Asif Mahmood
January 25, 2025 at 10:36 AM
کیا قصور فلسطینیوں کا ہے؟ آصف محمود | ترکش | روزنامہ 92 نیوز ایک رائے یہ دی جاتی ہے اور ایک طبقے کی جانب سے مسلسل دی جاتی ہے کہ جب اقوام متحدہ نے فلسطین کو تقسیم کر کے یہاں اسرائیل اور فلسطین نامی دو ریاستیں قائم کرنے کا اعلان کیا تو فلسطینیوں کو اسے قبول کر لینا چاہیے تھا۔ فلسطینیوں نے غلطی کی ، عقل سے کام نہیں لیا اور اس کا خمیازہ وہ آج تک بھگت رہے ہیں۔ سوال وہی ہے: کیا علم کی دنیا میں اس رائے کا کوئی اعتبار ہے؟ اور جواب بھی بعینہ وہی ہے: ہر گز کوئی اعتبار نہیں۔ یہ ناقص ، نا معتبر اور یک طرفہ رائے ہے جو لاعلمی ا ور خلط مبحث کی بنیاد پر قائم کی گئی ہے۔ اسرائیل ایک ناجائز ریاست تھی۔ یہ اقوام متحدہ کا چارٹر پامال کر کے بنائی گئی۔ جس وقت فلسطین کو تقسیم کر کے یہاں اسرائیل نامی ریاست کے قیام کا ناجائز طور پر اعلان کیا گیا اس وقت بھی ، فلسطین کی کل زمین کے 96 فی صد کے مالک فلسطینی عرب تھے ۔اور یہ میں نہیں کہہ رہا ، اقوام متحدہ کی اپنی دستاویز بتا رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ فلسطینی اس بندر بانٹ کی مخالفت کیوں نہ کرتے؟ انہوں نے ایسا کون سا جرم کر دیا کہ آج بھی ان کو لعن طعن کی جاتی رہے کہ تم عقل سے پیدل ہو؟ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ مسلمانوں نے کبھی یہود دشمنی اختیار نہیں کی۔ وہ صہیونیت کے مخالف تھے۔ بقائے باہمی کے باب میں مسلمانوں کا رویہ یہ تھا کہ انتداب کے زمانے میں فلسطین کونسل نے یہ باقاعدہ تجویز پیش کی تھی کہ اگر چہ اعلان بالفور کے بعد یہاں یہود کی جبری آبادکاری ناجائز عمل ہے لیکن اس کے باوجود آئیے مل کر ایک پارلیمان بناتے ہیں اور ملک کا نظام جمہوری طریقے سے چلاتے ہیں۔ صہیونیوں نے اس تجویز کو قبول کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ کسی بقائے باہمی کے قائل ہی نہیں تھے۔ فلسطینیوں پر یک طرفہ ملامت کے بعد ، اگر مناسب سمجھا جائے تو یہ بھی دیکھ لیا جانا چاہیے کہ صہیونیوں اور اسرائیل کا اپنارویہ کیا تھا۔ کیا وہ ایک لمحے کے لیے بھی کسی دو ریاستی حل پر رضامند ہوئے تھے؟ حقیقت یہ ہے کہ صہیونیوں نے فلسطینی مسلمانوں کا صفایا کرنے کے علاوہ کبھی کوئی پالیسی رکھی ہی نہ تھی۔ دیر یاسین وہ پہلا گائوں تھا جسے اسرائیل نے تباہ کیا اور وہاں قتل عام کیا۔ کیا کسی کو معلوم ہے کہ اس گائوں کے مسلمان مختار( نمبر دار ہی کہہ لیں ) نے یہودیوں کے ساتھ معاہدہ کر لیا تھا کہ ہم مل جل کر آگے بڑھیں گے ۔ سوال یہ ہے کہ اس معاہدے کے بعد اس گاؤں کو برباد کرنے کی حکمت کیا تھی؟ اس کا جواب اسرائیلی قیادت خود دے چکی ہے کہ ہم مسلمانوں کے ساتھ رہ ہی نہیں سکتے تھے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ دیر یاسین کا گاؤں تو اس علاقے میں تھا جو اقوام متحدہ نے اسرائیل کو دیا ہی نہیں تھا۔ پھر اسرائیل یہاں کیا لینے گیا؟ درجنوں شہر اور سینکڑوں گائوں ایسے تھے جو اقوام متحدہ نے اسرائیلی ریاست کو نہیں بلکہ فلسطینی ریاست کو دیے تھے۔ صہیونیوں نے اسرائیلی ریاست کے قیام کے اعلان سے پہلے ہی یہاں حملے کر دیے ، قتل عام کیا ، آٹھ لاکھ فلسطینی ہجرت کر گئے۔سوال یہ ہے کہ یہاں ایسا کیا ہوا تھا کہ مسلمانوں پر ایسی قیامت مسلط کی جاتی؟ اسرائیل نے تو کبھی فلسطینیوں کا وجود تسلیم نہیں کیا ،اسرائیلی وزیر اعظم گولڈا مائر نے کہا تھا : ’’ فلسطینی اپنا کوئی وجود نہیں رکھتے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم آئے اور انہیں نکال باہر کیا۔ ان کا کبھی کوئی وجود تھا ہی نہیں"۔ نیشنل جیوش فنٖڈکے ڈائریکٹر یوسف ویز کا کہنا تھا : "یہ بات ہمیں اچھی طرح جان لینی چاہیے کہ یہاں عربوںکی کوئی گنجائش نہیں، کرنے کا ایک ہی کام ہے کہ ان کا صفایا کر دیا جائے۔ نہ کوئی گائوں باقی چھوڑنا چاہیے نہ کوئی قبیلہ‘‘۔ یورام بن پورتھ نے لکھا :’’ عربوں کو یہاں سے نکالے اور ان کی زمینوں پر قبضے کیے بغیر یہودی ریاست کا کوئی وجود نہیں ہو سکتا‘‘۔ ہرزل اور جیوش کانگریس کے درجنوں حوالے بھی یہاں دیئے جا سکتے ہیں کہ ان کا اصل منصوبہ کیا تھا۔ یہ کہنا بڑا آسان ہے کہ فلسطینیوں کو جمہوری جدو جہد کرنی چاہیے تھی۔ آج بھی ایسامشورہ دینا بہت آسان ہے۔انہیں یہ طعنہ بھی بہت آسان ہے کہ وہ آج تک یہ نہیں سمجھ سکے کہ عقل استعمال کرنے کی چیز ہے لیکن زمینی حقائق ان مشوروں سے بالکل برعکس کہانی سناتے ہیں۔ فلسطینیوں پر پہلے دن سے آج تک کیا بیت رہی ہے یہ ایک طویل موضوع ہے اور اسے جانے بغیر ان پر طنز کے تیر چلانا بڑی سنگ دلی ہے۔ یہ ہومیو پیتھک نسخہ ہر بیماری کا علاج نہیں بن سکتا کہ طاقت کا توازن خراب ہے اس لیے مسلمان مزاحمت نہ کریں ، عقل کریں اور جمہوری جدو جہد کریں۔ مسلمان کون سے دو ریاستی حل کی بات کرتے؟ فلسطین ان کا تھا ، چھین لیا گیا ۔ کس قانون کے تحت؟ اقوام متحدہ نے دو ریاستوں کی بات کی ، ایک ریاست اسرائیل کو اقوام متحدہ نے فوری طور پر اپنا رکن بنا لیا لیکن دوسری ریاست فلسطین کو اس نے آج تک رکنیت نہیں دی۔ چند علاقے ہیں جنہیں فلسطین کہا جاتا ہے اور جہاں عملا اسرائیل کا قبضہ ہے۔ یونین کونسل کے چیئر مین سے بھی کم اختیار ات فلسطینی اتھارٹی کے محمود عباس کے پاس ہیں۔ اسرائیل نے دو ریاستی حل کی شکل میں کسی فلسطینی ریاست کو کیا قبول کرنا ، اس نے تو آج تک اپنا نقشہ جاری نہیں کیا۔ وہ تو اردن ، شام ، مصر اور حتی کہ سعودی عرب تک کے علاقوں پر قبضہ کرنے کے واضح عزائم رکھتا ہے۔ موشے دایان نے کہا تھا؛’’ ہم اپنی ریاست کی حدود کا تعین کرنے کے پابند نہیں ‘‘۔ْ اس کا کیا مطلب ہے؟اس کا مطلب یہ ہے کہ نیل سے فرات تک جب موقع ملا ، سب چھین لیں گے۔ یہ بات اسرائیل کے پرچم میں باقاعدہ موجود ہے کہ اسرائیل کی حدیں نیل سے فرات تک ہیں۔ اسرائیل کو اقوام متحدہ کی رکنیت تین شراط پر دی گئی۔ ان میں سے ایک شرط یہ تھی کہ وہ ان سرحدوں سے باہر نہیں جائے گا جو اقوام متحدہ نے وضع کی ہیں۔ لیکن بن گوریان نے کہا اقوام متحدہ کی ایسی تیسی۔ چنانچہ وہ آج اس سارے علاقے پر بھی قابض ہے جو اقوام متحدہ نے فلسطینی ریاست کو دیا تھا۔ وہ اس یروشلم پر بھی قابض ہے جو اقوام متحدہ نے اپنے پاس رکھا تھا۔ جس کے سامنے اقوام متحدہ بے بس ہوئی پڑی ہے اس کے سامنے فلسطینیوں سے کہا جا رہا ہے کہ تم جمہو ری جدوجہد کیوں نہیں کرتے۔ اسرائیلBiblical Lands کے تصور کے تحت چل رہا ہے ۔ وہ نہ صرف سارے فلسطین بلکہ آس پاس کے ممالک کے علاقہ جات پر بھی اپنا حق رکھنے کے عقیدے کا حامل ہے۔ اس کے مقابل اگر چند نہتے ، بے بس، مظلوم ڈٹے ہیں تو انہیں طنز و حقارت کا نشانہ تو نہ بنائیے۔ ان کے حق میں بات کرنا گوارا نہیں تو انہیں کم عقل کہنا کون سی دلاوری ہے؟ #palestine #asifmahmood #gaza #gazagenocide
❤️ 👍 😢 🌹 🎉 😂 88

Comments