🌹 اردو ادب 📚
January 18, 2025 at 12:39 PM
*⚔️حــــجــــاز کـــی آنــــدھــــی🏇* *قـسـط نــمـبـر 46* *انتخاب: پرویز احمد شیخ* *https://t.ly/MDIH8* *✍🏻مثنیٰ بن حارثہ رضی اللّٰہ عنہ آج رات اللّٰہ کے حضور چلا گیا ہے ۔" مجاہد ین کی کُھسر پُھسر یکلخت خاموش ہو گئی ، سناٹا طاری ہو گیا ، پھر یہ سناٹا سسکیوں اور پھر ہچکیوں سے لرزنے لگا اور پھر مجاہدین کی دھاڑیں نکل گئیں ۔* *"مثنیٰ نہیں مر سکتا" ____ یہ ایک عیسائی کی آواز تھی _____ "مثنیٰ موت کو بھی شکست دے سکتا ہے ۔"* "ہاں!، مثنیٰ رضی اللّٰہ عنہ نہیں مر سکتا" ____ یہ سلمیٰ کی آواز تھی جو ایک درخت کے پیچھے سر سے پاؤں تک چادر میں لپٹی کھڑی تھی ۔ سامنے آ کر اُس نے بلند آواز سے کہا ______ "تم نے ٹھیک کہا ہے ، مثنیٰ رضی اللّٰہ عنہ موت کو بھی شکست دے سکتا ہے ، وہ جو مر گیا ہے وہ مثنیٰ رضی اللّٰہ عنہ کا جسم ہے ، ہم اس جسم کو دفن کر دیں گے لیکن مثنیٰ رضی اللّٰہ عنہ کو اپنے ساتھ رکھیں گے ۔۔۔۔۔ مجاہدینِ اسلام ! تم مثنیٰ رضی اللّٰہ عنہ کی خاطر گھروں سے نہیں نکلے تھے ، تم اللّٰہ کے حکم سے یہاں آئے تھے ۔ مثنیٰ رضی اللّٰہ عنہ کی موت کا سب سے زیادہ دُکھ اور غم مجھے ہونا چاہیے ، وہ میری زندگی کا رفیق تھا لیکن یہ وقت غم سے نڈھال ہونے کا نہیں ۔ مثنیٰ رضی اللّٰہ عنہ کو اپنے سینوں اور اپنے جذبوں میں زندہ رکھو ۔ تم سب مثنیٰ رضی اللّٰہ عنہ ہو ایک آدمی کی موت سے سب نہیں مر جایا کرتے ۔ رسول اللہ ﷺ ہم سے جُدا ہو گئے تھے تو کُفار نے خوشیاں منائی تھیں کہ اب اسلام بھی مر جائے گا ۔ ارتداد کا وہ طوفان اُٹھا کہ لگتا تھا یہ روکا نہیں جا سکے گا لیکن خلیفۂِ اول نے روک کر دکھا دیا ۔ کیا اس طوفان کو روکنے والے تم نہیں تھے؟ تم میں وہ مجاہدین موجود ہیں جنہوں نے مرتدین کے سر کُچل دیے تھے ۔ میں دیکھ رہی ہوں کہ ان میں سے کئی ایک آج تمہارے ساتھ ہیں ۔۔۔۔۔ کُمک آ رہی ہے ۔ ہمت نہ ہار بیٹھنا ۔ کیا تمہیں مثنیٰ رضی اللّٰہ عنہ کا بھائی مسعود یاد نہیں رہا ؟ ہاں زخم کھا کر گرنے سے پہلے اس نے کہا تھا ، اے فرزندانِ بنو بکر بن وائل! اپنا پرچم بلند رکھو ، اللّٰہ تمہیں بلند رکھے گا۔ خبردار میری موت سے ہراساں اور بے دل نہ ہو جانا ۔۔۔۔۔۔ پھر مسعود شہید ہو گیا تھا اور مثنیٰ رضی اللّٰہ عنہ نے اعلان کیا تھا کہ میرا بھائی مارا گیا تو کوئی غم نہیں۔ غیرت مند اسی طرح جانیں دیا کرتے ہیں ، تمہارا پرچم نہ جُھکے ۔۔۔۔۔ آج میں تم سے یہی بات کہہ رہی ہوں ۔ اسے مثنیٰ رضی اللّٰہ عنہ اور مسعود کی وصیت سمجھو کہ غیرت مند اسی طرح جانے دیا کرتے ہیں ، تمہارا پرچم نہ جھکے ۔۔۔۔۔۔ اپنے آپ میں مثنیٰ رضی اللّٰہ عنہ کا یہ جذبہ پیدا کرو کہ اُس نے اپنے زخم کی پرواہ نہ کی اور لڑتا رہا اور غیرت مندوں کی طرح اپنی جان دے دی ۔" *`یہ سلسلہ شروع سے پڑھنے کے لئے نیچے دی گئی لنک سے ہمارا چینل ابھی جوائن کریں`* https://whatsapp.com/channel/0029Va5NdllKLaHfWG6Hxi1j "ہم بھی غیرت مندوں کی طرح جانیں دیں گے ______ لشکر میں سے کسی مجاہد نے نعرہ لگانے کے سے انداز میں کہا۔ اس کے ساتھ ہی پورا لشکر جوشیلے نعروں سے پھٹنے لگا ۔ یہ تو جوش و خروش تھا جس میں جذباتیت کی جھلک نمایاں تھی اور اس میں مثنیٰ بن حارثہ رضی اللّٰہ عنہ کی وفات کا غم تو خاص طور پر نمایاں تھا ۔ جہاں تک حقیقت کا تعلق تھا ، وہ اپنی جگہ اٹل تھی ۔ بڑا ہی قابل اور انتہائی بھیانک خطرے مول لینے والا اور ان میں سے پُورے لشکر کو گزار کر لے جانے والا سپہ سالار شہید ہو گیا تھا اور مدینہ سے آنے والی کُمک کی امید موہوم تھی ۔ یہ بھی نہیں بتایا جا سکتا تھا کہ کُمک آ بھی گئی تو کافی ہو گی یا ناکافی ۔ بہرحال سلمیٰ نے بیوگی کے آنسو پی کر لشکر میں نئی روح پھونک دی ۔ یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مثنیٰ رضی اللّٰہ عنہ کے متعلق کچھ باتیں کی جائیں مثنیٰ بن حارثہ رضی اللّٰہ عنہ بنو بکر بن وائل کے فرد تھے اور اپنے قبیلے کے پہلے آدمی تھے جنہوں نے اسلام قبول کیا اور ایک لمبے عرصے تک اس قبیلے کے واحد آدمی رہے جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا ۔ وہ صرف مسلمان ہی نہ ہوئے بلکہ خالد بن ولید رضی اللّٰہ عنہ کے شانہ بشانہ رومیوں کے خلاف شام میں لڑے اور ایک دو لڑائیوں میں ہی ثابت کر دیا کہ وہ خالد رضی اللّٰہ عنہ کے ہم پلہ سپاسالار ، میدانِ جنگ کے جارح اور دانشمند قائد ہیں ۔ تاریخ شاہد ہے کہ خلیفۂِ اول ابوبکر رضی اللہ عنہ صرف سلطنت ِ روم سے جنگ جاری رکھنا اور اس سے نمٹ کر فارسیوں کے خلاف اعلانِ جنگ کرنا چاہتے تھے ۔ یہ مثنیٰ بن حارثہ رضی اللّٰہ عنہ تھے جو حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ سے مدینہ جا کر ملے اور انہیں کہا تھا کہ فارسیوں کے خلاف ابھی سے محاذ کھول دیا جائے اور اس کی کمان انہیں دی جائے ۔ حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ خود جنگجو اور مردِ میدان تھے انہوں نے ایک وقت میں دو بڑی طاقتوں کے خلاف محاذ آرائی سے انکار کر دیا لیکن مثنیٰ بن حارثہ رضی اللّٰہ عنہ نے عملی استدلال سے حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ سے فارسیوں کے خلاف لڑنے کی منظوری لے ۔ تاریخ نویس محمد حسنین ہیکل نے لکھا ہے کہ خلیفۂِ اول ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کو معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ مثنیٰ بن حارثہ رضی اللّٰہ عنہ کون ہے اور کس قبیلے سے ہے ۔ "یہ کوئی گمنام اور مجہول النسب شخص نہیں جسے کوئی جانتا ہی نہ ہو یا جس کا کوئی خاندانی پس منظر ہی نہ ہو" ______ خلیفہ کی محفل میں بیٹھے ہوئے ایک سرکردہ آدمی قیس بن عاصم منقری نے جواب دیا تھا _____ "یہ مثنیٰ بن حارثہ رضی اللّٰہ عنہ شیبانی ہے اور قبیلے میں پہلا اور واحد فرد تھا جس نے اسلام قبول کیا تھا اس کی کوششوں اور اثر و رسوخ سے کچھ عرصے بعد اس کے پورے قبیلے نے اسلام قبول کر لیا تھا۔" "کیا تم بنو بکر بن وائل کی بات کر رہے ہو؟" _____حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللّٰہ نے پوچھا تھا۔ "ہاں!" ____ قیس بن عاصم نے جواب دیا تھا ____ "مثنیٰ بن حارثہ رضی اللّٰہ عنہ بنو بکر بن وائل کا سرکردہ فرد ہے ۔ اس کے ایک اشارے پر اس کا پورا قبیلہ جہاد کے لیے نکل آئے گا۔" مثنیٰ بن حارثہ رضی اللّٰہ عنہ گورے رنگ کے تندرست و توانا آدمی تھے ۔ ایک ٹانگ سے تھوڑا سا لنگڑا کر چلتے تھے ۔ مزاج میں تحمل اور بردباری تھی ۔ یہ مثنیٰ کی شخصیت اور ان کے کردار کا کرشمہ تھا کہ ان کے لشکر میں عیسائی بھی شامل ہوئے اور عیسائیوں نے میدانِ جنگ میں شجاعت کے جوہر دکھائے ۔ مثنیٰ رضی اللّٰہ عنہ کے اپنے سگے بھائی ، مسعود اور معنیٰ ، ان کے لشکر میں تھے ۔ مسعود شہید ہو گئے تھے ۔ مثنیٰ کے قبیلے کے ہزاروں افراد ان کے لشکر میں تھے ۔ مثنیٰ بن حارثہ رضی اللّٰہ عنہ کو ہم میدان جنگ میں دیکھ چکے ہیں ۔ ان کے کردار کی بلندی صرف ایک مثال سے معلوم ہو جاتی ہے ۔ وہ جب عراق کے محاذ کیلئے کمک مانگنے آئے تو ابوعبید شہید سب سے پہلے کمک میں شامل ہوئے تھے ۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے ابو عبید کو ہی سپہ سالار بنا دیا ، حالانکہ سپہ سالاری کے اہل اور حقدار مثنیٰ رضی اللّٰہ عنہ تھے ۔ ابو عبید تو ان کے مقابلے میں ناتجربہ کار تھے ۔ لیکن مثنیٰ رضی اللّٰہ عنہ نے پروا ہی نہ کی اور ابو عبید کے ماتحت ہو گئے ۔ ابو امید کی ناتجربہ کاری کا نتیجہ تھا کہ جسَر کی لڑائی میں فارسیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل عام ہوا تھا اور خود ابو عبید بھی شہید ہو گئے تھے ۔ اب سپہ سالار مثنیٰ رضی اللّٰہ عنہ تھے اُنہوں نے جسر کی شکست کا انتقام بویب کے میدانِ جنگ میں لے لیا تھا ۔ یہ تھے مثنیٰ بن حارثہ رضی اللّٰہ عنہ جو تاریخ ساز سپہ سالار تھے اور جو ایسے وقت شہید ہو گئے جب ان کی ضرورت پہلے سے زیادہ شدید ہو گئی تھی اور ان کے محاذ کو کمک کی شدید ضرورت تھی ۔ فتح کیا ہوا عراق ہاتھ سے جا رہا تھا ۔ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ کُمک مدینے سے نکل آئی تھی ۔ یہ بھی سُنایا جا چکا ہے کہ کس قبیلے نے کتنے ہزار آدمی دیے تھے ۔ یہ تو قبیلوں ک اجتماعی کُمک تھی ، فردًا فردًا جو لوگ اس کمک میں شامل ہوئے کم و بیش ڈیڑھ ہزار تھے ۔ اب ہم اس کمک کے متعلق تفصیلات کا بیان ضروری سمجھتے ہیں ۔ امیرالمومنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ کو اطلاع ملی کے مثنیٰ بن حارثہ رضی اللّٰہ عنہ کو کمک کی ضرورت ہے اور اگر کمک نہ ملی تو فارس کے تمام مفتوحہ علاقے ہاتھ سے نکل جائیں گے ۔ یہ پیغام ملتے ہی حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے تمام تر قبیلوں کے سرداروں کو پیغام بھجوا دیئے کہ زیادہ سے زیادہ آدمی بھیجو ۔ اس پیغام کا کچھ ذکر پچھلے باب میں آ چکا ہے ۔ اس میں حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے یہ بھی کہا تھا کہ جو کوئی لڑنے کے قابل ہے اور جس کے پاس ہتھیار اور گھوڑا ہے وہ مدینہ پہنچ جائے ۔ پیغام ایسا تھا کہ مسلمان جوک در جوک مدینہ میں اکٹھے ہونے لگے ۔ علامہ شبلی نعمانی ، ابو حنیفہ دینوری اور طبری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ محاز پر جانے کے لئے جو لوگ مدینہ میں آئے ان میں رئیس بھی تھے ، تاجر بھی ، شاعر اور مسجدوں کے امام بھی ۔ بڑی مسجدوں کے خطیب بھی اپنے ہتھیار اور گھوڑے لے کر آ گئے تھے ۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے دیکھا کہ یہ لشکر تو بہت بڑا ہے زیادہ مؤرخوں نے اس لشکر کی تعداد چھتیس ہزار لکھی ہے ۔ دوسرا پہلو اس لشکر کا یہ تھا کہ معاشرتی طور پر اعلیٰ حیثیتوں اور رُتبو کی شخصیتیں سپاہی کی حیثیت سے لڑنے کے لیے آ گئی تھیں ۔ ان میں چند ایک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی تھے اور مرحوم اور شہید صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بیٹے بھی تھے ۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ خلیفہ تھے لیکن وہ اس لشکر کے سپہ سالار بن گئے ۔ انہوں نے خلافت کے لیے حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کو قائم مقام مقرر کیا اور لشکر کو ساتھ لے کر چل پڑے ۔ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ انہیں الوداع کہنے کے لئے ان کے ساتھ ہو گئے اور یہ لشکر مدینہ سے تین میل دور صرار کے مقام پر رُک گیا ۔ مؤرخ بلاذری نے لکھا ہے کہ لشکر میں بیشتر لوگوں کو معلوم نہیں تھا کہ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ سپہ سالار بن کر محاذ کو جا رہے ہیں ۔ اُن کا خیال تھا کہ امیرالمومنین یہاں سے واپس مدینہ چلے جائیں گے ۔ اسی مؤرخ نے تین بڑے پرانے دور کے مؤرخوں کے حوالے سے حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کے چہرے کے اس وقت کے تأثرات بیان کیے ہیں جب اُنہوں نے مدینہ میں لشکر دیکھا اور جب وہ اس لشکر کے ساتھ گھوڑے پر سوار ہو کر مدینہ سے رخصت ہوئے تھے ۔ امیرالمومنین رضی اللّٰہ عنہ کے چہرے پر تو ویسے بھی جلالی کیفیت طاری رہتی تھی لیکن اُس روز اُن کا چہرہ مُسرت اور جلال سے دمک رہا تھا ۔ گردن میں ذرا سا بھی جھکاؤ نہیں رہا تھا ۔ ان کی چال میں لنگڑا پن تھا لیکن اُس روز ان کے قدم اس طرح اُٹھتے تھے جیسے لنگڑا پن ختم ہو گیا ہو ۔ چال ڈھال اور انداز میں نمایاں تبدیلی آ گئی تھی ۔ امیرالمومنین رضی اللّٰہ عنہ جب لشکر کے ساتھ مدینہ سے نکلے تو مکانوں کی چھتوں پر اور دروازوں میں عورتیں کھڑی بازو بلند کر کے لہرا رہی تھیں ۔ ان میں ضعیف بوڑھے بھی تھے اور بچے بھی ۔ امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ مدینہ سے تھوڑی دُور جا کر رک گئے اور گُھوم کر شہر کی طرف دیکھا ۔ ہاتھوں اور بازوؤں کا ایک جنگل تھا جو لہرا رہا تھا ۔ امیرالمومنین دیکھنے لگے ، کچھ دیر دیکھتے ہی رہے اور ان کے چہرے کے تأثرات میں تبدیلی آ گئی ، پھر انہوں نے آسمان کی طرف دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں _____ "یا اللّٰہ اس مخلوق کے سامنے مجھے سرخرو رکھنا۔" حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے جب حج سے واپس آ کر مدینہ میں عراق کے محاذ پر جانے والے رضا کاروں کا ہجوم دیکھا تو انہوں نے گردن اکڑا کر کہا تھا ______ "میں عراق میں فارسیوں کی شہنشاہی کو بالکل ہی ختم کر کے دم لوں گا ۔" اب ہم صرار چلتے ہیں جہاں مجاہدین کا لشکر رُکا ہوا ہے ۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ ابھی بیٹھے ہی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ان کے پاس آ کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ "یا امیر المومنین!" ____ عثمان بن عفان رضی اللّٰہ عنہ نے کہا _____ "میں سارے لشکر میں گُھوم پھر آیا ہوں کسی کو بھی معلوم نہیں کہ لشکر کے امیر اور سپہ سالار آپ خود ہیں ۔ سب کا خیال ہے کہ آپ یہاں سے واپس چلے جائیں گے۔" "یہ تو سب کو معلوم ہونا چاہیے" ___ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے کہا ____ "اس لشکر میں قبیلوں کے سردار ، زُعماء ، شاعر اور خطیب بھی ہیں ۔ میں سب کے مشورے اور اجازت کے بغیر سپہ سالار نہ بنوں تو اچھا ہے ۔۔۔۔۔ نماز کا وقت ہو رہا ہے ۔ اذان دو اور ہر فرد و بشر نماز کیلئے آئے ۔ لشکر کی قیادت کا فیصلہ نماز کے بعد ہو گا ۔" تمام تر لشکر نے باجماعت نماز پڑھی ۔ امامت حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے کی ۔ نماز کے بعد حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ اُٹھے اور لشکر سے پوچھا کہ اِن کا سپہ سالار کون ہونا چاہیے ۔ "عمر ابن الخطاب!" ____ لشکر میں بہت سی آوازیں اُٹھیں ۔ " امیرالمۏمنین رضی اللّٰہ عنہ خود سپہ سالار بن کر ہمارے ساتھ چلیں " ____ کئی آوازیں اُٹھیں ۔ پھر کچھ دیر تک لشکر ____ "عُمر ابن خطاب ۔۔۔۔۔ امیرالمومنین ۔۔۔۔ خود چلیں ۔۔۔۔۔ سپہ سالار عمر ابن خطاب رضی اللّٰہ عنہ!" ____ کی آوازوں سے گونجتا رہا ۔ "مُجاہدینِ اسلام! ____ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے بڑی بلند آواز سے کہا ____ میری اپنی خواہش یہی ہے لیکن یہاں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو مجھ سے زیادہ بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں . میں ان کے مشورے کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کروں گا کہ سپہ سالار کون ہو گا ۔" ان رضا کاروں میں میں چند ایک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی تھے ۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے انہیں مشاورت کے لیے روک لیا ۔ "میرے رفیقو!" ____ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے کہا ___ میں لشکر کے سامنے اپنی اس خواہش کا اظہار کر چکا ہوں کہ اس لشکر کی قیادت میں ہی کروں لیکن مشورے کے بغیر اپنے آپ کو تم پر صرف اس لیے مسلط نہیں کروں گا کہ میں خلیفہ ہوں ۔ مجھے بتاؤ میں کیا کروں۔" "آپ مدینہ تشریف لے جائیں امیر المومنین!" _____ ایک صحابی عبدالرحمن ابنِ عوف رضی اللّٰہ عنہ نے کہا ____ "اور سپہ سالار کسی صحابی کو مقرر کریں" ____ عبدالرحمن ابنِ عوف رضی اللّٰہ عنہ نے جو استدلال پیش کیا وہ تاریخ میں محفوظ ہے ۔ انہوں نے کہا ____ "میدانِ جنگ میں ہمارے لشکروں کا فیصلہ اللّٰہ تعالیٰ کے ہاتھ میں رہا ہے اور یہ فیصلے اللّٰہ کے ہی ہاتھ میں رہیں گے ۔ فتح بھی ہو سکتی ہے ، شکست بھی ، اگر اس لشکر کے سپہ سالار آپ ہوئے اور ہمیں شکست ہوئی تو یہ ہزیمت ناقابل برداشت ہو گی ۔ اگر آپ کے بغیر ہم شکست کھا گئے تو آپ مدینہ سے مدد بھیج سکیں گے ۔ اگر آپ سپہ سالار ہوئے اور شہید ہو گئے تو نہ کوئی اللّٰہ کی تکبیر پڑھنے والا رہے گا نہ کوئی لا الہ الا اللہ کی شہادت دینے والا رہے گا۔" عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللّٰہ عنہ نے بات مختصر کی تھی لیکن وہ بہت کچھ کہہ گئے تھے ۔ وہ کہنا یہ چاہتے تھے کہ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ میں شخصیت کی جو عظمت ، کردار کی جو بلندی ، عزم کی پختگی اور انتظامی اُمور کی جو صلاحیت ہے وہ کسی اور میں کم ہی نظر آتی ہے ۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کے خیالات انقلابی تھے ۔ عبدالرحمن بن عوف رضی اللّٰہ عنہ کی اس دلیل کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو وہاں موجود تھے ، سمجھ گئے ۔ سب نے تائید کی لیکن یہ بھی کہا تھا کہ سپہ سالار کوئی صحابی ہونے چاہئیں۔۔۔۔ *<======================>* *جاری ہے بقیہ قسط نمبر 47 میں پڑھیں* *<======================>* *جو احباب اسلامی تاریخی واقعات پڑھنے کا شوق رکھتے ہے وہ آج ہی ہمارا چینل/گروپ جوائن کریں اور اپنے دوست احباب کو بھی ضرور شئیر کریں۔*
❤️ 🌴 4

Comments