
سـبـق آمـوز واقـعـات 📚
8.0K subscribers
About سـبـق آمـوز واقـعـات 📚
*اس گروپ میں انشاء اللّٰہ روزانہ 4 سـبـق آموز کہانیاں تحریر اور واقعات بھیجے جائیں گے* *نیز اسلامی ناول بھی قسط وار بھیجے جائیں گے اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ ہمارے ساتھ جڑے رہیں اور اپنے دوستوں کو بھی جوڑے* *برائی مہربانی پوسٹ کرنے کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے اس لیے صبر سے کام لیں روزانہ کسی وقت بھی پوسٹ کی جاسکتی ہیں*✌️ *Syed Ibrahim Shah*
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

https://whatsapp.com/channel/0029Vb6jjpEKWEKsONzcb02o/100 *جو بھائی سلسلہ سلطان صلاح الدین ایوبی شروع سے پڑھنا چاہتا ہے یا کوئی قسط شارٹ ہے تو اس واٹس ایپ چینل پر آپ تمام اقساط حاصل کرسکتے ہیں* *تمام حضرات سے گزارش ہے کہ انباکس میں میسج کرنے سے گریز کریں اور اپنی مطلوبہ قسط یہاں پڑھ لیں 👆🏻*

*فاتح بیت المقدس* 🕌 *سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ* 🔥 *قسط نمبر* *24* ''تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر تین سال بعد تمہارا قبیلہ باہر سے ایک خوب صورت لڑکی اغوا کرکے لاتا ہے''۔ علی بن سفیان نے پوچھا۔ ''نہیں ۔یہ غلط ہے''۔ سوڈانی حبشی نے جواب دیا…… ''تین سال بعد صرف میلہ لگتا ہے ۔لڑکی کی قربانی پانچ میلوں کے بعد یعنی ہر پندرہ سال بعد دی جاتی ہے۔ مشہور یہی ہے کہ ہر تین سال بعد لڑکی قربان کی جاتی ہے''۔ اس نے اپنے باپ کے حوالے سے وہ جگہ بتائی جہاں قربانی دی جاتی تھی۔ پروہت کو وہ دیوتا کا بیٹا کہتا تھا،جہاں میلہ لگتا تھا ، اس سے ڈیڑھ ایک میل جتنی دُور ایک پہاڑی علاقہ تھا ،جہاں جنگل بھی تھا۔یہ علاقہ زیادہ وسیع اور عریض نہیں تھا۔ اس کے متعلق مشہور تھا کہ وہاں دیوتا رہتے ہیں اور ان کی خدمت کے لیے جن اور پریاں بھی رہتی ہیں۔لوگ اس لیے یہ باتیں مانتے تھے کہ ہر طرف صحرا اور اس میں جزیرے کی طرح کچھ علاقہ پہاڑی اور سر سبز تھا جو قدرت کا ایک عجوبہ تھا۔ یہ دیوتائوں کا مسکن ہی ہوسکتا تھا۔ اس علاقے میں فرعونوں کے وقتوں کے کھنڈر تھے، وہاں ایک جھیل بھی تھی جس میں چھوٹے مگر مچھ رہتے تھے۔ قبیلے کا کوئی آدمی سنگین جرم کرے تو اسے پروہت کے حوالے کردیا جاتا تھا۔ پروہت اسے زندہ جھیل میں پھینک دیتا ،جہاں مگر مچھ اسے کھا جاتے تھے۔پروہت انہی کھنڈروں میں رہتا تھا۔وہاں ایک بہت بڑا پتھر کا سر اور منہ تھا جس میں دیوتا رہتا تھا۔ ہر پندرھویں سال کے آخری دنوں میں باہر سے ایک لڑکی اغوا کرکے لائی جاتی جو پروہت کے حوالے کردی جاتی تھی پروہت لڑکی کو ایک پھول سونگھاتا تھا جس کی خوشبو سے لڑکی کے ذہن سے نکل جاتا تھا کہ وہ کیا تھی،کہاں سے آئی تھی اور اسے کون لایا تھا۔اس پھول میں کوئی نشہ آور بو ڈالی جاتی تھی ،جس کے اثر سے وہ پروہت کو دیوتا اور اپنا خاوند سمجھ لیتی تھی۔اسے وہاں کی گندی چیزیں بھی خوب صورت دکھائی دیتی تھیں۔ https://chat.whatsapp.com/CKAiMLH2THv43mjZbBfFda لڑکی کی قربانی انہی کھنڈرات میں دی جاتی تھی۔لڑکی کو پروہت تہہ کانے میں اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ اس جگہ چار مرد اور چار خوب صورت لڑکیاں رہتی تھیں۔ ان کے سوا اور کسی کو پہاڑوں کے اندر جانے کی اجازت نہیں تھی۔لڑکی کو جب قربان گاہ پر لے جایا جاتا تو اسے احساس ہی نہیں ہوتا تھا کہ اس کی گردن کاٹ دی جائے گی۔وہ فخر اور خوشی سے مرتی تھی۔ اس کا دھڑ مگر مچھوں کی جھیل میں پھینک دیاجاتا اور بال کاٹ کر قبیلے کے ہر گھر میں تقسیم کر دئیے جاتے تھے۔ ان بالوں کو مقدس سمجھا جاتا تھا۔لڑکی کا سر خشک ہونے کے لیے رکھ دیاجاتا تھا، جب گوشت ختم ہوکر صرف کھوپڑی رہ جاتی تو اُسے ایک غار میں رکھ دیاجاتاتھا۔ لڑکی کسی کو دکھائی نہیں جاتی تھی۔ ''پندرہ سال پورے ہورہے ہیں ۔اب کے لڑکی کی قربانی دی جائے گی''……اس حبشی نے کہا…… ''ہم نو آدمی مصر کی فوج میں بھرتی ہوئے تھے۔ ہمیں چونکہ نڈر اور وحشی سمجھا جاتا ہے۔اس لیے ہمیں خلیفہ کے محافظ دستے کے لیے منتخب کر لیا گیا۔دو مہینے گزرے ہم نے اس لڑکی کو دیکھا۔ایسی خوب صورت لڑکی ہم نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ہم سب نے فیصلہ کر لیا کہ اس لڑکی کو اُٹھالے جائیں گے اور قربانی کے لیے پیش کریں گے۔ہمارے ایک ساتھی نے جو کل ماراگیا ہے۔اپنے گائوں جاکر قبیلے کے بزرگ کو بتا دیا تھاکہ اس بار قربانی کے لیے ہم لڑکی لائیں گے۔ ہم نے لڑکی کو اغوا کر لیا ہے''۔ یہ قصہ صلاح الدین ایوبی کو سنایا گیا تو وہ گہری سوچ میں کھو گیا۔علی بن سفیان اس کے حکم کا منتظر تھا۔سلطان ایوبی نے نقشہ دیکھا اور کہا…… ''اگر جگہ یہ ہے تو یہ ہماری عمل داری سے باہر ہے۔ تم نے شہر کے پرانے لوگوں سے جو معلومات حاصل کی ہیں ،ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ فرعون تو صدیاں گزریں مرگئے ہیں ، لیکن فرعونیت ابھی باقی ہے۔ بحیثیت مسلمان ہم پر فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم اگر دُور نہ پہنچ سکیں تو قریبی پڑوس سے تو کفر اور شرک کا خاتمہ کریں۔ آج تک معلوم نہیں کتنے والدین کی معصوم بیٹیاں قربان کی جاچکی ہیں اور اس میلے میں کتنی بیٹیاں اغوا ہوکر فروخت ہوجاتی ہیں۔ہمیں دیوتائوں کا تصور ختم کرنا ہے ۔لوگوں کو دیوتائوں کا تصور دے کر نام نہاد مذہبی پیشوا لڑکیاں اغوا کروا کے بدکاری اور عیاشی کرتے ہیں''۔ ''میرے مخبروں کی اطلاعوں نے یہ بےہودہ انکشاف کیا ہے کہ ہماری فوج کے کئی کمان دار اور مصر کے پیسے والے لوگ اس میلے میں جاتے اور لڑکیاں خریدتے یا چند دنوں کے لیے کرائے پر لاتے ہیں''…… علی بن سفیان نے کہا……''کردار کی تباہی کے علاوہ یہ خطرہ بھی ہے کہ سوڈانیوں کی برطرف فوج کے عسکری اس میلے میں زیادہ تعداد میں جاتے ہیں۔ہماری فوج اور ہمارے دوسرے لوگوں کا سوڈانی سابقہ فوجیوں کے ساتھ ملنا جلنا اور جشن منانا ٹھیک نہیں۔یہ مشترکہ تفریح ملک کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے''…… علی بن سفیان نے ذراجھجک کر کہا……''اور لڑکی کو قربان ہونے سے پہلے بچانا اور خلیفہ کے حوالے کرنا، اس لیے بھی ضروری ہے کہ اسے معلوم ہوجائے کہ اس نے آپ پر اغوا کا جو الزام عائد کیاہے، وہ کتنا بے بےبنیاد اور لغو ہے''۔ https://chat.whatsapp.com/CKAiMLH2THv43mjZbBfFda ''مجھے اس کی کوئی پروا نہیں علی!''……سلطان ایوبی نے کہا……''میری توجہ اپنی ذات پر نہیں ۔مجھے کوئی کتنا ہی حقیر کہے، میں اسلام کی عظمت کے فروغ اور تحفظ کو نہیں بھول سکتا ۔میری ذات کچھ بھی نہیں اور تم بھی یاد رکھو علی!اپنی ذات سے توجہ ہٹا کر سلطنت کے استحکام اور فلاح و بہبود پر مرکوز کردو۔ اسلام کی عظمت کا امین خلیفہ، اپنی ذات میں گم ہوتے گئے اور اپنے نفس کا شکار ہوگئے ۔اب ہماری خلافت اسلام کی بہت بڑی کمزوری بن گئی ہے۔صلیبی ہماری اس کمزوری کو استعمال کر رہے ہیں ۔اگر تم کامیابی سے اپنے فرائض نبھانا چاہتے ہوتو اپنی ذات اور اپنے نفس سے دست بردار ہوجائو…… خلیفہ نے مجھ پر جو الزام عائد کیا ہے ،اسے میں نے بڑی مشکل سے برداشت کیا ہے ۔میں اوچھے وار کا جواب دے سکتا تھا، مگر میرا وار بھی اوچھا ہوتا۔پھر میں ذاتی سیاست بازی میں اُلجھ جاتا ۔مجھے خطرہ یہی نظر آرہا تھا کہ ملتِ اسلامیہ کسی دور میں جاکر اپنے ہی حکمرانوں کی ذاتی سیاست بازیوں، خود پسندی ، نفس پرستی اور اقتدار کی ہوس کی نذر ہوجائے گی''۔ ''گستاخی کی معافی چاہتا ہوں محترم امیر!''…… علی بن سفیان نے کہا…… ''اگر آپ اس لڑکی کو قربان ہونے سے بچانا چاہتے ہیں تو حکم صادر فر مائیے۔ وقت بہت تھوڑا ہے ۔ پرسوں سے میلہ شروع ہورہاہے ''۔ ''فوج میں یہ حکم فوراً پہنچا دو کہ اس میلے میں کسی فوجی کو شریک ہونے کی اجازت نہیں ''…… سلطان ایوبی نے نائب سالار کو بلا کر کہا…… ''خلاف ورزی کرنے والے کو اس کے عہدے اور رتبے سے قطع نظر پچاس کوڑے سر عام لگائے جائیں گے''۔ اس حکم کے بعد سکیم بننے لگی۔ متعلقہ حکام کو سلطان ایوبی نے بلایا تھا۔ اس نے سب سے کہا تھا کہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ اس طلسم کو توڑنا ہے ۔ یہ جگہ فرعونیت کی آخری نشانی معلوم ہوتی ہے……پہلے فوج کشی زیرِ بحث آئی جو اس وجہ سے خارج از بحث کردی گئی کہ اسے اس قبیلے کے لوگ اپنے اوپر باقاعدہ حملہ سمجھیں گے۔ لڑائی ہوگی جس میں میلہ دیکھنے والے بے گناہ لوگ بھی مارے جائیں گے اور عورتوں اور بچوں کے مارے جانے کا خطرہ بھی ہے۔ یہ حل بھی پیش کیاگیا کہ اس سوڈانی حبشی کو ساتھ لے جانا پسند نہیں کیا، کیونکہ دھوکے کا خطرہ تھا۔اس وقت تک سلطان ایوبی کے حکم کے مطابق چھاپہ ماروں اور شب خون مارنے والوں جنگجوؤں کا ایک دستہ تیار کیاجاچکا تھا۔ اسے مسلسل جنگی مشقوں سے تجربہ کار بنا دیا گیا تھا کہ وہ جانبازوں کا دستہ تھا، جنہیں جذبے کے لحاظ سے اس قدر پختہ بنادیاگیا تھا کہ وہ اس پر فخر محسوس کرنے لگے کہ انہیں جس مہم پر بھیجا جائے گا، اس زندہ واپس نہیں آئیں گے۔ نائب سالار الناصر اور علی بن سفیان کے مشوروں سے یہ طے ہوا کہ صرف بارہ چھاپہ مار اس پہاڑی جگہ کے اندر جائیں گے ،جہاں پروہت رہتا ہے اور لڑکی قربان کی جاتی ہے ۔حبشی کی دی ہوئی معلومات کے مطابق اس رات میلے میں زیادہ رونق ہوتی ہے،کیونکہ وہ میلے کی آخری رات ہوتی ہے ۔قبیلے کے لوگوں کے سوا کسی اور کو معلوم نہیں ہوتاکہ لڑکی قربان کی جارہی ہے، جسے معلوم ہوتاہے وہ یہ نہیں جانتا کہ قربان گاہ کہاں ہے ۔ان معلومات کی روشنی میں یہ طے کیا گیا کہ پانچ سو سپاہی میلہ دیکھنے والوں کے بھیس میں تیغ و تلواروں سے مسلح ہوکر اس رات میلے میں موجود ہوں گے۔ ان میں سے دو سو کے پاس تیر کمان ہوں گے۔اُس زمانے میں ان ہتھیاروں پر پابندی نہیں تھی۔ چھاپہ ماروں کے ذہنوں میں واضح تصور کی صورت میں جگہ نقش کردی جائے گی۔ وہ براہِ راست حملہ نہیں کریں گے۔ چھاپہ ماروں کی طرح پہاڑی علاقے میں داخل ہوں گے ۔پہرہ داروں کو خاموشی سے ختم کریں گے اور اصل جگہ پہنچ کر اس وقت حملہ کریں گے جب لڑکی قربان گاہ میں لائی جائے گی۔ اس سے قبل حملے کا یہ نقصان ہوسکتا ہے کہ لڑکی کو تہہ خانے میں ہی غائب یا ختم کر دیا جائے گا۔ یہ معلوم ہوگیا تھا کہ قربانی آدھی رات کے وقت پورے چاند میں ہی دی جاتی ہے۔پانچ سو سپاہیوں کو اس وقت سے پہلے قربان گاہ والی پہاڑیوں کے اِرد گرد پہنچنا تھا۔ چھاپہ ماروں کے لیے گھیرے میں آجانے یا مہم ناکام ہونے کی صورت میں یہ ہدایت دی گئی کہ وہ فلیتے والا ایک آتشیں تیر اوپر کو چلائیں گے۔اس تیر کا شعلہ دیکھ کر یہ پانچ سو نفری حملہ کردے گی ۔ اسی وقت بارہ جانباز منتخب کر لیے گئے اور اس فوج میں سے جو دوسال پہلے نور الدین زنگی نے سلطان ایوبی کی مدد کے لیے بھیجی تھی،پانچ سو ذہین اور بے خوف سپاہی ،عہدے دار اور کمان دار منتخب کر لیے گئے ۔ یہ لوگ عرب سے آئے تھے ،مصر اور سوڈان کی سیاست بازیوں اور عقائد کا ان پر کچھ اثر نہ تھا۔ وہ صرف اسلام سے آگاہ تھے اور یہی ان کا عقیدہ تھا۔ وہ ہر اس عقیدے کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوتے تھے، جو ﷲ کی توحید اور رسول ﷲﷺ کی عظیم سنت کے خلاف سمجھتے تھے۔انہیں بتایا گیا کہ وہ ایک باطل اور مشرکانہ عقیدے کے خلاف لڑنے جارے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ انہیں اپنے سے زیادہ نفری سے مقابلہ کرنا پڑے اور لڑائی خونریز ہو اور یہ بھی ہوسکتاہے کہ اُن کے سامنے کوئی ٹھہر ہی نہ سکے اور بغیر لڑائی کے مہم سر ہوجائے ۔انہیں جنگی حربے سمجھا دیے گئے اور ان کے ذہنوں میں پہاڑی علاقے کا اور ان پہاڑیوں کی بلندی، جو زیادہ نہیں تھی اور ان میں گھری ہوئی قربان گاہ کا تصور بٹھا دیا گیا۔ بارہ جنگجو جانبازوں کو بھی ان کے ہدف کا تصور دیا گیا۔ انہیں ٹریننگ بڑی سختی سے دی گئی تھی۔پہاڑیوں پر چڑھنا اور ریگستانوں میں دوڑنا، بھوک اور پیاس اونٹ کی طرح برداشت کرنا ،اُن کے لیے مشکل نہیں تھا۔ قربانی کی رات کو چھ روز باقی تھے ۔تین دن اور تین راتیں چھاپہ ماروں اور پانچ سوسپاہیوں کو مشق کرائی گئی۔ چوتھے روز چھاپہ ماروں کو اونٹوں پر روانہ کر دیا گیا۔اونٹوں کی میانہ چال سے ایک دن اور آدھی رات کا سفر تھا۔شتر بانوں کی حکم دیا گیا تھا کہ چھاپہ ماروں کو پہاڑی علاقے سے دُور جہاں وہ کہیں اُتار کر واپس آجائیں ۔پانچ سو کے دستے کو تماشائیوں کے بھیس میں دو دو چارچار ٹولیوں میں گھوڑوں اور اونٹوں پر روانہ کیا گیا۔ انہیں جانور اپنے ساتھ رکھنے تھے۔ ان کے ساتھ ان کے کمان دار بھی اسی بھیس میں چلے گئے میلے کی آخری راتھی۔ پورا چاند اُبھرتا آرہا تھا ۔صحرا کی فضا شیشے کی طرح شفاف تھی ۔ میلے میں انسانوں کے ہجوم کا کوئی شمار نہ تھا۔ کہیں نیم برہنہ لڑکیاں رقص کررہی تھیں اور کہیں گانے والیوں نے مجمع لگارکھا تھا۔سب سے زیادہ بھیڑ اس چبوترے کے اِردگرد تھی ،جہاں لڑکیاں نیلام ہورہی تھیں ۔ایک لڑکی کو چبوترے پر لایا جاتا ۔گاہک اسے ہر طرف سے دیکھتے ۔اس کا منہ کھول کر دانت دیکھتے ،بالوں کو اُلٹا پلٹا کر دیکھتے ،جسم کی سختی اور نرمی محسوس کرتے اور بولی شروع ہوجاتی ۔وہاں جواء بھی تھا، شراب بھی تھی ،اگر وہاں نہیں تھا تو قانون نہیں تھا۔پوری آزادی تھی ۔ دُور دُور سے آئے ہوئے لوگوں کے خیمے میلے کے اِرد گرد نصب تھے ۔تماشائی مذہب اور اخلاق کی پابندیوں سے آزاد تھے ۔انہیں معلوم نہیں تھا کہ ان سے تھوڑی ہی دُور جو پہاڑیاں ہیں ، ان میں ایک خوب صورت لڑکی کو ذبح کرنے کے لیے تیار کیا جارہا ہے اور وہاں ایک انسان دیوتا بنا ہوا ہے۔ وہ اتنا ہی جانتے تھے کہ ان پہاڑیوں میں گھرا ہوا علاقہ دیوتائوں کا پایۂ تخت ہے، جہاں جن اور بھوت پہرہ دیتے ہیں اور کوئی انسان وہاں جانے کی سوچ بھی نہیں سکتا۔ انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ ان کے درمیان اللہ کے پانچ سو مجاہدین گھوم پھر رہے ہیں اور بارہ انسان دیوتائوں کے پایۂ تخت کی حدود میں داخل ہوچکے ہیں …… صلاح الدین ایوبی کے بارہ چھاپہ ماروں کو بتایا گیا تھا کہ پہاڑیوں کے اندرونی علاقے میں داخل ہونے کا راستہ کہاں ہے ،لیکن وہاں سے وہ داخل نہیں ہوسکتے تھے ،کیونکہ وہاں پہرے کا خطرہ تھا۔انہیں بہت دشوار راستے سے اندر جاناتھا۔ انہیں بتایا گیا تھا کہ پہاڑوں کے اِرد گرد کوئی انسان نہیں ہوگا، مگر وہاں انسان موجود تھے ،جس کا مطلب یہ تھا کہ اس حبشی نے علی بن سفیان کو غلط بتایا تھا کہ اس علاقے کے گرد کوئی پہرہ نہیں ہوتا۔ پہاڑیوں کا خطہ ایک میل بھی لمبا نہیں تھا اور اسی قدر چوڑا تھا۔وہ چونکہ تربیت یافتہ چھاپہ مارتھے ۔ اس لیے وہ بکھر کر اور احتیاط سے آگے گئے تھے ۔ایک چھاپہ مار کو اتفاق سے ایک درخت کے قریب ایک متحرک سایہ نظر آیا۔چھاپہ مار چھپتا اور رینگتا اس کے عقب میں چلاگیا۔ قریب جاکر اس پر جھپٹ پڑا۔ اس کی گردن بازو کے شکنجے میں لے کر خنجر کی نوک اس کے دِل پر رکھ دی ۔ گردن ڈھیلی چھوڑ کر اس سے پوچھا کہ تم یہاں کیا کررہے ہو اور یہاں کس قسم کا پہرہ ہے؟ وہ حبشی تھا۔ چھاپہ مار عربی بول رہاتھا جو حبشی سمجھ نہیں سکتا تھا۔اتنے میں ایک اور چھاپہ مار آگیا۔اس نے بھی خنجر حبشی کے سینے پر رکھ دیا،انہوں نے اشاروں سے پوچھا تو حبشی نے اشاروں میں جواب دیا، جس سے شک ہوتا تھا کہ یہاں پہرہ موجود ہے ۔اس حبشی کی شہ رگ کاٹ دی گئی اور چھاپہ مار اور زیادہ محتاط ہوکر آگے بڑھے ۔یکلخت جنگل آگیا۔ آگے پہاڑی تھی۔چاند اوپر اُٹھتا آرہاتھا ،لیکن درختوں اور پہاڑیوں نے اندھیرا کر رکھا تھا۔وہ پہاڑی پر ایک دوسرے سے ذرا دُور اوپر چڑھتے گئے ۔ اندر کے علاقے میں جہاں لڑکی کو پروہت کے حوالے کیا گیا تھا وہاں کچھ اور ہی سرگرمیاں تھیں ۔ پتھر کے چہرے کے سامنے چبوترے پر ایک قالین بچھا ہوا تھا۔ اس پر چوڑے پھل والی تلوار رکھی تھی ۔ اس کے قریب ایک چوڑا برتن رکھا تھا اور قالین پر پھول بکھرے ہوئے تھے ۔اس کے قریب آگ جل رہی تھی ۔ چبوترے کے چاروں کناروں پر دئیے جلا کر چراغاں کیا گیا تھا۔وہاں چار لڑکیاں گھوم پھر رہی تھیں ۔چار حبشی بھی تھے ، جنہوں نے کندھوں سے ٹخنوں تک سفید چادریں لپیٹ رکھی تھی۔ اُمِّ عرارہ تہہ خانے میں پروہت کے ساتھ تھی ۔پروہت اس کے بالوں سے کھیل رہا تھا اور وہ مخمور آواز میں کہہ رہی تھی ……''میں انگوک کی ماں ہو، تم انگوک کے باپ ہو، میرے بیٹے مصر اور سوڈان کے بادشاہ بنیں گے۔ میرا خون انہیں پلادو۔ میرے لمبے لمبے سنہری بال ان کے گھروں میں رکھ دو ۔تم مجھ سے دور کیوں ہٹ گئے ہو، میرے قریب آئو''……پروہت اس کے جسم پر تیل کی طرح کوئی چیز مَلنے لگا ۔ انگوک غالباً اس قبیلے کانام تھا۔ ایک عربی لڑکی کو نشے کے خمار نے اس قبیلے کی ماں اور پروہت کی بیوی بنا دیا تھا۔ وہ قربان ہونے کے لیے تیار ہوگئی تھی ۔ پروہت آخری رسوم پوری کررہا تھا۔ بارہ چھاپہ مار رات کے کیڑوں کی طرح رینگتے ہوئے پہاڑیوں پر چڑھتے ،اُترتے اور ٹھوکریں کھاتے آرہے تھے ۔بہت ہی دشوار گزار علاقہ تھا۔ بیشتر جھاڑیاں خاردار تھیں ۔چاند سر پر آگیا تھا۔انہیں درختوں میں سے روشنی کی کرنیں دکھائی دینے لگیں ۔ان کرنوں میں انہیں ایک حبشی کھڑا نظر آیا ، جس کے ایک ہاتھ میں برچھی اور دوسرے میں لمبوتری ڈھال تھی ۔وہ بھی دیوتائوں کے پایۂ تخت کا پہرہ دار تھا۔اسے خاموشی سے مارنا ضروری تھا ۔وہ ایسی جگہ کھڑا تھا،جہاں اس پر عقب سے حملہ نہیں کیا جاسکتا تھا۔ آمنے سامنے کا مقابلہ موزوں نہیں تھا۔ ایک چھاپہ مار جھاڑیوں میں چھپ کر بیٹھ گیا ۔ دوسرے نے اس کے سامنے ایک پتھر پھینکا ، جس نے گر کر اور لڑھک کر آواز پیدا کی ۔حبشی بدکا اور اس طرف آیا۔وہ جوں ہی جھاڑی میں چھپے ہوئے چھاپہ مار کے سامنے آیا، اُس کی گردن ایک بازو کے شکنجے میں آگئی اور ایک خنجر اس کے دِل میں اُترگیا۔ چھاپہ مار کچھ دیر وہاں رُکے اور احتیاط سے آگے چل پڑے ۔ اُمِّ عرارہ قربانی کے لیے تیار ہوچکی تھی۔پروہت نے آخری بار اسے اپنے سینے سے لگایا اور اس کا ہاتھ تھام کر سیڑھیوں کی طرف چل پڑا ۔باہر کے چار حبشی مردوں اور لڑکیوں کو پتھر کے سر اور چہرے کے منہ میں سے روشنی نظر آئی تو وہ منہ کے سامنے سجدے میں گرگئے ۔پروہت نے اپنی زبان میں ایک اعلان کیا اور پتھر کے منہ سے اُتر آیا ۔اُمِّ عرارہ اس کے ساتھ تھی۔ اسے وہ قالین پر لے گیا۔ مرد اور لڑکیاں اس کے اِرد گرد کھڑی ہوگئیں ۔ اُمِّ عرارہ نے عربی زبان میں کہا…… ''میں انگوک کے بیٹوں اور بیٹیوں کے لیے اپنی گردن کٹوارہی ہوں ۔ میں ان کے گناہوں کا کفارہ ادا کررہی ہوں ۔میری گردن کاٹ دو۔ میرا سر انگوک کے دیوتا کے قدموں میں رکھ دو۔ دیوتا اس سر پر مصر اور سوڈان کا تاج رکھیں گے''……چاروں آدمی اور لڑکیاں ایک بار پھر سجدے میں گر گئیں ۔پروہت نے اُمِّ عرارہ کو قالین پر دوزانو بٹھا کر اس کا سر آگے جُھکا دیا اور وہ تلوار اُٹھالی ،جس کا پھل پورے ہاتھ جتنا چوڑا تھا۔ ایک چھاپہ مار جو سب سے آگے تھا ، رُک گیا۔اس نے سر گوشی کرکے پیچھے آنے والے کو روک لیا۔پہاڑی کی بلندی سے انہیں چبوترہ اور پتھر کا سر نظر آیا……چبوترے پر ایک لڑکی دو زانو بیٹھی تھی ۔جس کا سر جھکا ہوا تھا۔ شفاف چاندنی ، چراغاں اور بڑی مشعلوں نے سورج کی روشنی کا سماں بنارکھا تھا۔ لڑکی کے پاس کھڑے آدمی کے ہاتھ میں تلوار تھی۔ دوزانو بیٹھی ہوئی لڑکی برہنہ تھی۔اس کے جسم کا رنگ بتارہا تھا کہ حبشی قبیلے کی لڑکی نہیں ۔چھاپہ ماردُور تھے اور بلندی پر بھی تھے، وہاں سے تیر خطا جانے کا خطرہ تھا، مگر وہ جس پہاڑی پر تھے ۔اس کے آگے ڈھلان نہیں تھی ، بلکہ سیدھی دیوار تھی ، جس سے اُترنا ناممکن تھا۔وہ جان گئے کہ لڑکی قربان کی جارہی ہے اور اسے بچانے کے لیے وقت اتنا تھوڑا ہے کہ وہ اُڑ کر نہ پہنچے تو اسے بچانہیں سکیں گے ۔ انہوں نے چوٹی سے نیچے دیکھا۔چاندنی میں انہیں ایک جھیل نظر آئی ۔انہیں بتایا گیا تھا کہ وہاں ایک جھیل ہے جس میں مگر مچھ رہتے ہیں ۔ دائیں طرف ڈھلان تھی ،لیکن وہ بھی تقریباً دیوار کی طرح تھی ۔وہاں جھاڑیاں اور درخت تھے ۔ انہیں پکڑ پکڑ کر اور ایک دوسرے کے ہاتھ تھام کر دوہ ڈھلان اُترنے لگے ۔ان میں سے آخری جانباز نے اتفاق سے سامنے دیکھا۔چاندنی میں سامنے کی چوٹی پر اسے ایک حبشی کھڑا نظر آیا۔اس کے ایک ہاتھ میں ڈھال تھی اور دوسرے ہاتھ میں برچھی ، جو اس نے تیر کی طرح پھینکنے کے لیے تان رکھی تھی۔چھاپہ ماروں پر چاندنی نہیں پڑرہی تھی ۔حبشی ابھی شک میں تھا۔آخری چھاپہ مارنے کمان میں تیر ڈالا ۔رات کی خاموشی میں کمان کی آواز سنائی دی ۔تیر حبشی کی شہ رگ میں لگا اور وہ لڑھکتا ہوا،نیچے آرہا۔ چھاپہ مار ڈھلان اُترتے گئے ۔گرنے کاخطرہ ہر قدم پر تھا۔ پروہت نے تلوار کی دھار اُمِّ عرارہ کی گردن پر رکھی اور اوپر اُٹھائی۔لڑکیوں اور مردوں نے سجدے سے اُٹھ کردو زانوں بیٹھتے ہوئے پُر سوز اور دھیمی آواز میں کوئی گانا شروع کردیا۔ یہ ایک گونج تھی جو اس دُنیا کی نہیں لگتی تھی ۔ پہاڑیوں میں گھری ہوئی اس تنگ سی وادی میں ایسا طلسم طاری ہوا جارہا تھا جو باہر کے کسی بھی انسان کو یقین دِلا سکتا تھا کہ یہ انسانوں کی نہیں ، دیوتائوں کی سرزمین ہے …… پروہت تلوار کو اوپر لے گیا۔ اب تو ایک دوسانسوں کی دیر تھی ۔ سلسلہ جاری ہے........ *▭▬▭▬▭▬▭▬▭▬▭▬▭▬▭* *https://chat.whatsapp.com/CKAiMLH2THv43mjZbBfFda* *▭▬▭▬▭▬▭▬▭▬▭▬▭▬▭* [ *یہ تحریر شئیر ضرور کریں*] *Important*👇 *انباکس میں بلا ضرورت میسج کرنے والوں کو بغیر وارننگ دیے گروپ سے ریمو کردیا جائے گا* Group Admin 👉 𝐒𝐲𝐞𝐝 𝐈𝐛𝐫𝐚𝐡𝐢𝐦 𝐒𝐡𝐚𝐡👈

*︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗* ۔ *📚📜 خوبصورت بات 📜📚* ۔ *︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘* *✍️"کوئی آپ کو سیراب نہ بھی کرے تو بھی کِھلنا سیکھیں اپنے لئے خود ہی مالی، خود ہی پانی اور خود ہی چشمہ بنیں کیونکہ۔۔۔۔ آپ خود ہی بہترین گلستان ہیں"..............!* ︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗ *✿_آئیں اپنی اصلاح کریں_✿* ︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘ *ثواب کی نیت سے آگے ضرور شیئر کریں* *اللہ پاک آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین* https://chat.whatsapp.com/Dpy8a6bI9mYHvPmxoFhL95 *༆✍︎𝐒𝐲𝐞𝐝 𝐈𝐛𝐫𝐚𝐡𝐢𝐦 𝐒𝐡𝐚𝐡༆* ❂▬▬▬๑۩۞۩๑▬▬❂

*YouTube Earnings course 2025 Demo* 🖥️ *Contact number in end of video* 📲

*لالـچ کـا بـرا انـجـام۔۔۔۔۔۔!* 🔥 مسعودی بن زبیر بن بکار سے نقل کیا ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں دو بھائی سفر کے لیے نکلے اور راستے میں ایک درخت کے سائے میں، جو سڑک کے کنارے تھا، دم لینے کے لیے رکے۔ اس پیڑ کے نیچے ایک پتھر بھی پڑا تھا۔ جب کچھ دیر بعد انہوں نے چلنے کا ارادہ کیا تو اس پتھر کے نیچے سے ایک سانپ ایک دینار لیے ہوئے نکلا اور اس نے وہ دینار ان دونوں بھائیوں میں سے ایک کے سامنے ڈال دیا۔ اس دینار کو پاکر وہ دونوں بھائی آپس میں کہنے لگے کہ ہو نہ ہو، یہاں پر کوئی خزانہ مدفون ہے۔ لہٰذا انہوں نے تین دن تک وہاں قیام کیا اور وہ سانپ روزانہ ایک دینار لا کر ان کے سامنے ڈالتا رہا۔ لیکن چوتھے دن ان بھائیوں میں سے ایک کہنے لگا: "بھائی! ہم کب تک یہاں بیٹھے ہوئے ایک ایک دینار حاصل کرتے رہیں گے؟ کیوں نہ اس سانپ کو مار کر خزانہ نکال لیا جائے؟" لیکن دوسرے بھائی نے اسے منع کیا اور کہا: "اگر اس کے نیچے خزانہ نہ نکلا تو ہماری ساری محنت بیکار ہو جائے گی۔" مگر اس نے اس کی بات نہ مانی اور ایک کلہاڑی لے کر سانپ کے انتظار میں بیٹھ گیا۔ جیسے ہی سانپ نے پتھر سے سر نکالا، اس نے کلہاڑی سے اس پر وار کر دیا۔ مگر حملہ پوری طرح کامیاب نہ ہو سکا، اور سانپ صرف زخمی ہوا، مرا نہیں۔ سانپ نے تیزی سے پلٹ کر جوابی حملہ کیا اور کلہاڑی سے حملہ کرنے والے کو ڈس کر ہلاک کر دیا، پھر واپس پتھر کے اندر گھس گیا۔ دوسرے بھائی نے اپنے ہلاک شدہ بھائی کو دفن کر دیا اور وہیں ٹھہرا رہا۔ یہاں تک کہ اگلے دن پھر وہ سانپ نکلا، مگر اس کے منہ میں کوئی دینار نہیں تھا اور اس کے سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ سانپ نکلتے ہی اس کی طرف بڑھا، مگر اس نے فوراً کہا: "تجھے معلوم ہی ہے کہ میں نے اپنے بھائی کو اس اقدام سے منع کیا تھا، اور تیرے قتل کرنے پر میں اس کا ہم خیال نہیں تھا، مگر اس کم بخت نے میرا کہنا نہ مانا اور تجھ پر حملہ کر بیٹھا، جس کے نتیجے میں اسے اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ ان حالات کے تحت کیا یہ ممکن نہیں کہ تو مجھ کو کوئی نقصان نہ پہنچائے اور نہ میں تجھ کو کوئی نقصان پہنچاؤں؟ اور تو اسی طرح مجھ پر مہربان ہو جائے جیسے تو نے چار دن تک ہم پر مہربانی کی تھی؟" لیکن سانپ نے اس کا جواب نفی میں دیا۔ اس شخص نے پوچھا: "انکار کی وجہ کیا ہے؟" سانپ نے جواب دیا: "انکار کی وجہ یہ ہے کہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تیرا دل میری طرف سے کبھی صاف نہ ہوگا، کیونکہ میں نے تیرے بھائی کو مار ڈالا ہے اور تو اس کی قبر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ اور میرا دل بھی تیری طرف صاف نہیں ہو سکتا، کیونکہ یہ میرے سر کا زخم مجھ کو صدمے کی یاد دلاتا رہے گا، جو تیرے بھائی کے ہاتھوں مجھے اٹھانا پڑا۔" پھر اس سانپ نے، جو اصل میں جن تھا، نابغہ جعدی کا یہ شعر پڑھا: وما لفيت ذات الصفا من حليفها وكانت تربه المال زعبا وظاهره ترجمہ: "اور میں نے اپنے حلیف سے کوئی نیک معاملہ نہیں دیکھا، حالانکہ میرا مال اس کی پرورش کرتا تھا اور اس کے ظاہر کا خبر گیر تھا۔" (تاریخ کے سچے واقعات،ص828) *[مزید ایسی تحریروں کے لیے ہمارا گروپ جوائن کریں]* https://chat.whatsapp.com/Dpy8a6bI9mYHvPmxoFhL95

کیا دن تھے جب کسی کو اسٹیشن چھوڑنے جاتے تھے تو آنکھیں نم ہو جاتی تھیں۔۔ اب تو قبرستان میں بھی قہقہے گونجتے ہیں۔۔ (تلخ حقیقت) 🥺

*فاتح بیت المقدس* 🕌 *سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ* 🔥 *قسط نمبر* *25* پروہت تلوار کو اوپر لے گیا۔ اب تو ایک دوسانسوں کی دیر تھی ۔تلوار نیچے کو آنے ہی لگی تھی کہ ایک تیر پروہت کی بغل میں دھنس گیا۔ اس کا تلوار والا ہاتھ ابھی نیچے نہیں گرا تھا کہ تین تیر بیک وقت اس کے پہلو میں اُتر گئے ۔لڑکیوں کی چیخیں سنائی دیں ۔مرد کسی کو آواز دینے لگے ۔تیروں کی ایک اور باڑ آئی جس نے دو مردوں کو گرا دیا۔ لڑکیاں جدھر منہ آیا، دوڑ پڑیں ۔ اُمِّ عرارہ اس شور و غل اور اپنے ارد گرد تڑپتے ہوئے اور خون میں ڈوبے ہوئے جسموں سے بے نیاز سر جھکائے بیٹھی تھی۔ چھاپہ مار بہت تیز دوڑتے آئے ۔چبوترے پر چڑھے اور اُمِّ عرارہ کو ایک نے اُٹھا لیا۔وہ ابھی تک نشے کی حالت میں باتیں کر رہی تھی۔ایک جانباز نے اپنا کرتہ اُتار کر اسے پہنا دیا ۔اسے لے کر چلے ہی تھے کہ ایک طرف سے بارہ حبشی برچھیاں اور ڈھالیں اُٹھائے دوڑتے آئے ۔چھاپہ مار بکھر گئے ۔ان میں چار کے پاس تیر کمانیں تھیں ۔انہوں نے تیر برسائے ۔باقی چھاپہ مار ایک طرف چھپ گئے اور جب حبشی آگے آئے تو عقب سے ان پر حملہ کردیا۔ایک تیر انداز نے کمان میں فلیتے والا تیر نکالا ۔فلیتے کو آگ لگائی اور کمان میں ڈال کر اوپر کو چھوڑ دیا۔تیر دُور اوپر جاکر رُکا تو اس کا شعلہ جو رفتار کی وجہ سے دب گیا تھا، رفتار ختم ہوتے ہی بھڑکا اور نیچے آنے لگا۔ میلے کی رونق ابھی ماند نہیں پڑی تھی ۔تماشایوں میں سے پانچ سو تماشائی میلے سے الگ ہوکر اس پہاڑی خطے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ انہیں دُور فضا میں ایک شعلہ سا نظر آیا جو بھڑک کر نیچے کو جانے لگا۔ وہ گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار ہوئے ۔ان کے کمان دار ساتھ تھے ۔پہلے تو وہ آہستہ آہستہ چلے تاکہ کسی کو شک نہ ہو ۔ذرا دُور جاکر انہوں نے گھوڑے دوڑادئیے ۔ تماشائی میلے میں شراب ، جوئے اور ناچنے گانے والی لڑکیوں اور عصمت فروش عورتوں میں اتنے مگن تھے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ ان کے دیوتائوں پر کیا قیامت ٹوٹ پڑی ہے ۔ چھاپہ مارنے اس خطرے کی وجہ سے آتشیں تیر چلا دیا تھا کہ حبشیوں کی تعداد زیادہ ہوگئی ،مگر فوج وہاں پہنچی تو وہاں بارہ تیرہ لاشیں حبشیوں کی اور دو لاشیں چھاپہ مار شہیدوں کی پڑی تھیں ۔وہ برچھیوں سے شہید ہوئے تھے۔ کمان داروں نے وہاں کاجائزہ لیا ۔پتھر کے منہ میں گئے اور تہہ خانے میں جاپہنچے ،وہاں انہیں جو چیزیں ہاتھ لگیں ،وہ اُٹھالیں۔اُن میں ایک پھول بھی تھا جو قدرتی نہیں ، بلکہ کپڑے سے بنایا گیا تھا۔ احکام کے مطابق فوج کو وہیں رہنا تھا،لیکن پہاڑیوں میں چھپ کر ۔چھاپہ ماروں نے اُمِّ عرارہ کو گھوڑے پر ڈالا اور قاہرہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ صبح طلوع ہوئی ۔ میلے کی رونق ختم ہوگئی تھی ۔بیشتر تماشائی رات شراب پی پی کر ابھی تک مدہوش پڑے تھے ۔دوکان دار جانے کے لیے مال اسباب باندھ رہے تھے ۔لڑکیوں کے بیوپاری بھی جارہے تھے ۔صحرا میں روانہ ہونے والوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں ۔ میلے کے قریب جو گائوں تھا وہاں کے لوگ بے تابی سے اس لڑکی کے بالوں کا انتظار کررہے تھے ،جسے رات قربان کیا گیا تھا۔اس قبیلے کے لوگ جودُور دراز دیہات کے رہنے والے تھے ،پہاڑی جگہ سے دور کھڑے دیوتائوں کے مسکن کی طرف دیکھ رہے تھے۔ ان کے بڑے بوڑھے انہیں بتارہے تھے کہ ابھی پروہت آئے گا۔ وہ دیوتائوں کی خوشنودی کا پیغام دے گا اور ان میں بال تقسیم کرے گا، مگر ابھی تک کوئی نہیں آیا تھا۔ دیوتائوں کے مسکن پر سکوت طاری تھا۔ اس منتظر ہجوم کو معلوم نہ تھا کہ وہاں فوج مقیم ہے اور اب وہاں سے دیوتائوں کا کوئی پیغام نہیں آئے گا…… دن گزرتا گیا۔ قبیلے کے جن نوجوانوں نے قربانی کی باتیں سنی تھیں ،انہیں شک ہونے لگا کہ یہ سب جھوٹ ہے ۔ دِن گزر گیا۔ سورج انہی پہاڑیوں کے پیچھے جا کر ڈوب گیا۔ کسی میں اتنی جرأت نہیں تھی کہ وہ وہاں جاکر دیکھتا کہ پروہت کیوں نہیں آیا۔ https://chat.whatsapp.com/CKAiMLH2THv43mjZbBfFda ''طبیب کو بلالائو''……سلطان ایوبی نے کہا…… ''لڑکی پر نشے کا اثر ہے ''۔ اُمِّ عرارہ اس کے سامنے بیٹھی تھی اور کہہ رہی تھی …… ''میں انگوک کی ماں ہوں ۔ تم کون ہو؟ تم دیوتا نہیں ہو۔ میرا شوہر کہاں ہے ۔ میرا سرکا ٹو اور دیوتا کو دے دو۔ مجھے میرے بیٹوں پر قربان کردو''……وہ بولے جارہی تھی ،مگر اب اس پر غنودگی بھی طاری ہو رہی تھی ۔اس کا سرڈول رہا تھا۔ طبیب نے آتے ہی اس کی کیفیت دیکھی اور اسے کوئی دوائی دے دی ۔ذر اسی دیر میں اس کی آنکھیں بند ہوگئیں ۔ اسے لٹا دیا گیا اور وہ گہری نیند سوگئی ۔سلطان ایوبی کو تفصیل سے بتایا گیا کہ پہاڑی خطے میں کیا ہوا اور وہاں سے کیا ملا ہے ۔اس نے اپنے نائب سالا الناصر اور بہائوالدین شداد کو حکم دیا کہ پانچ سو سوار لے جائیں ،ضروری سامان لے جلائیں اور اس بُت کو مسمار کردیں ، مگر اس جگہ کو فوج کے گھیرے میں رکھیں ۔حملے کی صورت میں مقابلہ کریں ۔اگر وہ لوگ دب جائیں اور لڑنہ سکیں تو انہیں وہ جگہ دکھا کر پیار اور محبت سے سمجھائیں کہ یہ محض ایک فریب تھا۔ شداد نے اپنی تحریر میں جو عربی زبان میں لکھی گئی تھی، اس واقعہ کو یوں بیان کیا ہے کہ وہ پانچ سو سواروں کے ساتھ وہاں پہنچا ۔راہنمائی اس فوج کے کمان دار نے کی جو پہلے ہی وہاں موجود تھا۔ سینکڑوں سوڈانی حبشی دُور دُور کھڑے تھے۔ان میں سے بعض گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار تھے ۔ ان کے پاس برچھیاں ،تلواریں اور کمانیں تھیں ۔ہم نے اپنے تمام تر سواروں کو اس پہاڑی جگہ کے اِرد گرد اس طرح کھڑا کردیا کہ ان کے منہ باہر کی طرف اور ان کی کمانوں میں تیر تھے اور جن کے پاس کمانیں نہیں تھیں ، ان کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں ۔خطرہ خون ریز لڑائی کا تھا۔ میں الناصر کے ساتھ اندر گیا۔ بُت کودیکھ کر میں نے کہا کہ فرعونوں کی یاد گار ہے ۔ حبشیوں کی لاشیں پڑی تھیں ۔ہر جگہ گھوم پھر کر دیکھا، دو پہاڑیوں کے درمیان ایک کھنڈر تھا ،جو فرعونوں کے وقتوں کی خوشنما عمارت تھی ۔دیواروں پر اُس زمانے کی تحریریں تھیں ۔ الفاظ لکیروں والی تصویروں کی مانند تھے ۔کوئی شبہہ نہ رہا کہ یہ فرعونوں کی جگہ تھی …… دیوار جیسی ایک پہاڑی کے دامن میں جھیل تھی ، جس کے اندر اور باہر دو دو قدم لمبے مگر مچھ تھے ۔ جھیل کا پانی پہاڑی کے دامن کو کاٹ کر پہاڑی کے نیچے چلا گیا تھا۔ پانی کے اوپر پہاڑی کی چھت تھی ۔جگہ خوف ناک تھی ۔ہمیں دیکھ کر بہت سارے مگر مچھ کنارے پر آگئے اور ہمیں دیکھنے لگے۔ میں نے سپاہیوں سے کہا، حبشیوں کی لاشیں جھیل میں پھینک دو، یہ بھوکے ہیں ۔وہ لاشیں گھسیٹ کر لائے اور جھیل میں پھینک دیں ،مگر مچھوں کی تعداد اکا اندازہ نہیں ،پوری فوج تھی ۔لاشوں کے سر باہر رہے اور یہ سر پانی میں دوڑتے پہاڑی کے اندر چلے گئے ۔پھر پروہت کی لاش آئی ۔اس نے دوسرے انسانوں کو مگر مچھوں کے آگے پھینکا تھا، ہم نے اسے بھی جھیل میں پھینک دیا……وہ سپاہی چار سوڈانی لڑکیوں کو لائے ۔وہ کہیں چھپی ہوئی اور عریاں تھیں۔کمر کے ساتھ ایک پتہ آگے اور پیچھے بندھاہواتھا۔میںنے اور الناصر نے منہ پھیر لیے ۔سپاہیوں ںسے کہا کہ انہیں مستور کرو۔ جب ان کے جسم کپڑوں میں چھپ گئے تو دیکھا کہ وہ بہت خوب صورت تھیں ۔روتی تھیں ،ڈرتی تھیں۔ہمارے ترجمان کو انہوں نے وہاں کا حال اپنی زبان میں بیان کیا جو بہت شرم ناک تھا۔مسلمان کو عورت ذات کا یہ حال برداشت نہیں کرنا چاہیے۔ عورت اپنی ہو، کسی اور کی ہو، کافر ہو ، اسلام اسے بیٹی کہتا ہے ۔ان چار لڑکیوں کا بیان ظاہر کرتا تھا کہ وہ فرعونوں کو خدا مانتی ہیں ۔ان کا قبیلہ انسان کو خدا مانتا ہے ۔ یہ جگہ خوش نما تھی ۔سارے صحرا میں سر سبز تھی ۔اندر پانی کا چشمہ تھا، جس نے جھیل بنائی ،درخت تھے، جنہوں نے سایہ دیا۔کسی فرعون کو یہ مقام پسند آیا تو اسے تفریح کا مقام بنایا ۔اپنی خدائی کے ثبوت میں یہ بُت بنایا۔ اس میں تہہ خانہ رکھا اور یہاں عیش کی ۔ آسمان نے کوئی اور رنگ دکھایا۔ سورج اُدھر سے اِدھر ہوگیا۔ فرعونوں کے ستارے ٹوٹ گئے اور مصر میں دوسرے باطل مذہب آئے ۔ آخر میں حق کی فتح ہوئی اور مصر نے کلمہ. *''🌹لا الٰہ الااللہ🌹 ''* سُنا اور خدا کے حضور سرخرو ہوا، لیکن کسی نے نہ جاناکہ باطل ان پہاڑیوں میں زندہ رہا۔ الحمد للہ ،ہم نے 🌹ﷲ سبحان و تعالٰی سے راہنمائی لی ۔ باطل کا یہ نقش بھی اُکھاڑا اور اس ریگزار کو پاک کیا۔ اس جگہ کو سواروں کے گھیرے میں لے کر فوج نے پتھر کے اس ہیبت ناک بُت کو مسمار کر دیا، چبوترہ بھی گرا دیا، تہہ خانہ ملبے سے بھر دیا۔ باہر سینکڑوں حبشی حیران اور خوف زدہ کھڑے تھے کہ یہ کیا ماجرہ ہے ۔ان سب کو بلاکر اندر لے جایا گیا کہ یہاں کچھ بھی نہیں تھا۔چاروں لڑکیاں اُن کے حوالے کی گئیں ۔چاروں کے باپ اور بھائی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے اپنی اپنی لڑکی لے لی ۔انہیں بتایا گیا کہ یہاں ایک بد کار آدمی رہتا تھا، وہ مگر مچھوں کو کھلا دیا گیا ہے ۔ان سینکڑوں حبشیوں کو اکٹھا بٹھا کر ان کی زبان میں وعظ دیا گیا۔ وہ سب خاموش رہے ۔انہیں اسلام کی دعوت دی گئی ۔وہ پھر بھی خاموش رہے ۔ کبھی کبھی شک ہوتا تھا، جیسے ان کی آنکھوں میں خون اُتر آیا ہے ۔ انہیں یہ الفاظ دھمکی کے لہجے میں کہے گئے…… ''اگر تم سچے خدا کو دیکھنا چاہتے ہو تو ہم تمہیں دکھائیں گے ۔اگر تم اسی جگہ کو جہاں تم بیٹھے ہو،اپنے جھوٹے خدائوں کا گھر کہتے رہو گے تو ہم ان پہاڑوں کو بھی ریزہ ریزہ کرکے ریت کے ساتھ ملادیں گے ،پھر تم دیکھو گے کہ کون سا خدا سچاہے''۔ اُ دھر قاہرہ میں اُمِّ عرارہ ہوش میں آچکی تھی ۔وہ اپنی داستان سنا چکی تھی ،جو اوپر بیان کی گئی ہے ۔کبھی وہ کہتی تھی کہ اس نے کوئی خواب دیکھا ہے ۔اُسے ساری باتیں یاد آگئیں تھیں ۔اس نے بتایا کہ پروہت اسے دِن رات بے آبرو کرتا تھا اور پھول کئی بار اس کی ناک کے ساتھ لگاتاتھا۔ اُمِّ عرارہ کو بتایا گیا کہ اس کی گردن کٹنے والی تھی ، اگر چھاپہ مار بروقت نہ پہنچ جاتے تو اس کا سر غار میں اور جسم مگر مچھوں کے پیٹ میں ہوتا۔نازک سی ، یہ حسین لڑکی خوف سے کانپنے لگی۔ اس کے آنسو نکل آئے اس نے سلطان ایوبی کے ہاتھ چوم لیے اور کہا……'' ﷲ نے مجھے گناہوں کی سزا دی ہے ،میں اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا چاہتی ہوں ۔ ﷲ کے لیے مجھے پناہ میں لے لیں ''…… اس کی ذہنی کیفیت بہت ہی بُری تھی ۔ اس نے شام کے ایک دولت مند تاجر کا نام لے کر کہا کہ وہ اس کی بیٹی ہے ۔یہ مسلمان تاجر تھا ۔ اس کا دوستانہ شام کے امیروں کے ساتھ تھا۔ اُس وقت کے امیر ایک ایک شہر یا تھوڑے تھوڑے رقبے کے خطوں کے حکمران ہوا کرتے تھے ،جو مرکزی امارت کے ماتحت تھے ۔مرکزی امارت ، مرکزی وزارت اور خلافت کے ماتحت ہوتی تھی ۔یہ امراء دسویں صدی کے بعد پوری طرح عیاشیوں میں ڈوب گئے تھے ۔بڑے تاجروں سے دوستی رکھتے تھے ، ان کے ساتھ کاروبار بھی کرتے اور رشوت بھی لیتے تھے ۔ ان کے حرموں میں لڑکیوں کی افراط رہتی اور شراب بھی چلتی تھی ۔ اُمِّ عرارہ ایسے ہی ایک دولت مند تاجر کی بیٹی تھی جو اپنے باپ کے ساتھ بارہ تیرہ سال کی عمر میں امراء کی رقص و سرور کی محفلوں میں جانے لگی تھی۔ باپ غالباً دیکھ رہا تھا کہ لڑکی خوب صورت ہے ،اس لیے وہ اسے لڑکپن میں ہی امراء کی سوسائٹی کا عادی بنانے لگا تھا۔ اُمِّ عرارہ نے بتایا کہ وہ چودہ سال کی ہوئی تو امراء نے اس میں دلچسپی لینی شروع کردی تھی ۔دو نے اسے بڑے قیمتی تحفے بھی دئیے ۔وہ گناہوں کی اسی دُنیا کی ہوکے رہ گئی۔ عمر کے سولہویں سال وہ باپ کو بتائے بغیر ایک امیر کی در پردہ داشتہ بن گئی ، مگر رہتی اپنے گھر میں تھی ۔ وہ دولت میں جنی پلی تھی ،شرم و حیا سے آشنا نہیں تھی۔ دو تین سال بعد وہ باپ کے ہاتھ سے نکل گئی اور آزادی سے دو اور امراء سے تعلقات پیدا کر لیے ۔ اس نے خوب صورتی ، چرب زبانی اور مردوں کو انگلیوں پر نچانے میں نام پیدا کرلیا ۔باپ نے اس کے ساتھ سمجھوتہ کرلیا۔گذشتہ چھ سال سے اسے ایک اور ہی قسم کی ٹریننگ ملنے لگی تھی ۔ یہ تین امراء نے مل کر سازش کی تھی، جس میں اس کا باپ بھی شریک تھا۔ اسے خلافت کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی ٹریننگ دی جارہی تھی ۔آگے چل کر اس سازش میں ایک صلیبی بھی شامل ہوگیا۔ یہ امراء خود مختار حاکم بننے کے خواب دیکھ رہے تھے ۔صلیبیوں کی مدد کے بغیر یہ ممکن نہ تھا۔ اُمِّ عرارہ کو نورالدین زنگی اور خلافت کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کے لیے بھی استعمال کیا گیا تھا۔ صلیبیوں نے اس مہم میں تین عیسائی لڑکیاں شامل کرکے ایک زمین دو زمحاذ بنا لیا۔ انہوں نے جب دیکھا کہ مصر میں صلاح الدین ایوبی نے نام پیدا کرلیا ہے اور اس نے دو ایسے کارنامے کر دکھائے ہیں، جس نے اسے مصر کا وزیر اور امیر نہیں ،بلکہ بادشاہ بنادیا ہے تو اُمِّ عرارہ کو خلیفہ العاضد کی خدمت میں تحفے کے طور پر بھیجا گیا۔اسے مہم یہ دی گئی کہ خلیفہ کے دِل میں صلاح الدین ایوبی کے خلاف دشمنی پیدا کرے اور سابق سوڈانی فوج کے جو چند ایک حکام فوج میں رہ گئے ہیں ،انہیں العاضد کے قریب کرکے سوڈانیوں کو ایک اور بغاوت پر آمادہ کرے۔ اسے دوسری مہم یہ دی گئی تھی کہ خلیفہ العاضد کو آمادہ کرے کہ سوڈانی جب بغاوت کریں تو انہیں ہتھیاروں اور ساز و سامان سے مدد دے اور اگر ممکن ہوسکے تو صلاح الدین ایوبی کی فوج کا کچھ حصہ باغی کرکے سوڈانیوں سے ملا دے ۔خلیفہ اور کچھ نہ کرسکے تو اپنا محافظ دستہ سوڈانیوں کے حوالے کرکے خود سلطان ایوبی کے پاس جاپناہ لے اور اسے کہے کہ اس کے محافظ باغی ہوگئے ہیں ۔مختصر یہ کہ صلاح الدین ایوبی کے خلاف ایسا محاذ قائم کرنا تھا جو اُسے مصر سے بھاگنے پر مجبور کردے اور باقی عمر گمنامی میں گزار دے ۔ اُمِّ عرارہ نے سلطان ایوبی کو بتایا کہ وہ مسلمان کے گھر پیدا ہوئی تھی ،لیکن باپ نے اسے مسلمانون کی ہی جڑیں کاٹنے کی تربیت دی اور سلطنتِ اسلامیہ کے اُمراء نے اپنے دشمنوں کے ساتھ مل کر اپنی ہی سلطنت کو تباہ کرنے کی کوشش کی ۔اس لڑکی نے خلیفہ العاضد کا دماغ اپنے قبضہ میں لے لیا اور سلطان ایوبی کے خلاف کردیا تھا۔ رجب کو وہ سازش میں شریک کرچکی تھی ۔رجب نے دو اور فوجی حکام کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔ رجب نے اس سلسلے میں یہ کام کیا کہ خلیفہ کے محافظ دستے میں وہ مصریوں کی جگہ سوڈانی رکھتا جارہا تھا۔ اُمِّ عرارہ کو خلیفہ کے پاس لائے ابھی دو اڑھائی مہینے ہوئے تھے ،وہ قصرِ خلافت پر غالب آگئی تھی اور حرم کی ملکہ بن گئی تھی ۔اس نے یہ انکشاف بھی کیا کہ خلیفہ سلطان ایوبی کو قتل کرانا چاہتا ہے اور رجب نے حشیشین سے مل کر قتل کا انتظام کر دیا ہے ۔ یہ محض اتفاق کی بات ہے کہ سلطان ایوبی نے خلیفہ کے بے کار وجود اور عیش پرستی سے تنگ آکر اس کے خلاف کاروائی شروع کردی تھی اور یہ بھی اتفاق تھا کہ اُمِّ عرارہ کو وہی لوگ اغوا کر کے لے گئے ،جنہیں وہ سلطان ایوبی کے خلاف لڑانا چاہتی تھی اور یہ اتفاق تو بڑا ہی اچھا تھا کہ سلطان ایوبی نے رجب سے محافظ دستے کی کمان لے لی اور وہان اپنی پسند کا ایک نائب سالار بھیج دیا تھا، مگر ان اتفاقات نے حالات کا دھارا موڑ کر سلطان ایوبی کے لیے ایک خطرہ پیدا کردیا۔ سلطان ایوبی نے اُمِّ عرارہ کو اپنی پناہ میں رکھا۔لڑکی بُری طرح پچھتا رہی تھی اور گناہوں کا کفارہ ادا کرنا چاہتی تھی۔ قدرت نے ایک ایسا دھچکہ دے کر اس کا دماغ درست کردیا تھا۔ سلطان ایوبی ٹھنڈے دِل سے سوچنے لگا کہ اس سازش میں جو حکام شامل ہیں ، ان کے ساتھ وہ کیا سلوک کرے۔ دوسرے دن الناصر اور بہائوالدین شداد فرعونوں کا آخری نشان مٹاکر فوج واپس لے آئے سلسلہ جاری ہے........ *▭▬▭▬▭▬▭▬▭▬▭▬▭▬▭* *https://chat.whatsapp.com/CKAiMLH2THv43mjZbBfFda* *▭▬▭▬▭▬▭▬▭▬▭▬▭▬▭* [ *یہ تحریر شئیر ضرور کریں*] *Important*👇 *انباکس میں بلا ضرورت میسج کرنے والوں کو بغیر وارننگ دیے گروپ سے ریمو کردیا جائے گا* Group Admin 👉 𝐒𝐲𝐞𝐝 𝐈𝐛𝐫𝐚𝐡𝐢𝐦 𝐒𝐡𝐚𝐡👈

*سیدہ خدیجہؓ کے نام کے ساتھ شہد کی حلاوت....!* 💚 سیدنا بلال حبشیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے پہلی مرتبہ سیدہ خدیجہؓ کے بارے میں اُس وقت سنا تھا جب میری غریب ماں نے ایک شہد لگی روٹی کا ٹکڑا میرے منہ میں ڈالا تھا۔ میں کوئی پانچ سال کا تھا۔ یہ روٹی سیدہ خدیجہؓ کے گھر سے آئی تھی۔ اُس دن سے آج تک میرے ذہن میں سیدہ خدیجہؓ کے نام کے ساتھ شہد کی حلاوت و مٹھاس وابستہ ہے اور دل میں عقیدت و احترام ہے۔ آپ مجسم عنایت، سراپا شفقت تھیں۔ آپ کے گھر کے دروازے ہمیشہ حاجت مندوں کے لیے کھلے رہتے تھے۔ ہر ضرورت مند، ہر مسکین، ہر بے کس اور بے نوا کی پذیرائی ہوتی تھی۔ کبھی کبھی ان کی نوازشیں ان کے گھر سے بہت دور بھی پہنچ جاتی تھیں۔ وہ خود غریبوں کے محلّے میں جا کر ان کا حال پوچھتی تھیں اور لوگوں کے دکھ درد میں کام آتی تھیں۔ سیدہ خدیجہؓ اپنی مثال آپ تھیں۔ وہ ایسی رئیس خاتون تھیں جن کا دل غریبوں کے لیے دھڑکتا تھا۔ سیدہ خدیجہؓ سب سے پہلے آپﷺ پر ایمان لائیں، اُس وقت جب سرورِ کائناتﷺ اکیلے تھے۔ آپؓ نبی کریمﷺ کی محض شریکِ حیات ہی نہیں، بلکہ آپ کے مشن کی ساتھی بھی تھیں۔ سچ تو یہ ہے کہ سیدہ خدیجہؓ مکہ مکرمہ کی بے مثال خاتون تھیں، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ خود نبی کریمﷺ کائنات بھر میں بے مثال تھے۔ میں جب پہلی مرتبہ آپﷺ سے ملا تو آپﷺ کھجور کے پتوں کی ایک سادہ سی چٹائی پر اپنے عم زاد حضرت علیؓ کے ساتھ بیٹھے تھے۔ آپﷺ نے مجھے دیکھا تو آپ کی آنکھیں بھر آئیں۔ حضرت علیؓ، جو اُس وقت کم عمر تھے، نے آپﷺ کا ہاتھ تھام کر پوچھا: "یا رسول اللہ! آپ کیوں رو رہے ہیں؟ کیا یہ کوئی بُرا آدمی ہے؟" آپﷺ نے فرمایا: "اے علی! یہ وہ شخص ہے جسے اللہ کی خوشنودی حاصل ہوئی ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے اس دھرتی پر پیار کی نگاہ سے دیکھا ہے، اور اسے اپنے لیے چن لیا ہے۔" یہ کہہ کر حضرت محمدﷺ جلدی سے اٹھے اور مجھ سے بغل گیر ہو گئے۔ مجھے گلے لگا کر فرمایا: "بلال! جب تک دنیا قائم رہے گی، یہ بات یاد رکھی جائے گی کہ اسلام کی راہ میں اذیت برداشت کرنے والے پہلے شخص تم تھے۔" پھر حضرت محمدﷺ نے میرا بازو پکڑا اور مجھے اپنے ساتھ چٹائی پر بیٹھنے کے لیے کہا۔ میں چونک گیا! کہاں میں اور کہاں وہ عالی نسب! میں آج تک قریش کے کسی فرد کے سامنے نہیں بیٹھا تھا۔ بھلا غلام کب اپنے آقا کے برابر بیٹھنے کا سوچ سکتا تھا؟ اور ایک ہی چٹائی پر ان کے ساتھ بیٹھنا تو تصور سے بھی ماورا بات تھی۔ میں بیٹھ نہ سکا، میں کھڑا رہا۔ پھر کائنات کے آقاﷺ نے اپنے مخصوص انداز میں مجھے پکڑ کر اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ اللہ نے میرا نصیب بلند کر دیا اور میرے مقدر جاگ اٹھے۔ اتنے میں ام کلثومؓ، جو آپﷺ کی صاحبزادی تھیں، کھجوریں لے آئیں اور اپنے راج دلارے ابا کے سامنے رکھ دیں۔ نبی کریمﷺ نرم، پکی ہوئی کھجوروں کو انگلیوں سے دبا کر دیکھتے اور مجھے دیتے جاتے، اور خود جو کھجور بھی ہاتھ میں آتی، کھا لیتے۔ امت کے شفیق نبی کی کیا ہی بات تھی، اور کیا نرالی شان تھی! سبحان اللہ! سبحان اللہ! (بحوالہ: سیدنا بلال رضی اللہ عنہ، سلیم گیلانی، ص: 53, 73) *[مزید ایسی تحریروں کے لیے ہمارا گروپ جوائن کریں]* https://chat.whatsapp.com/Dpy8a6bI9mYHvPmxoFhL95

ایک بوڑھی عورت مسجد کے سامنے بھیک مانگتی تھی۔ ایک شخص نے اس سے پوچھا کہ کیا آپ کا کوئی بیٹا کمانے کے قابل نہیں ہے ؟ تو اس بوڑھی عورت نے کہا کہ ھے تو پھر آپ یہاں کیوں بھیک مانگ رہی ہیں؟ بوڑھی عورت نے کہا کہ میرے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے۔ میرا بیٹا نوکری کے لئے بیرون ملک گیا ہے۔ جاتے ہوئے اخراجات کے لئے مجھے کچھ رقم دے کر گیا تھا ، وہ خرچ ہوگئی ہے ، اسی وجہ سے میں بھیک مانگ رہی ہوں۔ اس شخص نے پوچھا - کیا آپ کا بیٹا آپ کو کچھ نہیں بھیجتا ہے؟ بوڑھی عورت نے کہا - میرا بیٹا ہر ماہ رنگا رنگ کاغذ بھیجتا ہے جسے میں گھر میں دیوار پر چپکا کر رکھتی ہوں۔ وہ شخص اس کے گھر گیا اور دیکھا کہ دیوار پر بینک کے 60 ڈرافٹ چسپاں کردیئے گئے ہیں۔ ہر ڈرافٹ 50،000 روپے کا تھا۔ تعلیم یافتہ نہ ہونے کی وجہ سے ، وہ عورت نہیں جانتی تھی کہ اس کے پاس کتنی دولت ہے۔ اس شخص نے اسے ڈرافٹ کی اہمیت سمجھا دی تو وہ عورت بہت خوش بھی ہوئی اور حیران بھی ہوئی اور پریشان بھی ہوئی کہ دولت ہوتے ہوئے بھی وہ بھیک مانگتی رہی ہے. ہماری حالت بھی اس بوڑھی عورت کی طرح ہے ہمارے پاس قرآن ہے اور ہم اسے اپنے منہ سے چومتے اور ماتھے پر لگا کر اپنے گھر میں رکھتے ہیں لیکن ہم اس کا فائدہ صرف اس صورت میں اٹھاسکیں گے جب ہم اسے پڑھیں گے، اس کے معنیٰ اور تفسیر کو سمجھیں گے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں لے آئیں گے۔ تب ہی ان شاءاللہ ہماری دنیا اور اس کے بعد کی زندگی دونوں بہتر ہوگی۔ بہت بڑا خزانہ ہمارے پاس موجود ہے لیکن ہماری جہالت کی وجہ سے اس میں چھپے انعامات سے آج ہم سب محروم ہیں، اللہ پاک ہم سب کو قرآن پاک کی عظمت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین🤲🏻 *[مزید ایسی تحریروں کے لیے ہمارا گروپ جوائن کریں]* https://chat.whatsapp.com/Dpy8a6bI9mYHvPmxoFhL95

*︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗* ۔ *📚📜 خوبصورت بات 📜📚* ۔ *︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘* *✍️"اَلَمِــــــــــــــــــــــــــــیَّہ یہ ہے کہ، ہر شَخص اِنفِرادی طور پہ بَد عنوان رہتے ہُوئے اِجتِماعی طور پر* *مُعاشرے کو بہتر اور با اَخلاق دیکھنا چاہتا ہے"..............!* ︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗ *✿_آئیں اپنی اصلاح کریں_✿* ︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘ *ثواب کی نیت سے آگے ضرور شیئر کریں* *اللہ پاک آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین* https://chat.whatsapp.com/CKAiMLH2THv43mjZbBfFda *༆✍︎𝐒𝐲𝐞𝐝 𝐈𝐛𝐫𝐚𝐡𝐢𝐦 𝐒𝐡𝐚𝐡༆* ❂▬▬▬๑۩۞۩๑▬▬❂