🌹 اردو ادب 📚
January 19, 2025 at 04:34 PM
*⚔️حـجـاز کـی آنـدھـی🏇* *قـسـط نــمـبـر 47* *انتخاب: پرویز احمد شیخ* *https://t.ly/MDIH8* *✍🏻حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کے خیالات انقلابی تھے ۔ عبدالرحمن بن عوف رضی اللّٰہ عنہ کی اس دلیل کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو وہاں موجود تھے ، سمجھ گئے ۔ سب نے تائید کی لیکن یہ بھی کہا تھا کہ سپہ سالار کوئی صحابی ہونے چاہئیں ۔۔۔۔* "میں تمہارے فیصلے کا پابند رہوں گا" ____ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا _____ "لیکن جس جنگ کے لئے ہم جا رہے ہیں وہ اُن جنگوں سے بہت ہی زیادہ خوفناک ہو گی جو ہم نے آج تک لڑیں ہیں ۔ صحابیوں میں سے صرف دو پر میری نظر جاتی ہے لیکن دونوں شام کے محاذ پر رومیوں سے لڑ رہے ہیں ۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللّٰہ عنہ اور ابو عبیدہ رضی اللّٰہ عنہ ____ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کی طرف دیکھا ۔ علامہ شبلی نعمانی نے کچھ حوالے دے کر لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ سے کہا کہ کہ وہ اس لشکر کے سپہ سالار کی حیثیت سے جائیں لیکن حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے انکار کر دیا ۔ کسی بھی مؤرخ نے انکار کی وجہ نہیں لکھی ۔ ابھی مختلف نام پیش ہو ہی رہے تھے کہ دور سے دوڑتے گھوڑے کے ٹاپ سُنائی دینے لگے۔ گھوڑا ادھر ہی آ رہا تھا۔ قریب آ کر گھوڑا رُکا ۔ سوار کُود کر اُترا اور دوڑ کر حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کی محفل میں آیا ۔ "اسلام علیکم یا امیر المومنین!" ____ سوار نے کہا اور ایک تحریری پیغام حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کو دیتے ہوئے کہا ___ "الحمد للہ آپ یہیں مل گئے ہیں ۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کا پیغام لایا ہُوں ۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ شاید امیرالمومنین صرار کے چشمے پر مل جائیں گے۔" "اللّٰہ تجھے سلامت رکھے"____ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے کہا ____ "تُو بہت ہی تیز آیا ہے ۔ بیٹھ جا ۔۔۔۔۔ سعد رضی اللّٰہ عنہ کہاں ہے۔" "نجد میں!" ____ سوار نے جواب دیا ۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کا پیغام پڑھ کر سب کو سُنایا ۔ اُنہوں نے لکھا تھا : "بسم اللہ الرحمن الرحیم! امیرالمومنین عمر ابن خطاب رضی اللّٰہ عنہ کے نام ، تین ہزار آدمی بھیج چُکا ہوں جن میں زیادہ تعداد سواروں کی ہے ۔ یہ آپ کے ساتھ جا رہے ہیں ۔ میں نے ایک ہزار مزید سوار تیار کیے ہیں جو جانباز ہیں ، عقل مند اور بہت ہی بہادر اور نڈر ہیں ۔ اُن کا انتظار کر کے آگے بڑھیں۔" "سپہ سالار مل گیا" ____ عبد الرحمن بن عوف رضی اللّٰہ عنہ نے بے تابی سے نعرہ لگایا ۔ "کون ؟" ____حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے پوچھا۔ "کچھار کا شیر" ____ عبدالرحمن بن عوف رضی نے کہا ____ "سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ!" یہ تاریخی گفتگو ہے جس کا ایک ایک لفظ تاریخ کے دامن میں محفوظ ہے ۔ مؤرخ ابنِ خلکان نے لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کا نام سُنا تو سوچ میں پڑ گئے اور کچھ دیر خاموش رہے۔ خاموشی کی وجہ یہ تھی کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کی شجاعت اور بے خوفی میں کسی کو شک نہ تھا لیکن جہاں تک میدانِ جنگ میں جنگی تدبیروں اور قیادت کا تعلق تھا ، حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ مطمئن نہیں تھے لیکن وہاں جتنے بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین موجود تھے ، ان سب نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللّٰہ عنہ کی پُر زور تائید کی ۔ وہاں چند اور صائب الرائے شخصیتیں بھی موجود تھیں ۔ ان سب نے سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کے حق میں رائے دی ۔ *`یہ سلسلہ شروع سے پڑھنے کے لئے نیچے دی گئی لنک سے ہمارا چینل ابھی جوائن کریں`* https://whatsapp.com/channel/0029Va5NdllKLaHfWG6Hxi1j "فورًا واپس نجد جاؤ" ____ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کے قاصد سے کہا ____ " تُمہارا گھوڑا تھکا ہُوا ہے ۔ کوئی مضبوط گھوڑا لے جاؤ اور سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ سے کہو کہ فورًا یہاں آ جاؤ ۔ اپنے ایک ہزار سوار ساتھ لیتے آنا ۔ تمہیں اس لشکر کا سپہ سالار مقرر کر دیا گیا ہے ۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کے متعلق کچھ تعارفی باتیں ہو جائیں تو بے محل نہ ہوں گی ۔ سعد رضی اللّٰہ عنہ صحابی ہی نہیں تھے بلکہ رسول اللہ ﷺ ماموں بھی تھے ۔وہ قریش کے ابتدائی مسلمانوں میں سے تھے۔ انہوں نے سترہ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا ۔ سعد رضی اللّٰہ عنہ کہا کرتے تھے ____ "میں نے اُس وقت اسلام قبول کیا تھا جب اللّٰہ نے ابھی نماز فرض نہیں کی تھی ۔ مجھ سے پہلے کوئی اور مسلمان نہیں ہوا تھا ۔ صرف ایک آدمی اُس روز مسلمان ہُوا تھا جس روز میں، میں نے اسلام قبول کیا تھا ۔ ایک دن ایسا بھی تھا جس دن میں تیسرا مسلمان تھا۔" دراصل مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تھا اور خواتین میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہ نے ۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کا مطلب غالبًا یہ تھا کہ نوجوانوں میں سب سے پہلے اُنھوں نے اسلام قبول کیا تھا ۔ (واللہ اعلم) ہم نے یہ تحریر براہِ راست عربی کی ایک تحریر سے ترجمہ کی ہے ۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کی بیٹی عائشہ نے اُن کا حلیہ اس طرح بیان کیا تھا _____ "میرے والد کا قد چھوٹا ، جسم دوہرا ، ہاتھوں کی انگلیاں مضبوط اور ان پر بال زیادہ تھے ۔ سر ، داڑھی اور مونچھوں کو خضاب لگایا کرتے تھے۔" سعد رضی اللّٰہ عنہ دولت مند تھے ۔ قیمتی لباس پہنتے تھے لیکن ان کے انداز اور طور طریقے امیرانہ نہیں تھے۔ میدانِ جنگ میں شجاعت کے غیر معمولی جوہر دکھاتے تھے اور ممتاز شہسوار تھے ۔ تمام تر غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے ۔ اُحد کی لڑائی میں رسول اللہ ﷺ نے جن چند ایک تیر اندازوں کو ایک خاص جگہ کے لئے منتخب کیا تھا ، ان میں سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ بھی تھے ۔ اُحد ہی کی لڑائی کا مشہور واقعہ ہے کہ بہت سے آدمی رسول اللہ ﷺ کا ساتھ چھوڑ گئے تھے اور دُشمن نے آنحضور ﷺ کو تقریبا گھیر لیا تھا ایسی خطرناک صورتِحال میں سعد رضی اللّٰہ عنہ آنحضور ﷺ کی حفاظت میں سینہ سپر رہے ۔ ان کے ہاتھ میں کمان تھی اور اس کمان سے نکلے ہوئے تیر دُشمن کو قریب نہیں آنے دے رہے تھے ۔ حسنین ہیکل نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سعد رضی اللّٰہ عنہ سے کہا _____ "میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں ۔ اسی طرح تیر چلاتے رہنا۔" تاریخِ اسلام یہ بھی گواہی دیتی ہے کہ اسلام کے لئے سب سے پہلا تیر سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے چلایا تھا ۔ وہ اس طرح کہ سعد رضی اللّٰہ عنہ حجاز کی وادئ رابغ کے ایک چشمے پر تھےکہ ان کا آمنا سامنا قریش کی ایک ٹولی سے ہو گیا جس کا سردار ابوسفیان تھا ۔ تصادم کا خطرہ تھا ۔ خطرہ شاید ایک تیر نے ٹال دیا تھا جو ان چند ایک مسلمانوں کی طرف سے چلا تھا ۔ یہ تیر سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کی کمان سے نکلا تھا ۔ تاریخ میں سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کے یہ الفاظ ملتے ہیں _____ "میں پہلا عربی ہوں جس نے اللّٰہ کی راہ میں تیر چلایا تھا۔" تاریخ میں ایک اور روایت ملتی ہے ۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ جوانی میں ایسے بیمار ہوئے کے بچنے کی امید نہ رہی ۔ ان کی اولاد صرف ایک بیٹی تھی ۔ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کو گئے ۔ "یا رسول اللّٰہ ﷺ!" ____ سعد رضی اللّٰہ عنہ نے کہا ______ "میرے پاس بہت دولت ہے ۔ کیا میں وصیت کر دوں کہ میری دولت کے تین حصوں میں سے ایک حصہ بیٹی کیلئے اور دو حصے مسلمانوں کے لیے ہیں ؟" "نہیں!" ____ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔ "دو حصے ؟" "نہیں سعد!" ___ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ___ "ایک تہائی" _____ "ایک تہائی؟" "ایک تہائی " ____رسول اللہ ﷺ نے فرمایا _____ "یہ بھی زیادہ ہے ، لیکن بہتر ہے کہ اپنے وارثوں کو دولت مند چھوڑو بجائے اس کے کہ وہ دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔" سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ بات سمجھ گئے۔ یہ تھے سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ جنہیں امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فارس کی بادشاہی کے خلاف فیصلہ کُن جنگ لڑنے کے لیے سپہ سالار بنایا تھا ۔ سعد رضی اللّٰہ عنہ امیر المومنین کا پیغام ملتے ہی نجد سے صرار پہنچ گئے ۔ "اے سعد!" ____ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے ہدایات دیتے ہوئے کہا _____ "اے سعادتِ بنو وہب! کبھی ایسا تکبر نہ کرنا نہ ایسا غرور دل میں رکھنا کہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ماموں اور صحابی ہے ۔ جو کچھ ہے وہ تُو خود ہے اور تیرے اپنے اعمال ہیں ۔۔۔۔۔۔ اللّٰہ بُرائی سے بُرائی کو نہیں نیکی سے مٹایا کرتا ہے ۔ اور اللّٰہ اور بندے کے درمیان اطاعت کے سوا کوئی دوسرا رشتہ نہیں ۔ اللّٰہ کے دین میں سب برابر ہیں ۔ برتری صرف اُسے حاصل ہوتی ہے جو اطاعت کوش ہو ۔ مسئلہ کوئی بھی ہو ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنت کے مطابق عمل کرنا اور صبر و استقامت کا دامن نہ چھوڑنا ۔۔۔۔۔۔ جہاں کہیں پڑاؤ کرو وہاں کے حالات اور اس جگہ کی تفصیل لکھنا ۔ پیغام رسانی کا انتظام بہت تیز رکھنا اور یہ نہ بھولنا کہ جس طرح ہم کہتے ہیں کہ سلطنت فارس کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیں گے اسی طرح فارسی اسلام کو اور مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کا عہد کیے ہوئے ہیں اور وہ بہت بڑی فوج تیار کر رہے ہیں۔ وہ انسانوں ، گھوڑوں ، ہاتھیوں اور ہتھیاروں کا ایسا طوفان ہو گا جس کے سامنے تمہارا لشکر خس و خاشاک جیسا ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ صبر و استقلال سے کام لینا دُشمن مکار اور فریب کار ہے اور اُس کی یہی فطرت اُس کی شکست کا باعث بنے گی ۔ تم احسان اور کرم نوازی سے پیش آنا ۔ جو فارسی تمہاری قید میں آ جائیں ان پر رحم کرنا ۔ فارسی متحد ہو گئے تو گھبرانا نہیں ان کے دل متحد نہیں ہوں گے ۔ اگر تمہیں پیچھے ہٹنا پڑے تو عرب کی سرحد کے اندر آ جانا ۔ فارسی ان ریتلے ٹیلوں اور صحرا سے واقف نہیں ۔ وہ بھٹک جائیں گے پھر تم پلٹ کر ان پر حملہ کر سکتے ہو۔" ایسی ہی کچھ اور ہدایات دے کر حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ اور حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے اس لشکر کو جس کی تعداد ان چند دنوں میں اور بڑھ گئی تھی ، سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کی قیادت میں رخصت کیا ۔ مؤرخ طبری نے لکھا ہے کہ اس لشکر میں ستّر (70) ایسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے جو غزوۀ بدر میں لڑے تھے ۔ تین سو ایسے بزرگ تھے جو فتح مکہ میں شریک تھے اور سات سو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بیٹے تھے ۔ کیا لشکر تھا ۔۔۔۔۔۔ بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہو گئے تھے ۔ کسی کو اس لیے دوسروں پر برتری حاصل نہیں تھی کہ اُس کا قبیلے میں اونچا مقام تھا ۔ اور گسی کو اس لیے کمتر نہیں سمجھا جا رہا تھا کہ وہ مفلس ہے ۔ سب کا درجہ ایک تھا ۔ سب کی ذات ایک تھی ۔۔۔۔۔ مسلمان ۔۔۔۔۔ مجاہد ۔۔۔۔۔ سب کا عزم ایک اور جذبہ ایک تھا ۔ ان میں کوئی بھی اقتدار کا خواہاں نہ تھا ۔ رئیس اور قبیلوں کر سردار ایسا دعوی نہیں کرتے تھے کہ انہیں اونچے عہدے اور رُتبے دیئے جائیں ۔ وہاں تو یہ عالم تھا کہ خلیفۂِ وقت لشکر کے سپہ سالار بن گئے تو ایک دو افراد نے انہیں ٹوک دیا اور سپہ سالار کسی اور کو بنا دیا ۔ خلیفہ نے بلا حیل و حجت اپنا فیصلہ بدل کر اپنے احباب کا فیصلہ مان لیا ۔ مدائن کے اندر اور باہر یہ عالم تھا جیسے بہت بڑا فوجی کیمپ ہو ۔ ہر جگہ فوج ہی فوج تھی میدانوں میں گھوڑے دوڑ رہے تھے ۔ نو آموزوں کو شہسوار بنایا جا رہا تھا ۔ کہیں تیغ زنی کی مشق ہو رہی تھی ۔ تیرانداز قلعے کی دیواروں پر نشان لگا کر تیر چلا رہے تھے ۔ فوجیوں کا شور و غل اتنا کہ کانوں پڑی آواز نہیں سُنائی دیتی تھی ۔ ایک میدان میں ہاتھیوں کو دوڑایا اور تھوڑے تھوڑے فاصلے پر دائیں بائیں اور پیچھے کو گھمایا پھرایا جا رہا تھا ۔ یہ میدانِ جنگ کی حرکات اور بھاگ دوڑ کی مشق تھی ۔ دیکھ کر ہی اندازہ ہوتا تھا کہ بہت بڑی جنگ کی تیاری ہو رہی تھی اور فوج کی تعداد دیکھ کر یوں معلوم ہوتا تھا جیسے دُنیا کی کسی بہت ہی بڑی جنگی طاقت کے خلاف اتنی زیادہ فوج تیار کی جا رہی ہے ۔ فوج کی تعداد دیکھ کر کہا جا سکتا تھا کہ یہ فوج جدھر یلغار کرے گی اُدھر نہ کوئی بستی کھڑی رہے گی ، نہ کوئی پہاڑ اور یہ فوج بڑے ہی تیز و تند طوفان کی طرح اپنے پیچھے کھنڈر اور لاشیں چھوڑ جائے گی ۔ مثنیٰ شہید کے دو جاسوس مدائن میں موجود تھے ۔ فارس کا نیا بادشاہ یزدگرد گھوڑے پر سوار ، آٹھ دس گھوڑ سوار محافظوں کے نرغے میں یہ فوجی تیاریاں دیکھتا پھر رہا تھا ۔ رُستم اس کے ساتھ رہتا تھا بلکہ یزدگرد کو رُستم کی شجاعت اور جنگی قیادت پر بھروسہ تھا ۔ رُستم کی شجاعت اور جارحانہ قیادت کی مثالیں افسانے نہیں تھیں ۔ یہ حقیقت تھی کہ رستم میدانِ جنگ کی ایک دہشت کا نام تھا ۔ یہ دہشت رومیو جیسی قوم پر بھی طاری ہو چکی تھی ۔ یزدگرد جو اکیس (21) سال کا نوجوان تھا ، جوش و خروش سے پھٹا جا رہا تھا ۔ اُس کی ماں تھی جو اُس کے لیے پریشان رہتی تھی ۔ اُس ماں کو اپنے وطن کی نسبت اپنے بیٹے سے زیادہ پیار تھا ۔ سلطنتِ فارس قائم رہتی ہے یا نہیں وہ اپنے بیٹے کو زندہ سلامت دیکھنا چاہتی تھی ۔ اس کو اُس نے گمنام سے ایک گاؤں میں چھپا کر رکھا ہوا تھا ۔ "رُستم!" _____ یزدگرد کی ماں نے رستم سے کہا ____ "تُو جانتا ہے فارس کا تخت و تاج اپنے کتنے وارثوں کا خون پی چکا ہے۔ میرے دل میں ایسی کوئی خواہش نہیں کہ میرا بیٹا فارس کا بادشاہ بنا رہے ۔ جب کبھی تجھے شک ہو کہ تخت کا کوئی وارث میرے بیٹے کو قتل کرنا چاہتا ہے تو مجھے بتا دینا ۔ میں بیٹے کو یہاں سے لے جاؤں گی ۔۔۔۔۔۔ رُستم! سُن لے میرے بیٹے کو کچھ ہو گیا تو زندہ تو بھی نہیں رہے گا ۔ ان ہاتھوں سے تیرے جسم کی بوٹیاں نوچ لوں گی ۔۔۔۔۔۔۔ وہ ڈائن شیریں ۔۔۔۔۔ شیرویہ کی ماں زندہ ہے ۔ وہ اپنے بیٹے کے قتل کا انتقام میرے بیٹے سے لے گی ۔" "نورین!" ______ رستم نے اسے یقین دلایا تھا ____ "تیرا بیٹا قتل نہیں ہو. گا ۔ اسے ہم نے خود بلایا ہے۔" یزدگرد کی ماں نورین نے یہی خدشہ ساران کو بتایا تھا ۔ اس گفتگو کی تفصیلات پہلے سُنائی جا چکی ہیں ۔ اب جب فوج تیار ہو رہی تھی ، ایک روز یزدگرد مدائن سے باہر گھوڑے پر سوار نوآموز جوانوں کی ٹریننگ دیکھتا پھر رہا تھا ، اُس کی ماں قلعے کی دیوار پر کھڑی اُسے دیکھ رہی تھی ۔ "نورین!"____ اسے اپنے قریب آواز سُنائی دی ۔ "اوہ!" ____ نورین نے دیکھا اور چونک کر کہا _____ "ساران ! ۔۔۔۔ اچھا ہوا تم آ گئے ہو ۔ میرا دل گھبرا رہا تھا ۔ وہ دیکھو میرا بیٹا اپنی فوج کو دیکھ رہا ہے ۔ یہ میری نظروں سے اوجھل ہوتا ہے تو میرے دل کو کچھ ہونے لگتا ہے۔" "تمہارے دل کو کچھ نہیں ہونا چاہیے نورین!" ____ ساران نے کہا ____ "اس کی سلامتی کی ذمہ داری میری ہے ۔ ایک تو اس کے ساتھ اپنے محافظ ہیں ۔ دو محافظ میں نے اس کے ساتھ لگاۓ ہوۓ ہیں جو کسی کو نظر نہیں آتے ۔ نظر آئیں بھی تو انہیں کوئی نہیں جانتا ۔" "کیا مجھے رستم پر اعتبار کرنا چاہیے ؟" ____ نورین نے پوچھا۔ "ہاں!" ____ ساران نے جواب دیا ____ "تُمہیں رُستم پر اعتبار کرنا چاہیے ۔ یزدگرد کو بھی اسی پر اعتبار ہے۔" ۔۔۔۔۔ *<======================>* *جاری ہے بقیہ قسط نمبر 48 میں پڑھیں* *<======================>* *جو احباب اسلامی تاریخی واقعات پڑھنے کا شوق رکھتے ہے وہ آج ہی ہمارا چینل/گروپ جوائن کریں اور اپنے دوست احباب کو بھی ضرور شئیر کریں۔*
❤️ 🌴 6

Comments