Samiullah Khan Official
February 17, 2025 at 04:41 PM
*مودی سرکار سے لڑنے کے لیے ملّی_قیادت کی تیاریاں کیا ہیں ؟*
وقف ترمیمی بل کو روکنے کے لیے ملّی قیادت کی موجودہ استعداد ناکافی ہے !
پریس ریلیز، لیٹر پیڈ اور میڈیا میں بیان بازی سے کون سا ظلم تھما ہے جو وقف ترمیمی بل تھم جائے گا ؟
✍️: سمیع اللہ خان
https://www.facebook.com/share/p/1DvGeRaCKM/
وقف کی شرعی جائیدادوں کے خلاف مودی کا ہندوتوادی بِل کبھی بھی قانون کی شکل اختیار کر سکتا ہے،
اس صورتحال کے دوران یہ حقیقت مکمل ذمہ داری بلکہ امانت داری کےساتھ ملت اسلامیہ تک پہنچانا چاہتا ہوں کہ اس بابت ملی قیادتوں کی اب تک کی کارکردگی مطلوبہ تقاضوں پر پوری نہیں اترتی ہے، جس وقف ترمیمی بل کے خلاف ملی قیادتوں نے سوشل میڈیا پر بیانات کا سیلاب جاری کیا ہوا جسے دیکھ اور پڑھ کر ہر ذی شعور مسلمان مودی سرکار کے ایک اور ظالمانہ اقدام کے تئیں فکر و کڑھن میں مبتلا ہے وہ وقف ترمیمی بل بہت جلد قانون کی شکل اختیار کرنے والا ہے لیکن ملی قیادتوں کا حال یہ ہےکہ انہوں نے اب تک کوئی مؤثر احتجاج شروع بھی نہیں کیا ہے, میرا سوال یہ ہے کہ ۔ ہماری ملی تنظیمیں اور جماعتیں مودی سرکار کے سامنے ہمیشہ آخر اس انتہا کا ہی انتظار کیوں کرتی ہیں کہ ظلم واقع ہو جائے پھر ہم کچھ کریں گے یعنی کوئی ظالمانہ مسلم مخالف قانون یا فیصلہ آجائے پھر ہم ایسا کریں گے اور ویسا کریں گے، یہ کیسی حکمت عملی ہے؟
جبکہ ریکارڈ یہ بتلاتا ہے کہ ملی تنظیمیں کسی ایک بھی ظالمانہ قانون یا مسلم مخالف غیر منصفانہ فیصلے کے صادر ہو جانے کے بعد اس کےخلاف ایک دن بھی آئینی یا جمہوری مزاحمت نہیں کرپائی ہیں، بلکہ مزید شرمناک یہ ہےکہ خواہ ۔ این آر سی ہو یا سی اے اے، بابری مسجد کی جگہ رام۔مندر کی تعمیر، تین طلاق کے خلاف فیصلے، شریعت اسلامیہ کو نشانہ بنانے والے یکساں سول کوڈ کی منظوری کا معاملہ ہو یا مسلمانوں کی ہندو غنڈوں کے ذریعے جاری ظالمانہ مآب لنچنگ، ملی قیادتوں نے اب تک ان میں سے کسی ایک بھی ظلم کے خلاف مودی سرکار کو قابلِ ذکر آنکھیں بھی نہیں دکھائی ہیں،
این آر سی اور سی اے اے کا معاملہ اگر کچھ وقت کے لیے پیچھے گیا تھا تو اس کا سہرا بھی صرف اور صرف دہلی کے شاہین باغ، جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے بچوں کی انقلابی احتجاجی اسپرٹ کے سر جاتا ہے، اس کےبعد پھر ملک بھر میں خواتینِ اسلام کے ذریعے قائم کیے جانے والے شاہین باغات اثر انداز ہوئے اور یہ ظالمانہ کالا قانون پیچھے گیا اور واپس آیا بھی تو اپنی سخت گیر شکل میں نافذ نہیں ہے۔
تین طلاق والے برہمنی قانون کے خلاف ملی قیادتوں نے پوری امت میں ایک ماحول برپا کیا لیکن جب یہ غیر اسلامی قانون مسلمانوں پر مسلط کردیا گیا تو قیادت نے سپر ڈال دیے اور ملت مایوس ہوئی۔
بابری مسجد پر رام مندر قائم کیے جانے کا غیر منصفانہ فیصلہ بھارت کی برہمنی سپریم کورٹ نے مسلمانوں پر مسلط کیا قیادتوں کی جانب سے ایک بھی احتجاجی کال نہیں آئی، ملت کے حوصلے شرمندہ ہوئے۔
اور اب آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے تحت ملک کی قابلِ ذکر ملی تنظیموں اور جماعتوں نے مسلمانوں کے جذبات کو گرمایا ہے، دوسری طرف مودی سرکار کا گجراتی برہمن وقف املاک کو ہڑپنے کے لیے " سرد ترین ضربیں " لگاتا جارہا ہے، ایک طرف ملی تنظیموں کی پریس ریلیز اور پریس کانفرنس کے بیانات ہیں دوسری طرف ظالم ہندوتوادیوں کے عملی اقدامات, انجامِ گلستاں کیا ہوگا ؟
یہ ظالمانہ قانون بھی نافذ ہو جائے گا مسلمانوں کی وقف املاک گجراتی برہمنوں کے ہندوتوا تسلط کا شکار ہوں گی اور جب یہ ظالمانہ قانون تھوپ دیا جائے گا تب ملی قیادت دو چار دنوں تک غائب ہو جائے گی پھر ایک مذمتی بیان آئےگا اور دو چار قراردادیں بند کمروں سے نکل کر اخبارات کی زینت بنیں گے، مسلمانوں کو نصیحت ہوگی کہ " یہ فیصلے کاغذ پر ہیں ہمارے دلوں میں نہیں اتر سکتے "
ان سب کے نتیجے میں مسلمانوں کے حوصلے پست ہوتے ہیں ان کی حریت پسند امنگیں دم توڑتی ہیں اور وہ مستقبل میں ملت کی عزت نفس اور آزاد پرواز سے مایوس ہوتے جاتے ہیں !
میں نے اس وقف ترمیمی قانون کے متعلق ملت اسلامیہ اور اس کے قائدین کو عوامی سطح پر تبھی بیدار کرنے کی کوشش کی تھی جبکہ یہ بل پارلیمنٹ کی میز پر بھی نہیں آیا تھا ، 5 اگست 2024 کا ہمارا کالم بعنوان " مودی سرکار اب مسلمانوں کی وقف املاک ہڑپ کرنے جارہی ہے، مسلمان کیا کریں؟ " اسے آپ دیکھ سکتے ہیں ۔
ملی قیادت نے قوم سے ایسے ای میل کروایا گویا کہ وہ تیر و تفنگ یا گولہ بارود ہوں اور ان کی انتہا محض پریس کانفرنس ہیں روزانہ مسلمانوں کو ان کی طرف سے یہ سننے کو ملتا ہے کہ یہ قانون کتنا ظالمانہ اور خطرناک ہے،
لیکن اس دوران ملی قیادت نے کوئی ایک احتجاج دہلی میں منعقد نہیں کیا، لیکن اس دورانیے میں ملی تنظیموں نے ملک کے کونے کونے میں منظم نیٹ ورکنگ کی کوشش بھی نہیں کی کہ اگر آندولن برپا کرنا پڑے تو کیسے اور کیا کرنا ہے, اس دوران عملی اقدامات کے لیے مطلوبہ مختلف شعبوں کے مطابق نہ تو نوجوانوں کی کوئی ٹیم بنائی گئی نہ ہی کوئی ادھیڑ عمر کی سیکنڈ لائن تشکیل دی گئی، بلکہ ہم نے واضح طور پر محسوس کیا کہ بعض قیادتی فورمز میں تو برسر اقتدار قائدین اپنے اپنے مقربین کو خواہ وہ عملی یا علمی یا تکنیکی صلاحیتوں کے لحاظ سے کسی لائق نہ ہوں انہیں آگے بڑھانے کی کوششیں کرتے رہےہیں ہندوتوا سیاست اور بھاجپا و سنگھ پریوار سے زمینی مقابلے کا ہنر رکھنے والے ان کے پاس گنتی کے کتنے لوگ ہیں آپ دیکھ سکتے ہیں ۔
ایسی صورتحال میں اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ یہ قیادت وقف ترمیمی قانون کے خلاف کوئی خاطر خواہ اقدام کرسکتی ہے ؟ یا پھر سے ملت کے جذبات اور سرمائے کو ان کی طاقت اور امنگوں کو وقت گزاری کے غباروں میں اڑا دیا جائےگا؟
اگر ملی قیادت کے بزرگان واقعی اس مرتبہ مودی سرکار سے جمہوری طور پر سڑکوں پر اتر کر لڑنے کے اپنے دعوے میں پُرعزم ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اپنی تنظیمی قوت کا مظاہرہ کریں، اپنے تحریکی افراد کی نشاندھی کریں جو آندولن کے ملک گیر نظام کو اس کے مطلوبہ شعبوں کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے چلانے کی اہلیت و جرات رکھتے ہوں ،
ملی قیادت سب سے پہلے نمائندہ احتجاج دہلی میں منعقد کرے جس میں ہر ملی قائد شریک ہوں اس کےبعد عوام کو اس میں بلایا جائے ۔
ہم نے بھارت کے ہندوتوادی عہد میں کئی سرد جھیلے ہیں بےشمار گرم تھپیڑے جھیلے ہیں اور صرف مروت و لحاظ داری کے دباؤ میں امت کو دھوکے میں نہیں رکھ سکتے ہیں، اگر لڑائی لڑائی کے اصولوں کے ساتھ لڑی جائے گی تو ملی قیادت کا جھنڈا اٹھا کر پہلی صف میں ہم ہی نظر آئیں گے لیکن تکلف بر طرف کر مؤدبانہ درخواست ہے کہ سب سے پہلے میدان کی تیاری واضح کیجیے اور میدان میں پہلے خود تشریف لائیے۔
👍
❤️
🌹
💯
😢
26