🌴العلم والعلماء🌴
January 30, 2025 at 07:26 AM
*طاقت کا نشہ اورحقیقت:ٹرمپ کے بے بنیاد اور ناقابل عمل بیانات* *✍️ از قلم : اسماعیل سعد* _ایڈمن: وائس آف القدس_ 7 اکتوبر 2023 کو جب اسرائیلی جارحیت کا آغاز ہوا تو اسرائیلی وزیر اعظم ، وزیر دفاع اور آرمی چیف سمیت سب یہی کہہ رہے تھے کہ ہم طاقت کے زور پر اپنے قیدی حماس سے رہا کروائیں گے ، حمـ.ـ.ـ.ـاس کا خاتمہ کریں گے اور غزہ پر قبضہ کرلیں گے اور اس ہر عملدرآمد کرنے کے لیے اسرائیلی افواج بجائے اس کے کہ مزاحمتی مجاہـ.ـ.ـدین کے ساتھ دو بدو جنگ کرتی غزہ کے معصوم بچوں ، خواتین اور بزرگوں کو شہید کرنا شروع کردیا اور لوگوں کے گھروں اور ہسپتالوں پر بمباری شروع کردی اور اس کا زیادہ دور شمالی غزہ میں ہوا کیونکہ مزاحمت وہاں مضبوط تھی اور اسرائیل کا یہ بھی منصوبہ تھا کہ لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ دیں اور جنوب غزہ کی طرف ہجرت کر جائیں۔ شروع شروع تو شمالی غزہ کے لوگ ڈٹے رہے اور ہجرت سے انکار کیا لیکن جارحیت کا سلسلہ تیز ہوا تو شمالی غزہ کے اکثر لوگ ہجرت کرکہ جنوب غزہ رفح بارڈر کے قریب اور ساحل سمندر پر خیموں میں قیام کرنے پر مجبور ہوگئے پھر بھی تقریباً دو لاکھ لوگ شمالی غزہ میں موجود رہے اور انہوں نے گھروں کو چھوڑنے سے انکار کردیا ۔ اسرائیل نے سوچا تھا کہ یہ سب کرنے کے بعد غزہ کے لوگ حـ.ـ.ـماس کے خلاف ہو جائیں گے اور حـ.ـ.ـماس گھٹنے ٹیک دے گی لیکن ایسا نہیں ہوا فلسطینی لوگوں کی حمـ.ـ.ـاس سے محبت اور حمایت اور زیادہ مضبوط ہوگئ اور اسرائیل کو اپنے خواب چکنا چور ہوتے نظر آے تو وہ مزید خونخوار بن گیا اور ایک منصوبہ بند نسل کشی کا آغاز کردیا ۔ رفح کا علاقہ جہاں 20 لاکھ فلسطینی خیموں میں مقیم تھے جس کو محفوظ علاقہ قرار دیا جا رہا تھا اور اقوام متحدہ سمیت عالمی تنظیموں نے بھی وہاں حملہ کرنے سے اسرائیل کو منع کیا تھا اسرائیل نے ہر حکم کو ردی کی ٹوکری میں ڈالتے ہوئے معصوم اور نہتے شہریوں پر حملہ کردیا لوگوں کے خیموں کو جلایا اور لوگ خیموں میں زندہ جلتے رہے اور یہ مناظر دنیا نے دیکھے اس کے ساتھ ساتھ ہسپتالوں پر بمباری شروع کردی ، ڈاکٹرز اور صحافیوں کو چن چن کے شہید کیا اور حتی کہ زخمیوں پر ٹینک چلاے گے اور ان کو ٹینکوں کے کچلا گیا۔ اس سب کے پیچھے اسرائیل کا اہم خفیہ منصوبہ یہ تھا کہ اب غزہ کے لوگ جان بچانے کے لیے مصر کی طرف جلا وطن ہوجائیں گے اور در بدر بھٹکیں گے اور ہمارے پاس حمـ.ـ.ـاس کو ختم کرنے کا آسان موقع میسر ہوگا لیکن اس سب کے باوجود دنیا نے دیکھا کہ لوگوں کا صبر اور جذبہ استقامت عروج پر تھا اور ان کے مسلسل یہی نعرے تھے کہ ہم اپنی زمین کو نہیں چھوڑیں گے اور حمـ..ـ.ـاس کی حمایت جاری رکھیں گے اور یہ اسرائیل کے لیے بہت زیادہ خوفناک تھا کیونکہ اس کو لگتا تھا کہ اب کچھ کامیابی ملے گی لیکن وہ ناکام ہوا ۔ اس سب ناکامی کے بعد ایک اور کاری اسرائیل نے یہ کیا کہ رفح بارڈر جہاں سے امدادی سامان غزہ میں داخل ہوتا تھا اس پر قبضہ کرکہ بند کردیا اور ہرطرح کا امدادی سامان جو رفح سے غزہ آتا تھا اس پر پابندی لگادی جس میں زخمیوں کے علاج کے لیے ادوایات ، ہسپتالوں اور ایمبولنسز کے لیے ایندھن اور بچوں اور بے گھر فلسطینیوں کے لیے کھانے پینے کا سامان شامل تھا ۔ الغرض اسرائیل نے بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کیا اور دنیا کو دکھانے کے لیے کرم ابو سالم کراسنگ سے روزانہ 40 ٹرک امدادی سامان کے نام پر غزہ لاۓ جاتے اور ان کی بھی اچھی طرح چیکنگ کی جاتی ، ان سے سامان چوری کیا جاتا یا پھر کراسنگ پر کھڑے یہودی آبادکار مکمل ٹرک کو لوٹ لیتے اور جو بچا کھچا سامان غزہ پہنچتا وہ یا تو اسرائیل کے اجرت پر تعینات کیے گئے ڈاکو چوری کرلیتے یا مشکل سے وہ مستحق لوگوں تک پہنچ پاتا ۔ واضح رہے کہ اس وقت ضرورت اس چیز کی تھی کہ روزانہ تسلسل کے ساتھ 1000 ٹرک غزہ بھیجے جاتے آخر 20 لاکھ سے زیادہ لوگ تھے ۔ اس سب کے باوجود بھی غزہ کے لوگ ڈٹے رہے اپنی سرزمین سے جلاوطنی سے مسلسل انکار کیا اور مزاحمت کے ساتھ اپنی بھر پور حمایت برقرار رکھی دوسری طرف مزاحمت نے بھی ہر میدان میں اسرائیل کو ناکوں چنے چبوائے اور یہ اسرائیل کے لیے مزید خوفناک بنتا گیا کیونکہ اب تو اسرائیل کے اندر سے ہی ابھی تک اپنا کوئ بھی وعدہ پورا نہ کرسکنے کی وجہ سے اندرونی دباؤ بڑھنے لگا اور اختلافات شروع ہونے لگ گئے اور واضح شکست فاش کے اعترافات ہونے لگے ۔ بالآخر اسرائیلی انٹیلیجنس ایجنسیوں کی طرف سے دنیا بھر میں موجود حمـ.ـ.ـاس کے لیڈرز کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کیا گیا اور ان پر حملہ کرکہ شہید کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ، اسی تناظر میں جب حـ.ـ.ـماس کے لیڈر اسماعیل ہنیہ نیو ایرانی صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے ایران آۓ ہؤے تھے 31 جولائی 2024 کی رات کو ان کے گھر پر بزدلانہ حملہ کرکہ شہید کردیا اور یہ واحد کامیابی تھی کہ اسرائیل اپنی عوام میں کامیابی کا بیانیہ بنا سکے اور واضح شکست کے بیانات کو دبایا جا سکے اور عوام کو فتح کی امید دلائی جا سکے ۔ لیکن یہاں بھی اسرائیل غلط ثابت ہوا کیونکہ حـ.ـ.ـماس نے اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد اعلان کردیا کہ ہمارے لیڈرز کی شہادت ہماری عوام کی شہادت کی طرح ہی ہے اور ایک لیڈر کی شہادت سے حمـ.ـ.ـاس کو کوئ نقصان نہیں پہنچے گا ۔ اور سب سے کاری وار حمـ.ـ.ـاس نے یہ کیا کہ اسرائیل کو انتہائی مطلوب اور 7 اکتوبر 2023 حملے کی منصوبہ بندی کرنے والے لیڈر یحییٰ سنـ.ـ.ـوار کو حمـ.ـ.ـاس کا نیا سربراہ منتخب کردیا جو غزہ میں ہی موجود تھے اور اسرائیل سے برسر پیکار تھے ۔ یہ اسرائیل کو بہت بڑا جواب تھا کہ اگر آپ ہمارے ایک لیڈر کو شہید کرکہ حماس کو ختم نہیں کرسکتے کیونکہ ارض فلسطین اس طرح کے بہت سارے لیڈر جنم دے چکی ہے اور علم جہاد اور علم مزاحمت جرآت بہادری اور استقامت کے ساتھ لیکر قیادت کرسکتے ہیں ۔ اس کے بعد اسرائیل کے اندر جو تھوڑی بہت فتح کی اور خوشی کی لہر دوڑ رہی تھی بالکل ختم ہوگئی ، اب اسرائیلیوں کو ڈر لگنے لگا کہ اب ہماری خیر نہیں ہے کیونکہ وہ سنـ.ـ.ـوار کو جانتے تھے کہ وہ کبھی گھٹنے نہیں ٹیکے گا اور اسرائیل سے برا انتقام لے گا اور اور ہمیں شکست فاش ہوگی تو اس نے پھر سے شمالی غزہ کا رخ کیا اور شمالی غزہ کو اسرائیلی فوجی کا بفر زون بنانے کا منصوبہ بنایا۔ اسرائیل کا منصوبہ تھا کہ شمالی غزہ میں موجود دو لاکھ آبادی کو جنوب کی طرف نکالا جائے ۔ اس منصوبے کا نام " جنرلوں کا منصوبہ" تھا ، یہ منصوبہ 6 اکتوبر 2024 کو شروع ہوا جس کے تحت شمالی غزہ کے لوگوں کو 6 دن میں جنوب کی طرف ہجرت کرنے کا وقت دیا گیا اور ساتھ بجلی ، پانی خوراک اور ادویات کے داخلے پر مکمل پابندی لگادی لیکن پھر بھی شمالی غزہ کے لوگوں نے اپنی سرزمین اور گھروں کو چھوڑنے سے انکار کردیا اور یوں اسرائیل کا 6 دن کا الٹی میٹم مذاق بن کر رہ گیا۔ اس سب کے دوران مجاہـ.ـ.ـدین بھی اسی شمالی غزہ سے اسرائیل پر کاری حملے کرتے رہے اور اسرائیل کے قابل فخر ٹینک مرکاوا کو تباہ اور درجنوں اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک اور زخمی کرتے رہے جس سے شمالی غزہ کے لوگوں کو مزید جذبہ ملا اور ان کے مزاحمت پر اعتماد ، صبر ، ہمت اور استقامت میں مزید اضافہ ہوا ۔ اب اسرائیل کو واضح طور پر یہ منصوبہ بھی ناکام ہوتا نظر آرہا تھا حتیٰ کہ اندرونی اختلافات مزید بڑھ گئے اور اب تو اسرائیلی فوجیوں اور افسران سمیت سابق انٹیلیجنس اور فوجی افسران نے بھی یہ کہنا شروع کردیا تھا کہ اسرائیل طاقت کے زور پر اپنے وعدے پورے نہیں کرسکتا کیونکہ وہ بری طرح جنگ ہار رہا ہے لہذا اسرائیل کو حمـ.ـ.ـاس کی شرائط مان لینی چاہیے ہیں اور جنگ بند کردینی چاہیے لیکن اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو ڈر تھا کہ اگر اس حالت میں جنگ بند ہوگئی تو وہ اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ یہ ایسا وقت تھا کہ اسرائیل کو کسی بھی طرف سے کامیابی نظر نہیں آرہی تھی کہ بالآخر اس دوران حـ.ـ.ـماس کے نیو منتخب لیڈر یحییٰ سنـ.ـ.ـوار کی اسرائیلی فوج کے ساتھ جھڑپ میں 16 اکتوبر کو شہادت ہوجاتی ہے جس کا اسرائیل کو خود کو بھی اندازہ نہیں تھا اور شہادت کے ایک دن بعد پتہ چلا کہ ہم نے کل جھڑپ میں جس فلسطینی مجاہـ.ـ.ـد کو شہید کیا وہ کوئ عام مجاہـ.ـ.ـد نہیں بلکہ حمـ.ـ.ـاس کا لیڈر یحییٰ سنـ.ـ.ـوار ہے ۔ اب بدقسمتی سے یہ اسرائیل کی چھوٹی سی فتح تھی لیکن اس کی یہ فتح بھی اس وقت شکست میں بدل گئ جب یحییٰ سـ.ـ.ـنوار کی شہادت کے وقت کی آخری فوٹیج منظر عام پر آئی جس میں وہ شدید زخمی ہونے کے باوجود آخری وقت تک مزاحمت کرتے نظر آرہے ہیں اور جب آہستہ آہستہ مزید چیزوں کا انکشاف ہوا تو پتہ چلا کہ اسرائیل کے وہ تمام دعوے اور پروپیکینڈے کے یحییٰ سـ.ـ.ـنوار غاروں میں بیٹھ کر عیاشی کررہا ہے اور لگثری ماحول میں ہے جھوٹے اور غلط ثابت ہوئے کیونکہ اسرائیلی ڈاکٹروں نے پوسٹ مارٹم رپورٹ کے اندر خود انکشاف کیا کہ یحیٰی سـ.ـ.ـنوار شہادت سے 72 گھنٹے پہلے تک کے بھوکے تھے انہوں نے کھانا نہیں کھایا تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یحیٰی سنـ.ـ.ـوار 72 گھنٹے سے میدان جنگ میں تھے اور اسرائیلی فوج سے فرنٹ میدان پر لڑ رہے تھے۔ ان چیزوں کے منظر عام پر آنے کے بعد غزہ کی عوام اور مجاہـ.ـ.ـدین کا مزاحمت پر اعتماد مزید بلند ہوا اور دنیا بھر میں اسرائیل منہ دکھانے لائق نہیں رہا لیکن پھر بھی ناکام کوشش کرتا رہا اور اپنی جارحیت کا سلسلہ جاری رکھا حالانکہ اس کو اپنی شدید شکست کا علم ہوچکا تھا اور اس کو شیشے میں واضح طور پر نظر آرہا تھا کہ جنگ کے شروع میں کیے گئے تین وعدے کہ حماس کا خاتمہ کرے گا ، اپنے قیدیوں کو رہا کرواے گا اور غزہ پر قبضہ کرے گا ان میں سے ابھی تک ایک بھی مکمل نہیں ہوا اور نہ ہی کوئ چانس نظر آرہے ہیں کیونکہ ابھی تک حمـ.ـ.ـاس مضبوط تھی اور دی روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق دوران جنگ حـ.ـ.ـماس نے 10 سے 15 ہزار مجاہـ.ـ.ـدین کو اپنی صف میں شامل کیا اور ان کو ٹریننگ دی۔ اسی طرح قیدیوں کو جدید ترین ٹیکنالوجی اور جاسوسی طیاروں کے ذریعے تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام ہوا اور جہاں چند ایک قیدیوں کا مقام معلوم ہوا تو بجائے اس کے کو ان کو زندہ واپس لے جاتا اپنے ہی قیدیوں کو ہلاک کردیا تاکہ مزید شرمندگی سے بچا جا سکے اور تیسرا وعدہ کے غزہ کے لوگوں کو جلا وطن کرکہ غزہ پر قبضہ کرے گا اس کی کہانی تو آپ پڑھ ہی چکے ہیں کہ کس طرح بار بار ناکام کوشش کی اور ہزیمت اور ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سب کے بعد اسرائیل کے پاس ایک ہی راستہ تھا کہ ذلت کے ساتھ حـ.ـ.ماس کے سامنے سرنڈر کرے اور شرائط کو تسلیم کرے لیکن اس کو کوئ راستہ نہیں مل رہا تھا کیونکہ اس کو بیانیہ بنانے کے لیے کسی سبب اور بہانے کی ضرورت تھی اور امریکہ میں انتخابات کے بعد نیو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا انتخاب اسرائیل کو ایک چانس نظر آنے لگا کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ بھی بار بار دھمکیاں دے رہا تھا کہ 20 جنوری 2025 میری حلف برداری سے پہلے پہلے جنگ بندی ہو جانی چاہیے ورنہ مشرق وسطیٰ کو جہنم بنا دے گا ۔ اب اسرائیل کو لگنے لگا کہ وہ ایک بیانیہ بنا سکتا ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ کو خوش کرنے کے لیے جنگ بندی کرسکتا ہے اور یقیناً جنگ بندی کے لیے ٹرمپ کا دباؤ بھی تھا جس کی وجہ سے مجبور اور لاچار ہوکر حماس کے قدموں میں آن پڑا اور حماس کی اول روز سے طے شدہ شرائط پر ہی جنگ بندی پر راضی اور ذلت کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے۔ میں یہاں جنگ بندی معاہدے پر زیادہ تفصیلی بات نہیں کرنا چاہتا کیونکہ چیزیں آہستہ آہستہ سامنے آتی جائیں گی اور آپ لوگوں کو علم ہوتا رہے گا میرا آج کا اصل موضوع تھا غزہ کے لوگوں کو مصر اور اردن سمیت دیگر ممالک کی طرف جلاوطن کرنے کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر رد عمل دینا ۔ میرے خیال امریکی صدر دماغی توازن کھو بیٹھا ہے اور اس پر طاقت کا بھوت سوار ہے اور ابھی تک اس نے اس جنگ سے کوئ سبق نہیں سیکھا یہی وجہ ہے کہ اس نے کل بیان دیا کہ اب غزہ تباہ ہوچکا ہے اور ناقابل رہائش بن چکا ہے لہذا غزہ کے لوگوں کو چاہیے مصر ، اردن اور دیگر ممالک کی طرف چلے جائیں اور اس کا کہنا تھا کہ ہم ان کے لیے ہم ہر ملک میں امیگریشن بھی آسان کردیں گے۔ اس کا یہ کہنا بظاہر اہل غزہ سے اظہار ہمدردی اور سلامتی اور ان کی بھلائی کے لیے ہے اور اس بیان کو بن گویر اور سموٹریچ جیسے انتہاء پسند فلسطین دشمن اسرائیلی سیاستدان اور وزراء بھی خوش آئند سمجھ رہے ہیں اور اسرائیلی وزیر اعظم سے مطالبہ بھی کررہے ہیں کہ ٹرمپ کی اس خواہش پر عمل کیا جائے اور اہل غزہ کو دیگر ممالک میں جانے کے لیے آسان راستہ دیا جائے ۔ لیکن اس کے پیچھے جو اصل منصوبہ وہی ہے کہ جو کام ہم طاقت اور جنگ کے زور پر نہیں کرسکے امن و سلامتی اور اظہار ہمدردی کا نام استعمال کرکہ کرلیں اور غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کردیں ۔ لیکن مین مسلمانوں سے کہتا ہوں کہ آپ لوگ پریشان نہ ہوں ہم اہل غزہ کی بات کررہے ہیں جو اس وقت ایمان اور استقامت کے اعلیٰ ترین مقام پر ہیں، وہ اہل غزہ جو اپنی زندگی کے بدترین وقت میں بھی اپنی سرزمین چھوڑنے پر راضی نہیں ہوئے کیا وہ صرف امیگریشن کی آسانی کی وجہ سے اپنی زمین چھوڑ دیں گے ؟ کیا اہل غزہ کے ایمان اور ان کے صبر واستقامت کو اتنا کمزور سمجھ لیا گیا ہے ؟ اب بھی لاکھوں لوگ جو شمال سے ہجرت کرکہ جنوب اے تھے وہ واپس شمال جانے کی تیاری کرکہ بیٹھے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ وہاں ان کے گھر تباہ اور ناقابل رہائش چکے ہیں یا مکمل طور پر ملبے میں بدل چکے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ ہم واپس جائیں گے اور اہنے گھروں کو دوبارہ اور پہلے سے اچھا تعمیر کریں گے۔ ان شاءاللہ تعالیٰ
❤️ 👍 🙏 13

Comments