
Sindh Government
216.1K subscribers
Verified ChannelAbout Sindh Government
Official Channel to share News and Updates regarding Government of Sindh
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

کراچی / وزیراعلیٰ ہاؤس / 18 فروری 2025ء *وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی صدارت میں بزنس فیسلیٹیشن کوآرڈینیشن کمیٹی کا فالو اپ اجلاس* اجلاس میں صوبائی وزراء؛ شرجیل میمن، ناصر شاہ، ضیاء الحسن لنجار، محمد بخش مہر، جام اکرام اللہ دھاریجو، شاہد تھہیم، چیف سیکریٹری آصف حیدر شاہ، آئی جی پولیس غلام نبی میمن، کمشنر کراچی حسن نقوی اور دیگر موجود تاجر برادری میں عقیل کریم ڈھیڈی، عارف حبیب، زبیر موتی والا، ثاقب مگون، جاوید بلوانی، ڈاکٹر زیلف منیر اور دیگر شریک بزنس فیسلیٹیشن کوآرڈینیشن کمیٹی کی سات سب-کمیٹیز نوٹیفائی ہو چکی ہیں سات سب-کمیٹیز میں 5 کے اجلاس بھی کیئے گئے ہیں، اجلاس میں آگاہی جن سب-کمیٹیز کے اجلاس ہوچکے ہیں ان میں انڈسٹریل پالیسی اینڈ ایزی آف ڈوئنگ بزنس، انفرااسٹیکچر سیکٹر کمیٹی، ہاؤسنگ کنسٹریکشن اینڈ ٹاؤن پلاننگ سیکٹر کمیٹی، انرجی اینڈ واٹر، سیوریج سیکٹر کمیٹی، انکروچمینٹ / لینڈ گریبنگ کمیٹی شامل ہیں گیس کی یو ایف جی یا گیس لیکیجز کے نقصانات کو کم کروانے کے لیئے اقدامات کیئے جائینگے، فیصلہ گیس کی یو ایف جی کم ہوگی تو گیس کی قیمت کمی ہوگی اور صنعت کو فائدہ ہوگا، وزیراعلیٰ سندھ این این جی کی درآمد کی وجہ سے زیادہ نقصانات ہیں، صنعتکار مقامی گیس کافی موجود ہے اور اس کے نقصانات کم کرکے استعمال میں لایا جائے، صنعتکاروں کی تجویز جب تک مزید صنعتیں نہیں لگیں گی بجلی کے ریٹ کم نہیں ہونگے، صنعتکاروں کی رائے وفاقی حکومت کو کےالیکٹرک میں نمائندگی دینے کیئے خط لکھنے کا فیصلہ ایک نمائندہ وفاق، ایک چیمبر اور ایک سندھ حکومت کا کےالیکٹرک میں ہونا چاہیے، اجلاس میں اتفاق کوئلے کے مختلف منصوبوں پر بزنس کمیونٹی سندھ حکومت کے ساتھ کام کرنا چاہتی ہے بزنس کمیونٹی کے ساتھ بیٹھ کر منصوبوں کو حتمی شکل دیں، وزیراعلیٰ سندھ کی وزیر توانائی کو ہدایت اجلاس میں سوشل سکیورٹی کے چارجز کو کم کرنے کی تجویز دی گئی بزنس کمیونٹی کو کہا گیا کہ انفرااسٹیکچر سیس کا کیس عدالت سے واپس لیں 180 بلین روپے عدالت میں ہیں، اگر کیس واپس لیا جائے گا تو یہ رقم انفرااسٹیکچر پر خرچ کیئے جائینگے انفرااسٹیکچر سیس کا مسئلہ کمیٹی میں بیٹھ کر حل کرنے کا فیصلہ حکومت گیس ڈالر میں خرید کرتی ہے اور روپے میں بیچتی ہے، جس کی وجہ سے قیمت بڑھ جاتی ہے ہمیں گیس یا بجلی کی ڈیلز ڈالر میں نہیں کرنی چاہئے، صنعت کاروں کی رائے آپ تجاویز بناکر دیں میں وفاقی حکومت سے بات کرونگا، وزیراعلیٰ سندھ کی صنعتکاروں کو ہدایت 26 فروری کو انفرااسٹیکچر کی ڈولپمینٹ پر اجلاس کروں گا، وزیراعلیٰ سندھ صنعتی علاقوں میں انفرااسٹیکچر کی ترقی سے متعلق صنعتکاروں سے مشاورت کروں گا، وزیراعلیٰ سندھ کراچی میں ٹریفک سگنل کے مسائل ہیں جو زیادہ تر خراب ہیں، وزیراعلیٰ سندھ وزیراعلیٰ سندھ ٹریفک سگنلز ٹھیک کرنے کیلئے میئر کراچی کو ہدایت دیدی جو پارکنگ ایریا ختم کر کے گدام بنائے گئے ہیں انہیں ختم کرنے کا فیصلہ وزیراعلیٰ سندھ نے کمشنر کراچی کو ٹاسک دیدیا

KARACHI (February 18th, 2025): Sindh Chief Minister Syed Murad Ali Shah presides over a follow up meeting of the Business Facilitation Coordination Committee (BFCC) at CM House.

رکن صوبائی اسمبلی محمد آصف خان کا منشیات فروشوں اور دیگر جرائم کرنے والوں کے خلاف کاروائی کے متعلق سندھ اسمبلی میں اظہار خیال۔

ڈائریکٹو ریٹ آف پریس انفارمیشن محکمہ اطلاعات حکومت سندھ فون۔99204401 کراچی مور خہ18فروری 2025 کراچی 18 فروری ۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کی ہدایات پر سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن نے کراچی میں حادثات اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات پر وزیر اعلیٰ سندھ کی ہدایت پر ایک اہم ترین اجلاس سندھ سیکریٹریٹ میں ہوا۔ اجلاس میں وزیر داخلہ سندھ ضیاء الحسن لنجار، اپوزیشن لیڈر علی خورشیدی، اے این پی کے رہنما شاہی سید، جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیر مسلم پرویز، متحدہ رہنما افتخار عالم، طٰہٰ حسین، جماعت اسلامی کے ایم پی اے محمد فاروق، ٹرانسپورٹرز ڈمپر ایسو سی ایشن کے لیاقت محسود، واٹر ٹینکر ایسوسی ایشن کے سردار عبدالحمید، کراچی گڈز کے محمد رمضان ، غلام محمد آفریدی، الحاج یوسف خان اور دیگر نے شرکت کی۔ اجلاس میں کراچی میں ہونے والے روڈ حادثات، ہیوی ٹرانسپورٹ کے اوقات کار، اور دیگر اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اجلاس میں کراچی جیل چونگی کے علاقے میں گذشتہ رات روڈ حادثے میں ایک شہری کی ہلاکت اور اس کے بعد پانچ گاڑیوں کو نظر آتش کرنے پر افسوس کا اظہار کیا گیا۔ اجلاس کے بعد صوبائی وزیر داخلہ ضیاء الحسن لنجار ، ڈاکٹر فاروق ستار، شاہی سید، علی خورشیدی اور نائب امیر جماعت اسلامی مسلم پرویز کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن نے کہا کہ آج کے اجلاس کا مقصد حادثات اور واقعات کو روکنے کے لئے غور و فکر کرنا تھا، اجلاس میں تمام اسٹیک ہولڈرز نے اپنا موقف رکھا اور ٹرانسپورٹرز نے بھی اپنے مسائل بتائے ہیں ۔ شر جیل انعام میمن نے کہا کہ اجلاس کے بعد ہم تمام ایک بات پر متفق ہوئے ہیں کہ حادثات کوئی سیاسی ایشو نہیں ہیں بلکہ یہ ایک انتظامی مسئلہ ہے ، ایم کیو ایم اور اے این پی نے بھی کہا ہے کہ کہ حادثات سیاسی ایشو نہیں ہے ۔ سینئر وزیر شرجیل انعام میمن نے کہا کہ گذشتہ روز کے واقعے پر وزیر اعلی سندھ ٰ نے برہمی کا اظہار کیا تھا، وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی ہدایات پر اجلاس منعقد کیا گیا تھا جس میں ہمارا اتفاق ہوا کہ حادثات پر سیاسی بیان بازی نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب چاہتے ہیں کہ کراچی شہر کا امن امان برقرار رہے ۔سیاسی بیان بازی کا فائدہ کوئی تیسری قوت نہ اٹھائے، آج کی ملاقات میں اتفاق کیا گیا ہے کہ حادثات کو سیاسی رنگ نہیں دیا جائے گا اور تمام مسائل کو پرامن طریقے سے حل کیا جائیگا ہم سب پاکستانی ہیں، ہم سب کو مل کر اپنا ملک بنانا ہے ۔کراچی شہر کے مسائل حکومت کے لیے ضرور چیلنج ہیں ، سینئر وزیر شرجیل انعام میمن نے کہا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ ہیوی ٹریفک کراچی میں چلتی ہے ۔ہمارے پاس چیلنجز ہیں لیکن حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ایک بھی حادثہ نہ ہو۔انہوں نے ٹرانسپوٹرز سے بھی کہا ہے کہ اپنے ڈرائیورز کو کہیں گاڑیاں احتیاط سے چلائیں۔ شرجیل انعام میمن نے کہا کہ اب کوئی شعلہ بیانی نہیں کرے گا، کل شرپسندی کرنے والے 15 افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے عوام نفرت پھیلانے والوں پر کان نہ دھریں ۔

این ایف سی ایوارڈ کثیر بنیادوں پر دیا جائے، وزیراعلیٰ سندھ اور اقوام متحدہ وفد میں اتفاق ہم 2008 سے سیلز ٹیکس کی وصولی کا اختیار صوبوں کو دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں، مراد علی شاہ صوبوں کو ٹیکس وصولی کا اختیار دینے سے وصولی میں اضافہ ہوگا، وزیراعلیٰ سندھ کراچی (17 فروری) وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اقوام متحدہ کے فنڈ برائے آبادیاتی سرگرمیاں ( یو این ایف پی اے ) کے ملکی نمائندے ڈاکٹر لوئے شبانے کی قیادت میں وفد سے ملاقات کے دوران اس بات سے اتفاق کیا کہ نیشنل فنانس کمیشن ( این ایف سی ) ایوارڈ کے فارمولے میں آمدنی میں تفاوت، آبادیاتی کارکردگی، انسانی ترقی، ٹیکس شرح اور جنگلات کے رقبے جیسے عوامل کو مدنظر رکھا جانا چاہیے۔ یہ ملاقات پیر کے روز وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ہوئی، جس میں وزیر صحت و آبادی ڈاکٹر عذار فضل پیچوہو، سیکریٹری وزیراعلیٰ رحیم شیخ اور سیکریٹری آبادی حافظ اللہ عباسی نے شرکت کی، یو این ایف پی اے کی ٹیم میں ڈی جی نسٹ ڈاکٹر اشفاق خان، سربراہ یو این ایف پی اے سندھ مقدر اور پروگرام اینالسٹ رینوکا سوامی نے شرکت کی۔ مالی وسائل کی منصفانہ تقسیم اور پائیدار اقتصادی ترقی کے فروغ کی جانب ایک اہم پیش رفت کے طور پر وزیر اعلیٰ اور یو این ایف پی اے کے وفد نے این ایف سی ایوارڈ کا تجزیہ کیا۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے کہا کہ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت پہلی بار وسائل کی تقسیم کے لیے متعدد معیارات اپنائے گئے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ 2008 سے پاکستان پیپلز پارٹی صوبوں کو سیلز ٹیکس کی وصولی کا مکمل اختیار دینے کی حمایت کر رہی ہے تاکہ محصولات میں اضافہ کیا جا سکے۔ مراد علی شاہ نے وضاحت کی کہ صوبے عوام کے قریب ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ٹیکس وصولی میں زیادہ مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں۔ تاہم انہوں نے نشاندہی کی کہ پاکستان میں 90 فیصد ٹیکس وفاقی سطح پر جمع کیا جاتا ہے جبکہ صوبے صرف 10 فیصد ٹیکس خود وصول کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ انحصار صوبوں کو وفاقی فنڈز کا محتاج بناتا ہے‘‘ ۔ مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ صوبوں کو مکمل مالی خودمختاری دینے سے نہ صرف ٹیکس وصولی میں بہتری آئے گی بلکہ وسائل کی زیادہ مؤثر تقسیم بھی یقینی بنائی جا سکے گی۔ ڈائریکٹر جنرل نسٹ انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز ڈاکٹر اشفاق خان نے ایک جامع جائزہ پیش کیا جس میں این ایف سی کی تاریخی ارتقا، موجودہ مالیاتی عدم توازن اور محصولات کی تقسیم کے لیے اصلاحات کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا۔ نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایک آئینی ادارہ ہے جو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان ٹیکس ریونیو کی تقسیم کا ذمہ دار ہے۔ آئین کے تحت این ایف سی ہر پانچ سال بعد تشکیل دیا جاتا ہے تاکہ مالیاتی وسائل کی تقسیم کے لیے ایک مناسب طریقہ کار وضع کیا جا سکے۔ پاکستان میں محصولات کی تقسیم کا فریم ورک 1935 کے نیومائر ایوارڈ سے جڑا ہوا ہے جسے آزادی کے بعد 1947 میں ترمیم کے ساتھ اپنایا گیا۔ پہلا باضابطہ این ایف سی ایوارڈ 1951 میں وزیر اعظم لیاقت علی خان نے متعارف کرایا جو ریزمن ایوارڈ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بعد میں کئی ایوارڈز متعارف کرائے گئے لیکن ابتدائی ایوارڈز (1961، 1964، 1970) کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔ 1971 کے بعد ایک نمایاں تبدیلی اس وقت آئی جب آبادی کو وسائل کی تقسیم کے لیے بنیادی عنصر بنایا گیا۔ یہ رجحان ساتویں این ایف سی ایوارڈ تک برقرار رہا جس میں پہلی بار متعدد معیارات کو شامل کیا گیا۔ جائزے میں مردم شماری کا تفصیلی تجزیہ شامل تھا جس میں آبادی میں نمایاں اضافے کے رجحانات اور ان کے مالیاتی منصوبہ بندی پر اثرات کو اجاگر کیا گیا۔ پاکستان کی آبادی 1951 میں 3 کروڑ 37 لاکھ سے بڑھ کر 2023 میں 24 کروڑ 15 لاکھ تک پہنچ گئی جو ایک متوازن اور ترقی پر مبنی این ایف سی فارمولے کی فوری ضرورت کو ظاہر کرتی ہے۔ ڈاکٹر اشفاق خان نے پالیسی سازوں کو مشورہ دیا کہ وہ پاکستان کے منفرد چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی طریقوں کو مدنظر رکھیں۔ مالی سال24-2023 کے دوران پاکستان کی مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) 375 ارب ڈالر رہی جبکہ فی کس آمدنی 1,552 ڈالر رہی۔ تاہم اگر پاکستان کی آبادی کم ہوتی تو معیشت کی صورتحال نمایاں طور پر مختلف ہوتی۔ پاکستان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کا اقتصادی کارکردگی پر براہ راست اثر پڑا ہے۔ ملاقات میں بین الاقوامی تجربات پر بحث کی گئی جس میں کئی اہم اسباق موجود ہیں، بھارت کے مالیاتی انتظام کا ماڈل متعلقہ معیارات پیش کرتا ہے۔ جائزے میں بتایا گیا کہ بھارتی فنانس کمیشن خود مختار طور پر کام کرتا ہے جہاں قیادت سیاستدانوں کی بجائے ماہرین معاشیات کے پاس ہوتی ہے۔ کمیشن میں تمام ریاستوں کی نمائندگی نہیں ہوتی بلکہ کمیشن صرف پانچ اراکین پر مشتمل ہوتا ہے۔ بھارتی یونین اور ریاستی حکومتوں کے درمیان وسائل کی عمودی تقسیم رائج ہے جو حکومتی ترجیحات کے مطابق ڈھلتی ہے۔ مزید برآں بھارت نے آبادی کے کنٹرول کی حوصلہ افزائی کے لیے افقی وسائل کی تقسیم میں آبادیاتی کارکردگی کو بھی ایک عنصر کے طور پر شامل کیا ہے۔ ڈاکٹر اشفاق خان نے کہا کہ پاکستان کا این ایف سی ڈھانچہ سیاسی ہو چکا ہے جس کی وجہ سے اعداد و شمار میں ہیرا پھیری کی جاتی ہے اور صوبوں کو مردم شماری کے دوران آبادی کے اعداد و شمار بڑھانے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے جس نے آبادی کے حجم اور بڑھنے کی شرح کو سیاسی طور پر حساس بنا دیا ہے۔ ڈاکٹر اشفاق خان نے زور دیا کہ ملک میں مالیاتی وسائل کی منصفانہ اور ترقی پسند تقسیم کو یقینی بنانے کےلیے سیاسی مداخلت سے پاک اور ایک منصفانہ ڈیٹا پر مبنی ایک اصلاح شدہ این ایف سی فارمولہ ضروری ہے۔ جائزے میں تجویز پیش کی گئی کہ صوبوں کے درمیان افقی تقسیم کے لیے کچھ مخصوص پیرامیٹرز اور بنیادیں مقرر کی جائیں۔ تجویز کیا گیا کہ آمدنی کے فرق کو 30 فیصد، آبادی (2023) کو 10 فیصد، آبادیاتی کارکردگی کو 17.5 فیصد ، انسانی ترقی کے اشاریہ کو 10 فیصد ، رقبہ کو 7.5 فیصد ، ٹیکس کی کوششوں کو 5 فیصد اور جنگلات کے رقبے کو 5 فیصد بنیاد بنایا جائے۔