🌹 اردو ادب 📚
January 24, 2025 at 01:37 PM
*⚔️حــــجــــاز کــــی آنـــدھـــی🏇* *قـسـط نــمـبـر 52* *انتخاب: پرویز احمد شیخ* *https://t.ly/MDIH8* *✍🏻ساباط مدائن سے تھوڑی ہی دُور ایک شہر تھا جو ان دنوں فوجیوں کی اجتماع گاہ بنا ہوا تھا ۔ رُستم ساباط پہنچ گیا لیکن اس نے فوج کو تقسیم کر کے مختلف علاقوں میں بھیجنے کی بجائے اپنے جونیئر کمانڈروں سے کہا کہ آرام کرو ۔۔۔۔۔* سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے اپنے جاسوس آگے بھیج رکھے تھے ایک جاسوس نے آ کر اطلاع دی کہ رُستم بہت سی فوج لے کر ساباط پہنچ گیا ہے ۔ سعد رضی اللّٰہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کے اس حکم کے مطابق کہ انہیں ذرا ذرا سی بات لکھ کر مدینہ بھیجی جائے ، فورًا پیغام لکھوایا اور قاصد کو مدینہ روانہ کر دیا ۔ فاصلہ تو بہت زیادہ تھا لیکن پیام رسانی کا ایسا انتظام کیا گیا تھا کہ پیغام مہینوں کی بجائے دنوں میں پہنچ جاتا تھا ۔ پیغام امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ تک پہنچا تو انہوں نے اُسی وقت جواب لکھوایا کہ تفصیلی ہدایات دوسرے خط میں دوں گا ۔ تم فوری طور پر دو کام کرو ، ایک یہ کہ کوچ کرو اور قادسیہ جا کر خیمہ زن ہو جاؤ ۔ جنگ کے لئے یہی جگہ موضوں ہو گی ۔ دوسرا کام یہ کرو کہ یزدگرد کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دو ۔ یہ خیال رکھنا کہ جو آدمی مدائن جائیں وہ تمہارے منتخب کئے ہوئے دانشمند اور معزز ہوں ۔ وہاں سے جو جواب آئے وہ لکھ کر بھیجنا ۔ یہ ہدایات پہنچتے ہی سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے یزدگرد کے پاس بھیجنے کے لیے ایک وفد تیار کیا جن میں یہ حضرات شامل تھے ۔۔۔۔۔ عطارد بن حاجب ، اشعث بن قیس ، حارث بن حسان ، عاصم بن عمرو ، عمرو بن معدی کرب ، مغیرہ بن شعبہ ، معنیٰ بن حارثہ ، نعمان بن مقرن ، بسر بن ابی رھم ، حملہ بن جوئیہ ، حنظلہ بن الربیع التمیمی ، فرات بن حیان العجل ، عدی بن سہیل اور مغیرہ بن زرارہ _____ تاریخ میں ان چودہ زعماء کے نام محفوظ ہیں ۔ یہ وفد مدائن گیا ۔ یزدگرد نے انہیں بلا لیا ۔ وفد کے ہر آدمی نے عربی جبہ پہن رکھا تھا ۔ ہر ایک کندھے پر یمنی چادر تھی اور ہر ایک کے ہاتھ میں ایک ایک کوڑا (چمڑے کا ہنٹر) تھا ۔ یزید گرد نے دیکھا تو اس کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ آ گئی ۔ اُس نے اپنے درباریوں سے کہا _____ "کیا یہ مسلمان ہیں؟ ان کا لباس دیکھو ۔ کیا یہ ان کوڑوں سے لڑیں گے ؟" "تُم ہمارے ملک میں کیوں آئے ہو؟"___ یزدگرد نے نخوت اور رعونت کے لہجے میں پوچھا ____ "کیا تم یہ توقع لے کر آئے ہو کہ ہم پر فتح پا لو گے؟" "اے فارس کے بادشاہ!" ____نعمان بن مقرن نے کہا ____ "شہنشاہی صرف اللّٰہ کی ہے ۔ ہم تجھے قبولِ اسلام کی دعوت دینے آئے ہیں" ____ نعمان بن مقرن نے رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور آپ ﷺ کی تعلیمات اور اسلام کا مکمل تعارف کرا کے کہا _____ "اگر تجھے قبولِ اسلام سے انکار ہے تو جزیہ کی ادائیگی قبول کر لے ۔ اگر یہ بھی نہیں تو فیصلہ تلوار کرے گی ۔ اگر تو نے دینِ الٰہی قبول کر لیا تو ہم اللّٰہ کی کتاب تیرے پاس چھوڑ جائیں گے ، پھر تجھے اپنے فیصلے اس کتاب کے مطابق کرنے پڑیں گے۔" *`یہ سلسلہ شروع سے پڑھنے کے لئے نیچے دی گئی لنک سے ہمارا چینل ابھی جوائن کریں`* https://whatsapp.com/channel/0029Va5NdllKLaHfWG6Hxi1j "او بد بختو!" ____ یزدگرد نے غصے اور حقارت سے کہا ____ "میں نے دُنیا میں تم سے زیادہ بد بخت اور خستہ حال قوم کوئی نہیں دیکھی۔ وہ وقت بھول گئے ہو جب تم کبھی سرکشی کرتے تھے تو ہم سرحدی بستیوں کے لوگوں کو کہہ دیتے تھے اور وہ تمہیں مار پیٹ کر تمہارا دماغ دُرست کر دیا کرتے تھے ۔ فارس کی طرف تم پر کبھی فوج کشی نہیں ہوئی ۔ اس وجہ سے شاید تم اس خوش فہمی میں مبتلا ہو گئے ہو کہ تم فارس پر فتح پا لو گے ۔ تم اگر بہت ہی زیادہ تعداد میں آ گئے تو بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکو گے ۔ اس طرح احمقوں کی طرح اکڑنا چھوڑ دو ۔۔۔۔۔ ہاں ، اگر تمہارے ملک میں قحط پڑ گیا ہے یا تم لوگ مفلسی سے تنگ آ کر ادھر کو آ گئے ہو تو ہم تمہارے کھانے پینے کا بندوبست کر دیں گے اور ہم اُس وقت تک تمہیں اناج وغیرہ دیتے رہیں گے جب تک تم اپنا اناج پیدا کرنے کے قابل نہیں ہو جاتے ۔ ہم تمہارے سرداروں کو اچھے کپڑے پہنائیں گے اور تم پر ایسے شخص کو بادشاہ مقرر کر دیں گے جو تمہاری ضروریات پوری کرتا رہے گا اور تمہارے ساتھ مشفقانہ برتاؤ رکھے گا ۔" یزدگرد کے یہ الفاظ تاریخ میں محفوظ ہیں ۔ مسلمانوں کا وفد خاموشی سے سُنتا رہا لیکن مغیرہ بن شعبہ رضی اللّٰہ عنہ برداشت نہ کر سکے ۔ اُٹھ کھڑے ہوئے ۔ "او بادشاہ!" ____ مغیرہ رضی اللّٰہ عنہ نے کہا ____ "بادشاہت کے غرور کو دماغ سے نکال اور یہ دیکھ کہ یہ سب عرب کے سردار ، شرفاء اور معززین ہیں ۔ معزز کی عزت وہی کرتا ہے جس کی اپنی کچھ عزت ہو ۔ انہوں نے ابھی تجھ سے ساری باتیں نہیں کیں ۔ مجھ سے بات کر میں تجھے جواب دیتا ہوں ۔ تو ٹھیک کہتا ہے کہ ہم خستہ حال تھے ۔ ہاں ہم خستہ حال تھے اور اب بھی ویسے ہی ہیں لیکن اسلام نے ہمیں جو دولت دی ہے وہ تو نہیں سمجھتا ۔ وہ سمجھنے کی کوشش کر ۔۔۔۔۔۔ سُن لے ، اسلام قبول کر لے یا جزیہ یا پھر جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ ، پھر دیکھنا خستہ حال کون ہے۔" "اگر ایلچیوں اور قاصدوں کا قتل درباری اصول کے خلاف نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی بھی یہاں سے زندہ واپس نہ جاتا۔" یزدگرد نے غضب ناک لہجے میں کہا _____ "جاؤ یہاں سے چلے جاؤ "۔۔۔۔۔ نہیں ذرا ٹھہرو ۔ میں تمہیں خالی ہاتھ نہیں بھیجوں گا" ____ اس نے حکم دیا ایک ٹوکرا مٹی سے بھر کر لایا جائے اور ٹوکرا ان میں سے اُس شخص کے سر پر رکھ دیا جائے جو اپنے آپ کو سب سے زیادہ معزز سمجھتا ہے ، اور پھر ان سب کو ہانک کر مدائن سے نکال دیا جائے" _____ وہ وفد سے مخاطب ہوا ___ "تُمہارا جو کوئی سردار یا سالار ہے تو اُسے کہہ دینا کہ تمہارا دماغ دُرست کرنے کے لئے میں رستم کو بھیج رہا ہوں ۔ وہ تمہیں قادسیہ کے میدان میں دفن کر دے گا ، پھر میں رستم کو عرب بھیجوں گا ، پھر تمہارے ہوش ایسے ٹھکانے آئیں گے کہ عراق کو بھول جاؤ گے ۔ مٹی کا بھرا ٹوکرا دربار میں آ گیا ۔ "تم میں سے سب سے زیادہ معزز کون ہے ؟" ___ یزدگرد نے وفد سے پوچھا ۔ عاصم بن عمرو یہ سوچ کر آگے ہو گیا کہ یہ بد بخت بادشاہ کسی بزرگ صحابی کے سر پر ٹوک رکھوا دے گا ۔ "میں ہوں سب سے زیادہ معزز" ____ عاصم بن عمرو کہا ____ "ٹوکرا میرے سر پر رکھو۔" ٹوکرا عاصم کے سر پر رکھ دیا گیا ۔ دربار میں قہقہہ بلند ہوا ۔ وفد دربار سے نکل آیا ۔ سب گھوڑوں پر سوار ہوئے ۔ عاصم نے مٹی کا ٹوکرا گھوڑے پر اپنے آگے رکھا اور مدائن سے نکل آئے ۔ جب وفد سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کے پاس پہنچا تو عاصم بن عمرو نے مٹی کا ٹوکرا ان کے آگے رکھ دیا ۔ "سالارِ محترم!" ____ عاصم نے کہا ____ "فتح مبارک ہو ۔ فارس کے بادشاہ نے اپنی زمین خود ہی ہمیں تحفے کے طور پر دے دی ہے ۔ ایک طرف اللّٰہ کے سچے دین کے پیامبر تھے اور وہ بنی نوع انسان کو باطل سے نجات دلا کر حق پر ڈالنے کے لیے گھروں سے نکلے تھے ۔ دوسری طرف باطل کے پجاری تھے جو آگ کی پرستش کرتے اور سورج کو خُدا مانتے تھے ۔ اِدھر وہ مردانِ حُر تھے جو ساری دُنیا پر اللّٰہ کی حکمرانی قائم کرنے کا عزم لے کر نکلے اور اس عزم پر جانوں کے نذرانے دے رہے تھے ۔ اُدھر ہوَسِ تخت و تاج تھی اور یہ ہوَس انہیں ایک دوسرے کا دُشمن بنائے ہوئے تھی ۔ اِدھر جذبوں کا جنون تھا اُدھر جنگی طاقت کا گھمنڈ تھا ۔ مشکل تو یہی آ پڑی تھی کہ جنگی طاقت باطل کے پاس تھی اور ان کے مقابلے میں اللّٰہ والے نہتے سے لگتے تھے ۔ اُس وقت تک فارسی ایک لاکھ بیس ہزار کی فوج تیار کر چکے تھے اور مسلمانوں کے لشکر کی تعداد چالیس ہزار پوری نہیں تھی ۔ فارسیوں کے پاس گھوڑ سوار دستے زیادہ تھے اور اُن کے پاس ہاتھی بھی تھے ۔ رُستم ساباط پہنچ چکا تھا ۔ یزدگرد محل کے ایک کمرے میں بیٹھا تھا ۔ اُس کے چہرے پر ایسا تأثر تھا جیسے وہ کسی پریشان کُن مسئلے میں الجھا ہوا ہو ۔ اُس کی ماں نورین اسی کمرے میں بیٹھی اُسے دیکھ رہی تھی ۔ یزدگرد تو جیسے اپنی ماں کی موجودگی سے بے خبر تھا ۔ "یزدی بیٹا!" _____ ماں سے رہا نہ گیا ، بیٹے سے پوچھا ____ "کیا سوچ رہے ہو؟" "تم جانتی ہو ماں!"____ یزدگرد نے کہا ____ "تم جانتی ہو میں کیا سوچ رہا ہوں۔ اس ذمہ داری کے سوا اور میں سوچ ہی کیا سکتا ہوں جو میرے کندھوں پر ڈال دی گئی ہے ۔ میں تو راتوں کو سو بھی نہیں سکتا ماں! فارس کی سلطنت خطرے میں ہے۔" کیا اپنے پاس فوج تھوڑی ہے بیٹا ؟" ____ نورین نے کہا ____ "میں نے سُنا ہے کہ عربوں کی فوج بہت ہی تھوڑی ہے ۔ تم اپنے آپ کو اتنا پریشان نہ رکھا کرو بیٹا!" "عربوں کی فوج بویب میں بھی تھوڑی تھی۔" ____ یزدگرد نے کہا ____ "بلکہ بہت ہی تھوڑی تھی اور ہماری فوج کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ میدان میں سما نہیں سکتی تھی لیکن عربوں کی ذرا جتنی فوج نے ہمارے اتنے بڑے لشکر کو اس طرح کاٹا کہ وہ چند ایک فوجی زندہ رہے جنہیں بھاگ نکلنے کا موقع مل گیا تھا ۔۔۔۔۔۔ بات یہ ہے ماں! عرب کے یہ مسلمان جانیں قربان کرنے کے لئے لڑتے ہیں اور ہماری فوجی جانیں بچانے کے لئے لڑتے ہیں۔" "لیکن یزدی!"____ نورین نے کہا _____ "تم اکیلے کیا کر سکتے ہو ۔ میں تمہیں زندہ و سلامت دیکھنا چاہتی ہوں ۔ فوج ہار گئی تو اس میں تمہارا کیا قصور ہو گا ؟" "میری پیاری ماں!"____ یزدگرد نے کہا ____ "جس طرح تمہیں مجھ سے پیار ہے اس طرح مجھے اپنے وطن سے پیار ہے ۔ مت بولو ماں! یہ میرے باپ کسریٰ پرویز کی سلطنت ہے ۔ یہ میرا ورثہ ہے ، یہ تمہارا ورثہ ہے ، اس کی خاطر میرے باپ کو قتل کیا گیا تھا ۔ یہ بھی سوچو کہ مجھے لوگ لائے ہیں ۔ اگر کوئی مجھے یقین دلا دے کہ میں اگر جان دے دوں تو سلطنتُ فارس ہمیشہ قائم و دائم رہے گی تو میں ابھی جان دے دوں گا۔" "ایسی باتیں نہ کر یزدی!"____ ماں نے تڑپ کر کہا _____ "میں پوری سلطنت تمہاری جان پر قربان کر دوں بیٹا۔" "میری بات سُن لو ماں!" ____ یزدگرد نے کہا ___ "اگر مجھے زندہ رکھنا تھا تو مجھے چھپا کر ہی رکھتیں میں تمہارے پنجرے میں گمنام پڑا رہتا ۔ مجھے میدان میں لے آئی ہو تو مردوں کی طرح مجھے اپنا فرض ادا کرنے دو۔ میں مر گیا تو کیا ہو جائے گا؟ فارس کی ہزارہا مائیں رو رہی ہیں ۔ مجھے اپنے پیار کی زنجیروں میں نا جکڑو ماں ! میں ساباط جا رہا ہوں ۔۔۔۔ دو تین دنوں تک چلا جاؤں گا۔" "تم جا کر کیا کرو گے بیٹا!"____ ماں نے کیا ____ "رستم اور جالینوس فوج لے کر چلے گئے ہیں ۔ پتہ چلا ہے کہ عربی مسلمان قریب آ گئے ہیں ۔ وہاں لڑائی ہو گی۔" "میں لڑنے کے لیے نہیں جا رہا ماں!" _____یزدگرد نے جھنجھلا کر کہا ____ "میں رستم اور جالینوس کے پیچھے جا رہا ہوں ۔ مجھے رستم کی نیت ٹھیک معلوم نہیں ہوتی۔ وہ لڑائی کو ٹال رہا ہے۔ علمِ نجوم نے اُسے بزدل بنا دیا ہے۔ وہ دعویٰ کرتا ہے کہ آنے والے وقت کو دیکھ سکتا ہے۔ میں اُس کے سر پر موجود رہوں گا تو وہ کوئی حرکت اور جنگی کارروائی کرے گا۔" ماں یزدگرد کو یوں دیکھ رہی تھی جیسے وہ وہ اکیس بائیس سال کا جوان آدمی نہ ہو بلکہ اکیس بائس ماہ کا بچہ ہو اور ماں کی نظروں سے ذرا سی دیر کے لئے بھی اوجھل ہوا تو کوئی اُسے اُٹھا کے لے جائے گا لیکن یزدگرد کا دھیان کہیں اور تھا ۔اُس کے اعصاب پر رستم سوار تھا۔ اسے رُستم کی طرف سے تسلی نہیں تھی ۔ جس وقت یزدگرد اور اس کی ماں یہ باتیں کر رہے تھے، اُس وقت مدائن سے کچھ دُور ایک بستی میں شیریں کے گھر میں چار آدمی بیٹھے تھے ۔ شیریں نے اُن کے آگے شاہانہ کھانا رکھا تھا اور ساتھ وہ شراب تھی جو کوئی بادشاہ ہی پی سکتا تھا ۔ دو نخیز لڑکیاں حاضری میں کھڑی تھی ۔ وہ نوکرانیاں تھیں ۔ انہیں خاص قسم کا لباس پہنایا گیا تھا جس سے ان لڑکیوں کے صرف نیچے کے بدن ڈھانپے ہوئے تھے۔ حُسن ایسا کہ چاروں مہمان کھانے کی طرف کم اور ان لڑکیوں کی طرف زیادہ دیکھتے تھے ۔ وہ نوکرانیاں لگتی ہی نہیں تھی ۔ شیریں کے بجھے بُُجھے سے چہرے پر رونق اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی ۔ شیریں اپنے مہمانوں کے ساتھ راز و نیاز کی باتیں کر چکی تھی ۔ چاروں نے سودا منظور کر لیا تھا ۔ شیریں نے انہیں یہ کام بتایا تھا کہ یزدگرد کو قتل کرنا ہے لیکن ایسے طریقے سے کہ کوئی قاتل پکڑا نہ جائے ۔ اُس نے ان چاروں کو جو انعام یا معاوضہ بتایا تھا، اسکو وہ تصور میں بھی نہیں لا سکتے تھے ۔ اس کے علاوہ اُس نے انہیں ایسی ہی ایک ایک لڑکی کی پیشکش کی تھی جیسی دو لڑکیاں ان کی حاضری میں موجود تھیں ۔ "محل میں اسے قتل کرنا ممکن نہیں " ______ ان چاروں میں سے ایک نے کہا تھا _____ "شہر کے اندر بھی یہ کام نہیں کیا جا سکتا ۔ اگر یزدگرد شہر سے باہر کہیں گیا تو راستے میں چھپ کر اس پر تیر چلائے جا سکتے ہیں اور ہم غائب بھی ہو سکتے ہیں۔" "ہمیں انتظار کرنا پڑے گا۔" ____ دوسرے نے کہا ____ "یہ کام جلدی ہونے والا نہیں۔" "یہ تمہارا مسئلہ ہے کہ یہ کام جلدی کرو یا دیر سے۔" ____ شیریں نے کہا _____ "یہ بھی سوچ لو کہ وہ شہر سے باہر کہیں گیا تو اکیلا نہیں ہو گا ۔ وہ بادشاہ ہے ۔ اُس کے ساتھ حفاظتی دستہ ہو گا۔" "یہ ہم دیکھ لیں گے" _____ ایک نے کہا۔ دو دن ہی گزرے تھے کہ یزدگرد ساباط جانے کی تیاری کر رہا تھا اور اُس کی ماں اُسے جانے سے روک رہی تھی ۔ "کچھ نہیں ہو گا ماں!" _____ یزدگرد نے نورین سے کہا ______ "مجھے کچھ نہیں ہو گا ۔ میں اب بچہ نہیں ہوں۔" "آج نہ جاؤ"_____ نورین روتے ہوئے کہا _____ "دو روز بعد چلے جانا ۔ میں نے بہت بُرا خواب دیکھا ہے ۔ میں نے تمہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔" "خوابوں کی دُنیا سے نکلو ماں!" _____ یزدگرد نے کہا ____ "فارس کی زمین بھی میری ماں ہے ۔ میں نے اس ماں کی آبرو کو بچانے کی قسم کھائی ہے۔" "نہیں یزدی!" ____ ماں نے لپک کر اسے بازوؤں میں جکڑ لیا ____ "آج نہیں جانے دوں گی ۔ میرا دل کہتا ہے آج کچھ ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔ *<======================>* *جاری ہے بقیہ قسط نمبر 53 میں پڑھیں* *<======================>* *جو احباب اسلامی تاریخی واقعات پڑھنے کا شوق رکھتے ہے وہ آج ہی ہمارا چینل/گروپ جوائن کریں اور اپنے دوست احباب کو بھی ضرور شئیر کریں۔*
❤️ 🌴 5

Comments