Asif Mahmood
February 1, 2025 at 04:13 AM
فلسطینی مزاحمت اور اہل فکر کے مغالطے
آصف محمود | ترکش | روزنامہ 92 نیوز
اہل فکر دلیل دیتے ہیں : ہم امریکہ اور اسرائیل کو کیا مشورہ دیں وہ ہماری سنتے ہی کب ہیں۔ہم تو اپنوں کو ہی کہہ سکتے ہیں اور فلسطینیوں ہی کو ڈانٹ سکتے ہیں ۔ معاملہ مگر یہ ہے کہ یہ دلیل بھی نا معتبر ہے۔ پہلے پیار سے کچھ پہلے کے جھوٹے وعدوں کی طرح۔
سوال یہ ہے کہ لکھنے والے کب سے اس بات کے محتاج ہو گئے کہ کوئی سنے گا تو لکھیں گے؟ لکھنے والے کو لکھنا ہے اور سچ لکھنا ہے اور اس سے بے نیاز ہو کر لکھنا ہے کہ کون سنتا ہے اور کون نہیں۔ یہ کیسی فروری کی دھوپ جیسی میٹھی دلیل ہے کہ امریکہ کے ظلم و ستم پر کیا لکھیں ، وہ بد معاش ہم بہو بیٹیوں کی سنتا ہی کب ہے۔
تاہم اگر یہی پیمانہ ہے اور اہل فکر کا اسی پر اصرار ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ اگر امریکہ ہماری نہیں سنتا تو غزہ والے کون سے ہمارے اردو کے کالم پڑھ کر اپنی پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں اور ناشتے کے وقت سرنگوں میں منتظر بیٹھے ہوتے ہیں کہ پہلے کالم پڑھیں گے اور اس کے بعد چائے پئیں گے۔ امریکہ اور اسرائیل اور فلسطین تو دور کی بات ہے ، ہمارے کالم تو عمران خان اور نواز شریف بھی نہیں پڑھتے ، اس صورت میں پھر کیا جائے؟ اسی معیار پر معاملہ کیا جائے تو پھر خودنوشت ہی لکھی جا سکے گی۔
ظلم ہو رہا ہے ، بین الاقوامی قانون پامال ہو رہا ہے ، نسل کشی ہو رہی ہے ، جنگی جرائم کا ارتکاب ہو رہا ہے ، کیا ان سب پر صرف اس لیے نہ لکھا جائے کہ امریکہ اور اسرائیل ہماری کب سنتے ہیں؟
ؑعشق جاں گداز میں ’ اپنوں‘ کی گرہ بھی خوب لگی۔ اس اپنائیت پر کون نہ مر جائے اے خدا۔ ویسے تو ہم ایک گلوبل ولیج کے باشندے ہیں ، دارالحرب اور دارلاسلام جیسی اصطلاحیں اب بے معنی ہو چکیں ، اعلان تازہ یہ ہے کہ ٹیکساس بھی ہماری ’ اپنی‘ ریاست ہے۔ لیکن نوک قلم کی زد میں کبھی ٹیکساس والے’ اپنے‘ نہیں آتے۔ برق قلم گرتی ہے تو غزہ والے’ اپنوں ‘ پر۔
ہر لڑائی پر ایک ہی نسخہ کیمیا کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ ایک لڑائی وہ ہے جو آپ شروع کرتے ہیں ۔ اس میں آپ حساب سودو زیاں کاخیال رکھتے ہیں ، جمع تقسیم کرتے ہیں۔ اپنی بی اے کی ڈگری کی تصدیق کرواتے ہیں۔لیکن ایک لڑائی وہ ہے جو آپ پر مسلط کر دی جاتی ہے ، اس میں پھر حساب سودو زیاں کا کریانہ سٹور کھولنے کا وقت نہیں ہوتا۔ یہ لڑائی آپ کو لڑنا ہوتی ہے۔ آپ اس وقت یہ نہیں کہہ سکتے کہ ٹھہریے میرا ’بی اے‘ خطا ہو رہا ہے میں ذرا پہلے’ بی اے‘ کر آؤں۔
دوسرا معاملہ یہ ہے کہ فلسطینی پون صدی سے انتظار کر رہے ہیں کہ امت مسلمہ ’بی اے ‘کر لے ۔ لیکن امت کا ’ بی اے‘ نہیں ہو رہا ۔اٹکا پڑا ہے۔
پھر یہ کس نے کہا کہ مزاحمت صرف مسلح ہی ہوتی ہے؟معاملہ یہ نہیں کہ مزاحمت مسلح ہی ہوتی ہے۔ہاں مگر معاملہ یہ ہے کہ مزاحمت مسلح بھی ہوتی ہے۔
فلسطین کی مزاحمت کب صرف مسلح تھی۔ اس میں تو جدوجہد کی قوس قزح کے سارے رنگ موجود تھے۔یہ مزاحمت صرف مسلح نہیں تھی۔ یہ مزاحمت قانون کی دنیا میں بھی ہوئی ، دلیل کے ساتھ ہوئی ، اقوام متحدہ میں بھی ہوئی ، ادب میں بھی ہوئی ، عالمی عدالت انصاف میں بھی ہوئی ، سماجی سطح پر بھی ہوئی ، معاشی بائیکاٹ کی شکل میں بھی ہوئی۔
یہ کیسا انصاف ہے کہ ایک طبقہ مزاحمت کے اس تمام رنگوں سے بے نیاز رہے ، اور صرف بے نیاز نہ رہے ، زبان حال سے ان کا تمسخر بھی اڑاتا رہے کہ یہ ایک بے کار مشقت ہے، اس کے لشکری امریکہ کو دنیا کا مہذب ترین فاتح قرار دے کر انسانیت کے شعور اجتماعی کا مذاق اڑاتے رہیں ، اور پھر جب بے بس مظلوم جانوں کی قربانی دے کر گھروں کو لوٹیں تو یہ انہی پر طعنہ زن ہو جائیں کہ تم تو بے بصیرت تھے۔ تمہیں تو عقل چھو کر نہیں گزری تھی ، تم نے مزاحمت کی ہی کیوں ؟ کیا تمہیں معلوم نہیں تھا کہ دنیا کے مہذب ترین فاتح کے سامنے مزاحمت کرنا حماقت ہے۔
یہ فیصلہ انہی کو زیبا ہے جو مزاحمت کر رہے ہیں اور قریب ایک صدی سے کر رہے ہیں کہ انہوں نے کب کون سی مزاحمت کرنی ہے۔ وہ ان سارے مراحل ، ساری امیدوں ، ساری رخصتوں ، سارے وعدوں سے گزر کر یہاں تک پہنچے ہیں کہ اب جان جاتی ہے تو جائے لیکن یہ ہمارا آخری مورچہ ہے۔ اس مورچے سے ہجرت نہیں ہو گی۔وہ اکیلے ، تنہا اپنے جائز حق کے لیے لڑ رہے ہیں ، کچھ کے سر پر قضا کھیل چکی اور کچھ اس کے منتظر ہیں مگر ڈگمگایا ان میں سے کوئی بھی نہیں۔
اہل فکر کی جانب سے ایک مثال دی جاتی ہے کہ اگر آپ کے کسی قریبی کے گھر ڈاکو آ جائے تو آپ کیا کریں گے؟ کیا آپ اپنے نہتے رشتہ داروں سے لڑنے اور مرنے کا کہیں گے یا آپ انہیں جان بچانے کی تلقین کریں گے۔ یعنی خیر خواہی کیا ہے؟ ان سے یہ کہنا کہ تم سچے ہو ، اب نہتے اور اکیلے لڑ کر بے شک مر جاؤ ۔ یا ان سے یہ کہنا کہ اس وقت تم کمزور ہو جان بچا لو ۔ ۔۔۔۔۔یہ مثال بھی درست نہیں ہے۔ میں عرض کرتا ہوں کہ کیوں درست نہیں ہے۔
آپ بے شک پہلی بار یہی کہیں گے کہ جان بچا لو۔ لیکن اگر آپ کے عزیزوں کے گھر پر ہر دوسرے مہینے ڈاکو دھاوابول دیں ، روز کسی کو پکڑ کر لے جائیں ، روز مال لوٹ لے جائیں ، روز کسی کا ہاتھ پائوں توڑ جائیں ، وہ ایک گھر چھوڑ کر دوسرے میں جائیں اور نئی دنیا آباد کریں تو ڈاکو وہاں بھی قبضہ کرنے آ جائیں اور آپ اس سارے عمل میں لاتعلق ہو کر بیٹھے رہیں ۔آپ ان ڈاکوؤں کو دنیا کا مہذب ترین گروہ قرار دے دیں ۔پھرکسی روز تنگ آ کر آپ کے عزیزڈاکوؤں کے کھنے سینک دیں کہ اب جو ہو گا دیکھا جائے گا ۔ وہ نہتے ہوں مگر بے پناہ نقصان اٹھا کر بھی ڈاکوؤں سے گھر کا ایک حصہ خالی کرا لیں تو آپ چوک میں آ کر انہیں ہی لعن طعن شروع کر دیں کہ تم کتنے احمق ہو، بھلا ڈاکوؤں سے بھی کوئی لڑتا ہے۔وہ خوش ہوں تو آپ انہیں طعنے دینے آ جائیں کہ کم بختو یہ کیسی فتح ہے۔
آپ کے عزیز آپ سے شکوہ کریں کہ سارا غصہ ہمارے اوپر ، کچھ تو ڈاکوؤں سے بھی کہو تو آپ آگے سے کہہ دیں ڈاکو میری کب سنتے ہیں ، میں تو صرف آپ کو ہی لعن طعن کروں گا تو پھر کیا یہ آپ اپنے عزیزوں سے خیر خواہی کر رہے ہیں یا ڈاکوؤں کی سہولت کاری۔
ادھورا سچ ، سچ نہیں ہوتا۔
❤️
👍
🫡
🌷
🎯
💐
💖
😢
65