Children's world
Children's world
February 18, 2025 at 06:35 AM
*سیرت النبی ﷺ* *(قسط نمبر 78)* *یثرب (مدینہ)کی چھ سعادت مند روحیں:* *🌻=المعرفت منزل=🌻* آنحضرت ﷺ کا معمول تھا کہ قبائل کا دورہ فرماتے اور اسلام کی تبلیغ کرتے اور ہر سال منیٰ , عکاظ , مجنٰہ وغیرہ کے میلوں میں قبائل عرب کو دعوت دیتے.. حج کا زمانہ آیا تو قافلوں کے قافلے منیٰ کی وادی میں پڑاؤ ڈالنے لگے.. اہل مکہ نے رسول اللہ ﷺ کو جھٹلانے اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکنے کا جو بیڑا اٹھا رکھا تھا اس کے تئیں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکمت عملی یہ تھی کہ آپ ﷺ رات کی تاریکی میں قبائل کے پاس تشریف لے جاتے تاکہ مکے کا کوئی مشرک رکاوٹ نہ ڈال سکے.. اسی حکمت عملی کے مطابق ایک رات آپﷺ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ہمراہ لے کر باہر نکلے اور مکہ سے تین میل کے فاصلہ پر عقبہ کی گھاٹی میں پہنچے.. بنو ذُہل اور بنو شیبان بن ثعلبہ کے ڈیروں سے گزرے تو ان سے اسلام کے بارے میں بات چیت کی.. انہوں نے جواب تو بڑا امید افزا دیا لیکن اسلام قبول کرنے کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہ کیا.. اس کے بعد رسول اللہ ﷺ منیٰ کی گھاٹی سے گزرے تو کچھ لوگوں کو باہم گفتگو کرتے سنا.. آپﷺ نے سیدھے ان کا رخ کیا اور ان کے پاس جا پہنچے یہ یثرب(مدینہ) کے چھ جوان تھے اور سب کے سب قبیلۂ خزرج سے تعلق رکھتے تھے.. یہ اہل یثرب(مدینہ) کی خوش قسمتی تھی کہ وہ اپنے حلیف یہود مدینہ سے سنا کرتے تھے کہ اس زمانے میں ایک نبی بھیجا جانے والا ہے اور اب جلد ہی وہ نمودار ہوگا.. ہم اس کی پیروی کرکے اس کی معیت میں تمہیں "عادِ ارَم" کی طرح قتل کر ڈالیں گے.. آپ ﷺ نے ان سے دریافت کیا.. "آپ کون لوگ ہیں..؟" انھوں نے کہا کہ یثرب(مدینہ) سے آئے ہیں اور بنو خزرج سے تعلق ہے.. پھر آپﷺ نے پوچھا.. "کیا یہودیوں کے حلیف ہو..؟" عرض کیا کہ ہاں.. آپ ﷺنے فرمایا.. "کیا آپ لوگ میری کچھ باتیں سن سکتے ہیں..؟" وہ لوگ بیٹھ گئے.. آپ ﷺ نے انھیں اسلام کی دعوت دی اور قرآن مجید کی تلاوت فرمائی.. انھوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ تو وہی نبی ہےجسکا یثرب (مدینہ) کے یہودی تذکرہ کرتے رہتے ہیں اور یہ بھی کہا کہ دیکھو یہود ہم سے اس اولیت میں بازی نہ لے جائیں _ یہ کہہ کر سب نے ایک ساتھ اسلام قبول کرلیا.. ان چھ خوش نصیبوں کے نام یہ ہیں.. 1.. حضرت ابو امامہ اسعدبن زرارہ رضی اللہ عنہ.. خزرج کی شاخ بنی مالک بن نجّار سے تعلق تھا.. صحابہ میں سب سے پہلے ان ہی نے 1 ھ میں وفات پائی.. 2.. حضرت عوف بن حارث بن رفاعہ رضی اللہ عنہ.. بنی نجّار سے تعلق تھا اور "ابن عفراء" کہلاتے تھے.. بدر میں وفات پائی.. 3.. حضرت رافع بن مالک بن عجلان رضی اللہ عنہ.. بنی زریق کے معزز شخص تھے.. اس وقت تک جس قدر قرآن اتر چکا تھا , حضور ﷺ نے ان کو عنایت فرمایا.. اُحد میں شہید ہوئے.. 4.. حضرت قطبہ بن عامر بن حدیدہ رضی اللہ عنہ.. بنی سلمہ سے تعلق تھا.. 5.. حضرت عقبہ بن عامر بن نابی رضی اللہ عنہ.. بنی خزام بن کعب سے تھے.. 6.. حضرت جابر بن عبداللہ رُباب رضی اللہ عنہ.. بنی عبید بن عدی سے تھے.. ان افراد کا شمار دانشورانِ یثرب(مدینہ) میں ہوتا تھا.. انھیں اندازہ تھا کہ حال ہی میں اوس اور خزرج میں جو جنگ ہوئی تھی اس نے بڑی حد تک معاشرے کو پیس کر رکھ دیا تھا اس لئے وہ نہیں چاہتے تھے کہ مزید ایسی کوئی جنگ ہو.. اس لئے انھوں نے یہ توقع قائم کی کہ حضور اکرم ﷺ کی دعوت جنگ کے خاتمہ کا ذریعہ ثابت ہوگی.. چنانچہ انھوں نے کہا کہ ہم اپنی قوم کو اس حالت میں چھوڑ کر آئے ہیں کہ کسی اور قوم میں ان کے جیسی عداوت اور دشمنی نہیں پائی جاتی.. ہمیں توقع ہے کہ آپ ﷺ کی دعوت کے ذریعہ ﷲ تعالیٰ ان میں یکجہتی پیدا کرے گا اور یہ کہ موجودہ حالات آپﷺ کی تشریف آوری کے لئے سازگار نہیں.. ہم یثرب (مدینہ) جا کر آپ ﷺ کی بعثت کی خبر دینے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو آپﷺ کی دعوت کی طرف بلا کر ان کے سامنے دین اسلام پیش کریں گے اور آئندہ سال پھر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوں گے.. اس کے بعد وہ لوگ یثرب(مدینہ) واپس ہوئے اور ان کے ذریعہ گھر گھر اسلام کا چرچہ ہونے لگا۔۔۔۔ ============(باقی آئندہ ان شآءاللہ) سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
❤️ 👍 20

Comments