꧁✰٘عُلَمـٰـاءٕهِــنْـد✰꧂
꧁✰٘عُلَمـٰـاءٕهِــنْـد✰꧂
February 11, 2025 at 04:14 AM
*کتاب:واقعات صدیق ص۱۲۷* *حضرت مولانا قاری سید صدیق احمد صاحب باندوی رحمۃ اللہ علیہ کے سبق آموز سچے واقعات کا گلدستہ* *حضرت کا توکل اور تنخواہ کی بابت اکابر سے مشورہ* استاذی حضرت مفتی عبیداللہ صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت نے جب مدرسہ شروع کیا اور کام آگے بڑھا، مدرسہ کی کچھ آمدنی شروع ہوئی اورمدرسین کو تنخواہ دی جانے لگی ۔ حضرت کے اپنے ذاتی و گھریلو حالات وضروریات سب سامنے تھے، معمولی سی زمین کے علاوہ کوئی ذریعہ نہ تھا تو محبین واہل تعلق نے ضرور کچھ کہنا شروع کیا ہوگا۔ جیسے حضرت کے صاحبزادگان کے حق میں کہتے رہے کہ کچھ تو دینا چاہئے، تو حضرت کے لئے بھی کہا ہوگا کہ کچھ تو لیجئے، لیناچاہئے، حالات یہ ہیں ، کیسے کام چلے گا؟ اور حضرت سے زیادہ اپنے حالات سے کون واقف ہوگا کہ معمولی سی زمین کے علاوہ کوئی ذریعہ نہیں تھا، ہوسکتا ہے کہ حضرت کے دل میں بھی کچھ خیال آیا ہو، لیکن حضرت کا دل اس پر مطمئن و منشرح نہ تھا۔ آخر قریب کے دوبزرگوں ، اورمدرسہ کے سرپرستوں کے سامنے بغرض مشورہ یہ بات رکھی، ان بزرگوں سے بار بار کا ملنا تھا اور حضرت کے بال بال کی خبر تھی، اور اس ناکارہ نے جو روئداد سنی، اندازہ یہ ہے کہ حضرت نے بات یہ رکھی کہ میرے حالات کا یہ تقاضہ ہے، لوگوں کا یہ کہنا ہے مگر میرا دل اس پر آمادہ نہیں ۔ تو ایک بزرگ(مولانا منظور صاحب نعمانی) نے کہا تو تنخواہ لینا ناجائز تو نہیں اورپھر آپ کے حالات، تنخواہ لیجئے اور ضرور لیجئے، مگر دوسرے بزرگ (مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی )نے کہا؟ جب ان کا حوصلہ ہے تو ان کو عزیمت پر عمل کرنے دیجئے اورتنخواہ لینے پر مجبور نہ کیجئے۔ یہ تو دوسروں سے سنی بات ہے ، خود حضرت سے سنا کہ مدرسہ کا کام شروع کرنے پر حضرت ناظم صاحب (مولانا اسعداللہ صاحب)اور شیخ الحدیث صاحب (سہارنپور) دونوں سے مشورہ کیا کرتا تھا، چنانچہ یہ مسئلہ ان کے سامنے رکھا اورعرض کیا کہ دل بلامعاوضہ کام کرنے کو چاہتا ہے، تو شیخ نے فرمایا مولوی صدیق ! ہے توبڑی بات لیکن سمجھ میں یہی آتا ہے کہ تم اللہ کا نام لے کر اسی طرح کام کرو۔ اسی کا فیصلہ کرلیا گیا ، حالانکہ یہ فیصلہ بہت بڑا تھا، حضرت کے حالات کے اعتبار سے بھی اوراس اعتبار سے بھی کہ یہ فیصلہ زندگی بھر کا تھا اورعمر کے کس مرحلہ میں ؟ جبکہ حضرت کی عمر تیس سال کے آس پاس تھی، گویا پوری زندگی سامنے تھی اور ایک صاحب اہل وعیال آدمی کی زندگی اور گذر بسر کا معاملہ تھا۔ لیکن یہ ایک بندۂ مومن اورایسے شخص کا عزم تھا جو مقام صدیقیت پر فائز تھا یا فائز ہونے والا تھا۔ اس فیصلے کے پیچھے ایک اور بات تھی خود حضرت نے فرمایا’’ مجھ سے ناظم صاحب(حضرت مولانا اسعداللہ صاحب ؒ) نے فرمایا تھا صدیق مجھ سے تو نہیں ہوسکا ، لیکن تم سے کہتاہوں کہ ہوسکے تو تنخواہ لئے بغیر لوجہ اللہ دین کی خدمت کرنا۔‘‘ تو مرشد ومربی کی یہ خواہش و ہدایت بھی حضرت کے پیش نظر تھی اوریہ فیصلہ جو اپنایا تو اس شان سے کہ پوری زندگی ۔ تادم آخر اس عزم و حوصلہ اور فیصلہ پر گذاردی۔ اور یہ نہیں کہ خود نہیں لیا، جب بیٹے مدرسہ کی خدمت کے لائق ہوئے اور مدرسہ میں لگے تو ان کو بھی کچھ نہیں دیا۔ ایک نہیں تین تین بیٹوں کو بلکہ لینے کے بجائے خود دیا اوردلایا جو ہوا۔ یہ ذکر کیا جاچکا ہے کہ کہیں آنے جانے میں ذاتی کرایہ خود برداشت فرماتے بلکہ رفیق سفر کا بھی اپنے پاس سے دے دیا کرتے تھے۔ اور بیٹوں کو اس کی وصیت و تاکید فرمائی کہ مدرسہ کی خدمت لوجہ اللہ کرنا۔ (تذکرۃ الصدیق ص:۶۵۹)

Comments