🌹 اردو ادب 📚
January 21, 2025 at 04:30 PM
*⚔️حـــجــــاز کـــی آنـــدھـــی🏇* *قـسـط نــمـبـر 49* *انتخاب: پرویز احمد شیخ* *https://t.ly/MDIH8* *✍🏻اُس وقت کے عربی معاشرے میں یہ رواج تھا کہ کوئی عظیم المرتبت آدمی فوت ہو جاتا یا کوئی شہید ہو جاتا تو اُسی کے رُتبے کوئی آدمی اُس کی بیوہ سے صرف اس لئے نکاح کر لیتا تھا کہ بیوہ کی عظمت و تکریم میں کوئی فرق نہ آئے اور معاشرے میں بیوہ کا رُتبہ برقرار رہے ۔ اُس وقت دوسری ، تیسری اور چوتھی شادی جسمانی اغراض و مقاصد کے لیے نہیں کی جاتی تھی ۔۔۔۔۔* مثنیٰ بن حارثہ رضی اللّٰہ عنہ سپہ سالار ہی نہیں عظمت والے سالار بھی تھے ۔ فارس میں بویب کی لڑائی میں جس طرح انہوں نے فارس کی پوری فوج کو کاٹ ڈالا تھا ، وہ تاریخِ اسلام کا ایک درخشاں باب ہے ۔ ایسے سپہ سالار کی بیوی کی جو عظمت حاصل تھی ، اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔ سلمیٰ کی عظمت صرف یہ نہیں تھی کہ وہ مثنیٰ رضی اللّٰہ عنہ کی بیوی تھی بلکہ یہ کہ وہ مثنیِِٰ رضی اللّٰہ عنہ کے ساتھ ہر میدانِ جنگ میں رہیں اور وہ مثنیٰ رضی اللّٰہ عنہ کا جذباتی سہارا بنی رہی تھی ۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ سلمیً کی عظمت برقرار رکھنا چاہتے تھے ۔ تاریخ میں یہ پتہ نہیں چلتا کہ سعد بن وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے اُسی روز سلمیٰ سے نکاح کر لیا تھا یا کچھ دن بعد ، البتہ تمام مؤرخوں نے لکھا ہے کہ سلمیٰ نے سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کی پیشکش قبول کر لی اور معنیٰ نے بھی بخوشی اجازت دے دی اور سلمیٰ کا نکاح سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ سے ہو گیا ۔ سلمیٰ کا یہ عزم قائم رہا کہ وہ مدینہ نہیں مدائن جائیں گی ۔ پہلی ملاقات میں سعد رضی اللّٰہ عنہ نے معنیٰ سے ان کے لشکر کی کیفیت پوچھی معنیٰ نے اپنے لشکر کی تعداد چار یا پانچ ہزار بتائی ۔ "میں مثنیٰ رضی اللّٰہ عنہ کی ایک وصیت آپ تک پہنچانا چاہتا ہوں" _____ معنیٰ نے کہا _____ "مثنیٰ رضی اللّٰہ عنہ نے دمِ آخریں کہا تھا کہ میری جگہ جو سپاہ سالار آئے اُسے بتا دینا کہ فارسیوں سے اُس وقت نہ لڑنا جب وہ یکجا ہو چکے ہوں ۔ اُن کے علاقوں کے اندر جا کر بھی ان سے لڑنا ٹھیک نہیں ۔ ان کی سرحد پر رہ کر ان سے لڑو اور انہیں کمزور کرو ۔ اگر تم اُن پر غالب آ جاؤ تو آگے بڑھو ۔ اگر وہ تُم پر غالب آ جائیں تو پیچھے اپنی سرحد میں آ جاؤ ۔ ہمارے صحرائی راستوں سے عربی واقف ہیں عجمی نہیں ۔ وہ تمہارے پیچھے آئیں گے اور نقصان اُٹھائیں گے پھر تم پلٹ کر اُن پر حملہ کر سکتے ہو اور پھر تم اُن پر غالب بھی آؤ گے ۔ *`یہ سلسلہ شروع سے پڑھنے کے لئے نیچے دی گئی لنک سے ہمارا چینل ابھی جوائن کریں`* https://whatsapp.com/channel/0029Va5NdllKLaHfWG6Hxi1j "آفرین!" ____ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے کہا ___ "مجھے یہی نصیحت امیرالمومنین رضی اللّٰہ عنہ نے کی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دُشمن کی کیا خبر ہے؟" "ہم نے جو علاقے فتح کیے تھے ، وہاں کے لوگ باغی ہو گئے ہیں" ___ معنیٰ نے جواب دیا _____ شہروں اور قصبوں میں اُنہوں نے ہمارے عُمال کو قتل کر دیا ہے ۔ زندہ وہی رہے جو کسی طرح بر وقت بھاگ آئے تھے ۔ یہاں کے لوگوں کا کوئی بھروسہ نہیں ۔ ہماری فتح ہوئی تو ہمارے ساتھ ہو گئے ۔ ہمیں پیچھے ہٹنا پڑا تو اپنی فوج کے ساتھ ہو گئے۔" "اس کا مطلب یہ ہوا کہ محبِ وطن ہیں" ____ سعد رضی اللّٰہ عنہ نے کہا ۔ "نہیں!"____ معنیٰ بولے _____ "عیار اور فریب کار ہیں ، ضرورت پڑتی ہے تو اپنی فوج کو بھی دھوکہ دے جاتے ہیں۔" "اپنی فوج کو پسند نہیں کرتے۔" ____سلمیٰ نے کہا ___ "ان کے فوجی کسی گاؤں میں چلے جائیں تو نوجوان لڑکیوں پر دست درازی کرتے ہیں ۔ لوگوں کے گھروں میں گُھس کر جو چیز اچھی لگتی ہے اُٹھا لے جاتے ہیں ۔" "ان لوگوں پر اپنی دہشت طاری کرنے کی ضرورت ہے" _____ معنیٰ نے کہا ____ "ورنہ یہ قابو میں نہیں رہیں گے ۔ اگر آپ ان سے توجہ ہٹا کر آگے بڑھتے جائیں گے تو یہ پیٹھ پر وار کریں گے ۔ مدائن سے جو خبریں آ رہی ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں کہ وہاں بڑی خوفناک جنگی تیاریاں ہو رہی ہیں "_____ معنیٰ نے جنگی تیاریوں کی تفصیل بتائی۔ اس لشکر میں شام سے آئے ہوئے آٹھ ہزار مجاہدین بھی تھے جن کے سالار ہاشم بن عتبہ تھے ۔ یہ آٹھ ہزار مجاہدین تربیت یافتہ ہی نہیں تجربہ کار بھی تھے ۔ وہ شام میں کئی لڑائیاں پہلے خالد بن ولید رضی اللّٰہ عنہ اور پھر ابو عبیدہ رضی اللّٰہ عنہ کی قیادت میں لڑ کر آئے ۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے ان آٹھ ہزار مجاہدین کو الگ تھلگ رکھا تھا تاکہ انہیں انتہائی مخدوش اور ہنگامی صورتحال میں استعمال کیا جائے ۔ باقی لشکر کو سعد رضی اللّٰہ عنہ نے جنگی مشقیں کرانی شروع کر دیں ۔ انہوں نے سالاروں سے کہا کہ انہیں منظم طریقے سے ایک جماعت کی صورت میں لڑنے کی مشق کرائیں ۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کے اس لشکر میں شامل ہونے والے بیشتر افراد اپنی بیویوں اور بچوں کو بھی ساتھ لائے تھے۔ سلمیٰ آئی تو عورتیں ہجوم کر کے آ گئیں ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور کئی مجاہدین کی بیویاں پہلے بھی محاذوں پر جا چکی تھیں ۔ کئی ایک نوجوان لڑکیاں تھیں جو پہلی بار محاذ پر آئی تھیں ۔ کچھ ان سے بڑی تھیں جنہیں محاذ پر جانے کا پہلا موقع ملا تھا ۔ تمام عورتیں سلمیٰ سے بیوگی کا اظہارِ افسوس کرنے لگیں ۔ "کون کہتا ہے مجھے مثنیٰ رضی اللّٰہ عنہ یاد نہیں آیا کرے گا"_____ سلمیٰ نے سب سے کہا _____ "اللّٰہ کی قسم! تم میں سے کوئی بھی اپنے خاوند کے بغیر خوش نہیں رہے گی لیکن اسلام کی بیٹی کی متاع صرف خاوند ہی نہیں ہوتا ہمیں اپنے خاوندوں کے لئے نہیں اسلام کے لئے زندہ رہنا ہے ۔ تم میں سے جو پہلی بار محاذ پر آئی ہیں ، میں انہیں بتانا چاہتی ہوں کہ تم میں سے کئی ایک اپنے خاوندوں کی خون میں نہائی ہوئی لاشیں دیکھیں گی ۔ اپنے بچوں کے باپ کو خون میں تڑپتا دیکھیں گی ۔ تم میں سے بعض اپنے بچوں کو ان کے باپ کے ساتھ لائی ہیں انہیں یتیم واپس لے جائیں گی ۔ اگر تم ماتم کرنے بیٹھ گئیں تو اسلام کا بول بالا کرنے والا کوئی نہیں رہے گا ۔ مسلمان عورت کی شادی ایک آدمی کے ساتھ نہیں اسلام کے ساتھ ہوتی ہے ۔ ہمیں اپنے خاوندوں کو نہیں اسلام کو زندہ رکھنا ہے ۔ خاوند اور بھی مل جاتے ہیں ،اسلام جیسا سچا دین نہیں ملے گا۔" عورتیں خاموشی سے سُنتی رہیں ۔ " میں تمہیں بتاتی رہوں گی کہ لڑائی شروع ہونے کے بعد تمہیں کیا کرنا ہے" ______ سلمیً نے کہا ______ اور اس کے فورًا بعد قادسیہ کی طرف کُوچ کا حکم مل گیا ۔ لشکر جتنے دن اس مقام پر قیام پذیر رہا ، سعد رضی اللّٰہ عنہ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کو پیغام بھیجتے رہے ۔ ہر پیغام میں پوری رپورٹ ہوتی تھی ۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے سعد رضی اللّٰہ عنہ سے کہا تھا کہ کوچ کا دن وہ خود مقرر کریں گے جو انہوں نے کر دیا ۔ مورخین لکھتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ اپنے احکام میں چھوٹی چھوٹی باتیں بھی لکھتے تھے ۔ طبری نے لکھا ہے کہ امیرالمومنین رضی اللّٰہ عنہ کے پیغامات سے سعد رضی اللّٰہ عنہ یوں محسوس کرتے تھے جیسے حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ ان کے ساتھ ہوں ۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ اس تمام تر علاقے سے واقف تھے جاہلیت کے زمانے میں وہ کئی بار ادھر سے گزرے تھے ۔ اُنہوں نے قادسیہ کی طرف کوچ کا حکم ان الفاظ میں دیا : "۔۔۔۔۔۔ تم جب قادسیہ پہنچو تو خیال رکھنا کہ قادسیہ فارس کا دروازہ ہے ۔ فارسیوں کو ضروریاتِ زندگی اسی دروازے سے گزر کر پہنچتی ہیں یہ بھی خیال رکھنا کہ قادسیی کا علاقہ سرسبز اور شاداب ہے ۔ اس علاقے سے دریا بھی گزرتا ہے اور ندیاں بھی اور ان پر پُل بھی ہیں ۔ یہ قادسیہ اور مدائن کے قدرتی دفاعی انتظامات ہیں ۔ ان پُلوں اور راستوں پر اس طرح قبضہ کر لینا کہ تمہارے مسلح دستے وہاں موجود رہیں اور باقی لشکر کو پیچھے رکھنا ۔۔۔۔۔ قادسیہ جانے کے لیے عذیب کا راستہ اختیار کرنا اس نام کے دو مقامات ہیں ۔ ایک کا نام عذیب الھجانات ہے اور دوسرے کا عذیب القوروس ۔ ان دونوں مقامات کے درمیان قیام کرنا اور دائیں بائیں حملہ کرنا ، بستیوں کو تباہ و برباد نہ کرنا ، وہاں سے رسد اکٹھی کر لینا اور گوشت کے لئے بیل اور بھیڑ بکریاں اکٹھی کر لینا ، آگے کی خبر رکھنا۔" شراف سے کُوچ ہوا اور دوسرے دن لشکر عذیب پہنچا ۔ یہ ایک فوجی چوکی تھی جو چھوٹے سے قلعے کی شکل کی تھی ۔ اُس کے دروازے کُھلے ہوئے تھے ۔ لشکر ابھی کچھ دُور ہی تھا کہ کہیں سے ایک آدمی اُٹھا اور دوڑتا ہوا کُھلے دروازے کے اندر چلا گیا ۔ اس عمارت کے کئی بُرج تھے ۔ یہ آدمی پہلے ایک بُرج میں اور لشکر کو دیکھنے لگا پھر وہاں سے ہٹ کر وہ دوسرے بُرج میں گیا اور لشکر کو دیکھنے لگا پھر وہ ایک اور بُرج میں چلا گیا ۔ اور وہاں سے نکلا تو پھر نظر نہ آیا ۔ "تیزی سے آگے بڑھو" _____ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے کہا ۔۔۔۔۔ "وہ آدمی لشکر کی تعداد دیکھ رہا ہے ، فوجی ہے ، اسے جانے نہ دینا۔" یک پیادہ دستہ چوکی کے دروازے سے اندر چلا گیا ۔ یہاں چار ہی کمرے تھے اور چاروں طرف سے صحن تھا ۔ وہاں کوئی انسان نہ تھا ۔ وہ آدمی بھی نہ تھا جو نظر آیا تھا ۔ چھت پر جو مجاہدین گئے تھے ان میں سے ایک نے بلند آواز سے کہا کہ ایک آدمی قادسیہ کی طرف پیدل بھاگا جا رہا ہے ۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کے پاس اس وقت ایک شخص زہرہ بن جویہ کھڑا تھا ۔ اُنہوں نے اُسی کو کہا کہ اس آدمی کے پیچھے جاؤ اور اُسے پکڑ کر لاؤ۔ زہرا بن جویہ نے گھوڑا دوڑا دیا ۔ اگر وہ علاقہ میدانی ہوتا تو وہ آدمی پکڑا جاتا ۔وہاں کھڈنا لے اور ٹیلے تھے ۔ گھنی جھاڑیاں اور قدِآم گھاس بھی تھی۔ زُہرا کچھ دُور تک گئے ، اِدھر اُدھر بہت ڈھونڈا لیکن وہ آدمی نہ ملا زہرہ واپس آ گئے ۔ اس دوران چوکی کی تلاشی لی گئی تاریخ کے مطابق وہاں سے تیروں اور کمانوں کا بہت بڑا ذخیرہ ملا ۔ برچھیاں بھی بہت زیادہ تعداد میں ملیں اور بیشمار برتن ملے جو مچھلی کی کھال کے بنے ہوئے تھے ۔ یہ فارس کی فوج کا گودام یا اسلحہ خانہ تھا جو وہاں اس لیے بنایا گیا تھا کہ اس علاقے میں لڑائی ہو تو تیروں اور برچھیوں کی کمی قریب ہی سے پوری کر لی جائے ۔ سعد رضی اللّٰہ عنہ نے لشکر کو وہیں قیام کرنے کا حکم دیا اور تمام حصوں کے سالاروں کو بلایا ۔ "میرے رفیقو!"_____ سعد رضی اللّٰہ عنہ نے کہا _____ "آج سے ہماری جنگی کارروائیاں شروع ہو رہی ہیں ۔ پہلے تمہیں بتایا جا چکا ہے کہ یہاں کے لوگوں کا کردار کیا ہے ۔ یہ لوگ کسی کے بھی وفادار نہیں ۔ دھوکہ دہی ان کی فطرت میں شامل ہے ۔ ہمارے خلاف بغاوت کر چکے ہیں ۔ ہمیں شکست دینے کے لیے فارس کی فوج میں بھرتی ہو رہے ہیں ۔انہیں جب ہم نے اپنے سائے میں لیا تھا تو یہ اپنے حکمرانوں اور اپنے ہی ملک کے خلاف ہو گئے تھے۔ انہوں نے ہمارے عُمال کو قتل کیا ہے ۔ ہمارے ہاتھ آئے ہوئے علاقے ہم سے چھینے اور اب ہمارے راستے کی رکاوٹ بن رہے ہیں ۔ مثنیٰ بن حارثہ رضی اللّٰہ عنہ نے فارس کی جتنی فوج کاٹ کر گیدڑوں ، بھیڑیوں اور کتوں کو کھلا دی تھی ، اس سے دُگنی فوج تیار کرنے کے لئے ان لوگوں نے اپنے بیٹوں کو مدائن بھیج دیا ہے ۔۔۔۔۔ "ان لوگوں کے دماغ دُرست کرنے ہیں ۔ امیرالمومنین نے بھی حکم بھیج دیا ہے کہ دائیں بائیں حملے شروع کر دو تاکہ لوگوں پر ہمارا خوف بیٹھ جائے پھر وہ غداری اور دھوکہ دہی کی جرأت نہیں کریں گے ۔۔۔۔۔۔ میرے رفیقو! ان لوگوں پر خوف اور اپنی دھاک بٹھانے کا مطلب یہ مطلب نہیں کہ ان پر ظلم و تشدد کیا جائے اور ان کی جوان عورتوں کو اُٹھا لیا جائے۔ ہمارا دین اس کی اجازت نہیں دیتا۔ کسی بوڑھے ، بچے ، عورت ، معذور اور مریض پر ہاتھ نہیں اُٹھانا ۔ اگر کوئی مقابلہ کرتا ہے تو اُسے قتل کر دو ۔ ان کے گھروں سے کام کی اور قیمتی چیزیں اُٹھانی ہیں ۔ اندھا دُھند لوٹ مار نہیں کرنی ۔ سوناچاندی اُٹھا لانا ہے ۔۔۔۔۔ ہم یہاں وعظ کرنے نہیں آئے نہ یہ لوگ تبلیغ کو قبول کریں گے۔ یہ بعد کی باتیں ہیں ۔ ابھی ہمارے پاس وقت نہیں ۔ بستیوں پر حملوں کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ ہمیں رسد کی ضرورت ہے ۔ بیل اور بھیڑ بکریاں اور اناج اکٹھا کر لینا ، پھر ہر بستی کے اردگرد تین تین چار چار آدمی چھوڑ دینا جو کسی کو بستی سے نہ نکلنے دیں ۔ اب اس کارروائی کے لئے ٹولیاں بنا لو اور آج رات سے ہی یہ کارروائی شروع کر دو۔" وہاں اردگرد جو بستیاں تھیں ان پر حملے شروع ہو گئے ۔ ان حملوں کا انداز چھاپوں جیسا تھا ۔ مجاہدین کی ایک جماعت کسی بستی میں ایسے جوش و خروش سے جا دھمکتی جیسے بستی کے بچے بچے کو قتل کر دیا جائے گا ۔ تمام آبادی کو باہر اکٹھا کر کے کہا جاتا ہے کہ آناج ، اشیائے خورد و نوش ، سونا چاندی وغیرہ باہر لے آئیں ، پھر انہیں کہا جاتا کہ بستی کا کوئی فرد بستی سے باہر قدم نہ رکھے ۔ اگر کسی نے باہر نکلنے کی کوشش کی تو اسے قتل کر دیا جائے گا ۔ لوگ اپنی نوجوان لڑکیوں کو چھپاتے پھرتے تھے لیکن مجاہدین نے کسی لڑکی کی طرف دیکھا تک نہیں ۔ ہر بستی پر چھاپے کا تفصیلی ذکر ممکن نہیں ۔ یورپ کے متعصب تاریخ دانوں نے مجاہدین کو دہشت گرد لکھا ہے اور ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ مسلمان دہشتگرد بستیوں پر حملہ کر کے لوٹ مار کرتے رہے اور وہ جوان عورتوں کو اپنے کیمپ میں لے جاتے تھے لیکن وہ مؤرخ بھی یورپی ہی تھے جنہوں نے بستیوں پر حملے کرنے والے مسلمانوں کو دہشتگرد ہی لکھا ہے لیکن ایسا کوئی اشارہ بھی نہیں دیا کہ مسلمانوں نے لُوٹ مار کی اور اُنہوں نے عورتوں کو اغوا کیا ۔ اُنہوں نے اتنا ہی لکھا کہ فارس کے لوگوں پر دہشت طاری کرنے کے لیے اور رسد کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مسلمانوں کی دہشتگرد جماعتوں نے بستیوں پر شبخون مارے اور رسد کے علاوہ مالِ غنیمت بھی اکٹھا کیا ۔ بستیوں پر حملوں کے سلسلے میں دو واقعات خاصے دلچسپ ہیں ۔ حیرہ اُس زمانے میں سلطنتِ فارس کا ایک اہم شہر تھا ۔ اس پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا تھا ۔ اب مثنیٰ بن حارثہ رضی اللّٰہ عنہ کو پیچھے ہٹنا پڑا تو فارس والوں نے پھر اس پر قبضہ کر لیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ وہاں کے لوگ مسلمانوں کے وفادار ہی رہے اور اُنہوں نے بغاوت نہ کی ۔ مثنیٰ رضی اللّٰہ عنہ خاصا عرصہ وہاں رہے تھے ۔ یہ مسلمانوں کے حُسنِ سلوک کے اثرات تھے کہ ان کی اپنی حکومت واپس آئی تو اُنہوں نے اس حکومت کو قبول نہ کیا ۔ بہرحال فارس کی شاہی حکومت نے وہاں اپنا حاکم مقرر کر دیا جس کا نام مرزبان تھا ۔ مرزبان کی ایک نوجوان بیٹی تھی جس کا نام افشاں تھا ۔ تاریخ نویسوں نے اسے بہت ہی خوبصورت اور متناسب قد کاٹھ والی لڑکی لکھا ہے ۔ وہ ایک درباری موسیقار کو دل دے بیٹھی ۔ وہ کوئی جواں سال اور خوبرو آدمی تھا وہ خوبرو نہ ہوتا تو بھی افشاں اس کی شیدائی ہوتی کیونکہ اس لڑکی کو موسیقی سے عشق تھا ۔ یہ موسیقار سازوں کا جادو جگانے کے ساتھ گاتا بھی تھا اور اُس کی آواز کا سوز دلوں کے تاروں میں ارتعاش پیدا کر دیتا تھا ۔ افشاں حاکموں کے خاندان کی بیٹی تھی یہ خاندان شاہی خاندان سے تعلق رکھتا تھا ۔ اُس وقت افشاں مدائن میں تھی جب اُس نے محسوس کیا تھا کہ اس موسیقار کے ساتھ اُس کا کوئی روحانی تعلق ہے ۔ یہ تعلق ایک کبھی نہ ٹوٹنے والا رشتہ بن گیا اور چُھپ چُھپ کے ملنے کا سلسلہ چل نکلا۔۔۔۔۔۔ *<======================>* *جاری ہے بقیہ قسط نمبر 50 میں پڑھیں* *<======================>* *جو احباب اسلامی تاریخی واقعات پڑھنے کا شوق رکھتے ہے وہ آج ہی ہمارا چینل/گروپ جوائن کریں اور اپنے دوست احباب کو بھی ضرور شئیر کریں۔*
❤️ 4

Comments