دین و دنیا چینل
4.6K subscribers
About دین و دنیا چینل
*میں صدق دل سے اقرار کرتا ہوں اور یقینی حلف اٹھاتا ھوں کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین ہیں اور اللہ تعالی کے آخری نبی اور رسول ھیں اب قیامت تک کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔* *اور جو کوئی بھی نبوت کا دعوی کرے گا وہ کافر، زندیق، مرتد ہوگا۔*
Similar Channels
Swipe to see more
Posts
*قربانی کا جانور خریدنے کے بعد اس میں کسی اور کو شریک کرنا* سوال ایک بچھیا(گائے) جو پانچ بندوں نے مل کر خریدی، گھر لانے کے بعد قربانی سے پہلے اس میں چھٹا ساتواں حصہ دار کو شریک کرنا کیسا ہے؟ جواب اگر مذکورہ پانچ افراد مال دار ہیں یعنی صاحبِ نصاب ہونے کی وجہ سے ان پر قربانی لازم ہے اور قربانی کا جانور خریدنے کے بعد اس میں کسی اور کو شریک کرنا چاہتے ہیں تو اس کی دو صورتیں ہیں: 1۔۔ خریدتے وقت مزید افراد کو اس میں شریک کرنے کی نیت کی تھی تو ایسی صورت میں کسی قسم کی کراہت کے بغیر مزید افراد کو شریک کرنا جائز ہوگا۔ البتہ بہتر یہی ہے خریدنے سے پہلے شریک کرے۔ 2۔۔خریدتے وقت مزید افراد کو اس میں شریک کرنے کی نیت نہیں کی تھی تو ایسی صورت کسی اور کو اس میں شریک کرنا مکروہ ہوگا، البتہ اگر کرلے تو بھی سب کی قربانی ہوجائے گی۔ اور اگر مذکورہ خریدار مال دار نہیں، بلکہ غریب ہیں اور قربانی کا جانور خریدنے کے بعد اس میں کسی اور کو شریک کرنا چاہتے ہیں تو اس کی بھی دو صورتیں ہیں: 1۔۔ خریدتے وقت مزید افراد کو بھی اس میں شریک کرنے کی نیت کی تھی تو ایسی صورت مزید افراد کو شریک کرنا جائز ہوگا۔ 2۔۔ خریدتے وقت مزید افراد کو اس میں شریک کرنے کی نیت نہیں کی تھی تو غیر صاحبِ نصاب شخص کے قربانی کی نیت سے جانور خریدنے سے وہ اس پر قربانی کے لیے لازم ہوگیا، لہذا اب کسی اور شریک نہیں کیا جاسکتا۔اگر شریک کرلیا تو باقی حصوں کی رقم صدقہ کرنا لازم ہوگی۔ الفتاوى الهندية (5/ 304) 'ولو اشترى بقرةً يريد أن يضحي بها، ثم أشرك فيها ستة يكره ويجزيهم؛ لأنه بمنزلة سبع شياه حكماً، إلا أن يريد حين اشتراها أن يشركهم فيها فلا يكره، وإن فعل ذلك قبل أن يشتريها كان أحسن، وهذا إذا كان موسراً، وإن كان فقيراً معسراً فقد أوجب بالشراء فلا يجوز أن يشرك فيها، وكذا لو أشرك فيها ستة بعد ما أوجبها لنفسه لم يسعه؛ لأنه أوجبها كلها لله تعالى، وإن أشرك جاز، ويضمن ستة أسباعها'۔ فتاویٰ شامی میں ہے: '(وصح) (اشتراك ستة في بدنة شريت لأضحية) أي إن نوى وقت الشراء الاشتراك صح استحساناً وإلا لا (استحساناً وذا) أي الاشتراك (قبل الشراء أحب۔ (قوله: أي إن نوى وقت الشراء الاشتراك صح استحساناً وإلا لا)،كذا في بعض النسخ، والواجب إسقاطه كما في بعض النسخ ؛ لأن موضوع المسألة الاستحسانية أن يشتريها ليضحي بها عن نفسه، كما في الهداية والخانية وغيرهما، ولذا قال المصنف بعد قوله استحساناً: وذا قبل الشراء أحب. وفي الهداية: والأحسن أن يفعل ذلك قبل الشراء؛ ليكون أبعد عن الخلاف وعن صورة الرجوع في القربة اهـ. وفي الخانية: ولو لم ينو عند الشراء ثم أشركهم فقد كرهه أبو حنيفة. أقول: وقدمنا في باب الهدي عن فتح القدير معزواً إلى الأصل والمبسوط: إذا اشترى بدنةً لمتعة مثلاً ثم أشرك فيها ستة بعدما أوجبها لنفسه خاصة لايسعه؛ لأنه لما أوجبها صار الكل واجباً بعضها بإيجاب الشرع وبعضها بإيجابه، فإن فعل فعليه أن يتصدق بالثمن، وإن نوى أن يشرك فيها ستةً أجزأته؛ لأنه ما أوجب الكل على نفسه بالشراء، فإن لم يكن له نية عند الشراء ولكن لم يوجبها حتى شرك الستة جاز. والأفضل أن يكون ابتداء الشراء منهم أو من أحدهم بأمر الباقين حتى تثبت الشركة في الابتداء اهـ ولعله محمول على الفقير أو على أنه أوجبها بالنذر، أو يفرق بين الهدي والأضحية تأمل'۔فقط واللہ اعلم فتوی نمبر : 143909201998 دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کاپی
*کیا اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟* سوال کیا اونٹ کا گوشت کھانے کےبعد وضو ٹوٹ جاتا ہے؟ مسلم شریف کی ایک روایت پیش کی جاتی ہے جس میں نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد دوبارہ وضو کرنے کا فرمایا۔ جواب اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے، یہی جمہور صحابہ اور جمہور فقہاء بشمول ائمہ ثلاثہ امام ابو حنیفہ، امام مالک اور امام شافعی رحمہم اللہ کا مسلک ہے، اور جس حدیث میں اونٹ کا گوشت کھا کر وضو کرنے کا ذکر ہے، اس سے مراد لغوی وضو ہے، یعنی منہ ہاتھ دھونا، کیوں کہ اونٹ کے گوشت میں چکناہٹ اور ایک قسم کی بو ہوتی ہے، جب کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد وضو نہ فرمانے کاتھا، اور پکی ہوئی چیز میں اونٹ کا گوشت بھی داخل ہے۔ لہذا اس سے معلوم ہوا اونٹ کا گوشت کھاکر وضو کرنے والی روایت سے یا لغوی معنی ( ہاتھ اور منہ دھولینا) مراد ہے، یا یہ حدیث حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی حدیث سے منسوخ ہے، کیوں کہ اس میں آپ ﷺ کا آخری عمل بتایا گیا ہے۔ ’’معارف السنن شرح سنن الترمذی‘‘ میں ہے: "وقال جمهور الفقهاء مالك و أبوحنيفة و الشافعي و غيرهم: لاينقض الوضوء بحال، و المراد بالوضوء غسل اليد و الفم عندهم، و ذلك؛ لأن للحم الإبل دسماً و زهومةً و زفراً بخلاف لحم الغنم، و من أجل ذلك جاء ت الشريعة بالفرق بينهما". ( باب الوضوء من لحم الابل، ١/ ٣٥٣، ط: مجلس الدعوة والتحقيق الإسلامي) بذل المجهود في حل سنن أبي داود (2 / 67): "وأما القائلون بعدم النقض فاحتجوا بحديث جابر - رضي الله عنه - الذي أخرجه الأربعة (1) أنه قال: "كان آخر الأمرين من رسول الله صلى الله عليه وسلم ترك الوضوء مما مست النار" أي تحقق الأمران: الوضوء والترك، وكان الترك آخر الأمرين، فارتفع الوضوء أي وجوبه. ولهذا قال الترمذي: وكأن هذا الحديث ناسخ للحديث الأول حديث الوضوء مما مسّت النار، ولما كانت لحوم الإبل داخلة فيما مسّت النار، وكانت فردًا من أفراده، ونُسِخ وجوبُ الوضوء عنه بجميع أفراده، استلزم نسخ الوجوب عن هذا الفرد أيضًا. فما قال النووي: لكن هذا الحديث عام، وحديث الوضوء من لحوم الإبل خاص، مندفع, لأنا لانسلم كونه منسوخًا بحيث إنه خاص، بل لأنه فرد من أفراد العام الذي نسخ، فإذا نسخ العام وهو وجوب الوضوء مما مست النار نسخ جميع أفرادها، ومن أفرادها أكل لحوم الإبِل التي مسته النار، ولو سُلِّمَ كونها خاصًّا، فالعام والخاص عندنا قطعيان متساويان، لا يقدم أحدهما على الآخر، فعلى هذا العام ينسخ الخاص أيضًا". فقط واللہ اعلم فتوی نمبر : 144112200947 دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کاپی
*نفاس کا خون چالیس دن سے بڑھ جائے* سوال اگر عورت کو ولادت کے بعد ٤٠ روز سے زائد نفاس آئے تو اس کی نماز اور دوسری عبادت کا حکم کیا ہے؟ کیا نماز وہ پڑھ سکتی ہے براہ کرم تھوڑا جلدی جواب دیں۔ جواب نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن ہے، اگر نفاس کا خون چالیس دن سے بڑھ جائے تو اگر یہ اس عورت کا پہلا بچہ ہے تو چالیس دن نفاس کا خون ہوگا، اور اس کے بعد آنے والا خون استحاضہ (بیماری) کا کہلائے گا، چالیس دن پورے ہونے کے بعد غسل کرلے، اس کے بعد کے دنوں میں نماز وغیرہ پڑھنی ہوں گی، ہر نماز کے لیے وضو کرے گی اور اس وضو سے جتنی چاہے نمازیں ادا کرے خواہ فرض ہو یا نفل ،اسی طرح اس وقت کے اندر اسی وضو سے تلاوت،ذکر اذکار، طواف وغیرہ بھی کر سکتی ہے۔ ہاں اگر وضو اس خون والے عذر کے علاوہ کسی اور وجہ سے ٹوٹا ہوتو دوبارہ وضو کرنا ہوگا، بہرحال وقت ختم ہوجانے سے اس کا وضو خود بخود ختم سمجھا جائے گا، اگلی نماز کے لیے نیا وضو کرنا ضروری ہو گا۔ اگر اس عورت کا پہلے سے کوئی بچہ ہے تو اس کی جتنے دن نفاس کے خون آنے کی عادت ہے اتنے دن کا خون نفاس شمار ہوگا اور باقی استحاضہ (بیماری) کا خون شمار ہوگا، اس صورت میں عادت سے زائد جن دنوں میں نماز نہیں پڑھی، اُس کی قضا کرنا بھی لازم ہو گا۔ فتاوی عالمگیری میں ہے: "أقل النفاس ما يوجد ولو ساعة وعليه الفتوى وأكثره أربعون. كذا في السراجية. وإن زاد الدم على الأربعين فالأربعون في المبتدأة والمعروفة في المعتادة نفاس هكذا في المحيط." (كتاب الطهارة، الفصل الثانى فى النفاس، ج:1، ص:37، ط:مكتبه رشيديه) فقط والله اعلم فتوی نمبر : 144406101252 دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کاپی
*قربانی، فدائیت کا بہترین نمونہ* از: مولانامصلح الدین قاسمی استاذ ادب عربی، شاہی مرادآباد تصور کیجیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانیوں کا، کیسی آزمائش کی گھڑی رہی ہوگی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے جب نمرود نے دہکتی ہوئی آگ تیار کرائی تھی، ایک طرف نارِ نمرود اوراس کے وہ چیلے چپاٹے ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آگ میں چلنے کا تماشہ دیکھنے کے لیے بے تاب تھے، اور دوسری طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کا عشقِ حقیقی تھا جو بار بار آگ میں کودنے کے لیے کچوکے لگارہا تھا، بالآخر نبی موصوف بے دھڑک آگ میں کود پڑے،اور خدائی فرمان ”یَا نَارُ کُونِی بَرْدًا وَسَلاَمًا عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ“ (اے آگ تو ٹھنڈی اور سلامتی بن جا حضرت ابراہیم علیہ السلام پر) کے آگے آگ اُن کا کچھ نہ بگاڑ سکی، اور نیا نے دیکھا کہ آتشِ نمرود میں عشقِ حقیقی کس طرح پنپتا اور پروان چڑھتا ہے۔ سچ ہے آج بھی ہو جو ابراہیم سا ایماں پیدا آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا پھر تصور میں لائیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی فدائیت کا: حکم ہوتا ہے اپنی بیوی اور بچے کو اُس سنسان وادی میں چھوڑ کر آئیے جہاں نہ آدم نہ آدم زاد، ایسا ویرانہ جہاں صرف چلچلاتی دھوپ ہے، نہ کھانا ہے نہ پانی، نہ کوئی قریب اور عزیز، نہ کوئی خبر گیری کرنے والا اور نہ کوئی راہ گیر، جہاں نہ اپنوں کا معلوم اور نہ بیگانوں کی خیر خبر، حضرت ابراہیم علیہ السلام خدا کا حکم پاتے ہی بیوی اور بچے کو اُس جھلسی ہوئی پہاڑیوں اور کھانے پانی سے خالی وادی میں چھوڑ کر آگئے، یہ بالکل نہ سوچا کہ اُس تپتی ہوئی وادی میں ممتا کی ماری ایک ماں اور شیرخوار بچے کا کیا ہوگا۔ بس خدا کا حکم ملتے ہی تعمیل کے لیے فوراً تیار ہوگئے اور حکم کو تجسیمی شکل دینے میں ذرہ برابر بھی تاخیر نہ کی۔ حضرت ہاجرہ علیہا السلام اور اُن کے ننھے منے بچے پر اُس وحشت ناک وادی میں کیا گذری؟ یہ بھی تاریخ کا ایک باب ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کی فدائیت کا مظہر ہے۔ اُس تپتی ہوئی وادی میں وہ شیرخوار بچہ جب دیوارِ کعبہ سے ایڑیاں رگڑتا تو ماں تڑپ تڑپ کر کبھی صفا کی طرف دیکھتی کہ شاید کوئی قافلہ نظر آجائے اور پانی مل جائے، اور کبھی دوڑتی ہوئی مروہ پر چڑھتی کہ شاید ادھر کوئی قافلہ گذرتاہوا دکھائی دے، پھر بھاگی بھاگی بچے کو دیکھنے آتی کہ کس حال میں ہے، اُس معصوم کو دیکھ کر پھر پانی کی تلاش میں صفا ومروہ کا چکر لگاتی، اور جب امید کی کوئی کرن نظر نہ آتی تو بے قرار ہوجاتی، کلیجے منہ کو آنے لگتے، تاآں کہ اللہ رب العزّت نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لاڈلے کی ایڑیوں کی رگڑ سے پانی کا چشمہ جاری فرمادیا جو ”زمزم“ کے نام سے مشہور ہے، اور اُس وقت سے اب تک اسی طرح جاری ہے۔ اللہ اکبر! فدائیت کا یہ نمونہ اب کون پیش کرسکتا ہے کہ ابھی ایک امتحان ختم نہیں ہوا کہ دوسرا شروع ہوگیا، جب بچہ بڑاہوگیااور بوڑھے باپ کو کچھ سہارا دینے کے لائق ہوا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دکھایاگیا کہ وہ اپنے لاڈلے کو اللہ کی راہ میں قربان کررہے ہیں، چوں کہ انبیاء کرام علیہم السلام کا خواب بھی وحی کے درجے میں ہوتا ہے اِس لیے صبح اٹھتے ہی اُس خواب کا تذکرہ اپنے بیٹے سے کیا، اِس موقع پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کوئی ہچکچاہٹ اور سراسمیگی نہیں ہوئی،اور نہ ہی کوئی قلق ہوا؛ کیوں کہ ان کا قلب حبّ خدا سے سرشار تھا اور بطورِ امتحان بیٹے سے سوال کیا تمہاری رائے اِس کے بارے میں کیا ہے؟۔ یہاں کسی شخص کے دل میں یہ خلجان پیدا ہوسکتا ہے کہ کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خدائی حکم کی تعمیل کرنا بیٹے کے اتباعی جواب پر منحصر تھا؟ ایسی کوئی بات نہیں؛ بل کہ ان سے صلاح ومشورے میں بہت سارے اسرار وحکم پنہاں ہیں: پہلی حکمت یہ تھی کہ ان میں اطاعتِ خداوندی کا جذبہ وولولہ کس حد تک ہے یہ بات کھل کر سامنے آجائے، نیز اُن کے حوصلے کو بھی پرکھنا اور جانچنا مقصود تھا۔ دوسری حکمت یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ اسے قبول کریں گے تو مستحق اجر ہوں گے، تیسری حکمت یہ تھی کہ عین ذبح کے وقت ممکن تھا کہ محبتِ پدری، محبت طبعی اور تقاضائے انسانی فعل مامور میںآ ڑے نہ آجائے، اِس وجہ سے نبی موصوف نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے مشورہ لیا تھا۔ قرآنِ کریم نے اِس واقعے کو اِس انداز سے بیان فرمایا ہے: فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَيَّ اِنِّی اَرَی فِي الْمَنَامِ أَنِّیْ أذْبَحُکَ فَانْظُر مَاذا تَریٰ؟ قَالَ یٰآبَتِ افْعَلْ مَا تُوٴْمَرُ سَتَجِدُنِی انْ شَاءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ․ ”سو جب وہ لڑکا ایسی عمر کو پہنچا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ چلنے پھرنے لگا تو ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا: برخوردار! میں دیکھتا ہوں کہ تم کو (بامرالٰہی) ذبح کررہا ہوں سو تم بھی سوچ لو تمہاری کیا رائے ہے؟ وہ بولے: ابا جان! آپ کو جو حکم ہوا ہے آپ کیجیے انشاء اللہ آپ مجھ کو صبرکرنے والوں میں سے دیکھیں گے۔“ یہ امتحان کس قدر سخت تھا اِس کی طرف اشارہ خود الہ رب العزّت نے ”فلما بلغ معہ السعي“ سے اشارہ فرمادیا کہ ارمانوں سے مانگے ہوئے اُس بیٹے کو قربان کرنے کا حکم اُس وقت دیاگیا جب یہ بیٹا اپنے باپ کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا تھا، اور پرورش کی مشقتیں برداشت کرنے کے بعد اب وقت آیا تھا کہ وہ قوتِ بازو بن کر باپ کا سہارا ثابت ہو، مفسرین نے لکھا ہے کہ اس وقت حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمر تیرہ سال تھی،اور بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ بالغ ہوچکے تھے۔ یوں تو ذبح کرنے کا یہ حکم براہِ راست کسی فرشتے وغیرہ کے ذریعے بھی نازل کیا جاسکتا تھا، لیکن خواب میں دکھانے کی بظاہر حکمت یہ تھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اطاعت شعاری اپنے کمال کے ساتھ ظاہر ہو، خواب کے ذریعے دئیے ہوئے حکم میں انسانی نفس کے لیے تاویلات کی بڑی گنجائش تھی، لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تاویلات کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے اللہ رب العزت کے حکم کے آگے سرِ تسلیم خم کردیا اور اِس امتحان میں سوفیصد کامیاب ہوئے۔ قربانی کا یہ واقعہ جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی فدائیت کا مظہر ہے وہیں اِس واقعے سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بھی بے مثال جدبہٴ جاں نثاری کی شہادت ملتی ہے، اس کے علاوہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کم سنی ہی میں اللہ رب العزت نے انھیں کیسی ذہانت اور کیسا علم عطا فرمایا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کے سامنے اللہ کے کسی حکم کا حوالہ نہیں دیاتھا؛ بلکہ محض ایک ایک خواب کا تذکرہ فرمایا تھا، لیکن حضرت اسماعیل علیہ السلام سمجھ گئے کہ انبیا علیہم السلام کا خواب وحی ہوتا ہے، اور یہ خواب بھی درحقیقت حکمِ الٰہی کی ہی ایک شکل ہے، چناں چہ انھوں نے جواب میں خواب کے بجائے حکمِ الٰہی کا ذکر کیا اور والد بزرگوار کو یہ کہہ کر یقین دلایا ”یٰآ أَبَتِ افْعَلْ مَا تُوٴْمَرُ سَتَجِدُنِی انْ شَاءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ“ (ابا جان! جس بات کا آپ کو حکم دیاگیا ہے اسے کرگذرئیے، انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے) حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب پاکستانی علیہ الرحمہ اپنی تفسیر معارف القرآن میں اِس آیت کے ذیل میں تحریر فرماتے ہیں: ”اِس جملے میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی غایتِ ادب اور غایتِ تواضع کو دیکھئے، ایک تو انشاء اللہ کہہ کر معاملہ اللہ کے حوالے کردیا، اوراِس وعدے میں دعوے کی جو ظاہری صورت پیدا ہوسکتی تھی اسے بالکل ختم فرمادیا، دوسرے آپ یہ بھی فرماسکتے تھے کہ ”آپ انشاء اللہ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے“ لیکن اس کے بجائے آپ نے فرمایا ”انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے“ جس سے اِس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ یہ صبر وضبط تنہا میرا کمال نہیں ہے؛ بلکہ دنیا میں اور بھی بہت سے صبر کرنے والے ہوئے ہیں، انشاء اللہ میں بھی ان میں شامل ہوجاؤں گا، اِس طرح آپ نے اِس جملے میں فخروتکبر، خودپسندی اور پندار کے ادنیٰ شائبے کو ختم کرکے اس میں انتہا درجے کی تواضع اورانکسار کا اظہار فرمادیا۔ (روح المعانی، بحوالہ معارف القرآن ج۷، ص:۴۵۹۔ فریدبک ڈپو دہلی) اللہ رے! یہ جذبہٴ قربانی اور یہ فدائیت، کہ بیٹے کے گلے پر چھری چلادی،اور ہائے رے یہ اِقدامِ فداکاری کہ چھری تلے گردن رکھ دیا اور خلیل و ذبیح دونوں نے اپنا اپنا حق ادا کریا، قرآن نے بھی اعلان کردیا ”قَدْ صَدَّقْتَ الرُّوٴْیَا انَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ“ (الصّفّٰت/۱۰۵) (تم نے خواب سچ کردکھایا ہم مخلصین کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں) یعنی اللہ کے حکم کی تعمیل میں جو کام تمہارے کرنے کا تھا اُس میں تم نے اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی اور آزمائش میں پورے پورے کامیاب رہے، اور یہ ادائے قربانی اللہ کو اتنی پسند آئی کہ رہتی دنیا تک کے لیے یادگار اور قربِ خداوندی کا ذریعہ بنادیا جسے امت مسلمہ ہر سال مناتی ہے، اور اِس قربانی میں درحقیقت مسلمانوں کے اِس عقیدے کا اعلان ہوتا ہے کہ انسان کو اللہ رب العزت کے حکم کے آگے اپنی عزیز سے عزیز ترین چیز کو بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ سچ لکھا حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی نے: ”اسلام جب بھی چمکا ہے قربانیوں سے چمکا ہے، آج بھی قربانیوں ہی سے چمکے گا۔ اسلام کے لیے قربانیاں ہوں تو یہ شمنوں کے گھیرے میں بھی چمکتا ہے، اور جب قربانیاں نہ ہوں تو اپنی بادشاہت میں بھی مٹ جاتا ہے۔“ اللہ رب العزّت پوری امت مسلمہ میں جذبہٴ ایثار و قربانی پیدا فرمائے۔ (آمین) $ $ $ ______________________________ ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ12، جلد: 91 ،ذی الحجہ 1428 ہجری مطابق دسمبر2007ء
*مسجد میں پیسے دینے کی منت ماننا* سوال: ایک آدمی نے کہا کہ منت مانتا ہوں کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو پانچ ہزار روپے اس مسجد میں دوں گا۔کیا کام ہونے پر اس طرح کی منت پورکرنا لازم ہے ؟اگر منت پوری کرنا لازم ہے تو اس متعین مسجد میں ہی دینا لازم ہے یا کسی اور مسجد میں بھی دے سکتا ہے یا کسی غریب کو بھی دے سکتا ہے ؟ جواب نمبر: 148210 بسم الله الرحمن الرحيم Fatwa ID: 527-521/M=5/1438 صورت مسئولہ میں کام پورا ہونے پر منت کی تکمیل لازم ہے، لیکن مسجد کی تعیین لازم نہیں، ناذر کو اختیار ہے چاہے روپیہ اس مسجد میں دیدے یا کسی دوسری مسجد میں دیدے، کسی غریب کو دینے سے بھی منت پوری ہوجائے گی، البتہ جس مسجد کو متعین کیا ہے اسی میں دیدینا اچھا ہے۔ نذر لفقراء مکة جاز الصرف لفقراء غیرہا (درمختار مع شامی) مستفاد محمودیہ ۱۴/ ۷۴، ڈابھیل واحسن الفتاوی ۵/ ۴۸۰) واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
*عمل کثیر کسے کہتے ہیں؟ایک رکن میں تین بار کھجانے، کھانسنےیا چھینکنے کا حکم، ایک رکن میں ایک بار کوئی عمل کرنے کا حکم* سوال ۱)نماز میں عمل کثیر کسے کہتے ہیں؟ ۲) نماز میں کسی شخص نے اگر ایک رکن ( قعدہ، سجدہ یا تشہد ) میں تین بار کھجا لیا یا کھانس لیا یا چھینک ماردی تو کیا اس کی نماز فاسد ہو گئی یا نہیں؟ ۳) اگر ایک رکن میں ایک بار کوئی عمل ہوا تو کیا اس سے نماز فاسد ہوجائے گی یا نہیں؟ جواب ۱)نماز کے دوران عملِ کثیر کا ارتکاب کرنے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے، عملِ کثیر کی تعریف میں فقہاءِ کرام کے متعدد اقوال ہیں: 1ـ مفتیٰ بہ اور راجح قول یہ ہے کہ کوئی ایسا کام کرنا کہ دور سے دیکھنے والے کو یقین ہو جائے کہ یہ کام کرنے والا نماز نہیں پڑھ رہا ہے۔ 2ـ دوسرا قول یہ ہے کہ جو کام عام طور پر دو ہاتھوں سے کیا جاتا ہے، مثلاً عمامہ باندھنا، ازار بند باندھنا وغیرہ، یہ تمام کام عمل کثیر شمار ہوتے ہیں، اگر یہ کام ایک ہاتھ سے کرے تب بھی یہ عملِ کثیر کہلائے گا اور جو کام عام طور پر ایک ہاتھ سے کیا جاتا ہے وہ عملِ قلیل شمار ہوتا ہے، اگر یہ کام دو ہاتھوں سے کرے تب بھی عملِ قلیل ہی کہلائے گا۔ 3ـ تیسرا قول یہ ہے کہ تین حرکاتِ متوالیہ یعنی تین بار سبحان ربی الاعلیٰ کہنے کی مقدار وقت میں تین دفعہ ہاتھ کو حرکت دی تو یہ عملِ کثیر ہے ورنہ قلیل ہے۔ یہ تین قول ہی زیادہ مشہور ہیں اور درحقیقت تینوں کا حاصل ایک ہی ہے، اس لیے کہ قولِ ثانی و ثالث میں مذکور عمل کے کرنے والے کو اگر دور سے کوئی دیکھے تو اسے یقین ہو جائے گا کہ یہ کام کرنے والا نماز نہیں پڑھ رہا ہے۔ ۲) نماز میں اگر کسی شخص نے ایک رکن ( قعدہ، سجدہ یا تشہد ) میں تین بار کھجا لیا تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی ،البتہ اگر ہر دفعہ کھجانے کے لیے ہاتھ اٹھایا ہو اور تینوں حرکاتِ متوالیہ بھی ہوں یعنی کھجانے کے لیے تین دفعہ ہاتھ اٹھانے کی درمیانی مدت تین دفعہ سبحان ربی الاعلیٰ کہنے کی مقدار وقت سے کم ہو تو نماز فاسد ہوجائے گی، کیوں کہ فقہی عبارات میں ثلاث حرکات متوالیۃ کا ذکر ہے، بعض عبارات جن میں ثلاث حرکات فی رکن مذکور ہے تو اس میں بھی رکن سے مراد مقدارِ رکن ہے یعنی جتنے وقت میں سبحان ربی الاعلیٰ کہا جاسکے، اس لیے کہ اتنے قلیل وقت میں ہونے والی حرکات کو ہی متوالیہ کہا جاسکتا ہے، لہٰذا کسی طویل رکن میں اگرتین حرکات اس طرح واقع ہوں کہ آخری حرکت بقدرِ رکن وقت کے بعد واقع ہو تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی، اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ تین حرکات اگر غیر متوالیہ ہوں یعنی ان کے درمیان بقدر رکن وقت سے زیادہ وقفہ ہو تو دیکھنے والے کو اس حرکات کے کرنے کے بارے میں نماز میں نہ ہونے کا یقین نہیں ہوتا ہے، اگرچہ تینوں حرکات ایک ہی رکن میں ہی کیوں نہ ہوں، بالخصوص جبکہ رکن طویل ہو اور حرکات کے درمیان وقفہ بھی زیادہ ہو۔ نماز میں ضرورۃً کھانسی یا چھینک آجانے سے نماز فاسد نہیں ہوتی، چاہے تین بار ہو یا اس سے بھی زیادہ ہو، البتہ اگر بلا عذر و بلا غرض صحیح ہو اور حروف ظاہر ہوجائیں تو ایک بار کھانسے سے بھی نماز فاسد ہوجائے گی۔ ۳)ایک رکن میں ایک بار کوئی عمل ہونے سے نماز فاسد نہیں ہوتی، البتہ بلا ضرورت اگر ایک بار بھی کوئی عمل کیا تو اس سے نماز میں کراہت آجائے گی۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 624): "(و) يفسدها (كل عمل كثير) ليس من أعمالها ولا لإصلاحها، وفيه أقوال خمسة أصحها (ما لايشك) بسببه (الناظر) من بعيد (في فاعله أنه ليس فيها) وإن شك أنه فيها أم لا فقليل۔ (قوله: ليس من أعمالها) احتراز عما لو زاد ركوعا أو سجودا مثلا فإنه عمل كثير غير مفسد لكونه منها غير أنه يرفض لأن هذا سبيل ما دون الركعة ط قلت: والظاهر الاستغناء عن هذا القيد على تعريف العمل الكثير بما ذكره المصنف تأمل (قوله ولا لإصلاحها) خرج به الوضوء والمشي لسبق الحدث فإنهما لا يفسدانها ط. قلت: وينبغي أن يزاد ولا فعل لعذر احترازا عن قتل الحية أو العقرب بعمل كثير على أحد القولين كما يأتي، إلا أن يقال إنه لإصلاحها لأن تركه قد يؤدى إلى إفسادها تأمل (قوله: وفيه أقوال خمسة أصحها ما لا يشك إلخ) صححه في البدائع، وتابعه الزيلعي والولوالجي. وفي المحيط أنه الأحسن. وقال الصدر الشهيد: إنه الصواب. وفي الخانية والخلاصة: إنه اختيار العامة. وقال في المحيط وغيره: رواه الثلجي عن أصحابنا حلية. القول الثاني أن ما يعمل عادة باليدين كثير وإن عمل بواحدة كالتعميم وشد السراويل وما عمل بواحدة قليل وإن عمل بهما كحل السراويل ولبس القلنسوة ونزعها إلا إذا تكرر ثلاثا متوالية وضعفه في البحر بأنه قاصر عن إفادة ما لا يعمل باليد كالمضغ والتقبيل. الثالث الحركات الثلاث المتوالية كثير وإلا فقليل الرابع ما يكون مقصودا للفاعل بأن يفرد له مجلسا على حدة. قال في التتارخانية: وهذا القائل: يستدل بامرأة صلت فلمسها زوجها أو قبلها بشهوة أو مص صبي ثديها وخرج اللبن: تفسد صلاتها. الخامس التفويض إلى رأي المصلي، فإن استكثره فكثير وإلا فقليل قال القهستاني: وهو شامل للكل وأقرب إلى قول أبي حنيفة، فإنه لم يقدر في مثله بل يفوض إلى رأي المبتلى. اهـ. قال في شرح المنية: ولكنه غير مضبوط، وتفويض مثله إلى رأي العوام مما لا ينبغي، وأكثر الفروع أو جميعها مفرع على الأولين. والظاهر أن ثانيهما ليس خارجا عن الأول، لأن ما يقام باليدين عادة يغلب ظن الناظر أنه ليس في الصلاة، وكذا قول من اعتبر التكرار ثلاثا متوالية فإنه يغلب الظن بذلك، فلذا اختاره جمهور المشايخ. اهـ. (قوله: ما لا يشك إلخ) أي عمل لا يشك أي بل يظن ظنا غالبا شرح المنية وما بمعنى عمل، والضمير في بسببه عائد إليه والناظر فاعل يشك، والمراد به من ليس له علم بشروع المصلي بالصلاة كما في الحلية والبحر. وفي قول الشارح من بعيد تبعا للبدائع والنهر إشارة إليه لأن القريب لا يخفى عليه الحال عادة فافهم (قوله: وإن شك) أي اشتبه عليه وتردد"۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 640): "(و) كره (كفه) أي رفعه ولو لتراب كمشمر كم أو ذيل (وعبثه به) أي بثوبه (وبجسده) للنهي إلا لحاجة۔ (قوله: وعبثه) هو فعل لغرض غير صحيح قال في النهاية: وحاصله أن كل عمل هو مفيد للمصلي فلا بأس به. أصله ما روي «أن النبي صلى الله عليه وسلم عرق في صلاته فسلت العرق عن جبينه» أي مسحه لأنه كان يؤذيه فكان مفيدا. وفي زمن الصيف كان إذا قام من السجود نفض ثوبه يمنة أو يسرة لأنه كان مفيداً كي لاتبقى صورة. فأما ما ليس بمفيد فهو العبث اهـوقوله كي لا تبقى صورة يعني حكاية صورة الألية كما في الحواشي السعدية، فليس نفضه للتراب. فلا يرد ما في البحر عن الحلية من أنه إذا كان يكره رفع الثوب كي لا يتترب، لا يكون نفضه من التراب عملا مفيدا (قوله للنهي) وهو ما أخرجه القضاعي عنه صلى الله عليه وسلم: «إن الله كره لكم ثلاثاً: العبث في الصلاة. والرفث في الصيام، والضحك في المقابر» " وهي كراهة تحريم كما في البحر (قوله: إلا لحاجة) كحك بدنه لشيء أكله وأضره وسلت عرق يؤلمه ويشغل قلبه. وهذا لو بدون عمل كثير. قال في الفيض: الحك بيد واحدة في ركن ثلاث مرات يفسد الصلاة إن رفع يده في كل مرة اهـ۔ وفي الجوهرة عن الفتاوى: اختلفوا في الحك. هل الذهاب والرجوع مرة أو الذهاب مرةً والرجوع أخرى"۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 618): "(والتنحنح) بحرفين (بلا عذر) أما به بأن نشأ من طبعه فلا (أو) بلا (غرض صحيح) فلو لتحسين صوته أو ليهتدي إمامه أو للإعلام أنه في الصلاة فلا فساد على الصحيح۔ (قوله: والتنحنح) هو أن يقول أح بالفتح والضم بحر (قوله بحرفين) يعلم حكم الزائد عليهما بالأولى، لكن يوهم أن الزائد لو كان بعذر يفسد، ويخالفه ظاهر ما في النهاية عن المحيط، من أنه إن لم يكن مدفوعا إليه بل لإصلاح الحلق ليتمكن من القراءة إن ظهر له حروف نحو قول أح أح وتكلف لذلك كان الفقيه إسماعيل الزاهد يقول يقطع الصلاة عندهما لأنها حروف مهجاة اهـأي والصحيح خلافه كما يأتي.(قوله: بأن نشأ من طبعه) أي بأن كان مدفوعا إليه (قوله: على الصحيح) لأنه يفعله لإصلاح القراءة فيكون من القراءة معنى كالمشي للبناء، فإنه وإن لم يكن من الصلاة لكنه لإصلاحها فصار منها معنى شرح المنية عن الكفاية، لكنه لا يشمل ما لو كان لإعلام أنه في الصلاة أو ليهتدي إمامه إلى الصواب. والقياس الفساد في الكل إلا في المدفوع إليه كما هو قول أبي حنيفة ومحمد لأنه كلام، والكلام مفسد على كل حال كما مر وكأنهم عدلوا بذلك عن القياس وصححوا عدم الفساد به إذا كان لغرض صحيح لوجود نص، ولعله ما في الحلية عن سنن ابن ماجه عن «علي - رضي الله عنه - قال كان لي من رسول الله صلى الله عليه وسلم مدخلان: مدخل بالليل ومدخل بالنهار، فكنت إذا أتيته وهو يصلي تنحنح لي» وفي رواية «سبح» وحملهما في الحلية على اختلاف الحالات"۔ فقط واللہ اعلم فتوی نمبر : 144007200293 دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
*حج کا رکن اعظم وقوف عرفہ آج ادا کیا جائیگا* مکہ المکرمہ: حج کا رکن اعظم وقوف عرفہ آج ادا کیا جائے گا۔ مناسک حج کی ادائیگی کےسلسلے میں عازمینِ حج کل خیموں کے شہر منیٰ پہنچے تھے جہاں عازمین رات بھرمنیٰ میں عبادات میں مصروف رہے۔ نماز فجر کے بعد عازمین رکن اعظم وقوف عرفہ کی ادائیگی کے لیے میدان عرفات روانہ ہوگئے جہاں حج کا اہم رکن اعظم وقوف عرفہ ادا کریں گے۔ عازمین عرفات میں مسجد نمرہ سے خطبہ حج سنیں گے، بعد ازاں ظہر اور عصر کی نمازیں ایک وقت میں قصر کرکے پڑھی جائیں گی اور پھر غروب آفتاب کے بعد حجاج کرام مزدلفہ روانہ ہو جائیں گے۔

💙💜💙💜💙💜💙💜💙💜 ❄❄❄❄❄❄❄❄❄❄ ⛲ *بسم الله الرحمن الرحيم* ⛲ 🇵🇰 *آج کا کیلنڈر* 🌤 🔖 *08 ذوالحجہ 1446ھ* 💎 🔖 *05 جون 2025ء* 💎 🔖 *23 جیٹھ 2082ب* 💎 🌄 *بروز جمعرات Thursday* 🌄 ☘️ *عرفہ کے دن کا روزہ !* 🔹 *رسولﷺ نے فرمایا عرفہ کے دن کا روزہ ، میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ پچھلے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا اور اگلے سال کے گناہوں کا بھی.*🔹 📗«صحیح مسلم -1162» ❄❄❄❄❄❄❄❄❄❄ 💜💙💜💙💜💙💜💙💜💙
*ملک سے باہر شخص کا اپنے ملک میں قربانی کرنا* سوال میرے والدین باہر ملک گئے ہوئے ہیں، انہوں نے عید الاضحیٰ وہاں کرنی ہے تو قربانی بھی وہاں کریں گے یا پاکستان میں بھی کر سکتے ہیں؟ جواب آپ کے والدین کے لیے دونوں جگہ قربانی کرنا درست ہے، البتہ پاکستان میں قربانی کرنے کی صورت میں قربانی کے وقت دونوں جگہ (پاکستان اور جس میں ملک میں والدین موجود ہیں) قربانی کا دن ہونا ضروری ہے۔ مثلاً آپ کے والدین سعودیہ میں ہیں اور وہاں عید الاضحی پاکستان سے ایک دن پہلے ہو تو وہاں کے حساب سے عید کا دوسرا اور تیسرا دن مشترکہ دن ہوں گے، لہذا وہاں کے مطابق عید کے دوسرے اور تیسرے دن، جو پاکستان کے مطابق پہلا اور دوسرا دن ہوگا، قربانی درست ہوگی۔ اور یہاں عید کے تیسرے دن، اور وہاں پہلے دن قربانی درست نہیں ہوگی۔ اور اگر دونوں ملکوں میں عید ایک ہی دن ہو تو تینوں دن قربانی درست ہوگی، البتہ جس ملک میں جانور ہو وہاں عید کی نماز کی ادائیگی کے بعد اسے ذبح کیا جائے گا۔ اور اگر والدین وہیں قربانی کرتے ہیں تو وہیں عید کے ایام اور اوقات کا اعتبار ہوگا، یعنی وہاں کے حساب سے دس ذوالحجہ کی صبح عید کی نماز ادا کرنے کے بعد سے بارہ ذوالحجہ کا سورج غروب ہونے تک وہ قربانی کرسکتے ہیں۔ بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، 5/ 74: "هذا إذا كان من عليه الأضحية في المصر والشاة في المصر؛ فإن كان هو في المصر والشاة في الرستاق أو في موضع لا يصلى فيه وقد كان أمر أن يضحوا عنه فضحوا بها بعد طلوع الفجر قبل صلاة العيد فإنها تجزيه، وعلى عكسه لو كان هو في الرستاق والشاة في المصر وقد أمر من يضحي عنه فضحوا بها قبل صلاة العيد فإنها لا تجزيه وإنما يعتبر في هذا مكان الشاة لا مكان من عليه، هكذا ذكر محمد - عليه الرحمة - في النوادر وقال: إنما أنظر إلى محل الذبح ولا أنظر إلى موضع المذبوح عنه، وهكذا روى الحسن عن أبي يوسف - رحمه الله -: يعتبر المكان الذي يكون فيه الذبح ولا يعتبر المكان الذي يكون فيه المذبوح عنه، وإنما كان كذلك؛ لأن الذبح هو القربة فيعتبر مكان فعلها لا مكان المفعول عنه. وإن كان الرجل في مصر وأهله في مصر آخر فكتب إليهم أن يضحوا عنه روي عن أبي يوسف أنه اعتبر مكان الذبيحة فقال: ينبغي لهم أن لا يضحوا عنه حتى يصلي الإمام الذي فيه أهله، وإن ضحوا عنه قبل أن يصلي لم يجزه، وهو قول محمد - عليه الرحمة - وقال الحسن بن زياد: انتظرت الصلاتين جميعا وإن شكوا في وقت صلاة المصر الآخر انتظرت به الزوال فعنده لا يذبحون عنه حتى يصلوا في المصرين جميعا، وإن وقع لهم الشك في وقت صلاة المصر الآخر لم يذبحوا حتى تزول الشمس فإذا زالت ذبحوا عنه. (وجه) قول الحسن أن فيما قلنا اعتبار الحالين حال الذبح وحال المذبوح عنه فكان أولى ولأبي يوسف ومحمد رحمهما الله أن القربة في الذبح، والقربات المؤقتة يعتبر وقتها في حق فاعلها لا في حق المفعول عنه، ويجوز الذبح في أيام النحر نهرها ولياليها؛ وهما ليلتان: ليلة اليوم الثاني وهي ليلة الحادي عشر، وليلة اليوم الثالث وهي ليلة الثاني عشر، ولا يدخل فيها ليلة الأضحى وهي ليلة العاشر من ذي الحجة لقول جماعة من الصحابة - رضي الله عنهم -: أيام النحر ثلاثة، وذكر الأيام يكون ذكر الليالي لغة، قال الله - عز شأنه - في قصة زكريا - عليه الصلاة والسلام - {ثلاثة أيام إلا رمزا} [آل عمران: 41] وقال عز شأنه في موضع آخر {ثلاث ليال سويا} [مريم: 10] والقصة قصة واحدة إلا أنه لم يدخل فيها الليلة العاشرة من ذي الحجة؛ لأنه استتبعها النهار الماضي وهو يوم عرفة؛ بدليل أن من أدركها فقد أدرك الحج، كما لو أدرك النهار وهو يوم عرفة فإذا جعلت تابعة للنهار الماضي لا تتبع النهار المستقبل فلا تدخل في وقت التضحية وتدخل الليلتان بعدها، غير أنه يكره الذبح بالليل لا لأنه ليس بوقت للتضحية بل لمعنى آخر ذكرناه في كتاب الذبائح، والله - عز شأنه - أعلم." فقط والله أعلم فتوی نمبر : 144111200111 دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کاپی
*الکوحل والا پرفیوم لگا کر نماز پڑھنے کا حکم* سوال آج کل انڈیا سے جو پرفیوم آتا ہے، کیا اس میں الکوحل شامل ہوتا ہے یا نہیں؟ اور اسے لگا کر نماز پڑھی جاسکتی ہے؟ جواب الکحل کی دو قسمیں ہیں: (1) ایک وہ جو منقیٰ، انگور، یا کھجور کی شراب سےحاصل کی گئی ہو، یہ بالاتفاق ناپاک ہے، اس کا استعمال اور اس کی خرید و فروخت ناجائز ہے۔ (2) دوسری وہ جو مذکورہ بالا اشیاء کے علاوہ کسی اور چیز مثلاً جو، آلو، شہد، گنا، سبزی وغیرہ سے حاصل کی گئی ہو، اس کا استعمال اور اس کی خرید و فروخت جائز ہے۔ عام طور پر پرفیوم وغیرہ میں جو الکحل استعمال ہوتی ہے وہ انگوریا کھجور وغیرہ سے حاصل نہیں کی جاتی، بلکہ دیگر اشیاء سے بنائی جاتی ہے، لہذا کسی چیز کے بارے میں جب تک دلیلِ شرعی سے ثابت نہ ہوجائے کہ اس میں حرام شرابوں سے حاصل شدہ الکحل ہے، اس وقت تک اس کو ناجائز اور حرام نہیں کہہ سکتے، تاہم اگر احتیاط پر عمل کرتے ہوئے اس سے بھی اجتناب کیا جائے تو یہ زیادہ بہتر ہے۔ اور یہی حکم نماز کا بھی ہے کہ حرام الکوحل والے پرفیوم کو استعمال کرتے ہوئے نماز پڑھنا جائز نہیں، دوسری قسم والے پرفیوم کو استعمال کرتے ہوئے نماز پڑھنا درست ہوگا اور اس پرفیوم کے استعمال شدہ کپڑے پاک رہیں گے۔ تکملہ فتح الملہم میں ہے: "و أما غير الأشربة الأربعة، فليست نجسةً عند الإمام أبي حنيفة رحمه الله تعالي. و بهذا يتبين حكم الكحول المسكرة (Alcohals) التي عمت بها البلوي اليوم، فإنها تستعمل في كثير من الأدوية و العطور و المركبات الأخرى، فإنها إن اتخذت من العنب أو التمر فلا سبيل إلى حلتها أو طهارتها، و إن اتخذت من غيرهما فالأمر فيها سهل على مذهب أبي حنيفة رحمه الله تعالى، و لايحرم استعمالها للتداوي أو لأغراض مباحة أخرى ما لم تبلغ حد الإسكار، لأنها إنما تستعمل مركبة مع المواد الأخرى، ولايحكم بنجاستها أخذاً بقول أبي حنيفة رحمه الله. و إن معظم الحكول التي تستعمل اليوم في الأودية و العطور و غيرهما لاتتخذ من العنب أو التمر، إنما تتخذ من الحبوب أو القشور أو البترول و غيره، كما ذكرنا في باب بيوع الخمر من كتاب البيوع". (كتاب الأشربة، حكم الكحول المسكرة، 608/3ط: مكتبة دار العلوم) فقط والله أعلم فتوی نمبر : 144202201054 دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن