🌎دلچسپ معلومات🌎
February 5, 2025 at 05:33 PM
صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی
قسط نمبر.28"لڑکی جو فلسطین سے آئ تهی""
ترتیب و پیشکش👇👇👇
..........🌹آزادالفت🌹
حبشیوں کا یہ قبیلہ جو انگوک کہلاتا تھا ، خوفزدہ تھا ۔ ایک تو ان کے دیوتا کی قربانی پوری نہیں ہوئی ، دوسرے ان کا پروہت مارا گیا ، تیسرے ان کے دیوتاکا بت اور مسکن ہی تباہ کر دیا گیا اور چوتھی مصیبت یہ نازل ہوئی کہ قبیلے کے سینکڑوں جوان دیوتا کی توہین کا انتقام لینے گئے تو انہیں شکست ہوئی اور زیادہ تر مارے گئے ۔ اس قبیلے کے گھر گھر میں ماتم ہورہا تھا ۔ان میں سے بعض لوگ یہ بھی سوچنے لگے تھے کہ جس نے ان کا دیوتا کا بت توڑا ہے وہ کوئی بہت ہی بڑا دیوتا ہوگا ۔ مرے ہوئے پروہت کے جانشیں نے جب اپنے قبیلے کا یہ حال دیکھا تو اس نے پہلے یہ کہا کہ دیوتا کے مگر مچھ بھوکے ہیں ، ان کے پیٹ بھرو۔ حبشیوں نے کئی ایک بکریاں مگر مچھوں کے لیے بھیج دیں ۔ ایک نے تو اونٹ پروہت کے حوالے کر دیا ۔یہ جانور کئی دن تک مگر مچھوں کی جھیل میں پھینکے جاتے رہے مگر قبیلے سے خوف کم نہ ہوا ۔
ایک رات نئے پروہت نے قبیلے کو پہاڑی جگہ سے باہر جمع کیا اور اس نے دیوتائوں تک رسائی حاصل کی ہے ۔ دیوتائوں نے یہ اشارہ دیا ہے کہ چونکہ وقت پر لڑکی کی قربانی نہیں ہوئی اس لیے قبیلے پر یہ مصیبت نازل ہوئی ہے ۔ دیوتائوں نے کہا کہ اب بیک وقت دو لڑکیوں کی قربانی دی جائے گی تو مصیبت ٹل سکتی ہے ۔ ورنہ دیوتاسارے قبیلے کو چین نہیں لینے دیں گے ۔ پروہت نے یہ بھی کہا کہ لڑکیاں انگوک نہ ہوں اور سوڈان کی بھی نہ ہوں ۔ ان کا سفید فام ہونا ضروری ہے ……اتنا سننا تھا کہ قبیلے کے بہت سے دلیر اور نڈر آدمی اٹھ کھڑے ہوئے ۔ انہوں نے کہا کہ وہ مصر سے دو فرنگی یا مسلمان لڑکیاں اٹھا لائیں گے ۔
ادھر سے رجب فلسطین سے تین صلیبی لڑکیاں دس محافظوں کے ساتھ لا رہا تھا ۔ اس کا سفر بہت لمبا تھا اور یہ سفر خطرناک بھی تھا ۔ وہ سلطان ایوبی کی فوج کا بھگوڑا اور باغی سالار تھا ۔ اسے معلوم تھا کہ سرحد کے ساتھ ساتھ سلطان ایوبی نے کشتی پہرے کا انتظام کر رکھا ہے ، اس لیے وہ اپنے قافلے کو دور کا چکر کاٹ کر لا رہا تھا ۔ اس کے قافلے میں تین اونٹ تھے جن پر پانی ، خوراک اور صلیبیوں کا دیا ہوا بہت سارا سامان لدا ہوا تھا ۔ باقی سب گھوڑوں پر سوار تھے ۔ کئی دنوں کی مسافت کے بعد وہ دیوتائوں کے پہاڑی مسکن میں پہنچ گئے ۔ اس سے ایک ہی روز پہلے قبیلے کے پروہت نے کہا تھا کہ وہ سفید فام اور سوڈان کے باہر کی لڑکیوں کی قربانی دینی ہے ۔ رجب سب سے پہلے پروہت سے ملا۔ پروہت نے اس کے ساتھ تین سفید فام اور بہت ہی حسین لڑکیاں دیکھیں تو اس کی آنکھیں چمک اُٹھیں ۔ یہ لڑکیاں قربانی کے لیے موزوں تھیں ۔ اس نے رجب سے لڑکیوں کے متعلق پوچھا تو رجب نے اسے بتایا کہ انہیں وہ خاص مقصد کے لیے اپنے ساتھ لایا ہے ۔
رجب لڑکیوں کو پہاڑیوں کے اندر ایک ایسی جگہ لے گیا جو سر سبز اور خوشنما تھی او ر تین اطراف سے پہاڑیوں میں گھری ہوئی تھی ۔ وہاں رجب نے خیمے گاڑ دئیے تھے ۔ لڑکیوں کو چوری چھپے موقع محل دیکھ کر قاہرہ میں ان دو آدمیوں کے حوالے کرنا تھا ۔ جن کے اتے پتے اسے صلیبیوں نے دئیے تھے ۔ لڑکیوں کے آرام و آسائش کا پورا انتظام تھا ۔ رجب نے وہاں شراب کا بھی انتظام کر رکھا تھا ۔ رات اس نے سفر سے کامیاب لوٹنے کی خوشی میں جشن منایا ۔ صلیبی محافظوں کو بھی شراب پلائی ۔ لڑکیوں نے بھی پی ۔
آدھی رات کے بعد جب محافظ اور اس کے چند ایک ساتھی جو پہلے ہی وہاں موجود تھے سوگئے تو رجب ایک لڑکی کو بازو سے پکڑکر اپنے خیمے میں جانے لگا ۔ لڑکی اس کی نیت پھانپ گئی ۔ اس نے اسے کہا ……'' میں طوائف نہیں ہوں ۔ میں یہاں صلیب کا فرض لے کر آئی ہوں ۔ میں آپ کے ساتھ شراب پی سکتی ہوں مگر بدی قبول نہیں کروں گی ''۔
رجب نے اسے ہنستے ہوئے اپنے خیمے کی طرف گھسیٹا تو لڑکی نے اپنا بازو چھڑا لیا ۔ رجب نے دست درازی کی تو لڑکی دوڑ کر اپنی ساتھی لڑکیوں کے پاس چلی گئی ۔ وہ دونوں بھی باہر آگئیں ۔ انہوں نے رجب کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ انہیں غلط نہ سمجھے ۔
رجب کو غصہ آگیا ۔اس نے کہا …… '' میں جانتا ہوں تم کتنی پاک بازہو۔ بے حیائی تمہارا پیشہ ہے ''۔
''اس پیشے کا استعمال ہم وہاں کرتی ہیں جہاں اپنے فرض کے لیے ضروری ہوتاہے ''۔ لڑکی نے کہا ……''ہم عیاشی کی خاطر عیاشی نہیں کیا کرتیں ''۔
رجب ان کی کوئی بات نہیں سمجھنا چاہتاتھا ۔ آخر لڑکیوں نے اسے کہا ……''ہمارے ساتھ دس محافظ ہیں ۔ وہ ہماری حفاظت کے لیے ساتھ آئے ہیں ۔ انہیں کل واپس چلے جانا ہے ۔اگر ہم نے ان کی ضرورت محسوس کی تو ہم انہیں یہاں روک سکتی ہیں یا خود یہاں سے جاسکتی ہیں ''۔
رجب چپ ہوگیا مگر اس کے تیور بتا رہے تھے کہ وہ لڑکیوں کو بخشے گا نہیں۔ وہ رات گزر گئی ۔ دوسرے دن رجب نے فلسطین سے ساتھ لائے ہوئے محافظوں کو رخصت کر دیا …… دن گزر گیا۔ شام کے وقت رجب لڑکیوں کے ساتھ بیٹھا ادھر ادھر کی باتیں کر رہا تھا کہ پروہت اپنے چارحبشیوں کے ساتھ آگیا۔اس نے سوڈانی زبان میں رجب سے کہا ……''ہمارے دیوتاہم سے ناراض ہیں ۔ انہوں نے دو فرنگی یامسلمان لڑکیوں کی قربانی مانگی ہے۔ یہ لڑکیاں قربانی کے لیے موزوں ہیں ۔ ان میں سے دو لڑکیاں ہمارے حوالے کر دو ''۔
رجب چکر اگیا ۔ اس نے جواب دیا ……''یہ لڑکیاں قربانی کے لیے نہیں ہیں ۔ ان سے ہمیں بہت کام لینا ہے اور انہی کے ہاتھوں ہمیں تمہارے دیوتائوں کے دشمن کو مروانا ہے ''۔
''تم جھوٹ بولتے ہو ''…… پروہت نے کہا …… ''تم ان لڑکیوں کو تفریح کے لیے لائے ہو ''۔ ہم ان میں سے دو لڑکیوں کو قربان کریں گے ''۔
رجب نے بہت دلیلیں دیں مگر پروہت نے کسی ایک بھی دلیل کو قبول نہ کیا ۔ اس کے دماغ پر دیوتا سوار تھے۔ اس نے اُٹھ کر دو لڑکیوں کے سروں پر باری باری ہاتھ رکھے اور کہا …… ''یہ دونوں دیوتا کے لیے ہیں ۔ انگوک کی نجات ان دو لڑکیوں کے ہاتھ میں ہے ''…… یہ کہہ کر وہ چلا گیا ۔ رُک کر رجب سے کہا ……''لڑکیوں کو ساتھ لے کر بھاگنے کی کوشش نہ کرنا ۔ تم جانتے ہو کہ ہم تمہیں فوراً ڈھونڈ لائیں گے ''۔
لڑکیاں سوڈان کی زبان نہیں سمجھتی تھیں ۔حبشی پروہت نے ان کے سروں پر ہاتھ رکھا ۔ رجب کو پریشان دیکھا تو انہوں نے رجب سے پوچھا کہ یہ حبشی کیا کہہ رہا تھا۔ رجب نے انہیں صاف صاف بتا دیا کہ وہ انہیں قربانی کے لیے مانگتا ہے ۔ لڑکیوں کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ تمہارے سر کاٹ کر خشک ہونے کے لیے رکھ دیں گے اور جسم جھیل میں پھینک دیں گے مگر مچھ جسموں کو کھا جائیں گے ۔ لڑکیوں کے رنگ فق ہوگئے ۔ انہوں نے رجب سے پوچھا کہ اس نے انہیں بچانے کے لیے کیا سوچا ہے۔ رجب نے جوا ب دیا ……''میں نے اسے سمجھانے کی ساری دلیلیں دے ڈالی ہیں مگر اس نے ایک بھی نہیں سنی ۔ میں ان لوگوں کے رحم و کرم پر ہوں ۔ میں تو انہیں ساتھ ملانا چاہتا ہوں ۔ یہ میری فوج میں شامل ہونے کے لیے تیا ر ہیں ۔ لیکن اپنے عقیدے کے اتنے پکے ہیں کہ پہلے دیوتائوں کو خوش کریں گے ، پھر میری بات سنیں گے ''۔
رجب کی باتوں اور انداز سے لڑکیوں کو شک ہو گیا کہ وہ انہیں بچا نہیں سکے گا ۔ یا انہیں خوش کرنے کے لیے بچانے کی کوشش نہیں کرے گا ۔ انہوں نے گزشتہ رات رجب کی نیت کی ایک جھلک دیکھ بھی لی تھی ۔ اس لیے وہ اس سے مایوس ہوگئی تھیں ۔ رجب نے انہیں رسمی طور پر بھی تسلی نہ دی کہ وہ انہیں بچا لے گا ۔ لڑکیاں خیمے میں چلی گئیں ۔ انہوں نے صورتِ حال پر غور کیا اور اس نتیجے پر پہنچیں کہ وہ یہاں رجب کی عیاشی کا ذریعہ بننے یا حبشیوں کے دیوتا کی بھینٹ چڑھنے کے لیے نہیں آئیں ۔ وہ بے مقصد موت نہیں مرنا چاہتی تھیں ۔ انہوں نے وہاں سے فرار کا ارادا کیا ۔ فرار ہو کر فلسطین خیریت سے پہنچنا آسان کام نہ تھا مگر کوئی چارہ کار بھی نہ تھا ۔ یہ لڑکیاں صرف خوبصورت اور دلکش ہی نہیں تھیں ،گھوڑ سواری اور سپاہ گری کی بھی انہیں تربیت دی گئی تھی تا کہ ضرورت پڑے تو اپنا بچاو خود کر سکیں ۔ انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ وہ یہاں سے بھاگ کر فلسطین چلی جائیں گی ۔
وہ رات خیریت سے گزر گئی ۔ دوسرے دن لڑکیوں نے اچھی طرح دیکھا کہ رات کو گھوڑے کہاں بندھے ہوتے ہیں اور وہاں سے نکلنے کا راستہ کون سا ہے۔ حبشی پروہت دن کے وقت بھی آیا او رجب کے ساتھ باتیں کر کے چلا گیا ۔ لڑکیوں نے اس سے پوچھا کہ و کیا کہہ گیا ہے۔ رجب نے انہیں بتایا کہ وہ کل رات تمہیں یہاں سے لے جائیں گے ۔ وہ مجھے دھمکی دے گیا ہے کہ میں نے انہیں روکنے کی کوشش کی تو وہ مجھے قتل کر کے مگر مچھوں کی جھیل میں پھینک دیں گے ۔ لڑکیوں نے اسے یہ نہیں بتایا کہ وہ فرار کا فیصلہ کر چکی ہیں کیونکہ انہیں رجب کی نیت پر شک ہوگیا تھا ۔ وہ غیر معمولی طور پر ذہین لڑکیاں تھیں ۔ انہوں نے رجب کے ساتھ ایسی باتیں کیں اور ایسی باتیں اس کے منہ سے کہلوائیں جن سے پتہ چلتا تھا جیسے وہ انہیں بچانے کی بجائے حبشیوں کو خوش کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ اسے وہیں چھپائے رکھیں اور اسے سلطان ایوبی کے خلاف فوج تیار کرنے میں مدد دیں ۔ لڑکیوں کو یہ بھی شک ہوا کہ رجب انہیں ایسی قیمت کے عوض بچانے کی کوشش کرے گا جو وہ اسے دینا نہیں چاہتیں تھیں ۔
سارا دن اسی شش و پنچ میں گزر گیا ۔ رجب کو شک نہ ہواکہ لڑکیاں بھاگ جائیں گی ۔ اسے اس وقت بھی شک نہ ہوا ۔ جب لڑکیوں نے اسے کہا کہ ایسے جہنم نما صحرا میں ایسا سر سبز خطہ قدرت کا عجوجہ ہے ، آو ذرا اس کی سیر کرا دو ۔ رجب انہیں گھمانے پھرانے لگا ۔ آگے وہ بھیانک جھیل آگئی جس کے کنارے پر پانچ چھ مگر مچھ بیٹھے تھے۔ جھیل کا پانی غلیظ اور بدبودار تھا ۔ایک لڑکی نے کہا کہ یو معلوم ہوتا ہے جیسے پہاڑی کے اندر چشمہ ہے ۔ جب اس نےپہاڑی کی اندر دیکھا تو ایک لڑکی کی چیخ نکل گئی ۔ پانی پہاڑی کے اندر ایک وسیع غار بنا چلا گیا تھا ۔ رجب نے کہا …… ''یہ ہیں وہ مگر مچھ جو یہاں کے مجرموں کو اور قربان کی ہوئی لڑکیوں کے جسموں کو کھاتے ہیں ''……ایسا ہولناک منظر دیکھ کر لڑکیوں کے دلوں میں فرار کا ارادہ اور زیادہ پختہ ہوگیا ۔ انہوں نے سیر کے بہانے فرار کا راستہ اچھی طرح دیکھ لیا اور ایسی نرم زمین دیکھ لی جس پر گھوڑوں کے قدموں کی آواز پیدا نہ ہو ۔ ان کی سیر کی خواہش کے پیچھے یہی مقصد تھا ۔
ادھر حبشی پروہت قریبی بستی میں بیٹھا قبیلے کو یہ خوش خبری سنا رہا تھا کہ قربانی کے لیے لڑکیاں مل گئی ہیں اور قربانی آج سے چوتھی رات دی جائے گی جو پورے چاند کی رات ہوگی ۔ اس نے کہا کہ قربانی دیوتائوں کے مسکن اور معبد کے کھنڈروں پر دی جائے گی ۔ اس کے بعد ہم یہ معبد خود تعمیر کریں گے اور جب یہ معبد تعمیر ہوجائے گا تو ہم اس قوم سے انتقام لیں گے جنہوں نے ہمارے دیوتا کی توہین کی ہے ۔
نصف شب کا وقت تھا ۔ رجب اور اس کے ساتھیوں کو لڑکیوں نے اپنے خصوصی فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اتنی شراب پلادی تھی کہ ان کی بیداری کا خطرہ ہی ختم ہوگیا تھا۔ وہ بے ہوش پڑے تھے۔ لڑکیوں نے سفر کے لیے سامان باندھ لیا ۔تین گھوڑوں پر زینیں کسیں ، سوار ہوئیں اور اس نرم زمین پر گھوڑوں کو ڈال دیا جو انہوں نے دن کے وقت دیکھی تھی ۔ اس خطے کے ایک حصے میں چار حبشی موجو د تھے لیکن وہ سوئے ہوئے تھے اور دور تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ یہاں سے کوئی بھاگنے کی جرأت نہیں کر سکتا ۔ اگر بھاگے گا تو صحرا اسے راستے میں ہی ختم کردے گا ،مگر لڑکیاں اس سرسبز، خوشنما اور ہولناک قید خانے سے نکل گئیں ۔ وہ اسی راستے سے فلسطین جانا چاہتی تھیں جس راستے سے رجب انہیں لایا تھا ۔ وہ تھیں تو غیر معمولی طور پر ذہین اور انہیں عسکری تربیت بھی دی گئی تھی مگر انہیں یہ علم نہیں تھا کہ صحرا میں اس قدر فریب چھپے ہوئے ہیں جو دانش مندوں کو بھی عقل کا اندھا کردیا کرتے ہیں ۔ اتنے طویل صحرائی سفر پر لوگ قافلوں کی صورت میں نکلا کرتے تھے اور ان کے پاس صحراکی ہر آفت کا مقابلہ کرنے کا اہتمام ہوتا تھا ۔
رات کے وقت سو صحرا سرد تھا ۔ تینوں لڑکیوں نے اس جگہ سے کچھ دور تک گھوڑوں کو آہستہ آہستہ چلایا،پھر ایڑ لگا دی ۔ گھوڑے سرپت دوڑنے لگے۔ بہت دور جا کر انہوں نے گھوڑوں کی رفتار کم کر دی ۔ باقی رات گھوڑے اسی رفتار پر چلتے رہے ۔ صبح طلوع ہوئی اور جب سورج اوپر آیا تو لڑکیوں کے اردگرد ریت کے گول گول ٹیلے تھے اور ان سے آگے ریتلی مٹی کی اونچی اونچی پہاڑیاں کھڑی تھیں ۔ کوئی راستہ نہ تھا ۔ انہوں نے سورج سے اپنی سمت کا اندازہ کیا اور ٹیلوں کی بھول بھلیوں میں داخل ہوگئیں ۔ گھوڑے پیاسے تھے۔ ہر گھوڑے پر پانی کا ایک ایک چھوٹا مشکیزہ تھا جو ایک دن کے لیے بھی کافی نہیں تھا۔ گھوڑوں کو کہاں سے پانی پلایا جاتا ۔ لڑکیاں کسی نخلستان کی تلاش میں چلتی چلی گئیں۔ سورج اوپر اُٹھتا گیا اور صحرا کو دوزخ بناتا گیا ۔ نخلستان کا کہیں نشان اور تصور بھی نظر نہیں آتاتھا۔
رجب اور اس کے ساتھی سورج طلوع ہونے پر بھی نہ جاگے ۔ وہ تو بیہوشی کی نیند سوئے ہوئے تھے۔ پروہت اپنے تین حبشیوں کے ساتھ آیا۔ اس نے سب سے پہلے لڑکیوں کے خیمے دیکھے ۔ خیمہ خالی تھا ۔ اس نے رجب کو جگایا اورکہا ''دونوں لڑکیاں میرے حوالے کر دو ''…… رجب ہڑبڑا کر اُٹھا اور پروہت کو قائل کرنے کی کوشش کرنے لگا کہ وہ ان لڑکیوں کو ضائع نہ کرے۔ اس نے اسے تفصیل سے بتایا کہ ان لڑکیوں سے کیا کام لینا ہے مگر پروہت نے اس کی ایک بھی نہ مانی ۔ رجب نے اپنے ساتھیوں کو جگانا چاہا تو حبشیوں نے اسے پکڑ لیا ۔ پروہت نے پوچھا ……''لڑکیاں کہا ں ہیں ؟''
رجب نے وہیں سے لڑکیوں کو پکارا تو اسے کوئی جواب نہ ملا ۔ خیمے میں جا کر دیکھا۔ انہیں ادھر ادھر دیکھا ۔ وہ کہیں نظر نہ آئیں ۔ اچانک نظر زینوں پر پڑی ۔ تین زینیں غائب تھیں۔ گھوڑے دیکھے تو تین گھوڑے غائب تھے۔ رجب نے پروہت سے کہا …… ''وہ تمہارے ڈر سے بھاگ گئی ہیں ۔ تم نے بڑے کام کی لڑکیاکیوں کو بھگا دیا ہے ''۔
''انہیں تم نے بھگایا ہے ''…… پروہت نے کہا اور اپنے تین حبشیوں سے رجب کے متعلق کہا ……'' اسے لے جا کر باندھ دو ۔ اس نے انگوک کے دیوتا کو پھر ناراض کر دیا ہے ۔ اچھے سواروں کو بلائو اور لڑکیوں کا پیچھا کرو ۔ وہ دور نہیں جا سکتیں ''۔
رجب کے احتجاج اور منت سماجت کو نظر انداز کرتے ہوئے حبشی اسے اپنے ساتھ لے گئے اور ایک درخت کے ساتھ اس طرح باندھ دیا کہ اس کے ہاتھ پیٹھ پیچھے بندھے ہوئے تھے ۔ اس کے سوئے ہوئے ساتھیوں کے ہتھیار اُٹھا لیے گئے ، پھر انہیں جگا کر دھمکی دی گئی کہ وہ یہاں سے ہلے تو قتل ہوجائیں گے …… تھوڑی دیر بعد چھ گھوڑ سوار اور شتر سوار آگئے ۔ انہیں لڑکیوں کے تعاقب میں روانہ کر دیا گیا ۔ریت پر تین گھوڑوں کے قدموں کے نشان صاف تھے۔ اسی سمت کو یہ حبشی سوار انتہائی رفتار سے روانہ ہوگئے ۔ لڑکیوں کو پکڑنا آسان نہیں تھا کیونکہ فرار اور تعاقب میں آٹھ دس گھنٹوں کا فرق تھا ۔ حبشی سواروں کہ یہ سہولت حاصل تھی کہ و ہ صحرا کے بھیدی تھے اور مرد تھے۔ سختیاں جھیل سکتے تھے ۔ آگے جا کر انہیں یہ مشل پیش آئی کہ ہوا چل رہی تھی جس نے ریت اُڑاُڑا کر گھوڑوں کے قدموں کے نشان غائب کر دئیے تھے ۔ پھر بھی وہ اندازے پر چلتے گئے ۔
تین چار گھنٹوں کے تعاقب کے بعد انہیں ایک طرف سے آسمان پر اُفق کے کچھ اُوپر تک مٹیالی سرخی دکھائی دی جو اُوپر کو اُٹھتی اور آگے بڑھتی آرہی تھی ۔ سواروں نے گھبرا کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا ، گھوڑوں اور اونٹوں کو پیچھے کی طرف موڑ کر سرپٹ دوڑا دیا ۔ یہ صحرا کی وہ آندھی تھی جو بڑے بڑے ٹیلوں کو ریت کے ذروں میں بدل کر اُڑا لے جاتی ہے۔ کوئی انسان یا جانور کہیں رُک کر کھڑا رہے یا بیٹھ جائے تو ریت اس کے جسم کے ساتھ رُک رُک کر اسے زندہ دفن کر دیتی ہے اور اس پر ٹیلا کھڑا ہو جاتا ہے ۔ وہاں آندھی سے بچنے کے لیے کوئی مضبوط ٹیلا نہیں تھا ۔ وہ بھاگ کر اپنے پہاڑی خطے تک پہنچنا چاہتے تھے جو بہت ہی دور تھا ……وہاں تک آندھی پہنچ گئی تھی ۔ اسے خطے کے درخت دوہرے ہو ہو کر چیخ رہے تھے۔ جھیل کے مگر مچھ پہاڑی کے آبی غار میں جا چھپے تھے۔ پروہت ایک جگہ زمین پر گھٹنے ٹیکے ہوئے ہاتھ ہوا میں بلند کرتا اور زور زور سے زمین پر مارتا تھا ۔ ہر بار بلند آواز سے کہتا تھا ……''انگوک کے دیوتا ! اپنے قہر کو سمیٹ لے ۔ ہم دو بہت ہی خوبصورت لڑکیاں تیرے قدموں میں پیش کر رہے ہیں ''…… وہ اس آندھی کو دیوتا کا قہر سمجھ رہا تھا ۔ صحرا اور آندھی کا چولی دامن کا ساتھ تھا ، لیکن سرخ اور ایسی تیز و تند آندھی کبھی کبھی چلا کرتی تھی ۔ و ہ حبشیوں کے خطرے سے تو بہت دور نکل گئی تھیں مگر صحرا کے ایسے خطرے میں آگئیں جو ان کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتا تھا ۔ ان کے لیے دوسری مصیبت یہ آئی کہ ریت کے بوچھاڑوں اور آندھی کے زناٹوں سے گھبرا کر تینوں گھوڑے منہ زور اور بے لگام ہو کر دوڑ پڑے۔ وہ چوں کہ اکھٹے بدکے تھے ، اسے لیے اکھٹے ہی دوڑتے جا رہے تھے۔ اس سے یہ فائدہ تو ہوا کہ ریت میں دب جانے کا خطرہ نہ رہا مگر یہ معلوم نہیں تھا کہ بے لگا م گھوڑے کہاں جا رکیں گے اور وہ جگہ اصل راستے سے کتنی دور ہوگی ۔ لڑکیوں میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ گھوڑوں کو قابومیں کر لیتیں اور گھوڑوں میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ زیادہ دوڑ سکتے۔ وہ پیاسے تھے اور آدھی رات سے مسلسل چل رہے تھے۔
تھکن اور پیاس گھوڑوں کے بے حال کرنے لگی۔ ایک گھوڑا منہ کے بل گرا ۔ اس کی سوار لڑکی ایسی گری کہ گھوڑا اُٹھا اور جب پھر گرا تو لڑکی اس کے نیچے آگئی۔ اسے مرنا ہی تھا ۔ کچھ اور آگے گئے تو ایک گھوڑے کا تنگ ڈھیلا ہوگیا …… زین ایک طرف لڑھک گئی اس کی سوار اسی پہلو پر گری مگر بایاں پائوں رکاب میں پھنس گیا ۔ لڑکی زمین پر گھسیٹی جانے لگی۔ تیسری لڑکی اس کی کوئی مدد نہیں کر سکتی تھی ۔ اس کا اپنا گھوڑا بے قابو تھا ۔ وہ اپنی ساتھی کی چیخیں سنتی رہی۔ پھر چیخیں خاموش ہوگئیں اور وہ لڑکی کی لاش کو گھوڑے کے ساتھ زمین پر جاتا دیکھتی رہی ۔ اس پر دہشت طاری ہوگئی ۔ وہ کتنی ہی دلیر کیوں نہ تھی ، آخر لڑکی تھی ۔ زور سے رونے لگی۔ ڈھیلی زین والا گھوڑا یکلخت رُک گیا ۔ تیسری لڑکی اپنا گھوڑا نہ روک سکی ۔ اس نے پیچھے دیکھا ۔ آندھی میں اسے کچھ نظر نہ آیا کہ اس گھوڑے کا کیا حشر ہوا۔ لڑکی تو یقینا مر چکی تھی ۔
تیسری لڑکی اکیلی رہ گئی۔ اس نے رکابوں سے پائوں پیچھے کر لیے۔ اس کی دہشت زدگی کا یہ عالم تھا کہ اس نے گھوڑے کی لگام چھوڑ کر ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھا کرجوڑ دئیے اور گلا پھاڑ کر خدا کو پُکارنے لگی ……''میرے عظیم خدا! آسمانوں کے خدا! میرے گناہ معاف کردے۔ میں گناہگار ہوں ۔ میرا بال بال گناہگار ہے ۔ میں گناہ کرنے آئی تھی ۔ میں نے گناہوں میں پرورش پائی ہے۔ میرے خدا! میں اس وقت بہت چھوٹی تھی جب مجھے بڑوں نے گناہوں کے راستے پر ڈالا تھا۔ انہوں نے مجھے گناہوں کے سبق دیتے جوان کیا اور کہا کہ جائو مردوں کو اپنے حُسن اور اپنے جسم سے گمراہ کرو۔ ان کے ہاتھوں انسانوں کو قتل کروائو۔ جھوٹ بولو۔ فریب دو اور بدکار بن جائو۔ انہوں نے بتایا تھا کہ یہ صلیب کا فرض ہے۔ تم پورا کرو گی تو جنت میں جائو گی ''……وہ پاگلوں کی طرح چلا رہی تھی اور اس کے گھوڑے کی رفتار گھٹتی جا رہی تھی ۔ زارو قطار روتے ہوئے اس نے خدا سے کہا ۔ ''تیرا جو مذہب سچا ہے ، مجھے اسی کا معجزہ دکھا ''۔
اس کے عقیدے متز لزل ہوگئے تھے ۔گناہوں کے احساس نے اس کے دماغ پر قابوپالیا تھا ۔ موت کے خوف نے اسے فراموش کرادیا تھا کہ اس کا مذہب کیا ہے ۔ اسے اپنا ماضی گناہوں میں ڈوبا ہوا نظر آرہا تھا او اس کے دل میں یہ احساس بیدار ہوتا جا رہا تھا کہ وہ مردوں کے استعمال کی چیز ہے اور اسے دھوکے اور فریب کے لیے استعمال کیا جارہا ہے اور اب سزا صرف اس اکیلی کو مل رہی ہے ۔
اسے غشی کی لہر آئی اور گزر گئی۔ اس نے دھاڑ ماری اور سر کو جھٹک کر بلند آواز سے کہا …… ''میری مدد کرو میرے خدا! میں ابھی مرنا نہیں چاہتی ''……اور اس کے ساتھ ہی اسے یاد آگیا کہ وہ یتیم بچی ہے ۔ موت کے سامنے انسان ماضی کی طرف بھاگتا ہے جو انسانی فطرت کا قدرتی عمل ہے۔ اس جوان لڑکی نے بھی ماضی میں پناہ لینے کی کوشش کی مگروہاں کچھ بھی نہ تھا ۔ ماں نہیں تھی ، باپ نہیں تھا ، کوئی بہن بھائی نہیں تھا ، اسے کچھ یادآیا کہ صلیبیوں نے اسے پالا اس راہ پہ ڈالا ہے جہاں وہ ایک بڑاہی حسین دھوکہ بن گئی تھی ۔ اسے اپنے آپ سے نفرت ہونے لگی۔ وہ اب بخشش چاہتی تھی ، اسے غشی آنے لگی ، گھوڑے کی رفتار سست ہو گئی تھی کہ وہ بمشکل چل رہا تھا اور اس کے ساتھ آندھی بھی تھمنے لگی تھی ۔ لڑکی ہوش کھو بیٹھی تھی .
❤️
5