Sindh Government

Sindh Government

216.1K subscribers

Verified Channel
Sindh Government
Sindh Government
February 17, 2025 at 03:15 PM
این ایف سی ایوارڈ کثیر بنیادوں پر دیا جائے، وزیراعلیٰ سندھ اور اقوام متحدہ وفد میں اتفاق ہم 2008 سے سیلز ٹیکس کی وصولی کا اختیار صوبوں کو دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں، مراد علی شاہ صوبوں کو ٹیکس وصولی کا اختیار دینے سے وصولی میں اضافہ ہوگا، وزیراعلیٰ سندھ کراچی (17 فروری) وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اقوام متحدہ کے فنڈ برائے آبادیاتی سرگرمیاں ( یو این ایف پی اے ) کے ملکی نمائندے ڈاکٹر لوئے شبانے کی قیادت میں وفد سے ملاقات کے دوران اس بات سے اتفاق کیا کہ نیشنل فنانس کمیشن ( این ایف سی ) ایوارڈ کے فارمولے میں آمدنی میں تفاوت، آبادیاتی کارکردگی، انسانی ترقی، ٹیکس شرح اور جنگلات کے رقبے جیسے عوامل کو مدنظر رکھا جانا چاہیے۔ یہ ملاقات پیر کے روز وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ہوئی، جس میں وزیر صحت و آبادی ڈاکٹر عذار فضل پیچوہو، سیکریٹری وزیراعلیٰ رحیم شیخ اور سیکریٹری آبادی حافظ اللہ عباسی نے شرکت کی، یو این ایف پی اے کی ٹیم میں ڈی جی نسٹ ڈاکٹر اشفاق خان، سربراہ یو این ایف پی اے سندھ مقدر اور پروگرام اینالسٹ رینوکا سوامی نے شرکت کی۔ مالی وسائل کی منصفانہ تقسیم اور پائیدار اقتصادی ترقی کے فروغ کی جانب ایک اہم پیش رفت کے طور پر وزیر اعلیٰ اور یو این ایف پی اے کے وفد نے این ایف سی ایوارڈ کا تجزیہ کیا۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے کہا کہ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت پہلی بار وسائل کی تقسیم کے لیے متعدد معیارات اپنائے گئے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ 2008 سے پاکستان پیپلز پارٹی صوبوں کو سیلز ٹیکس کی وصولی کا مکمل اختیار دینے کی حمایت کر رہی ہے تاکہ محصولات میں اضافہ کیا جا سکے۔ مراد علی شاہ نے وضاحت کی کہ صوبے عوام کے قریب ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ٹیکس وصولی میں زیادہ مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں۔ تاہم انہوں نے نشاندہی کی کہ پاکستان میں 90 فیصد ٹیکس وفاقی سطح پر جمع کیا جاتا ہے جبکہ صوبے صرف 10 فیصد ٹیکس خود وصول کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ انحصار صوبوں کو وفاقی فنڈز کا محتاج بناتا ہے‘‘ ۔ مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ صوبوں کو مکمل مالی خودمختاری دینے سے نہ صرف ٹیکس وصولی میں بہتری آئے گی بلکہ وسائل کی زیادہ مؤثر تقسیم بھی یقینی بنائی جا سکے گی۔ ڈائریکٹر جنرل نسٹ انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز ڈاکٹر اشفاق خان نے ایک جامع جائزہ پیش کیا جس میں این ایف سی کی تاریخی ارتقا، موجودہ مالیاتی عدم توازن اور محصولات کی تقسیم کے لیے اصلاحات کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا۔ نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایک آئینی ادارہ ہے جو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان ٹیکس ریونیو کی تقسیم کا ذمہ دار ہے۔ آئین کے تحت این ایف سی ہر پانچ سال بعد تشکیل دیا جاتا ہے تاکہ مالیاتی وسائل کی تقسیم کے لیے ایک مناسب طریقہ کار وضع کیا جا سکے۔ پاکستان میں محصولات کی تقسیم کا فریم ورک 1935 کے نیومائر ایوارڈ سے جڑا ہوا ہے جسے آزادی کے بعد 1947 میں ترمیم کے ساتھ اپنایا گیا۔ پہلا باضابطہ این ایف سی ایوارڈ 1951 میں وزیر اعظم لیاقت علی خان نے متعارف کرایا جو ریزمن ایوارڈ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بعد میں کئی ایوارڈز متعارف کرائے گئے لیکن ابتدائی ایوارڈز (1961، 1964، 1970) کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔ 1971 کے بعد ایک نمایاں تبدیلی اس وقت آئی جب آبادی کو وسائل کی تقسیم کے لیے بنیادی عنصر بنایا گیا۔ یہ رجحان ساتویں این ایف سی ایوارڈ تک برقرار رہا جس میں پہلی بار متعدد معیارات کو شامل کیا گیا۔ جائزے میں مردم شماری کا تفصیلی تجزیہ شامل تھا جس میں آبادی میں نمایاں اضافے کے رجحانات اور ان کے مالیاتی منصوبہ بندی پر اثرات کو اجاگر کیا گیا۔ پاکستان کی آبادی 1951 میں 3 کروڑ 37 لاکھ سے بڑھ کر 2023 میں 24 کروڑ 15 لاکھ تک پہنچ گئی جو ایک متوازن اور ترقی پر مبنی این ایف سی فارمولے کی فوری ضرورت کو ظاہر کرتی ہے۔ ڈاکٹر اشفاق خان نے پالیسی سازوں کو مشورہ دیا کہ وہ پاکستان کے منفرد چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی طریقوں کو مدنظر رکھیں۔ مالی سال24-2023 کے دوران پاکستان کی مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) 375 ارب ڈالر رہی جبکہ فی کس آمدنی 1,552 ڈالر رہی۔ تاہم اگر پاکستان کی آبادی کم ہوتی تو معیشت کی صورتحال نمایاں طور پر مختلف ہوتی۔ پاکستان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کا اقتصادی کارکردگی پر براہ راست اثر پڑا ہے۔ ملاقات میں بین الاقوامی تجربات پر بحث کی گئی جس میں کئی اہم اسباق موجود ہیں، بھارت کے مالیاتی انتظام کا ماڈل متعلقہ معیارات پیش کرتا ہے۔ جائزے میں بتایا گیا کہ بھارتی فنانس کمیشن خود مختار طور پر کام کرتا ہے جہاں قیادت سیاستدانوں کی بجائے ماہرین معاشیات کے پاس ہوتی ہے۔ کمیشن میں تمام ریاستوں کی نمائندگی نہیں ہوتی بلکہ کمیشن صرف پانچ اراکین پر مشتمل ہوتا ہے۔ بھارتی یونین اور ریاستی حکومتوں کے درمیان وسائل کی عمودی تقسیم رائج ہے جو حکومتی ترجیحات کے مطابق ڈھلتی ہے۔ مزید برآں بھارت نے آبادی کے کنٹرول کی حوصلہ افزائی کے لیے افقی وسائل کی تقسیم میں آبادیاتی کارکردگی کو بھی ایک عنصر کے طور پر شامل کیا ہے۔ ڈاکٹر اشفاق خان نے کہا کہ پاکستان کا این ایف سی ڈھانچہ سیاسی ہو چکا ہے جس کی وجہ سے اعداد و شمار میں ہیرا پھیری کی جاتی ہے اور صوبوں کو مردم شماری کے دوران آبادی کے اعداد و شمار بڑھانے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے جس نے آبادی کے حجم اور بڑھنے کی شرح کو سیاسی طور پر حساس بنا دیا ہے۔ ڈاکٹر اشفاق خان نے زور دیا کہ ملک میں مالیاتی وسائل کی منصفانہ اور ترقی پسند تقسیم کو یقینی بنانے کےلیے سیاسی مداخلت سے پاک اور ایک منصفانہ ڈیٹا پر مبنی ایک اصلاح شدہ این ایف سی فارمولہ ضروری ہے۔ جائزے میں تجویز پیش کی گئی کہ صوبوں کے درمیان افقی تقسیم کے لیے کچھ مخصوص پیرامیٹرز اور بنیادیں مقرر کی جائیں۔ تجویز کیا گیا کہ آمدنی کے فرق کو 30 فیصد، آبادی (2023) کو 10 فیصد، آبادیاتی کارکردگی کو 17.5 فیصد ، انسانی ترقی کے اشاریہ کو 10 فیصد ، رقبہ کو 7.5 فیصد ، ٹیکس کی کوششوں کو 5 فیصد اور جنگلات کے رقبے کو 5 فیصد بنیاد بنایا جائے۔
❤️ 👍 😂 😢 23

Comments