Samiullah Khan Official
February 4, 2025 at 05:18 AM
*#ملّی_تجربات : #ایک_واقعہ !*
*ہمارے اسلاف دعوتیں کیوں نہیں قبول کرتے تھے ؟ اپنے ایک تجربے کی روشنی میں:*
✍️: سمیع اللہ خان
یہ بات بارہا پڑھی تھی کہ ہمارے اسلاف, عظیم علمی، فکری اور روحانی ہستیوں میں ایک نمایاں وصف یہ ہوتا تھا کہ وہ اہلِ مال کی دعوتیں قبول نہیں کرتے تھے اور امراء و اہلِ مال کی دعوتوں سے بہت پرہیز کرتے تھے، یہ پرہیز کس وبا سے بچنے کے لیے تھا؟ وہ ایسا کیوں کرتے تھے؟ مجھے اس کا تجرباتی علم تین سال پہلے ہوا جسے آج لکھ رہا ہوں ۔
ایک ریاست کی ایک بہت ہی معروف شخصیت جوکہ ایک عدد ملّی تنظیم کے اہم عہدیدار بھی ہیں اور کاروباری لحاظ سے دنیادار بھی، مجھے ایک عرصے سے اپنے یہاں مدعو کررہے تھے لیکن میں جا نہیں پارہا تھا، ایک تو دیگر مصروفیات مانع تھیں دوسرے طبیعت پتا نہیں کیوں آمادہ نہیں تھی، آخرکار ایک موقع ایسا آیا کہ مجھے ان کے شہر جانا پڑا، ملاقات ہوئی، استقبال کیا، ایسا پرتپاک استقبال کہ قدم قدم پر گویا کہ پھول بچھائے، اپنے کاموں کا گھنٹوں تعارف کراتے رہے، یہاں تک کہ فقیر و فقرا کو جو کھانا کھلاتے ہیں وہ بھی مجھے بتاتے رہے،
انہیں مجھ سے ایک کام تھا، جو میں کرسکتا تھا،
میں نے وہیں بیٹھے بیٹھے بلا تردد کردیا، یہ سوچتے ہوئے کہ وہ ماشاءاللہ بڑے پیمانے پر فلاحی رفاہی اور خدمت خلق کا کام کررہے ہیں۔ میں نے اس ملاقات سے پہلے بھی ان کے حق میں تقویت کا کام کیا تھا ۔
اچھی ضیافت کی انہوں نے اور نکلتے ہوئے ایک تحفہ پیش کرنے لگے، جس کی قیمت مشکل سے 5 سے 10 ہزار ہوگی ۔ یہ میرے مزاج کے سخت خلاف تھا میں نے سختی سے منع کیا تو وہ رونے لگے اور گلے لگ کر رونے لگے کہ آپ ایسا کام کررہے ہیں اور آپ ملت کے ایسے ہیرے ہیں اور امت کا سرمایہ ہیں اور پتا نہیں کیا کیا، اس لمحے میں کمزور پڑ گیا، دنیاوی لحاظ سے اتنے بڑے آدمی کو اس انداز میں دیکھ کر تھوڑا اچھا نہیں لگا اور ان کے جذبات کو محسوس کرتے ہوئے تحفہ رکھ لیا۔
روانگی ہوگئی۔
کم ظرفی کا اظہار:
قریب ڈیڑھ سال بعد ایک معاملے میں میری رائے ان کی رائے سے الگ تھی اور میں اپنی رائے پر بڑی مضبوطی کے ساتھ قائم تھا، جس پر ان کے دست راست نے اپنے یہاں دعوت کھلانے اور تحفہ دینے والی بات ایک واٹس ایپ گروپ میں لکھ دی۔ مجھے ان کے ہی قریبی ایک شخص نے بتادیا کہ یہ کمینہ خصلتی ان کے ہی اشارے پر ہوئی ہے، اس کم ظرفی سے مجھے ٹھیس تو پہنچی لیکن یہ میرے لیے سبق آموز واقعہ بن گیا چونکہ میں طبعی طور پر اپنی عزت نفس اور خودداری کو لےکر حساس ہوں اس لیے کئی دنوں تک میرا دل اس کم ظرفی کی چوٹ سے اُبھر نہیں سکا تھا۔ قریب چار دنوں تک میں کچھ لکھ نہیں سکا نہ کسی پروگرام میں شرکت کرسکا، اپنے گاؤں کی وادیوں میں رہا، غور وفکر اور فطرت کی سرگوشیوں میں رہا، پھر واپس آکر انہیں صرف اتنا جواب دیا کہ ۔ میرا کرایہ آپکے تحفے سے زیادہ تھا اور جو کام آپکا کیا وہ آپکی ایک ہزار دعوتوں سے بھی زیادہ قیمتی تھا۔ لیکن آپ نے مجھے جو سبق دےدیا ہے وہ عمر بھر کی متاع ہے۔
میں اسے کم ظرفی سے اس لیے تعبیر کرتا ہوں کہ کم ظرفی دنیا کی سب سے بدترین خصلت ہے جو کم ظرف ہوگا وہ کسی کا نہیں ہوسکتا ۔ ظرف خاندانی اور تربیتی دولت ہے۔ اس سے محروم انسان کسی کے بھی ساتھ وفادار نہیں ہوسکتا ہے ۔
اب کوئی میرے سامنے ہزار سر پٹخے اور ہزار خلوص کا اعلان کرے تو بھی ایسی غلطی نہیں کرتا ہوں۔
اس عملی تجربے سے مجھے یہ تعلیم ملی کہ ہمارے اسلاف کتنی عظمت اور ایمانی فراست کے حامل تھے، اور وہ اہل مال کی دعوتوں سے کیوں بچتے تھے؟ ملی تنظیموں کے عہدوں پر فائز اہلِ مال تو مزید خطرناک ہیں ۔
ملّی معاملات میں سرگرمی کے سبب ایسے بےشمار تجربات ہوئے ہیں وقتاً فوقتاً یاد آتے ہیں تو پیش کرتا ہوں اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ واقعہ گزر جانے کے کم از کم ایک سال بعد اسے بیان کیا جائے۔
https://www.facebook.com/share/p/15uwQHXBaP/
👍
❤️
😢
😡
😮
61