
꧁✰٘عُلَمـٰـاءٕهِــنْـد✰꧂
February 13, 2025 at 04:08 AM
*ڈاکٹر کیا نیت کریں؟*
*شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ کی ایک مجلس سے انتخاب*
جتنے حضرات طب کے پیشہ سے وابستہ ہیں، لوگوں کی بیماریوں کا علاج کرنے میں مصروف رہتے ہیں، ان کے لئے حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ایک عظیم بشارت ہے۔
فرمایا:جو شخص کسی بھی مسلمان کی کوئی بے چینی دور کرے، اﷲ تبارک و تعالیٰ اس کی قیامت کی بے چینیوں میں سے کوئی نہ کوئی بے چینی دور کریں گے۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی دوسری احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسانی ہمدردی اور انسانی راحت رسانی کا ثواب صرف اسی صورت میں نہیں ہے جب کوئی شخص کسی مسلمان کی خدمت کررہا ہو بلکہ کسی غیر مسلم کی راحت رسانی اور اس کی کسی بے چینی کو دور کرنا بھی باعث اجروثواب ہے۔ انسانی ہمدردی کے جتنے راستے ہوتے ہیں ان سب پر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بڑا اجروثواب ہے۔
اگر کوئی آدمی یہ پیشہ صرف اس لئے اختیار کرتا ہے کہ پیسے کمائوں گا اور پیسے کمانے کے علاوہ اس کے ذہن میں کوئی اور تصور نہیں ہے۔ اس کے تمام فیصلوں کی بنیاد صرف یہی بات ہے کہ جہاں مجھے زیادہ پیسے ملیں گے، جس طریقے میں مجھے زیادہ دولت حاصل ہوگی، میں وہی طریقہ اختیار کروں گا۔ اس کے ذہن میں انسانی ہمدردی یاکسی انسان کو تکلیف سے بچانے کی کوشش ثانوی (دوسرے) درجہ میں ہے یا سرے سے ہے ہی نہیں، ﷲ تعالیٰ بچائے، تو ٹھیک ہے، بس اس نے ایک پیشہ اختیار کرلیا ہے۔ جائز حدود میں ہو تو یہ کوئی منع نہیں ہے۔ لیکن اس پر کوئی ثواب بھی نہیں ہے۔ جیسے کوئی شخص بازار میں سبزی بیچ کر پیسہ کما رہا ہے تو یہ شخص اپنی طبی خدمات کو بیچ کر پیسہ کمارہا ہے، اس میں اور اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔لیکن اگر آدمی کی اصل نیت یہ ہے کہ میں یہ پیشہ اس لئے اختیار کررہا ہوں کہ اس کے ذریعے میں لوگوں کی بے چینیوں کو دور کرسکوں، لوگوں کو راحت پہنچا سکوں، لوگوں کے ساتھ ہمدردی کرسکوں اور چونکہ میرے ساتھ میری ذاتی ضروریات بھی لگی ہوئی ہیں اس لئے میں اس پر کوئی فیس بھی وصول کرتا ہوں یا کوئی ذاتی منفعت بھی حاصل کرتا ہوں لیکن میرا اصل مقصد انسانیت کی خدمت و ہمدردی ہے، تو یہ سارا پیشہ اور اس کا ایک ایک لمحہ بہت بڑی عبادت بن جاتا ہے۔ بات صرف نیتوں کے فرق کی ہے۔ لیکن نیت کی درستگی انسان کے طرزِ عمل سے ظاہر ہوتی ہے۔ آدمی یہ کہہ دے کہ میری نیت فلاں قسم کی ہے لیکن اس نیت کا صحیح ٹیسٹ اور صحیح مظاہرہ انسان کے عمل سے ہوتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آج کل صورتحال ایسی ہے کہ جہاں بھی چلے جائیں مریضوں کی قطار لگی ہوتی ہے ۔ ایسے میں انسان میں جھنجھلاہٹ پیدا ہوجاتی ہے اور انسان کو غصہ بھی آجاتا ہے۔ لیکن اس جھنجھلاہٹ اور غصہ کو کوئی چیز روک سکتی ہے تو وہ صرف صحیح نیت ہے۔ اگر میں خدمت کی نیت سے یہ کام کررہا ہوں تو میرا فرض ہے کہ میں مریضوں سے معاملہ اخلاق کے ساتھ کروں، دیانتداری سے کروں اور ان کے ساتھ نرمی کا برتائو کروں۔ جب تک یہ بات پیدا نہیں ہوجاتی، خدمت عبادت نہیں بن سکتی۔ایسی صورتحال میں غیر متعلقہ باتوں پر صبر کرنے کی بڑی فضیلت ہے۔
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص تنہائی میں بیٹھا ہے، ذکر کررہا ہے، نوافل پڑھ رہا ہے، تلاوت کررہا ہے، اس سے ہزار درجہ بہتر وہ شخص ہے جو لوگوں کے ساتھ معاملات کررہا ہے اور ان سے پہنچنے والی تکالیف پر صبر کررہا ہے۔ (جامع الترمذی)
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
👍
1