🌹 اردو ادب 📚
January 25, 2025 at 03:23 PM
*⚔️حـــجــــاز کــــی آنـــدھـــی🏇*
*قـسـط نــمـبـر 53*
*انتخاب: پرویز احمد شیخ*
*https://t.ly/MDIH8*
*✍🏻"آج نہ جاؤ"_____ نورین روتے ہوئے کہا _____ "دو روز بعد چلے جانا ۔ میں نے بہت بُرا خواب دیکھا ہے ۔ میں نے تمہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔"*
*"خوابوں کی دُنیا سے نکلو ماں!" _____ یزدگرد نے کہا ____ "فارس کی زمین بھی میری ماں ہے ۔ میں نے اس ماں کی آبرو کو بچانے کی قسم کھائی ہے۔"*
*"نہیں یزدی!" ____ ماں نے لپک کر اسے بازوؤں میں جکڑ لیا ____ "آج نہیں جانے دوں گی ۔ میرا دل کہتا ہے آج کچھ ہو جائے گا ۔۔۔۔۔۔*
یزدگرد جوان آدمی تھا۔ اُس نے ایک جھٹکے سے اپنے آپ کو ماں کے بازوؤں سے آزاد کرا لیا اور کسی کو بلا کر کہا کہ اُس کی ماں کو یہاں سے لے جائے ۔ تین چار خادمائیں آ گئیں اور انہوں نے نورین کو پکڑ لیا ۔
یزدگرد نے انہیں اشارہ کیا کہ اسے گھسیٹ کر لے جاؤ ۔ یزدگرد باہر نکل کر گھوڑے پر سوار ہوا تو بھی اُسے اپنی ماں کی گُھٹی گُھٹی چیخیں سُنائی دے رہی تھیں ۔ وہ ماں کو اپنے ساتھ ساباط بھی لے جا سکتا تھا لیکن اسی خطرے کے پیش نظر نہ لے گیا کہ وہ قدم قدم پر اُس کے راستے کی رکاوٹ بن جائے گی ۔ یزدگرد کے آگے اور پیچھے محافظ دستے کے گھوڑ سوار تھے ۔ ایک جرنیل بھی اس کے ساتھ تھا۔
وہ جب شہر سے نکل کر کچھ دُور چلا گیا تو محل میں اُس کی ماں آہ وزاری کرتے کرتے نیم جان ہو گئی تھی ۔
"مجھے شہر پناہ تک پہنچا دو" _____ نورین نے التجا کی _____ "میں اپنے یزدی کو جاتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہوں ۔"
اُسے شہر کی دیوار پر لے گئے ۔ اُس نے دیکھا کہ اُس کے بیٹے کا فوجی قافلہ بہت دُور جا رہا تھا ۔ اُس کے آنسو بہہ رہے تھے ۔ یہ تو سب جانتے تھے کہ نورین اپنے بیٹے سے متعلق بہت حساس ہے اور اُسے اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتی لیکن اُس روز اُس کی جذباتی حالت اُس کے اپنے قابو میں نہیں آ رہی تھی اور وہ خود دوسروں کے ہاتھوں سے نکلی جا رہی تھی ۔ وہ ماں تھی ۔ اُس کی روح اپنے اس اکلوتے اور یتیم بیٹے میں تھی ۔؛ماں کو تو جیسے اشارہ مل گیا تھا کہ اُس کا بیٹا کسی خطرے میں جا رہا ہے اور وہ خیریت سے واپس نہیں آئے گا ۔ یہ اشارہ بے بنیاد نہیں تھا ۔ اُن چار آدمیوں کو جن کے ساتھ شیریں نے یزدگرد کے قتل کا سودا کیا تھا ، پتہ چل گیا تھا کہ یزدگرد ساباط جا رہا ہے ۔ شاہی محل کے کارندوں میں ان کا کوئی آدمی تھا جس نے قبل از وقت بتا دیا تھا ۔
وہ چاروں علی الصبح گھوڑوں پر سوار ہوئے اور ساباط کے راستے میں انہوں نے گھات کی ایک ایسی موضوں جگہ تلاش کر لی جہاں سے وہ یزدگرد پر تیر چلا کر بھاگ سکتے تھے ۔یہ ایک خاصی اُونچی ٹیکری تھی جو اونچی گھاس ، گھنی جھاڑیوں اور درختوں سے ڈھکی ہوئی تھی ۔ اس کے دامن میں چشمہ تھا جس نے چھوٹی سی جھیل کی صورت اختیار کر رکھی تھی ۔ اس کے سامنے والے کنارے کے ساتھ ساباط کی طرف جانے والا راستہ گزرتا تھا ۔ ٹیکری کے پیچھے پہاڑی تھی ۔ اس کے اور ٹیکری کے درمیان اتنا فاصلہ تھا کہ تین چار گھوڑے ٹیکری اور پہاڑی کے درمیان سے گزر سکتے تھے ۔ پہاڑی میں ایک جگہ کٹاؤ تھا جس میں سے گزرا جا سکتا تھا ۔
*`یہ سلسلہ شروع سے پڑھنے کے لئے نیچے دی گئی لنک سے ہمارا چینل ابھی جوائن کریں`*
https://whatsapp.com/channel/0029Va5NdllKLaHfWG6Hxi1j
ان چار آدمیوں نے گھات لگا لی تھی ۔ گھوڑے ٹیکری کے پیچھے کھڑے تھے ۔ کرائے کے ان چار قاتلوں میں سے دو کے پاس کمانیں تھیں وہ ایک ایسی جگہ بیٹھ گئے تھے جہاں سے وہ اچھی طرح سامنے دیکھ سکتے تھے اور اُدھر سے یہ کسی کو نظر نہیں آتے تھے ۔ ان کے استاد نے انہیں بتایا تھا کہ یزدگرد پر بیک وقت دو تیر چلانا اور کمانوں سے تیر نکلتے ہی ٹیکری کے پیچھے اُتر جانا گھوڑوں پر سوار ہونا اور گھوڑے دوڑا کر پیچھے والی پہاڑی کے کٹاؤ میں نکل جانا ۔ اس تجربہ کار آدمی نے کہا تھا کہ یزدگرد کو تیر لگے تو اس کے ساتھی اور محافظ بوکھلا جائیں گے ۔ کچھ دیر کے لئے سب کی توجہ یزدگرد پر مرکوز ہو جائے گی ۔ تعاقب کا خیال انہیں تھوڑی دیر بعد آئے گا ۔ اتنے وقت میں تم دُور پہنچ چکے ہو گے ۔
یہ چاروں یزدگرد سے بہت پہلے مدائن سے نکل آئے اور انہوں نے رفتار بھی تیز رکھی تھی اس لیے انہیں یزدگرد کا خاصا زیادہ انتظار کرنا پڑا ۔ آخر ان کا شکار انہیں آتا دکھائی دینے لگا جب یہ قافلہ چشمے کے قریب آیا تو یزدیگرد نے حکم دیا کہ جو لوگ پانی پینا چاہیں پی لیں اور گھوڑوں کو بھی پانی پلا لیا جائے ۔ قافلہ رُک گیا سب گھوڑوں سے اُتر آئے ۔
یزدگرد کی ماں مدائن میں تڑپ رہی تھی ۔ اُس کی خادمائیں اُسے بہلا بہلا کر تھک گئیں تو اُنہوں نے دو تین جرنیلوں کی بیویوں کو اطلاع دی ۔ وہ دوڑی گئیں اور یزدگرد کی ماں کو تسلیاں دینے لگیں لیکن ماں پر تو جیسے نزع کا عالم طاری تھا ہو گیا تھا ۔
وہ اکلوتا اور یتیم بیٹا جس کے لیے ماں تڑپ تڑپ کر بےحال ہوئی جارہی تھی وہ بیک وقت دو تیراندازوں شِست میں آ گیا تھا ۔وہ گھوڑے سے اُتر کر چشمے کے کنارے کھڑا ہو گیا تھا ۔ چشمے کا پانی اتنا شفاف تھا کہ جھیل کی تہہ بھی دکھائی دے رہی تھی ۔
تیر اندازوں نے کمانوں میں تیر ڈال لیے تھے اور کمانیں کھچ رہی تھیں ۔ یزدگرد نے اس طرف دیکھا ۔ اُسے قدرت کا یہ حسن اچھا لگا ہو گا ۔ اُسے بتانے والا کوئی نہ تھا کہ یہ موت کا حُسن ہے اور اُس کی زندگی ایک دو لمحے ہی رہ گئی ہے ۔
ان ایک دو لمحوں میں ایک کمان کی "پنگ" سُنائی دی کمان سے تیر نکلا لیکن اس تیر کا رُخ یزدگرد کی طرف نہیں بلکہ ان دونوں تیر اندازوں میں سے ایک کی طرف تھا ۔ وہ تیر انداز یزدگرد کو شِست میں لے چُکا تھا لیکن یزدگرد وہاں سے ہٹ کر چل پڑا ۔ کمان سے نکلا ہوا تیر تیر انداز کے پہلو کی طرف سے آ رہا تھا ۔ تیر ایک طرف سے اُس کی شہ رگ میں داخل ہوا اور آدھی لمبائی تک دوسری طرف نکل کر وہیں رُک گیا ۔
تیر انداز کے حلق سے خراٹا نکلا اور اس کے ہاتھ سے کمان گر پڑی ۔ تیر جو اُس نے کمان میں ڈالا تھا وہ بھی ہاتھ سے چھوٹ گیا ۔ دوسرے تیر انداز نے اپنے ساتھی کو دیکھا تو اُس نے کمان نیچے کی اور وہاں سے بھاگ اُٹھا اُس کے دو اور ساتھی ٹیکری کے نیچے کھڑے تھے ۔ وہ سمجھے کہ ان کے تیر انداز ساتھی اپنا کام کر آئے ہیں ۔ وہ کُود کر گھوڑوں پر سوار ہوئے اور ایڑ لگا دی ۔ ذرا سی دیر میں وہ پچھلی پہاڑی میں سے گزر گئے ۔
ان گھوڑوں کے ٹاپ یزدگرد اور اُس کے قافلے نے سُنیں اور کان کھڑے کیے پھر ٹاپ دُور نکل گئے تیسرا گھوڑ سوار بھی بھاگ گیا ۔ چوتھا ٹیکری کے اوپر ہی پڑا رہ گیا ۔
ٹیکری کے اُوپر اُوپر دو آدمی اونچی گھاس اور جھاڑیوں میں چھپتے تیر انداز تک پہنچے ۔ وہ اب تڑپ رہا تھا اور اس کی شہ رگ سے خون کا فوارہ جاری تھا ۔
ان دونوں آدمیوں نے تڑپتے ہوئے تیر انداز کو پاؤں سے پکڑ کر گھسیٹا اور اسے چشمے کی طرف ٹیکری سے لُڑھکا دیا ۔ وہ لُڑھکتا ہوا چشمیں کے کنارے جا رُکا ۔
یزدگرد اور قافلے والوں نے اُسے دیکھا پھر اُوپر دیکھا ۔ وہاں دو آدمی کھڑے تھے دونوں نیچے اُترے اور یزدگرد کے سامنے جا کھڑے ہوئے ۔
"ساران؟" ____ یزدگرد نے ان میں سے ایک کو پہچان کر پوچھا _____ "تم یہاں کیسے؟۔۔۔۔۔ یہ کیا ہے؟ کون ہے یہ؟"
ساران وہ شخص تھا جو یزدگرد کی ماں نورین کے پاس گیا اور اُسے بڑی مشکل سے قائل کیا تھا کہ وہ یزدگرد کو مدائن لائے کیونکہ تمام سرکردہ لوگ اسے تخت پر بٹھانا چاہتے ہیں ۔ ماں ڈرتی تھی کہ فارس کا تخت اپنے بہت سے وارثوں کا خون پی چکا ہے اور وہ اپنے بیٹے کو قتل نہیں کرانا چاہتی ۔ ساران نے یزدگرد کی جان کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے سر لی تھی ۔ یزدگرد نے بھی ماں سے کہا تھا کہ اگر لوگ چاہتے ہیں تو وہ اپنے باپ کی سلطنت کی سلامتی کے لئے مدائن جائے گا ۔
تاریخ جو قرآئن پیش کرتی ہے ان سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ نورین خسرو پرویز کی بیویوں میں سے ایک تھی لیکن یزدگرد ساران کا بیٹا تھا ۔ یہ قرائن پہلے تفصیل سے سُنائے جا چکے ہیں ۔
اب یزدگرد ساران کو ایک آدمی کے ساتھ مدائن سے دُور ایک چشمے پر دیکھ رہا تھا اور ایک آدمی تیر شہ رگ میں اُترا ہوا ٹیکری سے لُڑھکتا نیچے آیا تھا ۔ ساران یزدگرد کو الگ لے گیا فارس کے بادشاہوں کے آگے تو لوگ سجدے کیا کرتے تھے لیکن ساران فارس کے اس بادشاہ کو یوں ایک طرف لے گیا جیسے وہ رعایا ہو۔
"تمہیں یاد ہو گا یزدگرد!" ____ ساران نے کہا ____ "میں نے تمہاری ماں سے وعدہ کیا تھا کہ تمہارے بیٹے کی حفاظت کا ذمہ دار میں ہوں گا ۔ آج تم ساباط کے لیے روانہ ہوئے تو میرے کان میں کسی نے یہ بات ڈالی کے چار گھوڑ سوار تم سے پہلے شہر سے نکلے ہیں ۔ یہ اطلاع دینے والا ان چار گھوڑ سواروں کو مشکوک سمجھتا تھا ۔ اُس نے یہ بھی بتایا کہ یہ چار آدمی دو کمانیں اور ترکش بھی ساتھ لے گئے ہیں ۔۔۔۔
"شک مجھے بھی ہوا میں نے اپنے اعتماد کا ایک آدمی ساتھ لیا ۔ ایک کمان اور ترکش لی اور ان چاروں کے پیچھے راستے سے ہٹ کر چل پڑا کہ یہ دیکھ نہ لیں ۔ چشمے کے قریب آ کر وہ راستے سے ہٹے اور پہاڑیوں کے اندر چلے گئے تو میں سمجھ گیا کہ ان کا ارادہ خطرناک ہے ۔ انہوں نے گھوڑے نیچے چھوڑے اور پر چلے گئے ۔ ہم دونوں دُور تھے ۔ ہم نے گھوڑے دُور پیچھے چھپا دیئے اور چُھپ چُھپ کر ٹیکری پر چڑھے پھر پیٹ کے بل رینگتے ان کے قریب چلے گئے ۔۔۔۔۔ وہ اُوپر دیکھیں ہمارے چھپنے کی جگہ کتنی اچھی تھی ۔
"یہ تو مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ لوگ کیا کریں گے ۔ شک یہی تھا کہ یہ تم پر وار کریں گے ۔ ایک شک یہ بھی تھا کہ تمہارے ساتھ جو جرنیل جا رہے تھے اُن میں سے کسی کو یہ لوگ ہلاک کرنے آئے تھے ۔۔۔۔۔۔ تم آ گئے تمہارے محافظوں نے تمہیں حصار میں لے رکھا تھا لیکن بلندی سے تمہیں آسانی سے تیروں کا نشانہ بنایا جا سکتا تھا ۔۔۔۔ تم چشمے پر آ کر رُک گئے تو دو تیر اندازوں نے کمانوں میں تیر ڈالے اور تمہیں نشانہ بنانے لگے ۔ ہمارے پاس ایک ہی کمان تھی ۔ ایک آدمی کو تو ہم مار سکتے تھے لیکن خطرہ یہ تھا کہ ایک پر ہم نے چلایا تو دوسرا تم پر تیر چلا دے گا لیکن ایک کی گردن سے میرا تیر پار ہوا تو دوسرا تیر چلائے بغیر بھاگ گیا ۔"
"یہ کون تھے؟" ______ یزدگرد نے پوچھا ۔
"جو کوئی بھی تھے" ____ ساران نے کہا ____ "میں انہیں پہچانتا ہوں ۔ تم خاموش رہو ۔ انہیں سزا دینا میرا کام ہے ۔ تم نے اعلان کر کے انہیں سزائے موت دی تو تمہارے دُشمنوں میں اضافہ ہو گا ۔ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ محل کے اندر تمہارا کوئی دُشمن نہیں ۔"
"مجھے کچھ تو معلوم ہونا چاہیے!" _____ یزدگرد نے کہا ____ "مجھے اپنے دُشمنوں سے بے خبر نہیں رہنا چاہیے۔"
"میں باخبر ہوں" _____ ساران نےکہا ____ "تُمہاری سلطنت کے بڑے بڑے لوگ باخبر ہیں ، یزگرد تم شہنشاہ ہو ۔ میں تمہاری رعایا میں سے ہوں لیکن میں تُم سے یوں مخاطب ہوں جیسے تُم رعایا کے کسی عام سے گھرانے کے بچے ہو ۔ وجہ یہ ہے کہ تمہیں میں اور مجھ جیسے لوگ مدائن کے تخت پر لائے ہیں ۔ ہمارا مقصد تمہیں شہنشاہ بنانا نہیں تھا ۔ ہم جرنیلوں کی آپس کی عداوت ختم کرنا چاہتے ہیں اور وہ قتل در قتل کا سلسلہ ختم کرنا بھی مقصود تھا جو اس تخت کی جانشینی پر چلتا رہا ہے۔"
"میں آپ سب کا مقصد سمجھتا ہوں محترم ساران!" _____ یزدگرد نے کہا _____ "میری ماں نے آپ کے متعلق ایسی باتیں بتائی ہیں کہ تخت پر تو آپ نے مجھے بٹھایا ہے لیکن بادشاہ میں آپ کو سمجھتا ہوں ۔ آپ میرے روحانی باپ ہیں ۔ آپ نے فارس سے مسلمانوں کو نکالنے اور عرب کو فارس کی سلطنت میں شامل کرنے کے لئے مجھے تخت پر بٹھایا ہے۔"
"اور یہ کام تم اکیلے کا نہیں"____ ساران نے کہا "یہ کام جرنیل کریں گے ۔ تمہارا صرف حکم چلے گا ۔ یہ مت پوچھنا کہ یہ کون ہیں جو تمہیں قتل کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ بھی خیال رکھنا کہ یہ واقعہ تمہاری ماں کو نہیں بتایا جائے گا اور تم بھی اُسے بے خبر رکھنا ورنہ وہ تمہارے پاؤں کی زنجیر بن جائے گی ۔۔۔۔۔ تمہیں قتل کرنے والوں کی زندگی صرف تین روز باقی ہے ۔ ایک یہ مرا پڑا ہے ، باقی بھی مار دیے جائیں گے ۔ تم ساباط پہنچو میں واپس مدائن جا رہا ہوں۔ "
یزدگرد ساباط پہنچا رُستم اُسے دیکھ کر حیران رہ گیا کیونکہ یزدگرد نے اُسے اطلاع نہیں دی تھی کہ وہ آ رہا ہے ۔ یزدگرد بغیر اطلاع اچانک جا کر دیکھنا چاہتا تھا کہ رستم کیا کر رہا ہے ۔ تاریخِ طبری میں متعدد حوالوں سے لکھا ہے کہ رستم نے اپنے جرنیل جالینوس کو چالیس ہزار فوج دے کر اس حکم کے ساتھ ساباط بھیج دیا تھا کہ اپنی بستیوں کو مسلمانوں کی دستبرد سے محفوظ کرے ۔
مسلمانوں نے اپنے لئے رسد وغیرہ اکٹھی کرنے کا وہی طریقہ اختیار کر رکھا تھا جو پہلے بیان ہو چکا ہے ۔ یزدگر نے جنگ کی پلاننگ کے لیے رستم اور اُس کے ماتحت جرنیلوں اور اہم افسروں کو بلایا ۔
"میں حیران ہوں کہ تم لوگ مسلمانوں سے ڈرتے کیوں ہو" ____ یزدگرد نے کہا ____ "میں نے ان عربوں کو پہلی بار دیکھا ہے ۔ ان کا وفد میرے پاس آیا تھا ۔ کہتے تھے کہ ہم اپنے قبیلوں کے سردار اور معزز لوگ ہیں ۔ انہوں نے مجھے کہا کہ مسلمان ہو جاؤ یا جزیہ ادا کرو ، اور اگر یہ دونوں سورتیں منظور نہیں تو اس کا فیصلہ ہماری تلوار کرے گی ۔۔۔۔۔۔
*<======================>*
*جاری ہے بقیہ قسط نمبر 54 میں پڑھیں*
*<======================>*
*جو احباب اسلامی تاریخی واقعات پڑھنے کا شوق رکھتے ہے وہ آج ہی ہمارا چینل/گروپ جوائن کریں اور اپنے دوست احباب کو بھی ضرور شئیر کریں۔*
❤️
👍
🧐
10