دین و دنیا چینل
                                
                            
                            
                    
                                
                                
                                February 11, 2025 at 04:35 AM
                               
                            
                        
                            *حـــجــاز کـــی آنـــدھــی* 🏕️
 *قــســط نـمـبـر : 09*
*خلیفۂِ اوّل ابو بکر رضی اللّٰہ عنہ ابھی زندہ تھے تو محاذ سے مثنیٰ بن حارثہ رضی اللّٰہ عنہ آئے اور خلیفہ رضی اللّٰہ عنہ کو محاذ کی صورتِ حال سے آگاہ کر کے درخواست کی کہ کمک کی ضرورت اتنی شدید ہو گئی ہے کہ اس کے بغیر فتح ممکن نہیں رہی ۔ مثنیٰ رضی اللّٰہ عنہ اس وقت ابو بکر رضی اللّٰہ عنہ کے ہاں پہنچے تھے جب وہ بسترِ مرگ پر تھے ۔ انہوں رضی اللّٰہ عنہ نے اسی وقت حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کو بلایا۔*
’’ابن ِخطاب! ‘‘ ابو بکر رضی اللّٰہ عنہ نے نحیف سی آواز میں کہا____
’’ابنِ حارثہ مدد مانگنے آیا ہے۔ یہ جو کہتا ہے ایسا ہی کر اور اسے فوراً مدد دے کر محاذ پر بھیج دے…… اور اگر میں اس دوران فوت ہو جاؤں تو یہ میری وصیت ہے کہ محاذ کو کمک بھیجنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔‘‘
اُسی شام یا ایک دو روز بعد ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ فوت ہو گئے ۔ اُن کی وصیت عمر رضی اللّٰہ عنہ کے سینے پر لکھی ہوئی تھی ۔ خلافت کے پہلے خطبے کے بعد عمر رضی اللّٰہ عنہ نے مسلمانوں سے کہا کہ عراق اور شام کے محاذوں پر مدد کی شدید ضرورت ہے ۔ اس لیے لوگ ایک لشکر کی صورت میں منظم ہو کر مثنیٰ رضی اللّٰہ عنہ کے ساتھ محاذ پر جائیں ۔ عمر رضی اللّٰہ عنہ کو یہ دیکھ کر مایوسی ہو رہی تھی کہ لوگوں میں محاذ پر جانے کے لیے ہچکچاہٹ سی نظر آ رہی تھی ۔اس کا سبب یہ تھا کہ مسلمانوں میں کچھ اس قسم کا تاثر پیدا ہو گیا تھا کہ رومی اور فارسی دو بہت بڑی جنگی طاقتیں ہیں۔ان کے ہتھیار بھی بہتر قسم کے ہیں اور ان کی نفری بھی بہت زیادہ ہے ۔
مدینے اور گرد و نواح کے لوگ اس لئے بھی محاذ پر جانے میں پس و پیش کر رہے تھے کہ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کی نظر رومیوں کے بجائے فارسیوں پر زیادہ تھی ۔ عمر رضی اللّٰہ عنہ فارس پر فوج کشی میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے اور خلیفہ بننے سے پہلے وہ اپنے اس ارادے کا ذکر کرتے رہتے تھے ۔ اس کی وجہ یہی ہو سکتی تھی کہ عمر رضی اللّٰہ عنہ رسول ﷲ ﷺ کا ایک فرمان پورا کرنے کے لیے بیتاب تھے ۔ رسول ﷲ ﷺ نے مختلف ملکوں کے بادشاہوں کو مراسلے روانہ کیے تھے کہ وہ اسلام قبول کر لیں۔اس دعوت نامے کے جواب میں بیشتر بادشاہ خاموش رہے تھے یا کسی ایک آدھ نے طنزیہ سا جواب دے دیا تھا ۔ لیکن فارس کے بادشاہ خسرو پرویز کا جواب سخت توہین آمیز تھا ۔ اُس کے دربار میں جب رسولِ کریم ﷺ کا قاصد پیغام لے کر گیا تو خسرو پرویز نے قاصد کے ہاتھ سے پیغام لے کر پڑھا اور آگ بگولہ ہو گیا ۔ اس نے قاصد کی بے عزتی کی اور پیغام پھاڑ کر اس طرح ہوا میں اُچھال دیا کہ اس کے ٹکڑے اس کے دربار میں بکھر گئے۔
قاصد نے واپس آ کر رسولِ کریم ﷺ کو بتایا کہ خسرو پرویز نے پیغام پھاڑ کر اس کے ٹکڑے بکھیر دیئے تھے۔
’’اُس کی سلطنت اسی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر جائے گی‘‘ ____ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا اور خاموش ہو گئے۔
اب حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ خلیفہ تھے اور لوگوں کو وہ وقت یاد آ رہا تھا جب رسولِ کریم ﷺ کی زبانِ مبارک سے یہ الفاظ نکلے تھے ۔عمر رضی اللّٰہ عنہ اس وقت وہاں موجود تھے۔ فارس کے بادشاہ کی اس حرکت پر عمر رضی اللّٰہ عنہ کو جو غصہ آیا تھا وہ ان کے چہرے سے ظاہر ہو رہا تھا ۔ اب فارس کا بادشاہ خسرو پرویز تو نہیں تھا لیکن عمر رضی اللّٰہ عنہ فارس کی طاقتور سلطنت کے ٹکڑے کر کے بکھیر دینے کا عزم لیے ہوئے تھے۔
مسلمانوں پر فارسیوں کی کچھ زیادہ ہی دہشت طاری تھی ۔ جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ فارسیوں کے پاس ہاتھی تھے جنہیں جنگ کی خصوصی ٹریننگ دی گئی تھی ۔ یہ ہاتھی سندھ سے بھیجے گئے تھے اور ہاتھی بھیجنے والا سندھ کے راجہ داہر کے خاندان کا تھا۔ فارس کی فوج کے ساتھ مسلمانوں کی مختلف محاذوں پر ٹکر ہو ئی تھی ۔ مجاہدین نے ہر معرکے میں فارسیوں کو شکست دی تھی ۔ لیکن انہیں بہت زیادہ دشواریاں پیش آئی تھیں ۔
محاذوں سے جو شدید زخمی واپس آتے تھے خصوصًا وہ جن کے اعضاء کٹ جاتے تھے اُنہیں  دیکھ کر لوگ ڈرتے تھے ۔ یہ ڈر اس نوعیت کا نہیں تھا جو بزدلی کی پیداوار ہوتا ہے ، نہ ہی زخمی مجاہدین لوگوں کو آ کر ڈراتے تھے ۔ وہ ایسے ڈرپوک ہوتے تو محاذوں پر جاتے ہی نہ ۔ وہ دراصل شاکی تھے ۔ شکوہ یہ تھا کہ اپنی نفری بہت کم تھی اور بیک وقت دو بہت ہی طاقتور بادشاہیوں سے جنگ شروع کر دی گئی تھی ۔ وہ کہتے تھے کہ پہلے ایک کو ختم کر کے پھر دوسرے کے ساتھ نبردآزمائی کی جاتی۔
مؤرخ جن میں مصر کے محمد حسنین ہیکل خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں ۔ لکھتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ ظہر کی نماز کے بعد باہر نکلے تو لوگوں کا ہجوم تھا ۔ عمر رضی اللّٰہ عنہ نے ایک بار پھر کہا کہ رفیقِ رسول ﷺ اور خلیفۂِ اول کی وصیت کا احترام کریں اور مثنیٰ بن حارثہ رضی اللّٰہ عنہ کو مایوس واپس نہ جانے دیں۔ محاذوں کے حالات تشویشناک ہوتے جا رہے ہیں۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ ہجوم پر سناٹا طاری ہو گیا اور لوگ ایک دوسرے کے منہ کی طرف دیکھنے لگے ۔ لوگوں نے کُھسر پُھسر شروع کر دی اور کچھ ایسی آوازیں بھی سُنائی دیں _____
’’جس مُصیبت میں ہمارے بھائی گرفتار ہیں ‘کیا یہ ضروری ہے کہ ہم بھی اسی مُصیبت میں جا پھنسیں؟‘‘
روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کو وہ وقت یاد آیا جب حضرت ابو بکر رضی اللّٰہ عنہ نے لوگوں کو شام پر لشکر کشی کی دعوت دی تھی تو قبیلوں کے سربراہوں پر ایسی خاموشی طاری ہو گئی تھی۔
’’اے مسلمانو!‘‘ _____ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے اُنہیں یوں خاموش دیکھا تو گرج کر بولے ____
’’ہو کیا گیا ہے تمہیں؟ خلیفۃ الرسول ﷲ کو تم جواب کیوں نہیں دیتے؟ یہ تمہیں اس جہاد کی طرف بلا رہے ہیں جو مسلمان کی زندگی ہے اور جس میں موت ابدی زندگی ہے۔‘‘
تب مسلمان آگے بڑھے اور دعوت ِجہاد پر لبیک کہا تھا۔
اب وہی صورتِ حال عمر رضی اللّٰہ عنہ کی خلافت کے آغاز میں ہی پیدا ہو گئی تھی ۔ عمر رضی اللّٰہ عنہ پریشانی کے عالم میں اپنے گھر چلے گئے ۔
حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے وہ رات بھی جاگتے گزار دی ۔ وہ اسی سوچ میں غلطاں و پیچاں رہے اور اس پریشانی سے نجات حاصل کرنے کے طریقے سوچتے رہے ۔ اُنہیں پریشانی یہ دیکھ کر ہو رہی تھی کہ سر کردہ افراد جو قائدین کا درجہ رکھتے تھے ، وہ گو مگو کی کیفیت میں مبتلا تھے ۔ ظاہر ہے کہ قبیلوں کے قائد کسی کام میں پس و پیش کرنے لگیں تو عوام آگے آنے کے بجائے دس قدم پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
صبح عمر رضی اللّٰہ عنہ نماز کیلئے مسجد میں گئے ۔ امامت کے فرائض سر انجام دیئے اور بیعت کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ لوگوں کا ایک ہجوم تھا جو بیعت کیلئے اُمڈ آیا تھا ۔ اس میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا تھا ۔ عمر رضی اللّٰہ عنہ نے مسجد میں کھانا کھایا اور ظہر کی نماز کا وقت ہو گیا ۔
حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے امامت کرائی اور نماز سے فارغ ہوتے ہی اُٹھ کھڑے ہوئے ۔
’’اے لوگو !‘‘ ____ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے بلند آواز میں کہا’’  _____
" ﷲ تم پر کرم کرے ۔ میں خلیفہ کی حیثیت سے پہلا حکم یہ جاری کرتا ہوں کہ جن مرتدین کو تم نے غلام اور لونڈیاں بنا کہ رکھا ہوا ہے، انہیں آزاد کر کے ان کے رشتہ داروں کے حوالے کر دو ۔ میں اسے بہت بُرا سمجھوں گا کہ مسلمانوں میں غلامی کی رسم جڑ پکڑ لے ۔ ﷲ نے ہر انسان کو آزاد پیدا کیا ہے۔‘‘
یہ حکم لوگوں کیلئے غیر متوقع تھا ، اور غیر معمولی طور پر جرأت مندانہ ۔ لوگوں نے مرتدین کو اپنی مرضی سے غلام بنا کر نہیں رکھا تھا بلکہ یہ خلیفۂِ اول رضی اللّٰہ عنہ کا حکم تھا جو انہوں نے ارتداد کے خلاف جہاد کے آغاز میں ہی دے دیا تھا ۔ حکم یہ تھا کہ مرتدین اگر سچے دل سے اسلام قبول کرتے ہیں تو انہیں بخش دیا جائے اور جو کوئی انکار کرے اسے پکڑ لیا جائے اور جو لڑے اسے قتل کر دیا جائے۔ اس کے گھر کو آگ لگا دی جائے اور اس کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے۔
یہ حکم بہت ہی سخت اور ظالمانہ معلوم ہوتا ہے ۔ اسلام میں ایسے حکم کم ہی ملتے ہیں لیکن مرتدین کا جُرم ایسا گھناؤنا تھا کہ وہ اسی سزا کے حقدار تھے ۔ یہ بہت سے قبیلے تھے کہ جنہوں نے رسولِ کریم ﷺ کی زندگی میں اسلام قبول کر لیا تھا اور انہیں وہ تمام مراعات حاصل ہو گئی تھیں جو مسلمانوں کے حقوق میں شامل تھیں ۔ اُنہیں سب سے بڑا اعزاز تو یہ ملا کہ ﷲ کے رسول ﷺ کا اعتماد حاصل ہو گیا تھا۔
رسولِ کریم ﷺ رحلت فرما گئے تو اس کے ساتھ ہی بہت سے قبیلوں کے سردار اسلام سے نہ صرف منحرف ہو گئے بلکہ اسلام کے خلاف تخریبی کارروائیوں میں مصروف ہو گئے ۔ انہوں نے پہلا کام تو یہ کیا کہ زکوٰۃ دینے سے صاف انکار کر دیا ۔ یہی نہیں بلکہ ان میں سے رسالت اور نبوت کے دعویدار بھی اُٹھنے لگے۔
خلیفۂِ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ زکوٰۃ کے معاملے میں بہت ہی سخت تھے ۔ ان کے یہ الفاظ تاریخ کے دامن میں محفوظ ہیں:
’’اگر یہ لوگ رسول ﷲ ﷺ کی خدمت میں اونٹ باندھنے والی صرف ایک رسّی بطور زکوٰۃ دیا کرتے تھے اور اب اس سے انکار کرتے ہیں تو اللّٰہ کی قسم ! میں ان سے جنگ کروں گا۔‘‘
ان لوگوں کا دوسرا جُرم تو اور زیادہ سنگین تھا ۔ انہوں نے خاتم النبین ﷺ کے بعد رسول کھڑے کر دیئے تھے ۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ اسلام کا چہرہ مسخ کر کے اس مذہب کو ختم کر دیا جائے ۔ وہ مسلمانوں کو دھوکا دینے کیلئے مسلمان ہوئے تھے ۔ تخریب کاری کے آغاز کےلیے انہوں نے نہایت موزوں وقت دیکھا یعنی رسول ﷲ ﷺ کی رحلت کا وقت ۔ مرتدین نے سوچا تھا کہ مدینہ ماتم کدہ بنا ہوا ہو گا اور مسلمانوں کا حوصلہ اور جذبہ ختم نہ ہوا تو اتنا کمزور ضرور ہو گیا ہو گا کہ ان میں لڑنے کی ہمت نہیں ہو گی ۔
ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ یہ جرائم معاف کرنے والے نہیں تھے ۔ انہوں نے خالد بن ولید رضی اللّٰہ عنہ اور عمرو بن العاص رضی اللّٰہ عنہ جیسے نامور اور تاریخ ساز سالاروں کو مرتدین کی سرکوبی کے لیے بھیجا ۔ ان سالاروں کو خونریز لڑائیاں لڑنی پڑیں ۔ انہوں نے تھوڑے ہی عرصے میں بنو اسد ، قضاعہ ، اور بنو تمیم جیسے طاقتور اور سرکش قبیلوں کو تہ تیغ کر لیا۔
حضرت ابو بکر رضی اللّٰہ عنہ نے مرتدین کی بیخ کنی کیلئے بڑے ہی سخت احکام دیے تھے ۔ ان کے آدمیوں ، عورتوں اور بچوں کو غلام تک بنا لیا تھا ۔ لیکن عمر رضی اللّٰہ عنہ نے حکم جاری کر دیا کہ ان غلاموں کو آزاد کر کے ان کے رشتہ داروں کے حوالے کر دیا جائے ۔
مدینہ کے لوگوں کو یہ حکم پسند نہ آیا ۔ مجمع میں مختلف آوازیں اُٹھیں ، کوئی کہہ رہا تھا کہ ہم نے خلیفہ اول رضی اللّٰہ عنہ کے حکم سے غلامی میں رکھا تھا ، کسی نے کہا خلیفہ اول رضی اللّٰہ عنہ کے حکم کی خلاف ورزی ان کی وفات کے بعد اچھا اقدام نہیں۔
مؤرخوں نے مختلف حوالوں سے رائے دی ہے کہ مرتدین نے اپنے عزائم اور مقاصد میں شکست کھائی تو ان میں بہت سے تائب ہو کر سچے دل سے مسلمان ہو گئے تھے ۔ جن کو غلام بنا لیا گیا تھا وہ مسلمانوں کے حسن ِسلوک سے متاثر ہو کر ان کے وفادار ہو گئے تھے ۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے جب دیکھا کہ لوگ مثنیٰ بن حارثہ رضی اللّٰہ عنہ کے ساتھ محاذوں پر جانے کے لیے تیار نہیں ہو رہے تو انہوں نے اس توقع پر مرتدین کے غلام آزاد کرانے کا حکم دیا تھا کہ وہ خوش ہو جائیں گے اور ان میں سے جنہوں نے اسلام قبول کر لیا ہے وہ دعوتِ جہاد قبول کر کے عراق اور شام کے محاذوں پر چلے جائیں گے ۔
بعض مبصروں نے لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے کہا تھا کہ مسلمانوں میں غلام رکھنے کی رسم نہیں ہونی چاہیے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ﷲ نے انسان کو آزاد پیداکیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے صرف اس لئے ان غلاموں کو آزاد کرنے کا حکم دیا تھا کہ مسلمانوں میں غلامی کا رواج پکا نہ ہو جائے ، اور دوسرے اس لیے کہ انسان انسان کا غلام نہ رہے ۔
لوگ اس حکم پر اعتراض کر رہے تھے ۔ عمر رضی اللّٰہ عنہ کی جو درشتی مشہور تھی وہ عود کر آئی ۔ انہوں نے کہا :
’’عرب کی مثال ایک اونٹ کی سی ہے جسے نکیل پڑی ہوئی ہے اور وہ اپنے ساربان کے پیچھے پیچھے چلتا ہے ۔ یہ دیکھنا ساربان کا فرض ہے کہ وہ اونٹ کو کس طرف لے جاتا ہے ۔ رب کعبہ کی قسم ! میں عربوں کو راہِ راست پر لا کے چھوڑوں گا۔‘‘______
مثنیٰ بن حارثہ رضی اللّٰہ عنہ نے کسی طرح محسوس کر لیا کہ لوگ فارس کی جنگی طاقت سے خائف ہیں ۔ کسی قبیلے کے سردار نے اس خوف کا اظہار بھی کر دیا تھا۔
’’ہمارے پاس اتنی طاقت نہیں کہ ہم فارس پر حملہ کریں‘‘ ____ اس سردار نے کہا _____
’’ فارس کی جنگی طاقت کو کبھی میدانِ جنگ میں دیکھیں پھر بات کریں۔‘‘
مثنیٰ بن حارثہ رضی اللّٰہ عنہ سے رہا نہ گیا ۔ وہ اُٹھ کھڑا ہوا ۔ اُس نے یہ بھی نہ دیکھا کہ خلیفہ رضی اللّٰہ عنہ لوگوں سے مخاطب ہیں :
’’اے لوگو!‘‘ _____ مثنیٰ رضی اللّٰہ عنہ نے بڑی ہی بلند آواز میں کہا ____
’’ وہ کون سا فارس ہے جس کا خوف تمہارے دلوں میں بیٹھ گیا ہے؟ کیا تم نہیں جانتے کہ ہم فارس کی جنگی طاقت سے ٹکر لے چکے ہیں؟ ہم نے فارس کے باہر اس کی سلطنت کے ایک بہترین حصے پر قبضہ کر رکھا ہے ۔ ہم فارسیوں کو کئی لڑائیوں میں شکست دے چکے ہیں ۔ ہم نے بابل کے کھنڈرات میں فارسیوں کو شکست دی ہے ۔ لیکن یہ مشکل پیش آ گئی ہے کہ فارس کے بادشاہ نے اپنی ہاری ہوئی فوج کے لیے کمک بھیج دی ہے ۔ مگر ہم کمک سے محروم ہیں ۔ کیا تم یہ بھی نہیں کر سکتے کہ جو مجاہدین شہید ہو گئے ہیں ان کی کمی پوری کر دو؟ تمہارے دل اتنے پتھر کیوں ہو گئے ہیں کہ جو ﷲ کی راہ میں کُفر کے خاتمے کے لیے لڑتے ہوئے زخمی چھلنی ہو کر بیکار ہو گئے ہیں ۔ ان کی خالی جگہ پُر نہیں کرتے؟ اللّٰہ کی قسم ! مسلمان کبھی کسی سے نہیں ڈرے …… میں محاذ سے آیا ہوں۔ نفری کی کمی کی وجہ سے ہم قلعہ بند ہو گئے ہیں ۔ ہم اپنے دفاع میں لڑ سکتے ہیں ۔ قلعے سے نکل کر پیش قدمی نہیں کر سکتے ۔ کیا تم اس دن کے انتظار میں ہو جس دن تمہارے بھائی اور تمہارے بیٹے محاذ سے بھاگ کر آئیں گے اور تمہیں آ کر بتائیں گے کہ وہ اپنے ساتھیوں کی لاشیں اور تڑپتے کراہتے ہوئے زخمی میدان میں چھوڑ آئے ہیں اور وہ فارسیوں کے گھوڑوں تلے روندے جا رہے ہیں۔‘‘
مجمع پر سناٹا طاری ہو گیا ۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ لوگوں کے چہروں سے ان کے تاثرات اور رد عمل معلوم کرنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ مثنیٰ رضی اللّٰہ عنہ بولتا جا رہا تھا اور لوگوں کے چہروں کے تاثرات بدلتے جا رہے تھے ۔ پھر لوگوں میں بے چینی دیکھنے میں آئی ۔ عمر رضی اللّٰہ عنہ نے بھانپ لیا کہ لوگوں میں جذبہ بیدار ہو رہا ہے ۔ انہوں نے مثنیٰ رضی اللّٰہ عنہ کا اثر قبول کر لیا ہے۔حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ اُٹھ کھڑے ہوئے ۔مثنیٰ رضی اللّٰہ عنہ بیٹھ گیا ۔
*============= ( ان شآءاللہ جاری ھے )*
    کاپی
                        
                    
                    
                    
                    
                    
                                    
                                        
                                            👍
                                        
                                    
                                    
                                        3