Urdu Ai
Urdu Ai
January 28, 2025 at 04:37 AM
اُردو اے آئی کے دوستو! پچھلے کُچھ گھنٹوں میں مصنوعی ذہانت (AI) کی دنیا میں زبردست مقابلہ اور حیران کن تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ چین کی کمپنی ڈیپ سیک (DeepSeek) نے اپنے جدید ماڈلز کے ذریعے نہ صرف ٹیکنالوجی کے میدان میں ہلچل مچا دی ہے بلکہ عالمی سیاست اور معیشت پر بھی اثر ڈال رہی ہے۔ ڈیپ سیک نے حال ہی میں اپنا R1 ماڈل متعارف کروایا ہے، جو معیار کے لحاظ سے اوپن اے آئی کے چیٹ جی پی ٹی کے قریب ہے لیکن اس کی لاگت حیران کن طور پر کم ہے۔ صرف $6 ملین میں تیار ہونے والا یہ ماڈل امریکی ماڈلز کے مقابلے میں 93 فیصد کم لاگت پر چلتا ہے۔ اسے عام ورک سٹیشن پر بھی چلایا جا سکتا ہے، جس نے ٹیکنالوجی کی دنیا میں نئی امیدیں پیدا کی ہیں۔ یہی نہیں، ڈیپ سیک نے جلد ہی ایک اور ماڈل Janus-Pro-7B لانچ کیا ہے، جو ایک ملٹی موڈل ماڈل ہے، یعنی یہ متن کے ساتھ تصاویر بھی بنا سکتا ہے۔ یہ ماڈل معیار میں DALL-E 3 اور Stable Diffusion جیسے ماڈلز کو پیچھے چھوڑ چکا ہے اور مختلف بینچ مارک ٹیسٹ میں اپنی برتری ثابت کر چکا ہے۔ اوپن اے آئی کے چیئرمین سام آلٹمین نے ڈیپ سیک کے ماڈلز پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعی ایک متاثر کن ماڈل ہے، خاص طور پر اس کی کم قیمت کے لحاظ سے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک نئے مقابلے کا آنا حوصلہ افزا ہے، اور اوپن اے آئی جلد نئے اور بہتر ماڈلز لانچ کرے گا۔ سام آلٹمین کا ماننا ہے کہ ڈیپ سیک جیسے ماڈلز کی کامیابی مصنوعی ذہانت کی دنیا میں جدت کو فروغ دے سکتی ہے، لیکن یہ اوپن اے آئی کے لیے ایک بڑا چیلنج بھی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈیپ سیک کے ماڈل کو “امریکی کمپنیوں کے لیے ایک ویک اپ کال” قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک مثبت بات ہے کہ مصنوعی ذہانت کے لیے تیز تر اور کم لاگت والے طریقے تیار کیے جا رہے ہیں، لیکن امریکی کمپنیوں کو اس دوڑ میں پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت ہے کہ امریکہ تحقیق اور ترقی میں مزید سرمایہ کاری کرے تاکہ عالمی مقابلے میں اپنی برتری برقرار رکھ سکے۔ ڈیپ سیک کی کامیابیاں نہ صرف مصنوعی ذہانت کے میدان میں بلکہ عالمی سیاست میں بھی اہم اثرات ڈال رہی ہیں۔ اس نے یہ ثابت کیا ہے کہ محدود وسائل کے باوجود اعلیٰ معیار کے ماڈلز تیار کیے جا سکتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کی یہ دوڑ یہ ظاہر کرتی ہے کہ اب صرف بڑی سرمایہ کاری کافی نہیں، بلکہ ذہانت اور حکمت عملی کی بھی ضرورت ہے۔ ڈیپ سیک کے ماڈلز نے دنیا بھر میں نئے امکانات پیدا کیے ہیں اور یہ ظاہر کیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کو مزید سستا، قابل رسائی، اور مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اوپن اے آئی اور دیگر مغربی کمپنیاں ان چیلنجز کا کس طرح سامنا کرتی ہیں اور مصنوعی ذہانت کی دنیا کس سمت آگے بڑھتی ہے۔ یہ مقابلہ نہ صرف ٹیکنالوجی کے میدان میں جدت لا رہا ہے بلکہ اس کے اثرات عام لوگوں کی زندگیوں پر بھی پڑ رہے ہیں، جہاں مصنوعی ذہانت تیزی سے روزمرہ کے کاموں کا حصہ بنتی جا رہی ہے۔ مزید جاننے کے لیے UrduAi کو فالو کریں۔ www.facebook.com/urduaiorg
👍 ❤️ 17

Comments