🌹 اردو ادب 📚
January 23, 2025 at 05:05 PM
*⚔️حــــجــــاز کــــی آنــــدھــــی🏇*
*قـسـط نــمـبـر: 51*
*انتخاب: پرویز احمد شیخ*
*https://t.ly/MDIH8*
*✍🏻فارس کے فوجی شراب کے نشے میں بد مست تھے اور بستی میں انہوں نے اُدھم مچا رکھا تھا ۔ لوگوں نے گھروں کے دروازے بند کر لیے تھے ۔ کچھ جوان عورتیں اِدھر اُدھر بھاگ گئی تھیں ۔ مجاہدین نے کسی ایک بھی فوجی کو زندہ نہ چھوڑا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے مجاہدین کے آگے اناج کی بوریوں کے ڈھیر لگا دیئے ۔۔۔*
فارس کا بادشاہ یزدگرد مدائن میں تھا ۔ اُسے اطلاع ملی کہ کچھ لوگ فریادی بن کر آئے ہیں ۔ یزدگرد باہر آ گیا ۔ بیس پچیس معزز قسم کے آدمی باہر کھڑے تھے ۔ سب تعظیمًاً رکوع میں چلے گئے ۔
’’سیدھے ہو جاؤ اور بات کرو۔‘‘ ____ نوجوان یزدگرد نے کہا ______ ’’کیا فریاد لے کر آئے ہو۔‘‘
’’شہنشاہِ فارس! ‘‘ ________ ان لوگوں میں سے ایک نے شاہی آداب کی پابندی کرتے ہوئے کہا ______ ’’کسریٰ کی نسل کا اقبال بلند ہو ۔ سورج کے بیٹے……‘‘
’’جو بات کرنے آئے ہو وہ کرو۔‘‘ ______ یزدگرد نے غصے سے کہا ____ ’’یہاں کوئی شہنشاہ نہیں ۔ وقت ضائع نہ کرو۔‘‘
’’پھر سُن لے شہزادہ یزدگرد!‘‘ ____ ایک معمر آدمی نے کہا ____ ’’مسلمانوں نے ہمارے گھر خالی کر دیئے ہیں ۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے فارس ہمارا نہیں مسلمانوں کا ملک ہے ۔ اپنی فوج کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا ۔ اپنے فوجی کہیں نظر آتے ہیں تو و ہ اپنے ہی لوگوں کو پریشان کرتے نظر آتے ہیں۔‘‘
ان لوگوں نے بتایا کہ مسلمان کس طرح آتے ہیں اور وہ بستیوں سے کیا کچھ اُٹھا لے جاتے ہیں۔
یزدگرد ان لوگوں سے فارغ ہو کر اندر گیا ہی تھا کہ اُسے اطلاع دی گئی کہ حاکمِ حیرہ مرزبان آیا ہے۔ یزدگرد نے اُسے اندر بلا لیا۔
’’تمہارا چہرہ بتا رہا ہے کہ تم کوئی اچھی خبر نہیں لائے۔‘‘ ___ یزدگرد نے کہا۔
’’میں اپنا چہرہ کسی کو دکھانے کے قابل نہیں رہا شہنشاہِ فارس!‘‘ ____ مرزبان نے کہا _____ ’’عرب کے یہ ڈاکو میری بیٹی کو اُٹھا لے گئے ہیں ۔ اس کا جہیز بھی لے گئے ہیں ۔ بارات کے ساتھ معزز گھرانوں کی تیس عورتیں تھیں ۔ اُنہیں بھی لے گئے ہیں ۔ میں نے جسے داماد بنایا تھا اُسے قتل کر گئے ہیں۔‘‘
مؤرخ لکھتے ہیں کہ یزدگرد نے اس سے آگے کچھ نہ سُنا ۔ غصے سے اُٹھا ، لمبے لمبے ڈگ بھرتا کچھ دیر کمرے میں ٹہلا ، رُکا اور مرزبان کی طرف دیکھا ۔
’’تم واپس حیرہ چلے جاؤ ‘‘ ____ یزدگرد نے کہا ____ ’’میں عرب کی ساری بیٹیاں اُٹھوا دوں گا…… رستم کو بلاؤ۔‘‘
حاکمِ حیرہ مرزبان حیرہ چلا گیا۔
*`یہ سلسلہ شروع سے پڑھنے کے لئے نیچے دی گئی لنک سے ہمارا چینل ابھی جوائن کریں`*
https://whatsapp.com/channel/0029Va5NdllKLaHfWG6Hxi1j
رستم افواجِ فارس کا کمانڈر انچیف تھا اور اُسے کُلی اختیارات حاصل تھے ۔ ان حالات میں جب مسلمان عراق میں دندناتے پھر رہے تھے اور ان کے خوف سے بستیاں خالی ہوئی جا رہی تھیں ، سب کی نظریں رستم پر لگی ہوئی تھیں ۔ یزدگرد سے لے کر ایک عام اور غریب فارسی تک یہی کہتے تھے کہ رستم ہی مسلمانوں کو فارس سے نکال سکتا ہے اور رستم ہی عرب پر یلغار کر کے اسلام کا خاتمہ کر سکتا ہے ۔
لوگوں کی نظریں تو رستم پر لگی ہوئی تھیں لیکن رستم کی نظریں اُس زائچے پر لگی ہوئی تھیں جو اُس نے علمِ نجوم و جوتش کی مدد سے بنایا تھا ۔ پہلے ایک باب میں بتایا جا چکا ہے کہ رستم علمِ نجوم اور جوتش میں دسترس رکھتا تھا ۔ بعض مؤرخوں نے لکھا ہے کہ وہ علمِ نجوم کا ماہر تھا اور اس کا تیار کیا ہوا زائچہ اور اس کی پیشگوئی کبھی غلط نہیں نکلی تھی ۔ فارس کے انجام کے متعلق اس نے صاف کہہ دیا تھا کہ اچھا نہیں بلکہ بُہت بُرا ہو گا ۔
جس وقت حاکمِ حیرہ مرزبان یزدگرد کے آگے اپنی بیٹی کا رونا رو رہا تھا ، اس وقت رستم کے پاس پُوران دخت اور اُس کی بیوی بیٹھی ہوئی تھیں ۔ وہ زائچہ سامنے رکھے انہیں بتا رہا تھا کہ فارس کا انجام اچھا نہیں ہو گا۔
’’کیا تمہیں یقین ہے کہ تم نے زائچہ صحیح بنایا ہے۔؟‘‘ ___ پُوران دخت نے پوچھا ۔
’’اور اگر یہ زائچہ صحیح ہے‘‘ ____ رُستم کی بیوی نے کہا ____ ’’تو اس کا انجام بدل دینے کا کوئی طریقہ نہیں؟…… عامل ہیں ، جادوگر ہیں۔‘‘
’’نہیں!‘‘ ___ رستم نے جواب دیا ____ ’’یہ انجام ستاروں کے زیرِ اثر ہے ۔ میں ستاروں کے سفر کے راستے نہیں بدل سکتا ۔ میں کسی ستارے کو ایک بُرج سے نکال کر اپنی مرضی کے بُرج میں نہیں ڈال سکتا…… ہاں پوران! میرا زائچہ بالکل صحیح ہے ۔ یہ میں نے آج پہلی بار نہیں بنایا ۔ جب تم تخت نشین ہوئی تھیں تو بھی میں نے زائچہ تیار کیا تھا ۔ ستاروں کے راستے اچھی طرح دیکھے تھے ۔ اُس وقت بھی مجھے یہی جواب ملا تھا۔‘‘
اتنے میں یزدگرد کے قاصد نے آ کر اسے کہا کہ شاہِ فارس بلاتے ہیں۔
’’ابھی آتا ہوں ۔‘‘ ____ رستم نے قاصد کو رخصت کر کے پوران اور بیوی سے کہا ____ ’’میں جانتا ہوں یزدگرد مجھے کیوں بلا رہا ہے ۔ مجھ تک خبریں پہنچ چکی ہیں کہ عربی ہماری بستیوں میں لوٹ مار کر رہے ہیں ۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ عربوں سے ہماری جنگ قادسیہ کے میدان میں ہو گی اور یہ بڑی ہولناک جنگ ہو گی ۔ عربوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ چالیس ہزار ہو گی اور ہماری فوج کی نفری سوا لاکھ ہوگی۔‘‘
’’لیکن……لیکن……آگے اندھیرا ہے۔‘‘
’’کیا یزدگرد کو بتا دو گے کہ……‘‘
’’نہیں!‘‘ _____ رُستم نے پُوران کی بات کاٹتے ہوئے کہا ____ ’’اسے بتایا تو وہ سمجھے گا کہ میں لڑنے سے گریز کر رہا ہوں ۔ میں صرف یہ کر سکتا ہوں کہ فارس کے اس انجام کو کچھ دنوں کیلئے ٹال دوں ۔ یزدگرد سے کہوں گا کہ مجھے مدائن میں رہنے دے اور میں یہیں سے اپنی فوج کو لڑاتا اور مدد دیتا رہوں گا…… میرا غم ایک اور بھی ہے ۔ میں نہیں چاہتا کہ فارس کی شکست میرے نام لکھی جائے ۔ میں نے آج تک کسی میدان میں شکست نہیں کھائی ۔ میں نے شکستیں دی ہیں ۔ میرا نام ہی فتح کا ضامن رہا ہے ۔ میں کیسے برداشت کر لوں کہ ہونے والی عبرتناک شکست میرے کھاتے میں ڈال دی جائے۔‘‘
ایک تو یہ حقیقت ہے جو ہر مؤرخ نے لکھی ہے کہ رستم جنگ کو ٹالنا چاہتا تھا ۔ جنگ کو ٹالنے کی دوسری وجہ اُس کا وہ وعدہ بھی تھا جو اُس نے شیریں کے ساتھ کیا تھا ۔ اُس نے شیریں سے کہا تھا کہ وہ جنگ کو ٹالے گا ۔ شیریں کے عزائم یہ تھے کہ وہ اپنے بیٹے شیرویہ کے قتل کا انتقام لینا چاہتی تھی اور اُس کا ارادہ ملکہ بننے کا بھی تھا ۔ اُس نے رُستم کو ایک خزانے کا اور وزیراعظم کے رُتبے کا لالچ بھی دیا تھا ۔
رستم یزدگرد کے محل کو روانہ ہو گیا ۔
"کیا اس میں کوئی شک ہے کہ عجم کے سب سے بڑے جنگجو اور جرنیل آپ ہیں؟" ___ یزدگرد نے رستم سے کہا ____ "صرف آپ ہیں جو ان عربی قزاقوں کو اپنے ملک سے نہ صرف یہ کہ نکال سکتے ہیں بلکہ ایک ایک سپاہی اور سالار کو کاٹ سکتے ہیں لیکن میں حیران ہوں کہ تمام تر فوج کے کماندارِ اعلی آپ ہیں اور یہ نہیں دیکھ رہے کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے ۔ فوج تیار ہے ۔ آپ فورُا عرب کے ان مسلمانوں کو تباہ کرنے کے لیے نکلیں ۔۔۔۔۔ اور میں آپ سے توقع رکھتا ہوں کہ آپ مدینہ کو بھی فتح کریں گے۔"
"شہنشاہ فارس!"____ رستم نے کہا ۔
"نہیں رستم!"____ یزدگرد نے کہا ___ "میں آپ کا بچہ ہوں ، مجھے شہنشاہی آپ نے دی ہے ، آپ مجھے شہنشاہِ فارس نہ کہیں ، پہلے اس خطرے کو ختم کریں جو مدائن تک پہنچ رہا ہے۔"
"اگر اپنے آپ کو آپ بچہ اور مجھے اپنا باپ یا استاد سمجھتے ہیں تو میری بات ذرا توجہ سے سُنیں." ___ رستم نے کہا ____ "مجھے مدائن میں ہی رہنے دیں میں قاصدوں کے ذریعے میدان جنگ کو اپنے ہاتھ میں رکھوں گا ۔ فوجوں کی تقسیم میں خود کروں گا۔"
"لیکن اس کی کوئی وجہ ہونی چاہیے" ____ یزدگرد نے کہا۔
"فارس کی بھلائی شاید اسی میں ہے کہ میں میدان جنگ میں نہ جاؤں" _____ رُستم نے کہا ______ "میں جنگ میں تاخیر کو بہتر سمجھتا ہوں ۔ میں مدائن سے دستے بھیجتا رہوں گا اور عربوں کو چھوٹی چھوٹی لڑائیوں میں مصروف رکھوں گا ۔ وہ اپنے ملک سے بہت دُور آ گئے ہیں ان کو کُمک اور رسد نہیں ملے گی ۔ وہ کمزور ہوتے جائیں گے اور جب تک میں جنگ میں شریک نہیں ہوں گا ُعربوں پر میرا رعب قائم رہے گا ۔ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ یزدگرد نے رُستم کے اس استدلال کو تسلیم کر لیا اور رُستم مطمئن ہو گیا لیکن مدائن میں یہ خبریں لوگوں کی فریادیں بن کر پہنچتی رہیں کہ مسلمانوں کی لوٹ مار اور قتل و غارت پہلے سے زیادہ ہو گئی ہے ۔
یزدگرد نے کچھ دن بعد ایک بار پھر رُستم کو بلایا اور کہا کہ وہ فوج لے کر مدائن سے نکلے اور مسلمانوں کے مقابلے میں جائے ۔
"مجھے مدائن میں رہنے دیں" ___ رُستم نے کہا ____ "جالینوس کو بھیج دیں ۔ اگر جالینوس نے مسلمانوں پر قابو پا لیا تو خطرہ ختم ہو جائے گا ۔ اگر جالینوس ناکام رہا تو ہم دوسرے جرنیل کو بھیجیں گے پھر تیسرے کو اور اس طرح ہم دُشمن کو کمزور کرتے رہیں گے۔"
یزدگرد نے یہ استدلال بھی تسلیم کر لیا اور جالینوس کو بلا کر کہا کہ وہ کچھ دستے لے کر جائے اور مسلمانوں کو ختم کرے ۔ تاریخ دان ولیم سکاٹ لکھتا ہے کہ جالینوس نے یزدگرد کو بتایا کہ مسلمانوں کے خلاف وہ پہلے بھی لڑ چکا ہے ۔ انہیں اس طرح ختم کرنا بہت مشکل ہے ۔
"ہمارے پاس فوج تیار ہے" ____ جالینوس نے کہا ____ "ہمیں ایک ہی بار جنگ لڑنی چاہیے ۔ ہمارے پاس اتنی زیادہ فوج ہے کہ مسلمان اتنی زیادہ تعداد کو تصور میں نہیں لا سکتے ۔۔۔۔۔ رُستم کو باہر نکلنا چاہیے۔"
یزدگرد جوشیلہ نوجوان تھا اس میں اتنی سوجھ بوجھ نہیں تھی کہ رستم اور جالینوس جیسے گھٹیا جرنیلوں کی چالیں سمجھ سکتا ۔ جالینوس پہلے ہی مسلمانوں سے شکست کھا چکا تھا اور وہ میدان سے بھاگا تھا ۔ وہ اب اتنی خطرناک ذمہ داری لینے سے ڈر رہا تھا ۔
یزدگرد دو دن کوئی فیصلہ نہ کر سکا ۔ تیسرے روز اس کے پاس مختلف علاقوں کے جاگیرداروں رئیسوں اور ایسے معززین کا بہت بڑا وفد آ گیا جن کا لوگوں پر اثر و رسوخ تھا اور جن کے اشاروں پر لوگ جانوں پر کھیلنے کے لئے تیار ہو جاتے تھے ۔
"شہنشاہ فارس!" ____ وفد کے لیڈر نے کہا____ "آپ بھولے نہیں ہوں گے کہ پوران دخت کو ہم نے تخت سے اُٹھایا اور آپ کو بٹھایا تھا۔ ہم نے اپنے جرنیلوں سے کہا تھا کہ اپنے اختلافات ختم کرو اور فارس کو مسلمانوں سے بچاؤ ورنہ ہم آپ کے خلاف بغاوت کر دیں گے ۔ آپ کو معلوم ہے کہ مسلمان پورے عراق پر چھا گئے ہیں اور من مانی کرتے پھر رہے ہیں ۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ آپ کو معلوم نہ ہو اور ہم کیسے مان لیں کہ ہمارے قابل فخر جرنیل رستم کو معلوم نہ ہو ۔ ہم حیران ہیں کہ آپ کی اور ہمارے جرنیلوں کی غیرت کو کیا ہو گیا ہے۔"
"تم لوگ فکر نہ کرو"____ یزدگرد نے کہا ____ "ہم کیوں فکر نہ کریں!"____ وفد میں سے ایک اور شخص بول پڑا ___ "ہم آج آپ کو یہ بتانے آئے ہیں کہ ایک دو دنوں میں کچھ نہ کیا گیا تو ہم مسلمانوں کی اطاعت کو قبول کر لیں گے ۔ اور ہم آپ کو یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ ہم نے مسلمانوں کو پہلے بھی دیکھا ہے ۔ آپ کی بادشاہی کے مقابلے میں مسلمانوں کی حکومت اچھی ہے ۔ انہوں نے ہمیں عزت دی تھی ۔ ہماری عورتوں کی عزت ، ہماری جانیں اور ہمارے مال محفوظ ہو گئے تھے۔"
"آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے" ___ ایک اور بولا ____ لوگ ہمارے ہاتھوں میں ہیں ۔ ہم انہیں جدھر چاہیں لے جا سکتے ہیں ۔"
"رُک جاؤ"_____ یزدگرد نے تڑپ کر کہا ____ "تم سب چلے جاؤ ۔ مت پوچھنا کہ میں ابھی تک خاموش کیوں تھا ۔ آج اور ابھی حکم دوں گا کہ فوج کو باہر نکالو اور ان لٹیروں کو واپس عرب جانے کے قابل نہ چھوڑ" _____ اُس نے تالی بجائی ۔ دربان اندر آیا ۔ یزدگرد نے دربان سے کہا _____ "رستم سے کہو فورًا آئے ۔ ۔۔۔۔۔ تم لوگ چلے جاؤ ۔
یہ تھی وہ شہنشاہی جس میں رعایا بادشاہ کے آگے سجدے کیا کرتی تھی ۔ بادشاہ کے دربار میں کوئی کتنی ہی اونچی حیثیت اور مرتبے والا آدمی چلا جاتا تو اسے بادشاہ کے آگے سجدہ کرنا ہی پڑتا تھا ۔ اب مسلمانوں نے اس شہنشاہی کو اس حال تک پہنچا دیا تھا کہ رعایا دربار میں آ کر بادشاہ کو دھمکیاں دے رہی تھی اور بادشاہ سر اُٹھانے کے قابل نہیں تھا ۔
رستم آ گیا ۔ یزدگرد غصے سے لال پیلا ہو رہا تھا ۔
"میں اب کچھ نہیں سُنوں گا " ____ یزدگرد نے رستم سے کہا _____ "آپ فوج لے کر فورًا مدائن سے نکلیں ۔ اگر آپ اب بھی پس و پیش کریں گے تو میں خود فوج لے کر نکل جاؤں گا ۔ میں ان عربوں کو ہی نہیں پورے عرب کو تباہ کر دوں گا ۔ اتنی زیادہ فوج ، اتنے زیادہ گھوڑے اور ہاتھی ۔۔۔۔۔ مسلمان ہمارے مقابلے میں کیا ہیں ۔۔۔۔ کیڑے مکوڑے ۔۔۔۔ اب میرا حُکم ہے کہ فوج ساتھ لے کر مدائن سے نکل جائیں۔"
علامہ شبلی نعمانی تین مؤرخوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ رُستم کچھ بھی نہ بولا اور چلا گیا اور اس سے کچھ دیر بعد رستم فوج کے بہت سے سوار دستے ساتھ لے کر ساباط کو روانہ ہو گیا۔
ساباط مدائن سے تھوڑی ہی دُور ایک شہر تھا جو اُن دنوں فوجیوں کی اجتماع گاہ بنا ہوا تھا ۔ رُستم ساباط پہنچ گیا لیکن اس نے فوج کو تقسیم کر کے مختلف علاقوں میں بھیجنے کی بجائے اپنے جونیئر کمانڈروں سے کہا کہ آرام کرو۔۔۔۔۔
*<======================>*
*جاری ہے بقیہ قسط نمبر 52 میں پڑھیں*
*<======================>*
*جو احباب اسلامی تاریخی واقعات پڑھنے کا شوق رکھتے ہے وہ آج ہی ہمارا چینل/گروپ جوائن کریں اور اپنے دوست احباب کو بھی ضرور شئیر کریں۔*
❤️
👍
🙏
7