Fiction Studio Alliance
Fiction Studio Alliance
February 26, 2025 at 10:09 AM
پوسٹ پارٹم کرتے ہی پولیس نے کچھ کاروائی مکمل کرتے کشف کو زارون کے حوالے کیا۔ ”اپنے بھائی کو اتنی بڑی سزا کیوں دی؟ کوئی شکوہ تھا تو مجھ سے کہتیں، ایسے خاموشی سے منہ پھیرنے کی کیا ضرورت تھی“،اُس کے بے جان وجود کو کسی بھی اسٹیچر کے بجائے زارون نے اپنے بازؤں میں اُٹھایا۔ ”بس ایک بار آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھ لو۔ دیکھو کیسے تمہاری موت نے تمہارے بھائی کو شکست دے دی ہے“،اُسے اپنی گود میں اُٹھائے زارون نے حسرت سے اُس کی بند آنکھوں کو دیکھا۔ ”میں تمہارا قرض دار ہوں، روز محشر جب تمہیں اذیت دینے والوں کے نام پکارے جائیں تو تم اپنی زبان سے اپنے بھائی کا نام لینا اور شکایت کرنا کہ اُس نے تمہاری حفاظت نہیں کی“،برادشت کی انتہا پر پہنچتے زارون نے اُس کے چہرے کو اپنے سینے سے لگایا۔ ..... ”لگتا ہے بھائی آگئے ہیں“،دروازے پہ دستک کی آواز پہ دعا نے جلدی سے اپنا دوپٹہ ٹھیک کرتے پاؤں میں جوتے پہنے اور دروازہ کھولنے کے لیے باہر کی جانب بھاگی تو ہادیہ اور ردا بھی اُس کے پیچھے ہی باہر آئیں۔ ”بھائی آپ نے اتنی دیر لگا دی“،اُس کے بازوؤں میں سفید چادر میں لپٹے وجود پہ نظر پڑتے ہیں دعا نے اپنی بات ادھوری چھوڑی۔ ”سو گئی ہے کیا؟“زارون کے چہرے کی شکستہ حالی دعا کو کسی غیر معمولی بات کا احساس دلا رہی تھی جسے پس پشت ڈالتے اُس نے سائیڈ پہ ہوتے اُسے اندر آنے کا راستہ دیا۔ ”بھائی کیا ہوا؟ اور یہ کشف مجھ سے مار کھائے بغیر کیسے سو سکتی ہے؟“اُس نے صحن میں موجود چارپائی پہ احتیاط سے اُس وجود کو رکھا تو دعانے اُس کی خاموشی پہ خود ہی آگے بڑھتے بہن کے چہرے سے کپڑا ہٹایا۔ ”کشف.....“اُس کی سپید رنگت اور بند آنکھیں مقابل کو وحشت میں ڈال چکی تھی۔ ”ک....ش...ف؟ بھائی اسے کیا ہوا ہے؟ یہ آنکھیں کیوں نہیں کھول رہی؟کشف...میری جان آنکھیں کھولو، اللہ کا وعدہ میں تمہیں نہیں ڈانٹوں گی۔ اپنی آپی کی طرف دیکھو“،اُس کا چہرہ اپنی طرف کرتے دعا کو اُس کے بے جان وجود کا احساس ہوا۔ ”ایسا نہیں ہو سکتا.....“جلدی سے چارپائی سے اُٹھتے اُس نے بے یقینی سے نفی میں سر ہلایا۔ ”آپ تو اسے زندہ لینے گئے تھے نا؟ تو یہ سب کیا ہے؟“پلٹ کر زارون کا گریبان پکڑتے دعا نے چیختے ہوئے سوال کیا تو ہادیہ اور ردا جو ابھی تک برآمدے میں ہی کھڑی تھیں جلدی سے اُن دونوں کے قریب آئیں۔ ”مجھے معاف کر دو، میں نے کشف تک پہنچنے میں بہت دیر کر دی“،آنکھوں میں نمی لیے زارون نے اُس کے دونوں بازو تھامے جو صدمے کے اثر زیر پتھرائی ہوئی نظروں سے اُسے دیکھ رہی تھی۔ ”میں اس کی حفاظت نہیں کر سکا“،نظروں میں شرمندگی لیے زارون کے الفاظ نے اُس کی زبان کا ساتھ چھوڑا تو اُس نے دعا کا سر اپنے سینے سے لگایا جواس اچانک پڑی افتاد پہ بالکل ساکت ہوچکی تھی۔ ”بھائی، کیا ہوا ہے کشف کو؟“ایک نظر چارپائی پہ پڑے بے جان وجود پہ ڈالتے ہادیہ نے آنکھوں میں نمی لیے گھٹی ہوئی آواز میں پوچھا تو زارون نے آگے بڑھتے اُن دونوں کو بھی اپنے حصار میں لیتے حوصلہ دیا۔ ”بس اس وقت ہم سب کو صبر سے کام لینا ہے“،اُن کے سر پہ ہاتھ رکھتے زارون نے اس وقت باپ اور بھائی دونوں کا فرض نبھاتے بہنوں کو سنبھالا جو کشف کی موت کا سنتے ہی زار وقطار رونے لگی تھیں۔ https://novelistan.pk/2024/08/07/aaramesh-e-qalb-by-zaroon-ali/
👍 ❤️ 😢 6

Comments