Samiullah Khan Official
February 12, 2025 at 05:58 AM
*ایک ادیب کی گستاخی !*
*فلسطینی مزاحمت کاروں کے خلاف ایک مسلمان ادیب کی بدتمیزی اور زبان درازی کا نفسیاتی پہلو :*
✍️: سمیع اللہ خان
احمد جاوید صاحب نے فلسطینی مزاحمت کاروں کے خلاف جو کچھ کہا ہے اسے بدتمیزی کےعلاوہ کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ غداری وہ کر نہیں سکتے ہیں نہ ہی غامدیوں کا ایجنڈا وہ چلا سکتے ہیں اس لیے ان کے بیان کو بدتمیزی کہا جائےگا۔
فلسطینی مزاحمت کار جس عزت و احترام کے حقدار ہیں اس کے پیش نظر احمد جاوید صاحب کے الفاظ کو " زبان درازی " سے تعبیر کیا جانا چاہیے ۔
ہندوپاک سے کئی ایک اہل علم اور مخلص نظریاتی شخصیات جو ماشاءاللہ مزاحمت و مقاومہ کے قلمی شہہ سوار و علمبردار ہیں وہ احمد جاوید صاحب کے بیان کا علمی، منطقی اور تکنیکی جواب دے رہے ہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ اگر وہ موصوف کے بیان کو ادیب کی گستاخی ، بدتمیزی اور زبان درازی کے تناظر میں سمجھیں گے تو ان کی مخلصانہ محنت ضائع نہیں ہوگی، اسی لیے میں ان کی گستاخی پر مختصراً نفسیاتی سطریں لکھ رہا ہوں۔
احمد جاوید کوئی ایسے شخص نہیں ہیں کہ ان کےپاس فلسطینی مزاحمت کاروں کی مزاحمت کے منطقی اور ایمانی ہونے کی معلومات پر دلائل موجود نہ ہوں، بنیادی طور پر ان کا اعتراض ہے کہ فلسطینی مزاحمت کاروں نے اسرائیل کے خلاف جو اقدام کیا وہ تیاری کےبغیر کیا اور سب کو داؤ پر لگادیا، یہ کوئی نیا اعتراض تو ہے نہیں کہ اس پر الگ سے مدلل لکھا جائے، انہوں نے جو کچھ کہا ہے وہ ان دلائل سے واقفیت کے باوجود کہا ہے۔
یہ بیان دراصل ایک کیفیت کا نتیجہ ہے، جب کوئی شخص علم و کتاب اور مطالعات میں ایسا غرق ہوتا ہے کہ اس کے مطالعات ہی تجربات ہوتے ہیں تو پھر وہ ایک نفسیاتی کشمکش کا شکار ہو جاتا ہے اور کتابی سطروں کو دنیا میں من و عن دیکھنا چاہتا ہے، بہت بھرپور ادیب یا بہت بھرپور صاحبِ مطالعہ شخص اگر دنیا کی جدوجھد، زندگی کی مزاحمت اور عدل و انصاف کی تحریکات کا عملی حصہ کبھی نہیں بنا ہے تو اسے مزاحمت، حقوق اور عدل و انصاف کی خاطر برپا ہونے والے شور سے الرجی ہونے لگتی ہے، وہ قربانیوں کو خون خرابہ اور عزم و استقامت نیز حق خودارادیت کے جنون کو خودکشی سمجھنے لگتا ہے، ایسے اہل علم و دانش آج ہر جگہ بکثرت پائے جاتے ہیں جو ایسی نفسیات کے شکار ہورہے ہیں وہ ظلم و ستم اور ظالم کے خلاف مظلوموں کی اسپرٹ آواز اور انگڑائیوں پر غصہ اتارتے ہیں اور انہیں پاگل و جذباتی قرار دیتے ہیں کیونکہ ان کے علم و دانش کو زمین پر عدل و انصاف کی تحریکات سے ملنے والی زندگی کی غذائیت نہیں مل سکی ہے، وہ انقلاب و احتجاج کو اپنے کمرہءمطالعہ میں حرج سمجھتے ہیں اگر " احمد جاوید "حقوق حاصل کرنے کی جدوجھد کے بدلے ملنے والی "حیاتِ جاوید" کا بھی تجرباتی ایمانی شعور رکھتے تو کبھی مزاحمت کاروں کی ایمانی فراست پر سوال نہیں اٹھاتے، ایمانی فراست پر شک کرنا ایمانی نظر سے محرومی کی علامت ہے اور ایک مسلمان ادیب کی حیثیت سے فرضِ کفایہ ادا کرنے والے فلسطین کے حسین دل عظیم جہد کاروں کی شان میں کمی کرنا گستاخی، بدتمیزی اور زبان درازی ہے۔
ایک ادیب کی انقلابیت معاشرے کو انقلابی بناتی ہے، ایک ادیب کی نظریاتی قوت سماج کو اپنے پیروں پر کھڑا کرتی ہے، ایک ادیب کی آزادانہ رومانیت سماج کو بے حیا بنادیتی ہے، ایک ادیب کی زندہ دلی معاشرے کو باحوصلہ بناتی ہے، ایک ادیب کے دل کی روحانی زندگی سماج میں ربانی سوز و ساز پیدا کرتی ہے، لیکن اگر ادیب حقوق حاصل کرنے کی اسپرٹ اور ظالموں کے خلاف مزاحمت کی جدوجھد کی حیاتِ جاوید سے محروم ہے تو جذبہء حرّیت کےخلاف اس کی گستاخیاں سماج کو غلام بنا سکتی ہیں !
https://www.facebook.com/share/p/167LUD5U5C/
👍
❤️
🇵🇸
👏
💞
😂
41