سـبـق آمـوز واقـعـات  📚
سـبـق آمـوز واقـعـات 📚
February 25, 2025 at 05:58 PM
*سیدہ خدیجہؓ کے نام کے ساتھ شہد کی حلاوت....!* 💚 سیدنا بلال حبشیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے پہلی مرتبہ سیدہ خدیجہؓ کے بارے میں اُس وقت سنا تھا جب میری غریب ماں نے ایک شہد لگی روٹی کا ٹکڑا میرے منہ میں ڈالا تھا۔ میں کوئی پانچ سال کا تھا۔ یہ روٹی سیدہ خدیجہؓ کے گھر سے آئی تھی۔ اُس دن سے آج تک میرے ذہن میں سیدہ خدیجہؓ کے نام کے ساتھ شہد کی حلاوت و مٹھاس وابستہ ہے اور دل میں عقیدت و احترام ہے۔ آپ مجسم عنایت، سراپا شفقت تھیں۔ آپ کے گھر کے دروازے ہمیشہ حاجت مندوں کے لیے کھلے رہتے تھے۔ ہر ضرورت مند، ہر مسکین، ہر بے کس اور بے نوا کی پذیرائی ہوتی تھی۔ کبھی کبھی ان کی نوازشیں ان کے گھر سے بہت دور بھی پہنچ جاتی تھیں۔ وہ خود غریبوں کے محلّے میں جا کر ان کا حال پوچھتی تھیں اور لوگوں کے دکھ درد میں کام آتی تھیں۔ سیدہ خدیجہؓ اپنی مثال آپ تھیں۔ وہ ایسی رئیس خاتون تھیں جن کا دل غریبوں کے لیے دھڑکتا تھا۔ سیدہ خدیجہؓ سب سے پہلے آپﷺ پر ایمان لائیں، اُس وقت جب سرورِ کائناتﷺ اکیلے تھے۔ آپؓ نبی کریمﷺ کی محض شریکِ حیات ہی نہیں، بلکہ آپ کے مشن کی ساتھی بھی تھیں۔ سچ تو یہ ہے کہ سیدہ خدیجہؓ مکہ مکرمہ کی بے مثال خاتون تھیں، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ خود نبی کریمﷺ کائنات بھر میں بے مثال تھے۔ میں جب پہلی مرتبہ آپﷺ سے ملا تو آپﷺ کھجور کے پتوں کی ایک سادہ سی چٹائی پر اپنے عم زاد حضرت علیؓ کے ساتھ بیٹھے تھے۔ آپﷺ نے مجھے دیکھا تو آپ کی آنکھیں بھر آئیں۔ حضرت علیؓ، جو اُس وقت کم عمر تھے، نے آپﷺ کا ہاتھ تھام کر پوچھا: "یا رسول اللہ! آپ کیوں رو رہے ہیں؟ کیا یہ کوئی بُرا آدمی ہے؟" آپﷺ نے فرمایا: "اے علی! یہ وہ شخص ہے جسے اللہ کی خوشنودی حاصل ہوئی ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے اس دھرتی پر پیار کی نگاہ سے دیکھا ہے، اور اسے اپنے لیے چن لیا ہے۔" یہ کہہ کر حضرت محمدﷺ جلدی سے اٹھے اور مجھ سے بغل گیر ہو گئے۔ مجھے گلے لگا کر فرمایا: "بلال! جب تک دنیا قائم رہے گی، یہ بات یاد رکھی جائے گی کہ اسلام کی راہ میں اذیت برداشت کرنے والے پہلے شخص تم تھے۔" پھر حضرت محمدﷺ نے میرا بازو پکڑا اور مجھے اپنے ساتھ چٹائی پر بیٹھنے کے لیے کہا۔ میں چونک گیا! کہاں میں اور کہاں وہ عالی نسب! میں آج تک قریش کے کسی فرد کے سامنے نہیں بیٹھا تھا۔ بھلا غلام کب اپنے آقا کے برابر بیٹھنے کا سوچ سکتا تھا؟ اور ایک ہی چٹائی پر ان کے ساتھ بیٹھنا تو تصور سے بھی ماورا بات تھی۔ میں بیٹھ نہ سکا، میں کھڑا رہا۔ پھر کائنات کے آقاﷺ نے اپنے مخصوص انداز میں مجھے پکڑ کر اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ اللہ نے میرا نصیب بلند کر دیا اور میرے مقدر جاگ اٹھے۔ اتنے میں ام کلثومؓ، جو آپﷺ کی صاحبزادی تھیں، کھجوریں لے آئیں اور اپنے راج دلارے ابا کے سامنے رکھ دیں۔ نبی کریمﷺ نرم، پکی ہوئی کھجوروں کو انگلیوں سے دبا کر دیکھتے اور مجھے دیتے جاتے، اور خود جو کھجور بھی ہاتھ میں آتی، کھا لیتے۔ امت کے شفیق نبی کی کیا ہی بات تھی، اور کیا نرالی شان تھی! سبحان اللہ! سبحان اللہ! (بحوالہ: سیدنا بلال رضی اللہ عنہ، سلیم گیلانی، ص: 53, 73) *[مزید ایسی تحریروں کے لیے ہمارا گروپ جوائن کریں]* https://chat.whatsapp.com/Dpy8a6bI9mYHvPmxoFhL95
❤️ 👍 🫀 🌹 🥹 🌸 🎉 💚 💞 69

Comments