اردو تحـــــــاریــــــر💌 📚📝
February 9, 2025 at 02:18 AM
🥀 _*اللّٰہ کی راہ میں خرچ اور قرآن*_ 🥀 https://whatsapp.com/channel/0029Va7OLGd1Hspvf0pbwx3K اللّٰہ کی راہ میں خرچ کرنا دین اسلام کے بنیادی مطالبات میں سے ایک ہے یہ مطالبہ اتنا غیر معمولی ہے کہ محتاج اور ضرورت مند لوگ جو خود خرچ کرنے کے قابل نہ ہوں وہ اگر دوسروں کو خود پر ترجیح دیں اور دوسروں کو ملنے والی چیزوں پر اپنے دل میں تنگی محسوس نہ کریں تو اللّٰہ تعالیٰ ان کی اس بے غرضی کی بنا پر آخرت میں ان کی فلاح کا فیصلہ سنا دیتے ہیں (الحشر59:9) مال کی محبت پر آخرت کو ترجیح دینا ہی تمام تر انفاق کی بنیاد ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ مال دراصل دنیا کے قائم مقام ہے جس سے دنیا کی ہر چیز خریدی جاسکتی ہے مگر آخرت کے طلبگاروں کو زیادہ سے زیادہ اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنا چاہیے کیونکہ آخرت میں اس کا اجر بے حد و حساب ہے اس حوالے سے قرآن مجید کی کچھ رہنمائی قارئین کی خدمت میں پیش ہے قرآن اپنی ابتدا ہی میں انفاق کے حکم میں یہ بتا دیتا ہے کہ لوگ جو بھی خرچ کرتے ہیں وہ درحقیقت ان کی مِلک ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ سرتاسر اللہ کی عطا ہوتی ہے (البقرہ2:3) یہ احساس ملکیت ہی انسان کو مال خرچ کرنے میں مانع ہوتا ہے جب اسے یقین ہوجاتا ہے کہ جو کچھ ہے وہ اللہ کا ہے تو پھر وہ اس میں سے خرچ کرتے ہوئے تنگ دل نہیں ہوتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جس نے دیا ہے وہ کبھی بھی لے سکتا ہے اسی بات کو یوں بھی بیان کیا گیا ہے جس مال پر تمھیں امین بنایا گیا ہے اس میں سے خرچ کرو (الحدید 7: 57) یہی وہ پس منظر ہے جس میں حکم دیاگیا ہے کہ جو تمھاری ضرورت سے زائد ہے وہ سب خرچ کر دو (البقرہ219:2) یہاں ضرورت سے زائد کا مطلب اپنی اور اپنے اہل خانہ کی حال و مستقبل کی حقیقی ضروریات سے زیادہ مال ہے یہ مطلب بھی نہیں کہ اس زائد مال کو سڑک پر پھینک دیں بلکہ مراد یہ ہے کہ جب کوئی ضرورت مند آجائے تو پھر یہ اضافی مال اس کا حق ہے جو اسے دے دینا چاہیے پھر قرآن یہ حکم دیتا ہے کہ مال دیں تو نہ احسان جتلائیں نہ لینے والوں کی دل آزاری کریں (البقرہ264:2) اس سے اجر ضائع ہوجاتا ہے اسی طرح گھٹیا مال دوسروں کو نہ دیا جائے (البقرہ267:2) اپنا مال علانیہ اور چھپا کر دونوں طرح اللہ کی راہ میں دیا جاسکتا ہے (البقرہ271:2) علانیہ دینے سے دوسروں کو بھی تلقین ہوتی ہے لیکن چھپا کر دینا نفس کی تربیت کے لیے بہتر ہے کہ اس میں ریاکاری کا اندیشہ نہیں رہتا مال رشتہ داروں محتاجوں یتیموں مسافروں اور سوال کرنے والوں اور کسی بھی طرح کی مصیبت میں گرفتار شخص پر خرچ کیا جاسکتا ہے (البقرہ177:2) ان لوگوں کا خصوصی خیال کرنا چاہیے جو عزت نفس کی بنا پر ضرورت مند ہونے کے باوجود ہاتھ نہیں پھیلاتے (البقرہ273:2) جو شخص ان سب باتوں کی رعایت کرکے خرچ کرے گا اس کے لیے خوشخبری ہے کہ اس کا اجر کم از کم دس گنا اور حالات اور جذبے کے لحاظ سے سات سو گنا تک بڑھ سکتا ہے جیسے جو لوگ خوشحالی کے ساتھ تنگی میں بھی مال دیتے ہیں (آل عمران134:3) ان کا تنگی میں مال دینے کا اجر یقیناً خوشحالی سے بہت زیادہ ہوگا خیال رہے کہ یہ زکوٰۃ سے آگے بڑھ کر خرچ کرنے کا ذکر ہے زکوٰۃ تو فرض ہے اور اس فرض کی ادائیگی کا بھی بےحد اجر ہے اور ایک سفید پوش شخص تو یہی ادا کر دے تو بہت ہے لیکن زیادہ مال والوں کو زکوٰۃ سے آگے بڑھ کر خرچ کرنا چاہیے حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ مال کی اس نعمت کو ان قرآنی احکام کے مطاق خرچ کرتے ہیں وہ قیامت کے دن اپنی اس تجارت پر بہت خوش ہوں گے باقی لوگ اُس روز اس بات کا ماتم کر رہے ہوں گے کہ ان کا مال پچھلی دنیا میں ضائع ہوگیا اور ابدی دنیا میں ان کے لیے کچھ نہیں
❤️ 👍 ♥️ 15

Comments