سـبـق آمـوز واقـعـات  📚
سـبـق آمـوز واقـعـات 📚
February 25, 2025 at 06:09 PM
*فاتح بیت المقدس* 🕌 *سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ* 🔥 *قسط نمبر* *25* پروہت تلوار کو اوپر لے گیا۔ اب تو ایک دوسانسوں کی دیر تھی ۔تلوار نیچے کو آنے ہی لگی تھی کہ ایک تیر پروہت کی بغل میں دھنس گیا۔ اس کا تلوار والا ہاتھ ابھی نیچے نہیں گرا تھا کہ تین تیر بیک وقت اس کے پہلو میں اُتر گئے ۔لڑکیوں کی چیخیں سنائی دیں ۔مرد کسی کو آواز دینے لگے ۔تیروں کی ایک اور باڑ آئی جس نے دو مردوں کو گرا دیا۔ لڑکیاں جدھر منہ آیا، دوڑ پڑیں ۔ اُمِّ عرارہ اس شور و غل اور اپنے ارد گرد تڑپتے ہوئے اور خون میں ڈوبے ہوئے جسموں سے بے نیاز سر جھکائے بیٹھی تھی۔ چھاپہ مار بہت تیز دوڑتے آئے ۔چبوترے پر چڑھے اور اُمِّ عرارہ کو ایک نے اُٹھا لیا۔وہ ابھی تک نشے کی حالت میں باتیں کر رہی تھی۔ایک جانباز نے اپنا کرتہ اُتار کر اسے پہنا دیا ۔اسے لے کر چلے ہی تھے کہ ایک طرف سے بارہ حبشی برچھیاں اور ڈھالیں اُٹھائے دوڑتے آئے ۔چھاپہ مار بکھر گئے ۔ان میں چار کے پاس تیر کمانیں تھیں ۔انہوں نے تیر برسائے ۔باقی چھاپہ مار ایک طرف چھپ گئے اور جب حبشی آگے آئے تو عقب سے ان پر حملہ کردیا۔ایک تیر انداز نے کمان میں فلیتے والا تیر نکالا ۔فلیتے کو آگ لگائی اور کمان میں ڈال کر اوپر کو چھوڑ دیا۔تیر دُور اوپر جاکر رُکا تو اس کا شعلہ جو رفتار کی وجہ سے دب گیا تھا، رفتار ختم ہوتے ہی بھڑکا اور نیچے آنے لگا۔ میلے کی رونق ابھی ماند نہیں پڑی تھی ۔تماشایوں میں سے پانچ سو تماشائی میلے سے الگ ہوکر اس پہاڑی خطے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ انہیں دُور فضا میں ایک شعلہ سا نظر آیا جو بھڑک کر نیچے کو جانے لگا۔ وہ گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار ہوئے ۔ان کے کمان دار ساتھ تھے ۔پہلے تو وہ آہستہ آہستہ چلے تاکہ کسی کو شک نہ ہو ۔ذرا دُور جاکر انہوں نے گھوڑے دوڑادئیے ۔ تماشائی میلے میں شراب ، جوئے اور ناچنے گانے والی لڑکیوں اور عصمت فروش عورتوں میں اتنے مگن تھے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ ان کے دیوتائوں پر کیا قیامت ٹوٹ پڑی ہے ۔ چھاپہ مارنے اس خطرے کی وجہ سے آتشیں تیر چلا دیا تھا کہ حبشیوں کی تعداد زیادہ ہوگئی ،مگر فوج وہاں پہنچی تو وہاں بارہ تیرہ لاشیں حبشیوں کی اور دو لاشیں چھاپہ مار شہیدوں کی پڑی تھیں ۔وہ برچھیوں سے شہید ہوئے تھے۔ کمان داروں نے وہاں کاجائزہ لیا ۔پتھر کے منہ میں گئے اور تہہ خانے میں جاپہنچے ،وہاں انہیں جو چیزیں ہاتھ لگیں ،وہ اُٹھالیں۔اُن میں ایک پھول بھی تھا جو قدرتی نہیں ، بلکہ کپڑے سے بنایا گیا تھا۔ احکام کے مطابق فوج کو وہیں رہنا تھا،لیکن پہاڑیوں میں چھپ کر ۔چھاپہ ماروں نے اُمِّ عرارہ کو گھوڑے پر ڈالا اور قاہرہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ صبح طلوع ہوئی ۔ میلے کی رونق ختم ہوگئی تھی ۔بیشتر تماشائی رات شراب پی پی کر ابھی تک مدہوش پڑے تھے ۔دوکان دار جانے کے لیے مال اسباب باندھ رہے تھے ۔لڑکیوں کے بیوپاری بھی جارہے تھے ۔صحرا میں روانہ ہونے والوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں ۔ میلے کے قریب جو گائوں تھا وہاں کے لوگ بے تابی سے اس لڑکی کے بالوں کا انتظار کررہے تھے ،جسے رات قربان کیا گیا تھا۔اس قبیلے کے لوگ جودُور دراز دیہات کے رہنے والے تھے ،پہاڑی جگہ سے دور کھڑے دیوتائوں کے مسکن کی طرف دیکھ رہے تھے۔ ان کے بڑے بوڑھے انہیں بتارہے تھے کہ ابھی پروہت آئے گا۔ وہ دیوتائوں کی خوشنودی کا پیغام دے گا اور ان میں بال تقسیم کرے گا، مگر ابھی تک کوئی نہیں آیا تھا۔ دیوتائوں کے مسکن پر سکوت طاری تھا۔ اس منتظر ہجوم کو معلوم نہ تھا کہ وہاں فوج مقیم ہے اور اب وہاں سے دیوتائوں کا کوئی پیغام نہیں آئے گا…… دن گزرتا گیا۔ قبیلے کے جن نوجوانوں نے قربانی کی باتیں سنی تھیں ،انہیں شک ہونے لگا کہ یہ سب جھوٹ ہے ۔ دِن گزر گیا۔ سورج انہی پہاڑیوں کے پیچھے جا کر ڈوب گیا۔ کسی میں اتنی جرأت نہیں تھی کہ وہ وہاں جاکر دیکھتا کہ پروہت کیوں نہیں آیا۔ https://chat.whatsapp.com/CKAiMLH2THv43mjZbBfFda ''طبیب کو بلالائو''……سلطان ایوبی نے کہا…… ''لڑکی پر نشے کا اثر ہے ''۔ اُمِّ عرارہ اس کے سامنے بیٹھی تھی اور کہہ رہی تھی …… ''میں انگوک کی ماں ہوں ۔ تم کون ہو؟ تم دیوتا نہیں ہو۔ میرا شوہر کہاں ہے ۔ میرا سرکا ٹو اور دیوتا کو دے دو۔ مجھے میرے بیٹوں پر قربان کردو''……وہ بولے جارہی تھی ،مگر اب اس پر غنودگی بھی طاری ہو رہی تھی ۔اس کا سرڈول رہا تھا۔ طبیب نے آتے ہی اس کی کیفیت دیکھی اور اسے کوئی دوائی دے دی ۔ذر اسی دیر میں اس کی آنکھیں بند ہوگئیں ۔ اسے لٹا دیا گیا اور وہ گہری نیند سوگئی ۔سلطان ایوبی کو تفصیل سے بتایا گیا کہ پہاڑی خطے میں کیا ہوا اور وہاں سے کیا ملا ہے ۔اس نے اپنے نائب سالا الناصر اور بہائوالدین شداد کو حکم دیا کہ پانچ سو سوار لے جائیں ،ضروری سامان لے جلائیں اور اس بُت کو مسمار کردیں ، مگر اس جگہ کو فوج کے گھیرے میں رکھیں ۔حملے کی صورت میں مقابلہ کریں ۔اگر وہ لوگ دب جائیں اور لڑنہ سکیں تو انہیں وہ جگہ دکھا کر پیار اور محبت سے سمجھائیں کہ یہ محض ایک فریب تھا۔ شداد نے اپنی تحریر میں جو عربی زبان میں لکھی گئی تھی، اس واقعہ کو یوں بیان کیا ہے کہ وہ پانچ سو سواروں کے ساتھ وہاں پہنچا ۔راہنمائی اس فوج کے کمان دار نے کی جو پہلے ہی وہاں موجود تھا۔ سینکڑوں سوڈانی حبشی دُور دُور کھڑے تھے۔ان میں سے بعض گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار تھے ۔ ان کے پاس برچھیاں ،تلواریں اور کمانیں تھیں ۔ہم نے اپنے تمام تر سواروں کو اس پہاڑی جگہ کے اِرد گرد اس طرح کھڑا کردیا کہ ان کے منہ باہر کی طرف اور ان کی کمانوں میں تیر تھے اور جن کے پاس کمانیں نہیں تھیں ، ان کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں ۔خطرہ خون ریز لڑائی کا تھا۔ میں الناصر کے ساتھ اندر گیا۔ بُت کودیکھ کر میں نے کہا کہ فرعونوں کی یاد گار ہے ۔ حبشیوں کی لاشیں پڑی تھیں ۔ہر جگہ گھوم پھر کر دیکھا، دو پہاڑیوں کے درمیان ایک کھنڈر تھا ،جو فرعونوں کے وقتوں کی خوشنما عمارت تھی ۔دیواروں پر اُس زمانے کی تحریریں تھیں ۔ الفاظ لکیروں والی تصویروں کی مانند تھے ۔کوئی شبہہ نہ رہا کہ یہ فرعونوں کی جگہ تھی …… دیوار جیسی ایک پہاڑی کے دامن میں جھیل تھی ، جس کے اندر اور باہر دو دو قدم لمبے مگر مچھ تھے ۔ جھیل کا پانی پہاڑی کے دامن کو کاٹ کر پہاڑی کے نیچے چلا گیا تھا۔ پانی کے اوپر پہاڑی کی چھت تھی ۔جگہ خوف ناک تھی ۔ہمیں دیکھ کر بہت سارے مگر مچھ کنارے پر آگئے اور ہمیں دیکھنے لگے۔ میں نے سپاہیوں سے کہا، حبشیوں کی لاشیں جھیل میں پھینک دو، یہ بھوکے ہیں ۔وہ لاشیں گھسیٹ کر لائے اور جھیل میں پھینک دیں ،مگر مچھوں کی تعداد اکا اندازہ نہیں ،پوری فوج تھی ۔لاشوں کے سر باہر رہے اور یہ سر پانی میں دوڑتے پہاڑی کے اندر چلے گئے ۔پھر پروہت کی لاش آئی ۔اس نے دوسرے انسانوں کو مگر مچھوں کے آگے پھینکا تھا، ہم نے اسے بھی جھیل میں پھینک دیا……وہ سپاہی چار سوڈانی لڑکیوں کو لائے ۔وہ کہیں چھپی ہوئی اور عریاں تھیں۔کمر کے ساتھ ایک پتہ آگے اور پیچھے بندھاہواتھا۔میںنے اور الناصر نے منہ پھیر لیے ۔سپاہیوں ںسے کہا کہ انہیں مستور کرو۔ جب ان کے جسم کپڑوں میں چھپ گئے تو دیکھا کہ وہ بہت خوب صورت تھیں ۔روتی تھیں ،ڈرتی تھیں۔ہمارے ترجمان کو انہوں نے وہاں کا حال اپنی زبان میں بیان کیا جو بہت شرم ناک تھا۔مسلمان کو عورت ذات کا یہ حال برداشت نہیں کرنا چاہیے۔ عورت اپنی ہو، کسی اور کی ہو، کافر ہو ، اسلام اسے بیٹی کہتا ہے ۔ان چار لڑکیوں کا بیان ظاہر کرتا تھا کہ وہ فرعونوں کو خدا مانتی ہیں ۔ان کا قبیلہ انسان کو خدا مانتا ہے ۔ یہ جگہ خوش نما تھی ۔سارے صحرا میں سر سبز تھی ۔اندر پانی کا چشمہ تھا، جس نے جھیل بنائی ،درخت تھے، جنہوں نے سایہ دیا۔کسی فرعون کو یہ مقام پسند آیا تو اسے تفریح کا مقام بنایا ۔اپنی خدائی کے ثبوت میں یہ بُت بنایا۔ اس میں تہہ خانہ رکھا اور یہاں عیش کی ۔ آسمان نے کوئی اور رنگ دکھایا۔ سورج اُدھر سے اِدھر ہوگیا۔ فرعونوں کے ستارے ٹوٹ گئے اور مصر میں دوسرے باطل مذہب آئے ۔ آخر میں حق کی فتح ہوئی اور مصر نے کلمہ. *''🌹لا الٰہ الااللہ🌹 ''* سُنا اور خدا کے حضور سرخرو ہوا، لیکن کسی نے نہ جاناکہ باطل ان پہاڑیوں میں زندہ رہا۔ الحمد للہ ،ہم نے 🌹ﷲ سبحان و تعالٰی سے راہنمائی لی ۔ باطل کا یہ نقش بھی اُکھاڑا اور اس ریگزار کو پاک کیا۔ اس جگہ کو سواروں کے گھیرے میں لے کر فوج نے پتھر کے اس ہیبت ناک بُت کو مسمار کر دیا، چبوترہ بھی گرا دیا، تہہ خانہ ملبے سے بھر دیا۔ باہر سینکڑوں حبشی حیران اور خوف زدہ کھڑے تھے کہ یہ کیا ماجرہ ہے ۔ان سب کو بلاکر اندر لے جایا گیا کہ یہاں کچھ بھی نہیں تھا۔چاروں لڑکیاں اُن کے حوالے کی گئیں ۔چاروں کے باپ اور بھائی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے اپنی اپنی لڑکی لے لی ۔انہیں بتایا گیا کہ یہاں ایک بد کار آدمی رہتا تھا، وہ مگر مچھوں کو کھلا دیا گیا ہے ۔ان سینکڑوں حبشیوں کو اکٹھا بٹھا کر ان کی زبان میں وعظ دیا گیا۔ وہ سب خاموش رہے ۔انہیں اسلام کی دعوت دی گئی ۔وہ پھر بھی خاموش رہے ۔ کبھی کبھی شک ہوتا تھا، جیسے ان کی آنکھوں میں خون اُتر آیا ہے ۔ انہیں یہ الفاظ دھمکی کے لہجے میں کہے گئے…… ''اگر تم سچے خدا کو دیکھنا چاہتے ہو تو ہم تمہیں دکھائیں گے ۔اگر تم اسی جگہ کو جہاں تم بیٹھے ہو،اپنے جھوٹے خدائوں کا گھر کہتے رہو گے تو ہم ان پہاڑوں کو بھی ریزہ ریزہ کرکے ریت کے ساتھ ملادیں گے ،پھر تم دیکھو گے کہ کون سا خدا سچاہے''۔ اُ دھر قاہرہ میں اُمِّ عرارہ ہوش میں آچکی تھی ۔وہ اپنی داستان سنا چکی تھی ،جو اوپر بیان کی گئی ہے ۔کبھی وہ کہتی تھی کہ اس نے کوئی خواب دیکھا ہے ۔اُسے ساری باتیں یاد آگئیں تھیں ۔اس نے بتایا کہ پروہت اسے دِن رات بے آبرو کرتا تھا اور پھول کئی بار اس کی ناک کے ساتھ لگاتاتھا۔ اُمِّ عرارہ کو بتایا گیا کہ اس کی گردن کٹنے والی تھی ، اگر چھاپہ مار بروقت نہ پہنچ جاتے تو اس کا سر غار میں اور جسم مگر مچھوں کے پیٹ میں ہوتا۔نازک سی ، یہ حسین لڑکی خوف سے کانپنے لگی۔ اس کے آنسو نکل آئے اس نے سلطان ایوبی کے ہاتھ چوم لیے اور کہا……'' ﷲ نے مجھے گناہوں کی سزا دی ہے ،میں اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا چاہتی ہوں ۔ ﷲ کے لیے مجھے پناہ میں لے لیں ''…… اس کی ذہنی کیفیت بہت ہی بُری تھی ۔ اس نے شام کے ایک دولت مند تاجر کا نام لے کر کہا کہ وہ اس کی بیٹی ہے ۔یہ مسلمان تاجر تھا ۔ اس کا دوستانہ شام کے امیروں کے ساتھ تھا۔ اُس وقت کے امیر ایک ایک شہر یا تھوڑے تھوڑے رقبے کے خطوں کے حکمران ہوا کرتے تھے ،جو مرکزی امارت کے ماتحت تھے ۔مرکزی امارت ، مرکزی وزارت اور خلافت کے ماتحت ہوتی تھی ۔یہ امراء دسویں صدی کے بعد پوری طرح عیاشیوں میں ڈوب گئے تھے ۔بڑے تاجروں سے دوستی رکھتے تھے ، ان کے ساتھ کاروبار بھی کرتے اور رشوت بھی لیتے تھے ۔ ان کے حرموں میں لڑکیوں کی افراط رہتی اور شراب بھی چلتی تھی ۔ اُمِّ عرارہ ایسے ہی ایک دولت مند تاجر کی بیٹی تھی جو اپنے باپ کے ساتھ بارہ تیرہ سال کی عمر میں امراء کی رقص و سرور کی محفلوں میں جانے لگی تھی۔ باپ غالباً دیکھ رہا تھا کہ لڑکی خوب صورت ہے ،اس لیے وہ اسے لڑکپن میں ہی امراء کی سوسائٹی کا عادی بنانے لگا تھا۔ اُمِّ عرارہ نے بتایا کہ وہ چودہ سال کی ہوئی تو امراء نے اس میں دلچسپی لینی شروع کردی تھی ۔دو نے اسے بڑے قیمتی تحفے بھی دئیے ۔وہ گناہوں کی اسی دُنیا کی ہوکے رہ گئی۔ عمر کے سولہویں سال وہ باپ کو بتائے بغیر ایک امیر کی در پردہ داشتہ بن گئی ، مگر رہتی اپنے گھر میں تھی ۔ وہ دولت میں جنی پلی تھی ،شرم و حیا سے آشنا نہیں تھی۔ دو تین سال بعد وہ باپ کے ہاتھ سے نکل گئی اور آزادی سے دو اور امراء سے تعلقات پیدا کر لیے ۔ اس نے خوب صورتی ، چرب زبانی اور مردوں کو انگلیوں پر نچانے میں نام پیدا کرلیا ۔باپ نے اس کے ساتھ سمجھوتہ کرلیا۔گذشتہ چھ سال سے اسے ایک اور ہی قسم کی ٹریننگ ملنے لگی تھی ۔ یہ تین امراء نے مل کر سازش کی تھی، جس میں اس کا باپ بھی شریک تھا۔ اسے خلافت کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی ٹریننگ دی جارہی تھی ۔آگے چل کر اس سازش میں ایک صلیبی بھی شامل ہوگیا۔ یہ امراء خود مختار حاکم بننے کے خواب دیکھ رہے تھے ۔صلیبیوں کی مدد کے بغیر یہ ممکن نہ تھا۔ اُمِّ عرارہ کو نورالدین زنگی اور خلافت کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کے لیے بھی استعمال کیا گیا تھا۔ صلیبیوں نے اس مہم میں تین عیسائی لڑکیاں شامل کرکے ایک زمین دو زمحاذ بنا لیا۔ انہوں نے جب دیکھا کہ مصر میں صلاح الدین ایوبی نے نام پیدا کرلیا ہے اور اس نے دو ایسے کارنامے کر دکھائے ہیں، جس نے اسے مصر کا وزیر اور امیر نہیں ،بلکہ بادشاہ بنادیا ہے تو اُمِّ عرارہ کو خلیفہ العاضد کی خدمت میں تحفے کے طور پر بھیجا گیا۔اسے مہم یہ دی گئی کہ خلیفہ کے دِل میں صلاح الدین ایوبی کے خلاف دشمنی پیدا کرے اور سابق سوڈانی فوج کے جو چند ایک حکام فوج میں رہ گئے ہیں ،انہیں العاضد کے قریب کرکے سوڈانیوں کو ایک اور بغاوت پر آمادہ کرے۔ اسے دوسری مہم یہ دی گئی تھی کہ خلیفہ العاضد کو آمادہ کرے کہ سوڈانی جب بغاوت کریں تو انہیں ہتھیاروں اور ساز و سامان سے مدد دے اور اگر ممکن ہوسکے تو صلاح الدین ایوبی کی فوج کا کچھ حصہ باغی کرکے سوڈانیوں سے ملا دے ۔خلیفہ اور کچھ نہ کرسکے تو اپنا محافظ دستہ سوڈانیوں کے حوالے کرکے خود سلطان ایوبی کے پاس جاپناہ لے اور اسے کہے کہ اس کے محافظ باغی ہوگئے ہیں ۔مختصر یہ کہ صلاح الدین ایوبی کے خلاف ایسا محاذ قائم کرنا تھا جو اُسے مصر سے بھاگنے پر مجبور کردے اور باقی عمر گمنامی میں گزار دے ۔ اُمِّ عرارہ نے سلطان ایوبی کو بتایا کہ وہ مسلمان کے گھر پیدا ہوئی تھی ،لیکن باپ نے اسے مسلمانون کی ہی جڑیں کاٹنے کی تربیت دی اور سلطنتِ اسلامیہ کے اُمراء نے اپنے دشمنوں کے ساتھ مل کر اپنی ہی سلطنت کو تباہ کرنے کی کوشش کی ۔اس لڑکی نے خلیفہ العاضد کا دماغ اپنے قبضہ میں لے لیا اور سلطان ایوبی کے خلاف کردیا تھا۔ رجب کو وہ سازش میں شریک کرچکی تھی ۔رجب نے دو اور فوجی حکام کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔ رجب نے اس سلسلے میں یہ کام کیا کہ خلیفہ کے محافظ دستے میں وہ مصریوں کی جگہ سوڈانی رکھتا جارہا تھا۔ اُمِّ عرارہ کو خلیفہ کے پاس لائے ابھی دو اڑھائی مہینے ہوئے تھے ،وہ قصرِ خلافت پر غالب آگئی تھی اور حرم کی ملکہ بن گئی تھی ۔اس نے یہ انکشاف بھی کیا کہ خلیفہ سلطان ایوبی کو قتل کرانا چاہتا ہے اور رجب نے حشیشین سے مل کر قتل کا انتظام کر دیا ہے ۔ یہ محض اتفاق کی بات ہے کہ سلطان ایوبی نے خلیفہ کے بے کار وجود اور عیش پرستی سے تنگ آکر اس کے خلاف کاروائی شروع کردی تھی اور یہ بھی اتفاق تھا کہ اُمِّ عرارہ کو وہی لوگ اغوا کر کے لے گئے ،جنہیں وہ سلطان ایوبی کے خلاف لڑانا چاہتی تھی اور یہ اتفاق تو بڑا ہی اچھا تھا کہ سلطان ایوبی نے رجب سے محافظ دستے کی کمان لے لی اور وہان اپنی پسند کا ایک نائب سالار بھیج دیا تھا، مگر ان اتفاقات نے حالات کا دھارا موڑ کر سلطان ایوبی کے لیے ایک خطرہ پیدا کردیا۔ سلطان ایوبی نے اُمِّ عرارہ کو اپنی پناہ میں رکھا۔لڑکی بُری طرح پچھتا رہی تھی اور گناہوں کا کفارہ ادا کرنا چاہتی تھی۔ قدرت نے ایک ایسا دھچکہ دے کر اس کا دماغ درست کردیا تھا۔ سلطان ایوبی ٹھنڈے دِل سے سوچنے لگا کہ اس سازش میں جو حکام شامل ہیں ، ان کے ساتھ وہ کیا سلوک کرے۔ دوسرے دن الناصر اور بہائوالدین شداد فرعونوں کا آخری نشان مٹاکر فوج واپس لے آئے سلسلہ جاری ہے........ *▭▬▭▬▭▬▭▬▭▬▭▬▭▬▭* *https://chat.whatsapp.com/CKAiMLH2THv43mjZbBfFda* *▭▬▭▬▭▬▭▬▭▬▭▬▭▬▭* [ *یہ تحریر شئیر ضرور کریں*] *Important*👇 *انباکس میں بلا ضرورت میسج کرنے والوں کو بغیر وارننگ دیے گروپ سے ریمو کردیا جائے گا* Group Admin 👉 𝐒𝐲𝐞𝐝 𝐈𝐛𝐫𝐚𝐡𝐢𝐦 𝐒𝐡𝐚𝐡👈
❤️ 👍 🆕 🌹 👑 29

Comments