🌹 اردو ادب 📚
January 20, 2025 at 04:33 PM
*⚔️حـــجـاز کـی آنـدھـی🏇* *قـسـط نــمـبـر 48* *انتخاب: پرویز احمد شیخ* *https://t.ly/MDIH8* *✍🏻دو محافظ میں نے اس کے ساتھ لگاۓ ہوئے ہیں جو کسی کو نظر نہیں آتے ۔ نظر آئیں بھی تو انہیں کوئی نہیں جانتا ۔"* *"کیا مجھے رستم پر اعتبار کرنا چاہیے ؟" ______ نورین نے پوچھا۔ "ہاں!" ______ ساران نے جواب دیا ______ "تُمہیں رُستم پر اعتبار کرنا چاہیے ۔ یزدگرد کو بھی اسی پر اعتبار ہے۔" ۔۔۔۔۔۔۔۔* جس رستم پر یزدگرد اور سارا ان کو اعتبار تھا ، وہ ایک روز مدائن سے تھوڑی ہی دُور ایک بستی میں ذرا الگ تھلگ ایک مکان کے اندر بیٹھا تھا ۔ باہر سے تو یہ مکان عام سا اور کسی عام سے آدمی کا لگتا تھا لیکن کمروں کے اندر جا کر پتہ چلتا تھا کہ یہ کسی رئیس کا مکان ہے ۔ یہاں کوئی رئیس نہیں بلکہ یہاں شیریں رہتی تھی جو کسریٰ (خسرو پرویز) کی چہیتی ملکہ تھی ۔ فارس کی قسمت اس ملکہ کے ہاتھ میں تھی ۔ جرنیل اس کے آگے جُھکے جُھکے رہتے تھے ۔ یہ بات اب پرانی ہو گئی تھی ۔ شیریں اس مکان میں چوری چھپے نہیں رہتی تھی ۔ سب جانتے تھے یہ شیریں ہے جس کے اشارے پر سر قلم ہو جایا کرتے تھے ۔ لوگ اسے دیکھ کر کہا کرتے تھے کہ دوسری دوسروں کی قسمت بنانے اور بگاڑنے والی کی اپنی قسمت دیکھو ۔ پہلے سُنایا جا چکا ہے کہ اپنے بیٹے شیرویہ کو بادشاہ بنانے کے لیے اس نے کس عیاری سے اپنے خاوند خسرو پرویز کو دھوکے دیے اور تمام جرنیلوں کو اُس کے خلاف کر دیا تھا ، پھر شیریں نے اپنے بیٹے کے ہاتھوں کسریٰ کے تمام بیٹوں کو جو دوسری بیویوں سے تھے ، اپنے سامنے قتل کروا دیا تھا ، پھر اپنے سترہ بھائیوں اور اپنے باپ کا قاتل بیٹا اُس کے سامنے قتل ہوا ۔ خسرو پرویز کی بیٹی پُوران دُخت تخت نشین ہوئی تو اس نے رُستم کو اپنا وزیر بنا لیا ، رُستم ہی افواج کا کمانڈر انچیف تھا اور وہ تمام تر اختیارات جو بادشاہ کو حاصل ہوتے ہیں وہ پُوران نے رستم کو دے اور پوران نے عورت کی حیثیت سے اپنا آپ بھی رستم کے حوالے کر دیا ۔ پُوران سلطنتِ فارس کو تباہی و بربادی سے بچانے کے لیے تخت نشین ہوئی تو خسرو پرویز کی تمام بیویاں اور داشتائیں مدائن سے نکل گئیں اور مختلف بستیوں میں جا آباد ہوئیں ۔ شیریں زیادہ دُور نہیں گئی تھی ۔ مدائن کے قریب ہی ایک گاؤں میں آباد ہو گئی تھی ۔ ایک روز جب مسلمانوں کا لشکر سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کی قیادت میں مدائن کی طرف جا رہا تھا اور مدائن میں ایک بہت بڑی فوج تیار ہو رہی تھی ، رستم شیریں کے گھر میں بیٹھا تھا ۔ وہ بادشاہ قسم کا جرنیل تھا ۔ جہاں چاہتا اور جس وقت چاہتا جا سکتا تھا۔ شیریں کے پاس وہ پہلی بار نہیں آیا تھا ۔ شیریں بڑھاپے میں تو کبھی کی داخل ہو چکی تھی لیکن جوانی کے انداز ابھی باقی تھے اور یہ انداز اس عیاری کے آئینہ دار تھے جن سے اُس کی فطرت بنی تھی ۔ کیا سوچ کر آئے ہو رُستم؟" ____ شیریں نے رستم سے پوچھا ____ "تم نے کہا تھا کہ اب آؤ گے تو اپنا فیصلہ سُناؤ گے ۔۔۔۔۔ میں نے اپنے بیٹے کا انتقام لینا ہے ۔ اس کے لیے اگر فارس کی شہنشاہی ختم ہو جاتی ہے تو ہو جائے۔" *`یہ سلسلہ شروع سے پڑھنے کے لئے نیچے دی گئی لنک سے ہمارا چینل ابھی جوائن کریں`* https://whatsapp.com/channel/0029Va5NdllKLaHfWG6Hxi1j "حالات میرے سامنے ہیں" _____ رستم نے کہا ____ "تُم بھی دیکھ رہی ہو ، ان حالات میں تمیارا مقصد پورا نہیں ہو سکتا ۔ یزدگرد کو میں نے تخت پر نہیں بٹھایا ۔ اسے سرکردہ لوگ لائے ہیں ۔ ان لوگوں نے کہا تھا کہ جرنیلوں نے اپنے اختلافات ختم نہ کیے تو وہ شاہی خاندان کے خلاف بغاوت کر دیں گے ۔ تم دیکھ رہی ہو کہ مدائن میں کس طرح فوج تیار ہو رہی ہے اور کس طرح لوگ دوڑ دوڑ کر آ رہے ہیں اور فوج میں شامل ہوتے جا رہے ہیں ۔ یہ بھی تم جانتی ہو کہ لوگوں نے بغاوت کر کے مسلمانوں سے اپنے علاقے واپس لے لیے ہیں ۔ یوں سمجھ لو کہ اس وقت فارس کی بادشاہی لوگوں کے ہاتھوں میں ہے ۔ یہ حالات بہت جلدی بدل جائیں گے پھر جو کہو گی وہی کر دوں گا۔" "میرے قریب آؤ رُستم!" ____ شیریں نے رازدارانہ لہجے میں کہا اور جب رستم سرک کر اُس کے قریب ہو گیا تو اُس نے کہا ____ "مجھے تمہاری ضرورت ہے اور میں اپنی یہ ضرورت پوری کرنے کا معاوضہ دوں گی ۔۔۔۔۔ ایک راز ہے جو تمہیں بتانا چاہتی ہوں ۔ میں نے اچھا خاصا خزانہ ایک جگہ چھپا رکھا ہے ۔ اس کے لیے مجھے ایک مرد کی ضرورت ہے ۔میں اکیلی عورت کیا کر سکتی ہوں ۔ وہ مرد تُم ہی ہو سکتے ہو ۔ تم جانتے ہو مجھے تم پر پُورا پُورا اعتماد ہے۔" "کیا کروگی اس خزانے کو؟" ____ رستم نے پوچھا ____ "تمہارے اور میرے کام آئے گا" ____ شیریں نے کہا ____ " پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ مسلمانوں کے سامنے فارس کا مستقبل کیا ہے۔" "اچھا نظر نہیں آتا " ___ رستم نے جواب دیا ۔۔۔۔۔۔۔ اب ہم بہت زیادہ فوج تیار کر رہے ہیں مسلمان اتنی فوج کبھی نہیں لا سکتے پھر بھی مجھے شک ہے کہ ہماری فوج میدان میں جم نہیں سکے گی۔" "کیا تم ایسی کوشش کر سکتے ہو کہ جنگ ٹلتی رہے؟" ____ شیریں نے پوچھا ۔ "کر سکتا ہوں" ____ رستم نے کہا۔ "تو کرو" ____ شیریں نے کہا _____ "جنگ کو ٹالنے کی کوشش کرو ۔۔۔۔۔۔ میں تمہیں صاف بتا دیتی ہوں ۔ میں نے اس ملک کی ملکہ بننا ہے ۔ تم جانتے ہو کہ میری بادشاہی میں تمہارا رُتبہ کیا ہو گا۔ اگر مدائن پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا تو تمہارا کام یہ ہو گا کہ تم مجھ تک پہنچو۔ تمہارے ساتھ چند ایک غلام ہونے چاہئیں جو اس جگہ کی کھدائی کریں گے ۔" "کیا اُن لوگوں کی طرف سے تمہیں خطرہ نہیں جن سے تم خزانہ دفن کرایا تھا؟" _____ رُستم نے پوچھا۔ "نہیں!" ____ شیریں نے جواب دیا ___ "کوئی خطرہ نہیں ۔ وہ چھ آدمی تھے خزانہ دفن کرنے کے بعد ایک بھی زندہ نہیں رہا۔ میں نے ان سب کو کھانے میں زہر دے دیا تھا اور اُن کی لاشیں دریا میں بہا دی تھیں ۔۔۔۔۔۔ رُستم! جنگ ہوئی تو تم زندہ رہنے کی کوشش کرنا ۔ میں نے یہ خزانہ کسریٰ پرویز کی زندگی میں ہی جمع کرنا شروع کر دیا تھا ۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ بادشاہوں کا کیا بھروسہ ۔ جب چاہیں اُٹھا کر باہر پھینک دیں ۔۔۔۔۔ کیا تم میرا مطلب سمجھ گئے ہو رستم ؟" رستم اُس کے عزائم کو سمجھ گیا تھا ۔ اُس نے شیریں سے وعدہ کیا کہ وہ خود میدانِ جنگ میں جانے سے گریز کرے گا اور حالات جیسے بھی ہوئے وہ شیریں تک پہنچے گا ۔ مدائن میں جنگی تیاریاں زور و شور سے ہو رہی تھیں ، اُدھر سے مسلمانوں کا لشکر آ رہا تھا۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ سے ٹھیک کہا تھا کہ آتش پرست قوم مکار اور عیار ہے ۔ یہ قوم اگر ایک محاذ پر متحد ہو بھی گئی تو خطرہ پھر بھی نہیں ہو گا کیونکہ اتحاد میں بھی فارسیوں کے دلوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہو گا ۔ رُستم جو دلاور اور نامور جرنیل تھا ، بظاہر جنگی تیاریوں میں مصروف تھا ، در پردہ اُس کی دلچسپی شیریں کے خزانے کے ساتھ تھی ۔ یزدگرد کو تخت پر بٹھا کر وہ خوش تھا ۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ اپنے لشکر کے ساتھ ایک مقام پر پہنچے جس کا نام شراف تھا اور وہاں خیمہ زن ہو گئے ۔ اُسی شام ذی قار سے ایک قاصد شراف پہنچا وہ مثنیٰ بن حارثہ کی شہادت کا پیغام لیے مدینہ جا رہا تھا ۔ سعد رضی اللّٰہ عنہ نے جب مثنیٰ رضی اللّٰہ عنہ کی شہادت کی خبر سُنی تو ان پر سناٹا طاری ہو گیا ۔ مثنیٰ رضی اللّٰہ عنہ کی سب سے زیادہ ضرورت تو اَب تھی ۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ سے کہا تھا کہ وہ جہاں کہیں بھی پڑاؤ کریں وہاں کا محلِ وقوع وغیرہ تفصیل سے لکھیں ۔ تاریخ کے مطابق حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کے الفاظ یہ تھے _____ "اپنے تمام احوال و قوائف مجھے تفصیل سے لکھنا اور یہ بھی لکھنا کہ تم دُشمن سے کتنی دُور ہو ۔ تمہارا خط اتنی زیادہ تفصیلات کا حامل ہونا چاہیے جیسے میں تمہیں دیکھ رہا ہوں۔" سعد رضی اللّٰہ عنہ کو شراف کے مقام پر زیادہ عرصہ رُکنا پڑا کیونکہ ابھی تک اِکے دُکے لوگ لشکر میں شامل ہونے کے لئے آ رہے تھے ۔ شام سے ہاشم بن عتبہ کی زیرِ کمان آٹھ ہزار رضا کاروں کا لشکر آ گیا ۔ شراف کے پڑاؤ کو طول دینے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہاں سے اس لشکر کی ترتیب اور تنظیم کا فیصلہ کر کے آگے بڑھنا تھا ۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ تک ایک پیغام سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کا پہنچا جس میں انہوں نے تمام تر احوال و کوائف لکھ کر درخواست کی تھی کہ امیرالمومنین لشکر کی تنظیم لکھ کر بھیجیں اور ہر حصے کا سالار بھی مقرر کر دیں ۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ فوًرا لشکر کی تنظیم اور ہر حصے کی کمان لکھ دی ۔ یہ تفصیل تاریخ میں موجود ہے ۔ یہ اس طرح تھی : ہراول کا سالار زہرہ بن عبداللہ بن قتادہ کو مقرر کیا گیا ۔ یہ زمانۂِ جاہلیت میں بحرین کے بادشاہ تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور خود حاضر ہوئے اور اپنی ساری رعایا کے ساتھ اسلام قبول کیا تھا ۔ لشکر کے میمنہ (دائیں پہلو) کی سالاری عبداللہ بن المعتصم رضی اللّٰہ عنہ کو دی گئی۔ یہ صحابی تھے ۔ میسرہ (بایاں پہلو) ایک جواں سال مجاہد شرجیل بن السمط کو دیا گیا ۔ انہوں نے ارتداد کی جنگ میں شجاعت اور قیادت میں شہرت حاصل کی تھی ۔ ساقہ (پچھلا حصہ ، ریئرگارڈ) عاصم بن عمرو التمیمی کے زیر کمان رکھا گیا ۔ طلایع (گشتی دستے) کے کماندار سواد بن مالک ، مجرد (بے قاعدہ فوج) کے سلمان بن ربیعہ الباہلی پیادہ فوج کے جمال بن مالک الاسدی اور شتر سوار دستے کے کماندار عبداللہ بن ذی السمین مقرر کیے گئے ۔ قاضی عبداللہ بن ربیعہ الباہلی تھے اور خزانچی کے فرائض بھی انہی کے سپرد تھے ۔ راید (رسد) کی فراہمی اور تقسیم کے انچارج مشہور و معروف صحابی سلمان فارسی رضی اللّٰہ عنہ تھے ۔ فارس کے رہنے والے تھے ۔ جنگ خندق میں خندق کا تصور انہوں نے ہی دیا اور خندق کھدوائی تھی ۔ عربوں اور فارسیوں کے درمیان ترجمانی کے فرائض حلال ہجری کو دیے گئے اور منشی زیاد بن ابی سفیان کو مقرر کیا گیا۔ لشکر کے ساتھ طبیب بھی تھے لیکن ان کی تعداد نہیں لکھی گئی نہ ان کے نام کسی تاریخ میں ملتے ہیں ۔ "۔۔۔۔۔۔ اس ترتیب سے آگے بڑھو اور تمہاری منزل قادسیہ ہو گی وہاں تمہارے سامنے عجم کی زمین اور پیٹھ پیچھے عرب کے پہاڑ ہوں گے ۔ اگر دُشمن کے دباؤ سے کبھی پیچھے ہٹنا پڑے تو ان پہاڑوں کے اندر آ جانا ۔ قادسیہ پہنچ کر مجھے وہاں کے حالات تفصیلی سے لکھنا ۔ قادسیہ فارس کا دروازہ ہے۔" سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے یہ پیغام ملتے ہی لشکر کو اس کے مطابق تقسیم کر کے ہر حصے کا کمانڈر مقرر کر دیا ۔ شراف سے آگے سعد رضی اللّٰہ عنہ کو مکمل بلکہ ضرورت سے زیادہ احتیاط سے کوچ کرنا تھا۔ اُنہوں نے ایک کام یہ کیا کہ چند ایسے عربوں کو جو فارسی زبان بھی بول سکتے تھے اور آگے کے علاقوں سے اچھی طرح واقف تھے ، جاسوسی لئے بھیج دیا اور انہیں کہا کہ ذرا ذرا سی خبر بہت جلد لاتے رہے ہیں ۔ انہیں اور بھی ہدایات دی گئیں ۔ سعد رضی اللّٰہ عنہ کے ساتھ جو لشکر تھا اس میں یہ کمزوری تھی کہ نصف سے زیادہ تعداد کو میدانِ جنگ میں لڑنے کا تجربہ نہیں تھا ۔ انہیں صرف لڑنے کا تجربہ تھا ۔ وہ تیغ زن تھے ، تیر انداز بھی تھے اور شہسوار بھی اور وہ ایک جذبہ لے کر آئے تھے ، جذبہ بھی ایسا جو روح کا جنون تھا لیکن سعد رضی اللّٰہ عنہ کو یہ خطرہ دکھائی دے رہا تھا کہ جنگجو ہونا تو پہلی شرط ہے لیکن تنظیم اور سالار کی قیادت میں لڑنا بالکل ہی مختلف بات ہے دوسرا یہ بھی تھا کہ وہ جس دُشمن کے خلاف لڑنے جا رہے تھے اُس کی تعداد ٹڈی دل جیسی تھی ۔ اُس کے پاس ہتھیار بہت بہتر ، گھوڑ سوار بہت زیادہ اور سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ اُس کے پاس ہاتھی تھے اور عربوں نے ہاتھی کبھی دیکھا ہی نہیں تھا ۔ ذرا غور کیجیے کہ اس لشکر کیساتھ شاعر بھی آئے تھے جن میں عرب کے مشہور شاعر شماخ ، حطیہ ، اوس بن مغرا ، عبدة بن الطیب ، عمرو بن معدی کرب اور اشعث بن قیس شامل تھے اور اس لشکر میں خطیب بھی تھے جن میں قیس بن ھبیرہ غالب ، ابن الہذیل الاسدی ، بسر بن ابی رہم الجہنی ، عاصم بن عمرو ، ربیع مہدی اور ربعی بن عامر جیسے شعلہ بیان اور اپنے زمانے کے نامور خطیب شامل تھے ۔ گو اُس وقت کے شاعر آج کل کے شاعروں جیسے نہیں تھے جن کی زندگی کا مقصد صرف مشاعرے پڑھنا اور داد وصول کرنا ہے اور اُس وقت کے امام اور خطیب بھی آج کے اماموں اور خطیبوں جیسے نہیں تھے جنہوں نے قوم کو فرقوں میں تقسیم کر کے ایک ایک مسجد پر قبضہ کر رکھا ہے لیکن وہ بہرحال شاعر اور خطیب تھے ۔ تیغ زن اور شہسوار بھی تھے لیکن ان کی روزمرہ زندگی کے معمولات کچھ اور تھے ۔ سعد رضی اللّٰہ عنہ نے انہیں سپاہی سمجھ کر لڑانا تھا آگے چل کر دیکھتے ہیں کہ میدانِ جنگ میں انہوں نے کیا رول ادا کیا ۔ یہاں اتنا ہی بتا دینا کافی ہے کہ لڑائی شروع ہونے سے پہلے ان شاعروں اور خطیبوں کی شعلہ بیانی نے مجاہدین کو آگ کے بگولے بنا دیا تھا ۔ یہاں ایک شاعر کا ذکر بے محل نہ ہو گا ۔ یہ عرب کی مشہور شاعرہ خنساء تھیں جو اپنے چار بیٹوں کو ساتھ لے کر حضرت سعد رضی اللّٰہ عنہ کے لشکر کے ساتھ گئی تھیں ۔ انہوں نے قدسیہ کے میدان میں جس طرح اپنے بیٹوں کو اُتارا تھا وہ آگے چل کر تفصیل سے سُنایا جائے گا ۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے ذی قار سے مثنیٰ بن حارثہ رضی اللّٰہ عنہ کے جانشین کو شراف میں ہی بلانا بہتر سمجھا ۔ مثنیٰ بن حارثہ رضی اللّٰہ عنہ نے شہادت سے پہلے مانے ہوئے ایک مجاہد بشیر بن خصاصیہ کو اپنا جانشین سپہ سالار مقرر کر دیا تھا ۔ حالانکہ ان کا بھائی معنیٰ بن حارثہ موجود تھا لیکن وہ خویش پروری کا زمانہ نہیں تھا ۔ میدانِ جنگ کے مطلوبہ جوہر اور قیادت کی صلاحیت دیکھی جاتی تھی ۔ سعد رضی اللّٰہ عنہ نے قاصد کو یہ پیغام دے کر ذی قار بھیجا کہ مثنیٰ رضی اللّٰہ عنہ کے جانشیں کو ساتھ لے آئے ۔ قاصد راستے سے ہی واپس آ گیا۔ اس کے ساتھ معنیٰ اور مثنیٰ رضی اللّٰہ عنہ کی بیوہ سلمٰی تھی ۔ سعد رضی اللّٰہ عنہ اُٹھ کر معنیٰ سے بغلگیر ہو گئے اور دونوں بہت روئے ۔ سلمٰی پاس کھڑی آنسو بہا رہی تھی ۔ "میرے دونوں بھائیوں نے غیرت مندوں کی طرح جانیں دی ہیں" ____ معنیٰ نے کہا۔ "اور تم سلمٰی!" ____ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے مثنیٰ رضی اللّٰہ عنہ کی بیوہ سے پوچھا ____ "واپس جانا چاہو گی؟" "نہیں!"_____ سلمیٰ نے کہا ____ میں مدینہ نہیں مدائن جاؤں گی جو میرے شوہر کی منزل تھی۔ اگر میں تمھارے لشکر کے ساتھ رہی تو تم یقینًا مجھے بوجھ نہیں سمجھو گے ۔ لڑنا پڑا تو لڑوں گی ، نہیں تو لڑنے والوں کی خدمت کروں گی۔" "اللّٰہ کی قسم !" ____ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے پرجوش لہجے میں کہا ____ "میرے لشکر پر تمہارا بوجھ پھول کی پتی سے زیادہ نہیں ہو گا ۔۔۔۔۔ اور سلمٰی میں تمہیں گمنامی کی زندگی میں نہیں جانے دوں گا ۔ فیصلہ تمہارا ہو گا ۔ تم اس اعزاز کی حقدار ہو کہ تم سپہ سالار کی بیوی تھیں اور سپہ سالار ہی کی بیوی رہو ۔ میں تمہیں وہی عظمت دینا چاہتا ہوں۔" سلمیٰ نے معنیٰ کی طرف دیکھا اور کہا کچھ بھی نہیں ۔ معنیٰ سلمیٰ کی آنکھوں کا سوال سمجھ گئے ۔ سلمیٰ ان سے سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کے ساتھ شادی کرنے کی اجازت مانگ رہی تھی۔ اُس وقت کے عربی معاشرے میں یہ رواج تھا کہ کوئی عظیم المرتبت آدمی فوت ہو جاتا یا کوئی شہید ہو جاتا تو اُسی کے رُتبے کوئی آدمی اُس کی بیوہ سے صرف اس لئے نکاح کر لیتا تھا کہ بیوہ کی عظمت و تکریم میں کوئی فرق نہ آئے اور معاشرے میں بیوہ کا رُتبہ برقرار رہے ۔ اُس وقت دوسری ، تیسری اور چوتھی شادی جسمانی اغراض و مقاصد کے لیے نہیں کی جاتی تھی۔۔۔۔۔ *<======================>* *جاری ہے بقیہ قسط نمبر 49 میں پڑھیں* *<======================>* *جو احباب اسلامی تاریخی واقعات پڑھنے کا شوق رکھتے ہے وہ آج ہی ہمارا چینل/گروپ جوائن کریں اور اپنے دوست احباب کو بھی ضرور شئیر کریں۔*
❤️ 🌴 🙏 6

Comments