🌹 اردو ادب 📚
January 22, 2025 at 04:41 PM
*⚔️حـــجــــاز کــــی آنـــدھــــی🏇*
*قـسـط نــمـبـر 50*
*انتخاب: پرویز احمد شیخ*
*https://t.ly/MDIH8*
*✍🏻افشاں حاکموں کے خاندان کی بیٹی تھی یہ خاندان شاہی خاندان سے تعلق رکھتا تھا ۔ اُس وقت افشاں مدائن میں تھی جب اُس نے محسوس کیا تھا کہ اس موسیقار کے ساتھ اُس کا کوئی روحانی تعلق ہے ۔ یہ تعلق ایک کبھی نہ ٹوٹنے والا رشتہ بن گیا اور چُھپ چُھپ کے ملنے کا سلسلہ چل نکلا ۔۔۔۔۔۔*
اتنے بڑے حاکم کی بیٹی کی شادی درباری موسیقار کے ساتھ نہیں ہو سکتی تھی ۔ اُنہوں نے بھاگ جانے کا عہد کر لیا ۔ وہ شاید ملک شام چلے جانا چاہتے تھے جہاں مسلمانوں اور رومیوں کی خونریز جنگیں ہو رہی تھیں ۔ پھر شام کا بیشتر علاقہ مسلمانوں نے فتح کر لیا ۔ حیرہ پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا ۔ افشاں موسیقار کے ساتھ شام کو بھاگ جانے کا عزم کر چکی تھی کہ اُس کے باپ مرزبان کو حیرہ کا حاکم (امیر یا گورنر) مقرر کر کے وہاں بھیج دیا گیا ۔ مدائن کے دربار میں موسیقار کی ضرورت نہیں رہی تھی کیونکہ وہاں اب جنگی تیاریاں ہو رہی تھیں اور حالات ایسے پیدا ہو گئے تھے کہ شاہی ضیافتیں ، ناچ گانے کی محفلیں اور عیش و عشرت کے مظاہرے بند ہو گئے ۔ موسیقار بھی حیرہ چلا گیا اور افشاں سے ملتا رہا ۔ اس دوران فارس کے شہر صنین کا حاکم جس کا تاریخ میں نام نہیں ملتا ، حیرہ گیا ۔ اُس کی نظر افشاں پر پڑ گئی ۔ اُس نے افشاں کے باپ سے کہا کہ وہ افشاں کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے ۔ باپ نے فورًا یہ رشتہ قبول کر لیا اور شادی کا دن بھی مقرر کر دیا ۔ اُس حاکم کی عمر افشاں سے دُگنی تھی ۔
شادی کے دن سے تین دن پہلے افشاں گھر سے غائب ہو گئی ۔ اُس کے باپ کو شاید موسیقار پر شک تھا ۔ اُس کا پتہ کرایا گیا تو اُسے بھی غائب پایا ۔ مرزبان نے ہر طرف گھوڑ سوار دوڑا دیے اور دونوں ایک جگہ چُھپے ہوئے پکڑے گئے ۔ انہیں لایا گیا ۔ مرزبان حاکم تھا ۔ اُس نے حکم دیا کہ موسیقار کے پاؤں سے رسی باندھ کر ایک گھوڑے کے پیچھے باندھ دیا جائے اور گھوڑا دوڑا دیا جائے اور گھوڑا اس وقت تک دوڑتا رہے جب تک کہ موسیقار کی کھال اُتر نہیں جاتی ۔ حکم کی تعمیل ہوئی موسیقار کو زمین پر لٹا کر رسی کے ایک سرے سے اُس کے پاؤں باندھ دیے گئے اور رسی کا دُوسرا سِرا گھوڑے کی زین کے ساتھ باندھ دیا گیا ۔ ایک فوجی گھوڑے پر سوار ہوا اور گھوڑے کو ایڑ لگا دی ۔ گھوڑا موسیقار کو گھسیٹتا دوڑ پڑا اور سوار اسے میدان میں چکر میں دوڑاتا رہا تماشائیوں کا ہجوم تھا ۔ افشاں بھی دیکھ رہی تھی ۔ موسیقار سخت اور پتھریلی زمین پر گھسیٹا جا رہا تھا ۔ پہلے اُس کے کپڑے پھٹے پھر اُس کا جسم خون سے لال ہونے لگا اور پھر صاف پتا چلتا تھا کہ زمین اور کنکریوں نے اس کے جسم کی کھال اُتار دی ہے ۔ "میری شادی حاکمِ صنین سے نہیں ہو گی" _____ افشاں نے چلا کر کہا ۔
*`یہ سلسلہ شروع سے پڑھنے کے لئے نیچے دی گئی لنک سے ہمارا چینل ابھی جوائن کریں`*
https://whatsapp.com/channel/0029Va5NdllKLaHfWG6Hxi1j
اِدھر سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کے لشکر کی چھاپا مار جماعتیں بستیوں پر چھاپے مار رہی تھیں ۔ ایک روز ایک زیادہ نفری کی پارٹی حیرہ کی طرف چلی گئی ۔ اُس وقت تک مدائن میں یہ اطلاع نہیں پہنچی تھی کہ مسلمان بستیوں پر شب خون مار کر رسد اور مال غنیمت اکٹھا کر رہے ہیں ۔ چھاپہ مار مجاہدین کی یہ جماعت حیرہ اور صنین کے درمیان پہنچی تو اُسے شور و غل سُنائی دینے لگا ۔ دف اور شہنائیاں بھی بج رہی تھیں ۔ یہ علاقہ جنگلاتی تھا اُونچی نیچی ٹیکریاں تھیں ۔ گہرے نشیب بھی تھے ۔ ایک مجاہد نے ایک بلند ٹیکری پر چڑھ کر دیکھا ۔ ایک جلوس سا آ رہا تھا جس میں اڑھائی تین سو آدمی گھوڑوں پر سوار تھے ، چار چار پہیوں والی بگیاں بھی تھیں اور دف اور مختلف ساز بجانے والے پیدل آ رہے تھے ۔ مجاہد ٹیکری سے اُتر آیا اور اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ اُس نے کیا دیکھا ہے ۔ جماعت کا کماندار ٹیکری پر چلا گیا اور واپس آ کر بتایا کہ اس قافلے پر حملہ کیا جائے گا ۔ کماندار نے دیکھ لیا تھا کہ قافلے پر حملے کے لئے گھات کہا موضوع ہو گی ۔ اُس نے اپنی جماعت کو ایسی جگہ لے جا کر چھپا دیا جہاں کسی کو ان کی موجودگی کا شک بھی نہیں ہو سکتا تھا ۔ قافلہ گھات کے مقام پر پہنچا تو مجاہدین اس پر جھپٹ پڑے ۔ گھوڑ سوار تلواروں اور برچھیوں سے مسلح تھے ۔ انہوں نے مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان پر حملہ اچانک اور غیر متوقع طور پر ہوا تھا اس لیے وہ سنبھل نہ سکے ۔ مجاہدین کی نفری قافلے والوں سے کم تھی لیکن گھبراہٹ میں قافلے والوں نے بھاگ نکلنے میں ہی عافیت جانی ۔ ان میں سے چند ایک زخمی ہو کر گھوڑوں سے گرے تھے اور باقی سب بھاگ گئے ۔ بگھیاں چلانے والے بھی بھاگ گئے تھے ۔ بگھیاں شاہانہ تھیں ۔ ان کے پردے ہٹا کر دیکھا ، پہلی بگھی میں ایک بڑی خوبصورت لڑکی بیٹھی ہوئی تھی ۔ وہ شہزادی لگتی تھی ۔ بگھی میں دو عورتیں اور تھیں وہ اس شہزادی کی خادمائیں تھیں ۔ وہ مارے خوف کے کانپ رہی تھیں ۔
"یہ دلہن ہے" _____ ایک خادمہ نے لڑکی کی طرف اشارہ کر کے کہا ______ یہ حیرہ کے حاکم مرزبان کی بیٹی ہے ۔ آج ہی اس کی شادی ہوئی ہے ۔ اس کا دُلہا حاکمِ صنین ہے ۔ یہ اس کی بارات ہے ۔ وہ گھوڑے پر سوار ہے ۔"
یہ لڑکی افشاں تھی جو دُلہن بن کر حاکمِ صنین کے ساتھ سسرال جا رہی تھی مگر اسے روک لیا گیا ۔ دوسری بگھیوں میں سے جو عورتیں نکلیں وہ افشاں کی خادمائیں تھیں اور بارات کے ساتھ آئی ہوئی حاکمِ صنین کی قریبی رشتہ دار تھیں ۔
"وہ کہاں ہے" _____ افشاں نے پوچھا _____ میرا دُلہا!" اُس کے دُلہا نے جم کر مقابلہ کرنے کی کوشش کی تھی اور مارا گیا تھا ۔ دُلہن کو پتہ چلا تو اس کے چہرے پر خوشی کا تأثر آ گیا ۔ "میں نے کہا تھا کہ اس کے ساتھ میری شادی نہیں ہو گی"۔ افشاں نے عجیب سے لہجے میں کہا اور پوچھا _____ "ہمارے ساتھ کیا سلوک ہو گا؟"
"یہ اُس سے پوچھنا جس کے ساتھ تمہاری شادی ہو گی" _____مجاہدین کے کماندار نے کہا ____ "شادی کے بغیر کوئی شخص تمہارے اور عورتوں میں سے کسی کے جسم کو ہاتھ تک نہیں لگائے گا ۔ تمہارے ساتھ وہ سلوک نہیں ہو گا جو تمہارے فوجی اپنے ملک کی عورتوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔"
باراتی بھاگ گئے تھے اور تین چار مارے گئے تھے ۔ جہیز بہت ہی قیمتی تھا اور بہت ہی زیادہ تھا ۔ خالص سونے کے زیورات اور قیمتی ہیروں اور پتھروں کا ہی کوئی شمار نہ تھا ۔ چار پانچ بگھیاں گھوڑوں سمیت الگ ملیں ۔
یہ جماعت وہیں سے واپس آ گئی ۔ عورتوں کو عورتوں کے حوالے کر دیا گیا ۔ افشاں نے اپنی کہانی مسلمان عورتوں کو سُنائی اُسے عورتوں نے بھی یقین دلایا کہ وہ کسی مسلمان کی بیوی بنیں گی اور اُسے داشتہ نہیں بنایا جائے گا ۔ ایک تو یہ بات سُن کر افشاں خوش ہوئی اور دوسری خوشی اُسے یہ تھی کہ اُس کا ادھیڑ عمر دُلہا مارا گیا تھا ۔ افشاں نے مثنیٰ رضی اللّٰہ عنہ کی بیوہ سلمیُ کے ہاتھ پر جو اب سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کی بیوی تھی ، اسلام قبول کر لیا ۔ اس کے بعد تاریخ خاموش ہے کہ افشاں کس کی بیوی بنی تھی ۔
شبخون اور چھاپے اور رسد وغیرہ اکٹھی کرنے کرنے کے سلسلے میں ایک اور واقعہ دلچسپی سے خالی نہ ہو گا ۔ تاریخوں میں آیا ہے کہ ایک مجاہد عاصم بن عمر ایک گاؤں پر چھاپہ مارنے گئے تو گاؤں کے لوگ پہلے ہی وہاں سے بھاگ گئے ۔ صرف ایک آدمی اتفاق سے سامنے آ گیا ۔ اُس سے پوچھا تم کون ہو اور کہاں رہتے ہو ۔ اُس نے بتایا کہ وہ چرواہا ہے اور سارے گاؤں کے مویشیوں کو وہ چرنے چگنے کے لئے لے جایا کرتا ہے ۔
عاصم نے پوچھا مویشی کہاں ہیں ۔
"یہاں ایک بھی مویشی نہیں"____ چرواہے نے جواب دیا _____ "لوگ اپنے مویشی ساتھ لے کر بھاگ گئے ہیں۔"
"جھوٹ نہ بولو" عاصم بن عمرو نے کہا _____ "ہم صرف مویشی اور بھیڑ بکریاں لے کر چلے جائیں گے۔"
روایت جو مشہور ہوئی وہ یہ تھی کہ چرواہے نے جب تیسری بار جھوٹ بولا تو قریب کے ایک مکان سے ایک بیل کی آواز آئی ۔۔۔۔ "اللّٰہ کی قسم! یہ شخص جھوٹ بولتا ہے ۔ ہم سب مویشی یہاں ہیں ۔آؤ اور ہمیں ہانک کر لے چلو۔"
عاصم بن عمرو اس مکان میں گئے ۔ بڑا ہی وسیع صحن تھا اور وہاں بے شمار مویشی تھے ۔ بھیڑ بکریاں اور گائیں بھی تھیں ۔ گاؤں کے لوگ اپنے مویشی اس گھر میں بند کر کے چرواہے کو یہاں رکھوالی کے لیے چھوڑ گئے تھے ۔ عاصم بن عمرو کی چھاپہ مار جماعت نے تمام مویشی اور بھیڑ بکریاں باہر نکالیں اور اپنے کیمپ میں لے آئے ۔
اُس وقت کے لوگوں نے اس واقعہ کو سچ مان لیا کہ ایک بیل انسانوں کی طرح بول کر اپنے اور دوسرے مویشیوں کی نشاندہی کی تھی ۔ یہ روایت مشہور و معروف مؤرخین طبری اور بلاذری نے اور ان کے دو تین ہم عصروں نے لکھی ہے ۔ طبری اور بلاذری نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ روایت سینہ بسینہ حجاج بن یوسف کے زمانے میں پہنچی تو حجاج کے کانوں میں پڑی ۔بحجاج نے اسے سچ ماننے سے انکار کر دیا اور ساتھ یہ عہد بھی کیا کہ وہ اس واقعہ کی تصدیق یا تردید کرے گا ۔
حجاج بن یوسف نے بڑی کاوش اور تگ و دو سے اُن چند ایک آدمیوں کو ڈھونڈ نکالا جو جنگِ قادسیہ کے وقت نوجوان تھے اور اب ضعیف العمر ہو چکے تھے ۔ حجاج نے ان سب کو بلا کر حلف لیا اور پوچھا کہ یہ واقعہ کیا تھا ۔ ان سب نے حلفیہ بیان دیا کہ یہ واقعہ ایسے ہی ہوا تھا جیسے سُنا سُنایا گیا ہے اور بیل انسانوں کی زبان بولا تھا ۔ گویا ان سب نے اس واقعہ کی تصدیق کر دی ۔
حجاج بڑا کھرا اور حقیقت پسند آدمی تھا ۔ وہ حجاج ہی تھا جس نے ایک عورت کی پُکار پر محمد بن قاسم کو ہندوستان بھیجا تھا ۔ (تفصیلات کے لئے ہماری کتاب "ستارہ جو ٹوٹ گیا" دیکھئے) حجاج نے تحقیقات کی تو پتہ چلا کہ یہ جو اس واقعہ کی تصدیق کر رہے تھے ، عاصم بن عمرو کے ساتھ نہیں تھے ۔ یعنی وہ عینی شاہد نہیں تھے ۔
بہر حال حجاج نے اس خیال سے اس واقعہ کی تحقیقات جاری رکھیں کہ تاریخ میں کوئی غلط بات نہ آ جائے ۔ آخر راز یہ کُھلا کہ جب چرواہا باہر کھڑا جھوٹ بول رہا تھا کہ یہاں کوئی مویشی نہی ہے ، اُسی وقت قریبی مکان سے ایک بیل ڈکرایا ۔ اس کی دیکھا دیکھی ایک اور بیل ڈکرایا ۔ عاصم بن عمرو کے کان کھڑے ہو گئے اور وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اندر گیا تو وہاں تمام مویشیوں کو موجود پایا ۔
طبری اور بلاذری لکھتے ہیں کہ عربی زبان میں اظہاریت اور تشبیہوں کے انداز کچھ شاعرانہ سے ہوتے ہیں ۔ ہُوا یوں تھا کہ عاصم بن عمرو اتنے زیادہ مویشی اور بھیڑ بکریاں اور دودھ دینے والی گائیں لایا تو اُس نے خوشی اور ہیجانی کیفیت میں اپنے ساتھیوں کو یوں سُنایا کہ چرواہا جھوٹ بول رہا تھا کہ مویشی یہاں نہیں ہیں تو ایک بیل بول پڑا کہ ہم یہاں ہیں ، آؤ اور ہمیں ہانک کر لے جاؤ ۔۔۔۔۔۔۔ بیل کے بولنے کا مطلب یہ تھا کہ بیل ڈکرایا اور مویشیوں کی نشاندہی ہو گئی.
مسلمانوں کے اتنے زیادہ شب خون اور چھاپے ڈھکے چُھپے تو نہیں رہ سکتے تھے ۔ یہ ایک دو بستیوں کی بات نہیں تھی ۔ مجاہدین نے کوئی بستی نہیں چھوڑی تھی ۔ فارسیوں کو احساس ہو گیا تھا کہ انہیں بغاوت کی سزا دی جا رہی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی انہیں یہ پریشانی بھی لاحق ہوتی جا رہی تھی کہ ان کی اپنی فوج کہاں ہے کہ مسلمان دندناتے پھر رہے ہیں ۔ اس کا اثر ان لوگوں پر نفسیاتی نوعیت کا ہوا ۔ اُنہوں نے اپنی فوج کی بجائے مسلمانوں کو اچھا سمجھنا شروع کر دیا ۔ جو نہ شراب پیتے تھے نہ اُن کی عورتوں پر ہاتھ ڈالتے تھے۔
علامہ شبلی نعمانی نے ایک بستی کا ذکر کیا ہے ۔ مسلمانوں کی ایک چھاپہ مار جماعت ایک بستی پر چھاپہ مارنے جا رہی تھی ۔ بستی سے کچھ دُور یہ جماعت رُک گئی ۔ شاید چل چل کر مجاہدین تھک گئے تھے۔ بستی سے دو تین عورتیں دوڑی آ رہی تھیں ۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ یہاں مسلمان موجود ہیں ۔ مسلمان چھپ کر بیٹھے سستا رہے تھے ۔ عورتیں ان کے درمیان آ گئیں ۔ مجاہدین اُٹھ کھڑے ہوئے ۔ عورتیں اور زیادہ خوف زدہ ہو گئیں ۔
’’ہم ظلم سے بھاگ کر آئی ہیں۔‘‘ ____ ایک عورت نے کہا _____ "ہماری اپنی فوج کے پچیس آدمی ہمارے گاؤں میں آ گئے ہیں ۔ لوگوں کے گھروں سے شراب منگوا کر پی رہے ہیں اور انہیں جو لڑکی اچھی لگتی ہے اسے الگ لے جا کر خراب کرتے ہیں ۔ ایسے لگتا ہے جیسے اس گاؤں پر انہی کی حکومت ہو ۔"
مجاہدین کی نفری ان فوجیوں کی نسبت خاصی تھوڑی تھی ، پھر بھی ان عورتوں کو ساتھ لے کر وہ بستی میں چلے گئے ۔ فارس کے فوجی شراب کے نشے میں بد مست تھے اور بستی میں انہوں نے اُدھم مچا رکھا تھا ۔ لوگوں نے گھروں کے دروازے بند کر لیے تھے ۔ کچھ جوان عورتیں اِدھر اُدھر بھاگ گئی تھیں ۔ مجاہدین نے کسی ایک بھی فوجی کو زندہ نہ چھوڑا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے مجاہدین کے آگے اناج کی بوریوں کے ڈھیر لگا دیئے۔۔۔
*<======================>*
*جاری ہے بقیہ قسط نمبر 51 میں پڑھیں*
*<======================>*
*جو احباب اسلامی تاریخی واقعات پڑھنے کا شوق رکھتے ہے وہ آج ہی ہمارا چینل/گروپ جوائن کریں اور اپنے دوست احباب کو بھی ضرور شئیر کریں۔*
❤️
6