
سـبـق آمـوز واقـعـات 📚
February 24, 2025 at 03:37 PM
*فاتح بیت المقدس* 🕌
*سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ* 🔥
*قسط نمبر* *24*
''تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر تین سال بعد تمہارا قبیلہ باہر سے ایک خوب صورت لڑکی اغوا کرکے لاتا ہے''۔
علی بن سفیان نے پوچھا۔
''نہیں ۔یہ غلط ہے''۔ سوڈانی حبشی نے جواب دیا……
''تین سال بعد صرف میلہ لگتا ہے ۔لڑکی کی قربانی پانچ میلوں کے بعد یعنی ہر پندرہ سال بعد دی جاتی ہے۔
مشہور یہی ہے کہ ہر تین سال بعد لڑکی قربان کی جاتی ہے''۔
اس نے اپنے باپ کے حوالے سے وہ جگہ بتائی جہاں قربانی دی جاتی تھی۔ پروہت کو وہ دیوتا کا بیٹا کہتا تھا،جہاں میلہ لگتا تھا ، اس سے ڈیڑھ ایک میل جتنی دُور ایک پہاڑی علاقہ تھا ،جہاں جنگل بھی تھا۔یہ علاقہ زیادہ وسیع اور عریض نہیں تھا۔ اس کے متعلق مشہور تھا کہ وہاں دیوتا رہتے ہیں اور ان کی خدمت کے لیے جن اور پریاں بھی رہتی ہیں۔لوگ اس لیے یہ باتیں مانتے تھے کہ ہر طرف صحرا اور اس میں جزیرے کی طرح کچھ علاقہ پہاڑی اور سر سبز تھا جو قدرت کا ایک عجوبہ تھا۔ یہ دیوتائوں کا مسکن ہی ہوسکتا تھا۔ اس علاقے میں فرعونوں کے وقتوں کے کھنڈر تھے، وہاں ایک جھیل بھی تھی جس میں چھوٹے مگر مچھ رہتے تھے۔
قبیلے کا کوئی آدمی سنگین جرم کرے تو اسے پروہت کے حوالے کردیا جاتا تھا۔ پروہت اسے زندہ جھیل میں پھینک دیتا ،جہاں مگر مچھ اسے کھا جاتے تھے۔پروہت انہی کھنڈروں میں رہتا تھا۔وہاں ایک بہت بڑا پتھر کا سر اور منہ تھا جس میں دیوتا رہتا تھا۔ ہر پندرھویں سال کے آخری دنوں میں باہر سے ایک لڑکی اغوا کرکے لائی جاتی جو پروہت کے حوالے کردی جاتی تھی پروہت لڑکی کو ایک پھول سونگھاتا تھا جس کی خوشبو سے لڑکی کے ذہن سے نکل جاتا تھا کہ وہ کیا تھی،کہاں سے آئی تھی اور اسے کون لایا تھا۔اس پھول میں کوئی نشہ آور بو ڈالی جاتی تھی ،جس کے اثر سے وہ پروہت کو دیوتا اور اپنا خاوند سمجھ لیتی تھی۔اسے وہاں کی گندی چیزیں بھی خوب صورت دکھائی دیتی تھیں۔
https://chat.whatsapp.com/CKAiMLH2THv43mjZbBfFda
لڑکی کی قربانی انہی کھنڈرات میں دی جاتی تھی۔لڑکی کو پروہت تہہ کانے میں اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ اس جگہ چار مرد اور چار خوب صورت لڑکیاں رہتی تھیں۔ ان کے سوا اور کسی کو پہاڑوں کے اندر جانے کی اجازت نہیں تھی۔لڑکی کو جب قربان گاہ پر لے جایا جاتا تو اسے احساس ہی نہیں ہوتا تھا کہ اس کی گردن کاٹ دی جائے گی۔وہ فخر اور خوشی سے مرتی تھی۔ اس کا دھڑ مگر مچھوں کی جھیل میں پھینک دیاجاتا اور بال کاٹ کر قبیلے کے ہر گھر میں تقسیم کر دئیے جاتے تھے۔ ان بالوں کو مقدس سمجھا جاتا تھا۔لڑکی کا سر خشک ہونے کے لیے رکھ دیاجاتا تھا، جب گوشت ختم ہوکر صرف کھوپڑی رہ جاتی تو اُسے ایک غار میں رکھ دیاجاتاتھا۔ لڑکی کسی کو دکھائی نہیں جاتی تھی۔
''پندرہ سال پورے ہورہے ہیں ۔اب کے لڑکی کی قربانی دی جائے گی''……اس حبشی نے کہا……
''ہم نو آدمی مصر کی فوج میں بھرتی ہوئے تھے۔ ہمیں چونکہ نڈر اور وحشی سمجھا جاتا ہے۔اس لیے ہمیں خلیفہ کے محافظ دستے کے لیے منتخب کر لیا گیا۔دو مہینے گزرے ہم نے اس لڑکی کو دیکھا۔ایسی خوب صورت لڑکی ہم نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ہم سب نے فیصلہ کر لیا کہ اس لڑکی کو اُٹھالے جائیں گے اور قربانی کے لیے پیش کریں گے۔ہمارے ایک ساتھی نے جو کل ماراگیا ہے۔اپنے گائوں جاکر قبیلے کے بزرگ کو بتا دیا تھاکہ اس بار قربانی کے لیے ہم لڑکی لائیں گے۔ ہم نے لڑکی کو اغوا کر لیا ہے''۔
یہ قصہ صلاح الدین ایوبی کو سنایا گیا تو وہ گہری سوچ میں کھو گیا۔علی بن سفیان اس کے حکم کا منتظر تھا۔سلطان ایوبی نے نقشہ دیکھا اور کہا……
''اگر جگہ یہ ہے تو یہ ہماری عمل داری سے باہر ہے۔ تم نے شہر کے پرانے لوگوں سے جو معلومات حاصل کی ہیں ،ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ فرعون تو صدیاں گزریں مرگئے ہیں ، لیکن فرعونیت ابھی باقی ہے۔ بحیثیت مسلمان ہم پر فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم اگر دُور نہ پہنچ سکیں تو قریبی پڑوس سے تو کفر اور شرک کا خاتمہ کریں۔ آج تک معلوم نہیں کتنے والدین کی معصوم بیٹیاں قربان کی جاچکی ہیں اور اس میلے میں کتنی بیٹیاں اغوا ہوکر فروخت ہوجاتی ہیں۔ہمیں دیوتائوں کا تصور ختم کرنا ہے ۔لوگوں کو دیوتائوں کا تصور دے کر نام نہاد مذہبی پیشوا لڑکیاں اغوا کروا کے بدکاری اور عیاشی کرتے ہیں''۔
''میرے مخبروں کی اطلاعوں نے یہ
بےہودہ انکشاف کیا ہے کہ ہماری فوج کے کئی کمان دار اور مصر کے پیسے والے لوگ اس میلے میں جاتے اور لڑکیاں خریدتے یا چند دنوں کے لیے کرائے پر لاتے ہیں''……
علی بن سفیان نے کہا……''کردار کی تباہی کے علاوہ یہ خطرہ بھی ہے کہ سوڈانیوں کی برطرف فوج کے عسکری اس میلے میں زیادہ تعداد میں جاتے ہیں۔ہماری فوج اور ہمارے دوسرے لوگوں کا سوڈانی سابقہ فوجیوں کے ساتھ ملنا جلنا اور جشن منانا ٹھیک نہیں۔یہ مشترکہ تفریح ملک کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے''……
علی بن سفیان نے ذراجھجک کر کہا……''اور لڑکی کو قربان ہونے سے پہلے بچانا اور خلیفہ کے حوالے کرنا، اس لیے بھی ضروری ہے کہ اسے معلوم ہوجائے کہ اس نے آپ پر اغوا کا جو الزام عائد کیاہے، وہ کتنا بے بےبنیاد اور لغو ہے''۔
https://chat.whatsapp.com/CKAiMLH2THv43mjZbBfFda
''مجھے اس کی کوئی پروا نہیں علی!''……سلطان ایوبی نے کہا……''میری توجہ اپنی ذات پر نہیں ۔مجھے کوئی کتنا ہی حقیر کہے، میں اسلام کی عظمت کے فروغ اور تحفظ کو نہیں بھول سکتا ۔میری ذات کچھ بھی نہیں اور تم بھی یاد رکھو علی!اپنی ذات سے توجہ ہٹا کر سلطنت کے استحکام اور فلاح و بہبود پر مرکوز کردو۔ اسلام کی عظمت کا امین خلیفہ، اپنی ذات میں گم ہوتے گئے اور اپنے نفس کا شکار ہوگئے ۔اب ہماری خلافت اسلام کی بہت بڑی کمزوری بن گئی ہے۔صلیبی ہماری اس کمزوری کو استعمال کر رہے ہیں ۔اگر تم کامیابی سے اپنے فرائض نبھانا چاہتے ہوتو اپنی ذات اور اپنے نفس سے دست بردار ہوجائو……
خلیفہ نے مجھ پر جو الزام عائد کیا ہے ،اسے میں نے بڑی مشکل سے برداشت کیا ہے ۔میں اوچھے وار کا جواب دے سکتا تھا، مگر میرا وار بھی اوچھا ہوتا۔پھر میں ذاتی سیاست بازی میں اُلجھ جاتا ۔مجھے خطرہ یہی نظر آرہا تھا کہ ملتِ اسلامیہ کسی دور میں جاکر اپنے ہی حکمرانوں کی ذاتی سیاست بازیوں، خود پسندی ، نفس پرستی اور اقتدار کی ہوس کی نذر ہوجائے گی''۔
''گستاخی کی معافی چاہتا ہوں محترم امیر!''……
علی بن سفیان نے کہا……
''اگر آپ اس لڑکی کو قربان ہونے سے بچانا چاہتے ہیں تو حکم صادر فر مائیے۔
وقت بہت تھوڑا ہے ۔ پرسوں سے میلہ شروع ہورہاہے ''۔
''فوج میں یہ حکم فوراً پہنچا دو کہ اس میلے میں کسی فوجی کو شریک ہونے کی اجازت نہیں ''……
سلطان ایوبی نے نائب سالار کو بلا کر کہا……
''خلاف ورزی کرنے والے کو اس کے عہدے اور رتبے سے قطع نظر پچاس کوڑے سر عام لگائے جائیں گے''۔
اس حکم کے بعد سکیم بننے لگی۔
متعلقہ حکام کو سلطان ایوبی نے بلایا تھا۔ اس نے سب سے کہا تھا کہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ اس طلسم کو توڑنا ہے ۔ یہ جگہ فرعونیت کی آخری نشانی معلوم ہوتی ہے……پہلے فوج کشی زیرِ بحث آئی جو اس وجہ سے خارج از بحث کردی گئی کہ اسے اس قبیلے کے لوگ اپنے اوپر باقاعدہ حملہ سمجھیں گے۔ لڑائی ہوگی جس میں میلہ دیکھنے والے بے گناہ لوگ بھی مارے جائیں گے اور عورتوں اور بچوں کے مارے جانے کا خطرہ بھی ہے۔ یہ حل بھی پیش کیاگیا کہ اس سوڈانی حبشی کو ساتھ لے جانا پسند نہیں کیا، کیونکہ دھوکے کا خطرہ تھا۔اس وقت تک سلطان ایوبی کے حکم کے مطابق چھاپہ ماروں اور شب خون مارنے والوں جنگجوؤں کا ایک دستہ تیار کیاجاچکا تھا۔ اسے مسلسل جنگی مشقوں سے تجربہ کار بنا دیا گیا تھا کہ وہ جانبازوں کا دستہ تھا، جنہیں جذبے کے لحاظ سے اس قدر پختہ بنادیاگیا تھا کہ وہ اس پر فخر محسوس کرنے لگے کہ انہیں جس مہم پر بھیجا جائے گا، اس زندہ واپس نہیں آئیں گے۔
نائب سالار الناصر اور علی بن سفیان کے مشوروں سے یہ طے ہوا کہ صرف بارہ چھاپہ مار اس پہاڑی جگہ کے اندر جائیں گے ،جہاں پروہت رہتا ہے اور لڑکی قربان کی جاتی ہے ۔حبشی کی دی ہوئی معلومات کے مطابق اس رات میلے میں زیادہ رونق ہوتی ہے،کیونکہ وہ میلے کی آخری رات ہوتی ہے ۔قبیلے کے لوگوں کے سوا کسی اور کو معلوم نہیں ہوتاکہ لڑکی قربان کی جارہی ہے، جسے معلوم ہوتاہے وہ یہ نہیں جانتا کہ قربان گاہ کہاں ہے ۔ان معلومات کی روشنی میں یہ طے کیا گیا کہ پانچ سو سپاہی میلہ دیکھنے والوں کے بھیس میں تیغ و تلواروں سے مسلح ہوکر اس رات میلے میں موجود ہوں گے۔ ان میں سے دو سو کے پاس تیر کمان ہوں گے۔اُس زمانے میں ان ہتھیاروں پر پابندی نہیں تھی۔ چھاپہ ماروں کے ذہنوں میں واضح تصور کی صورت میں جگہ نقش کردی جائے گی۔ وہ براہِ راست حملہ نہیں کریں گے۔ چھاپہ ماروں کی طرح پہاڑی علاقے میں داخل ہوں گے ۔پہرہ داروں کو خاموشی سے ختم کریں گے اور اصل جگہ پہنچ کر اس وقت حملہ کریں گے جب لڑکی قربان گاہ میں لائی جائے گی۔ اس سے قبل حملے کا یہ نقصان ہوسکتا ہے کہ لڑکی کو تہہ خانے میں ہی غائب یا ختم کر دیا جائے گا۔
یہ معلوم ہوگیا تھا کہ قربانی آدھی رات کے وقت پورے چاند میں ہی دی جاتی ہے۔پانچ سو سپاہیوں کو اس وقت سے پہلے قربان گاہ والی پہاڑیوں کے اِرد گرد پہنچنا تھا۔
چھاپہ ماروں کے لیے گھیرے میں آجانے یا مہم ناکام ہونے کی صورت میں یہ ہدایت دی گئی کہ وہ فلیتے والا ایک آتشیں تیر اوپر کو چلائیں گے۔اس تیر کا شعلہ دیکھ کر یہ پانچ سو نفری حملہ کردے گی ۔
اسی وقت بارہ جانباز منتخب کر لیے گئے اور اس فوج میں سے جو دوسال پہلے نور الدین زنگی نے سلطان ایوبی کی مدد کے لیے بھیجی تھی،پانچ سو ذہین اور بے خوف سپاہی ،عہدے دار اور کمان دار منتخب کر لیے گئے ۔ یہ لوگ عرب سے آئے تھے ،مصر اور سوڈان کی سیاست بازیوں اور عقائد کا ان پر کچھ اثر نہ تھا۔ وہ صرف اسلام سے آگاہ تھے اور یہی ان کا عقیدہ تھا۔ وہ ہر اس عقیدے کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوتے تھے، جو ﷲ کی توحید اور رسول ﷲﷺ کی عظیم سنت کے خلاف سمجھتے تھے۔انہیں
بتایا گیا کہ وہ ایک باطل اور مشرکانہ عقیدے کے خلاف لڑنے جارے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ انہیں اپنے سے زیادہ نفری سے مقابلہ کرنا پڑے اور لڑائی خونریز ہو اور یہ بھی ہوسکتاہے کہ اُن کے سامنے کوئی ٹھہر ہی نہ سکے اور بغیر لڑائی کے مہم سر ہوجائے ۔انہیں جنگی حربے سمجھا دیے گئے اور ان کے ذہنوں میں پہاڑی علاقے کا اور ان پہاڑیوں کی بلندی، جو زیادہ نہیں تھی اور ان میں گھری ہوئی قربان گاہ کا تصور بٹھا دیا گیا۔
بارہ جنگجو جانبازوں کو بھی ان کے ہدف کا تصور دیا گیا۔
انہیں ٹریننگ بڑی سختی سے دی گئی تھی۔پہاڑیوں پر چڑھنا اور ریگستانوں میں دوڑنا، بھوک اور پیاس اونٹ کی طرح برداشت کرنا ،اُن کے لیے مشکل نہیں تھا۔
قربانی کی رات کو چھ روز باقی تھے ۔تین دن اور تین راتیں چھاپہ ماروں اور پانچ سوسپاہیوں کو مشق کرائی گئی۔ چوتھے روز چھاپہ ماروں کو اونٹوں پر روانہ کر دیا گیا۔اونٹوں کی میانہ چال سے ایک دن اور آدھی رات کا سفر تھا۔شتر بانوں کی حکم دیا گیا تھا کہ چھاپہ ماروں کو پہاڑی علاقے سے دُور جہاں وہ کہیں اُتار کر واپس آجائیں ۔پانچ سو کے دستے کو تماشائیوں کے بھیس میں دو دو چارچار ٹولیوں میں گھوڑوں اور اونٹوں پر روانہ کیا گیا۔ انہیں جانور اپنے ساتھ رکھنے تھے۔ ان کے ساتھ ان کے کمان دار بھی اسی بھیس میں چلے گئے
میلے کی آخری راتھی۔
پورا چاند اُبھرتا آرہا تھا ۔صحرا کی فضا شیشے کی طرح شفاف تھی ۔
میلے میں انسانوں کے ہجوم کا کوئی شمار نہ تھا۔ کہیں نیم برہنہ لڑکیاں رقص کررہی تھیں اور کہیں گانے والیوں نے مجمع لگارکھا تھا۔سب سے زیادہ بھیڑ اس چبوترے کے اِردگرد تھی ،جہاں لڑکیاں نیلام ہورہی تھیں ۔ایک لڑکی کو چبوترے پر لایا جاتا ۔گاہک اسے ہر طرف سے دیکھتے ۔اس کا منہ کھول کر دانت دیکھتے ،بالوں کو اُلٹا پلٹا کر دیکھتے ،جسم کی سختی اور نرمی محسوس کرتے اور بولی شروع ہوجاتی ۔وہاں جواء بھی تھا، شراب بھی تھی ،اگر وہاں نہیں تھا تو قانون نہیں تھا۔پوری آزادی تھی ۔
دُور دُور سے آئے ہوئے لوگوں کے خیمے میلے کے اِرد گرد نصب تھے ۔تماشائی مذہب اور اخلاق کی پابندیوں سے آزاد تھے ۔انہیں معلوم نہیں تھا کہ ان سے تھوڑی ہی دُور جو پہاڑیاں ہیں ، ان میں ایک خوب صورت لڑکی کو ذبح کرنے کے لیے تیار کیا جارہا ہے اور وہاں ایک انسان دیوتا بنا ہوا ہے۔ وہ اتنا ہی جانتے تھے کہ ان پہاڑیوں میں گھرا ہوا علاقہ دیوتائوں کا پایۂ تخت ہے، جہاں جن اور بھوت پہرہ دیتے ہیں اور کوئی انسان وہاں جانے کی سوچ بھی نہیں سکتا۔
انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ ان کے درمیان اللہ کے پانچ سو مجاہدین گھوم پھر رہے ہیں اور بارہ انسان دیوتائوں کے پایۂ تخت کی حدود میں داخل ہوچکے ہیں ……
صلاح الدین ایوبی کے بارہ چھاپہ ماروں کو بتایا گیا تھا کہ پہاڑیوں کے اندرونی علاقے میں داخل ہونے کا راستہ کہاں ہے ،لیکن وہاں سے وہ داخل نہیں ہوسکتے تھے ،کیونکہ وہاں پہرے کا خطرہ تھا۔انہیں بہت دشوار راستے سے اندر جاناتھا۔ انہیں بتایا گیا تھا کہ پہاڑوں کے اِرد گرد کوئی انسان نہیں ہوگا، مگر وہاں انسان موجود تھے ،جس کا مطلب یہ تھا کہ اس حبشی نے علی بن سفیان کو غلط بتایا تھا کہ اس علاقے کے گرد کوئی پہرہ نہیں ہوتا۔ پہاڑیوں کا خطہ ایک میل بھی لمبا نہیں تھا اور اسی قدر چوڑا تھا۔وہ چونکہ تربیت یافتہ چھاپہ مارتھے ۔ اس لیے وہ بکھر کر اور احتیاط سے آگے گئے تھے ۔ایک چھاپہ مار کو اتفاق سے ایک درخت کے قریب ایک متحرک سایہ نظر آیا۔چھاپہ مار چھپتا اور رینگتا اس کے عقب میں چلاگیا۔ قریب جاکر اس پر جھپٹ پڑا۔ اس کی گردن بازو کے شکنجے میں لے کر خنجر کی نوک اس کے دِل پر رکھ دی ۔ گردن ڈھیلی چھوڑ کر اس سے پوچھا کہ تم یہاں کیا کررہے ہو اور یہاں کس قسم کا پہرہ ہے؟
وہ حبشی تھا۔ چھاپہ مار عربی بول رہاتھا جو حبشی سمجھ نہیں سکتا تھا۔اتنے میں ایک اور چھاپہ مار آگیا۔اس نے بھی خنجر حبشی کے سینے پر رکھ دیا،انہوں نے اشاروں سے پوچھا تو حبشی نے اشاروں میں جواب دیا، جس سے شک ہوتا تھا کہ یہاں پہرہ موجود ہے ۔اس حبشی کی شہ رگ کاٹ دی گئی اور چھاپہ مار اور زیادہ محتاط ہوکر آگے بڑھے ۔یکلخت جنگل آگیا۔ آگے پہاڑی تھی۔چاند اوپر اُٹھتا آرہاتھا ،لیکن درختوں اور پہاڑیوں نے اندھیرا کر رکھا تھا۔وہ پہاڑی پر ایک دوسرے سے ذرا دُور اوپر چڑھتے گئے ۔
اندر کے علاقے میں جہاں لڑکی کو پروہت کے حوالے کیا گیا تھا وہاں کچھ اور ہی سرگرمیاں تھیں ۔
پتھر کے چہرے کے سامنے چبوترے پر ایک قالین بچھا ہوا تھا۔ اس پر چوڑے پھل والی تلوار رکھی تھی ۔ اس کے قریب ایک چوڑا برتن رکھا تھا اور قالین پر پھول بکھرے ہوئے تھے ۔اس کے قریب آگ جل رہی تھی ۔ چبوترے کے چاروں کناروں پر دئیے جلا کر چراغاں کیا گیا تھا۔وہاں چار لڑکیاں گھوم پھر رہی تھیں ۔چار حبشی بھی تھے ، جنہوں نے کندھوں سے ٹخنوں تک سفید چادریں لپیٹ رکھی تھی۔ اُمِّ عرارہ تہہ خانے میں پروہت کے ساتھ تھی ۔پروہت اس کے بالوں سے کھیل رہا تھا اور وہ مخمور آواز میں کہہ رہی تھی ……''میں انگوک کی ماں ہو، تم انگوک کے باپ ہو، میرے بیٹے مصر اور سوڈان کے بادشاہ بنیں گے۔ میرا خون انہیں پلادو۔ میرے لمبے لمبے سنہری بال ان کے گھروں میں رکھ دو ۔تم مجھ سے دور کیوں ہٹ گئے ہو،
میرے قریب آئو''……پروہت اس کے جسم پر تیل کی طرح کوئی چیز مَلنے لگا ۔
انگوک غالباً اس قبیلے کانام تھا۔ ایک عربی لڑکی کو نشے کے خمار نے اس قبیلے کی ماں اور پروہت کی بیوی بنا دیا تھا۔ وہ قربان ہونے کے لیے تیار ہوگئی تھی ۔ پروہت آخری رسوم پوری کررہا تھا۔
بارہ چھاپہ مار رات کے کیڑوں کی طرح رینگتے ہوئے پہاڑیوں پر چڑھتے ،اُترتے اور ٹھوکریں کھاتے آرہے تھے ۔بہت ہی دشوار گزار علاقہ تھا۔ بیشتر جھاڑیاں خاردار تھیں ۔چاند سر پر آگیا تھا۔انہیں درختوں میں سے روشنی کی کرنیں دکھائی دینے لگیں ۔ان کرنوں میں انہیں ایک حبشی کھڑا نظر آیا ، جس کے ایک ہاتھ میں برچھی اور دوسرے میں لمبوتری ڈھال تھی ۔وہ بھی دیوتائوں کے پایۂ تخت کا پہرہ دار تھا۔اسے خاموشی سے مارنا ضروری تھا ۔وہ ایسی جگہ کھڑا تھا،جہاں اس پر عقب سے حملہ نہیں کیا جاسکتا تھا۔ آمنے سامنے کا مقابلہ موزوں نہیں تھا۔ ایک چھاپہ مار جھاڑیوں میں چھپ کر بیٹھ گیا ۔ دوسرے نے اس کے سامنے ایک پتھر پھینکا ، جس نے گر کر اور لڑھک کر آواز پیدا کی ۔حبشی بدکا اور اس طرف آیا۔وہ جوں ہی جھاڑی میں چھپے ہوئے چھاپہ مار کے سامنے آیا، اُس کی گردن ایک بازو کے شکنجے میں آگئی اور ایک خنجر اس کے دِل میں اُترگیا۔ چھاپہ مار کچھ دیر وہاں رُکے اور احتیاط سے آگے چل پڑے ۔
اُمِّ عرارہ قربانی کے لیے تیار ہوچکی تھی۔پروہت نے آخری بار اسے اپنے سینے سے لگایا اور اس کا ہاتھ تھام کر سیڑھیوں کی طرف چل پڑا ۔باہر کے چار حبشی مردوں اور لڑکیوں کو پتھر کے سر اور چہرے کے منہ میں سے روشنی نظر آئی تو وہ منہ کے سامنے سجدے میں گرگئے ۔پروہت نے اپنی زبان میں ایک اعلان کیا اور پتھر کے منہ سے اُتر آیا ۔اُمِّ عرارہ اس کے ساتھ تھی۔ اسے وہ قالین پر لے گیا۔ مرد اور لڑکیاں اس کے اِرد گرد کھڑی ہوگئیں ۔
اُمِّ عرارہ نے عربی زبان میں کہا……
''میں انگوک کے بیٹوں اور بیٹیوں کے لیے اپنی گردن کٹوارہی ہوں ۔ میں ان کے گناہوں کا کفارہ ادا کررہی ہوں ۔میری گردن کاٹ دو۔ میرا سر انگوک کے دیوتا کے قدموں میں رکھ دو۔ دیوتا اس سر پر مصر اور سوڈان کا تاج رکھیں گے''……چاروں آدمی اور لڑکیاں ایک بار پھر سجدے میں گر گئیں ۔پروہت نے اُمِّ عرارہ کو قالین پر دوزانو بٹھا کر اس کا سر آگے جُھکا دیا اور
وہ تلوار اُٹھالی ،جس کا پھل پورے ہاتھ جتنا چوڑا تھا۔
ایک چھاپہ مار جو سب سے آگے تھا ، رُک گیا۔اس نے سر گوشی کرکے پیچھے آنے والے کو روک لیا۔پہاڑی کی بلندی سے انہیں چبوترہ اور پتھر کا سر نظر آیا……چبوترے پر ایک لڑکی دو زانو بیٹھی تھی ۔جس کا سر جھکا ہوا تھا۔ شفاف چاندنی ، چراغاں اور بڑی مشعلوں نے سورج کی روشنی کا سماں بنارکھا تھا۔ لڑکی کے پاس کھڑے آدمی کے ہاتھ میں تلوار تھی۔ دوزانو بیٹھی ہوئی لڑکی برہنہ تھی۔اس کے جسم کا رنگ بتارہا تھا کہ حبشی قبیلے کی لڑکی نہیں ۔چھاپہ ماردُور تھے اور بلندی پر بھی تھے، وہاں سے تیر خطا جانے کا خطرہ تھا، مگر وہ جس پہاڑی پر تھے ۔اس کے آگے ڈھلان نہیں تھی ، بلکہ سیدھی دیوار تھی ، جس سے
اُترنا ناممکن تھا۔وہ جان گئے کہ لڑکی قربان کی جارہی ہے اور اسے بچانے کے لیے وقت اتنا تھوڑا ہے کہ وہ اُڑ کر نہ پہنچے تو اسے بچانہیں سکیں گے ۔ انہوں نے چوٹی سے نیچے دیکھا۔چاندنی میں انہیں ایک جھیل نظر آئی ۔انہیں بتایا گیا تھا کہ وہاں ایک جھیل ہے جس میں مگر مچھ رہتے ہیں ۔
دائیں طرف ڈھلان تھی ،لیکن وہ بھی تقریباً دیوار کی طرح تھی ۔وہاں جھاڑیاں اور درخت تھے ۔ انہیں پکڑ پکڑ کر اور ایک دوسرے کے ہاتھ تھام کر دوہ ڈھلان اُترنے لگے ۔ان میں سے آخری جانباز نے اتفاق سے سامنے دیکھا۔چاندنی میں سامنے کی چوٹی پر اسے ایک حبشی کھڑا نظر آیا۔اس کے ایک ہاتھ میں ڈھال تھی اور دوسرے ہاتھ میں برچھی ، جو اس نے تیر کی طرح پھینکنے کے لیے تان رکھی تھی۔چھاپہ ماروں پر چاندنی نہیں پڑرہی تھی ۔حبشی ابھی شک میں تھا۔آخری چھاپہ مارنے کمان میں تیر ڈالا ۔رات کی خاموشی میں کمان کی آواز سنائی دی ۔تیر حبشی کی شہ رگ میں لگا اور وہ لڑھکتا ہوا،نیچے آرہا۔ چھاپہ مار ڈھلان اُترتے گئے ۔گرنے کاخطرہ ہر قدم پر تھا۔
پروہت نے تلوار کی دھار اُمِّ عرارہ کی گردن پر رکھی اور اوپر اُٹھائی۔لڑکیوں اور مردوں نے سجدے سے اُٹھ کردو زانوں بیٹھتے ہوئے پُر سوز اور دھیمی آواز میں کوئی گانا شروع کردیا۔ یہ ایک گونج تھی جو اس دُنیا کی نہیں لگتی تھی ۔ پہاڑیوں میں گھری ہوئی اس تنگ سی وادی میں
ایسا طلسم طاری ہوا جارہا تھا جو باہر کے کسی بھی انسان کو یقین دِلا سکتا تھا کہ
یہ انسانوں کی نہیں ، دیوتائوں کی سرزمین ہے ……
پروہت تلوار کو اوپر لے گیا۔ اب تو ایک دوسانسوں کی دیر تھی ۔
سلسلہ جاری ہے........
*▭▬▭▬▭▬▭▬▭▬▭▬▭▬▭*
*https://chat.whatsapp.com/CKAiMLH2THv43mjZbBfFda*
*▭▬▭▬▭▬▭▬▭▬▭▬▭▬▭*
[ *یہ تحریر شئیر ضرور کریں*]
*Important*👇
*انباکس میں بلا ضرورت میسج کرنے والوں کو بغیر وارننگ دیے گروپ سے ریمو کردیا جائے گا*
Group Admin
👉 𝐒𝐲𝐞𝐝 𝐈𝐛𝐫𝐚𝐡𝐢𝐦 𝐒𝐡𝐚𝐡👈
❤️
👍
😮
✨
🎉
👑
💖
🙏
35