بیوی نے بھی بتاتے ہی فوراً اسلام قبول کرلیا۔ امریکہ واپسی پر معاشرتی اور کاروباری ہر سطح پر مسائل کا سامنا کرنا پڑا، پر الحمد للہ وہ تمام مسائل ہماری نئ زندگی کے سامنے بہت چھوٹے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر ابو یحییٰ (جیرالڈ ایف ڈیرکس) / ۲۰۰۲ میلادی ┄┅════❁❁════┅┄۔ *📚 اردو نصیــــــــحتیں🌹* ┄┅════❁❁════┅┄۔ *ٹیـــلی گــــرام لنــــــــك:* t.me/UrduNaseehaten *فيــــس بـــك پیـــج لنـــك:* https://www.facebook.com/UrduNaseehaten/ واٹسپ چینل: https://whatsapp.com/channel/0029VaAyKKF3rZZZt01lW90b
❤️ 👍 9

Comments