
Science ki Duniya سائنس کی دُنیا
February 28, 2025 at 12:51 PM
اُلو بنایا، بڑا مزہ آیا !!!
ایک وائرس آپ سے کیا چاہتا ہے ؟ بس دو بول پیار کے...!!! نہیں نہیں اصل میں وائرس کی نظر ہوتی ہے آپکی "بائیو کیمکل مشینری" پر۔
دیکھیں ایک وائرس کے پاس دو ہی چیزیں ہوتی ہیں ایک اسکا جینیاتی مادہ اور دوسرا پروٹین۔ بیچارہ وائرس چاہتا ہے کہ اپنی نسل آگے بڑھائے، یعنی اپنے جیسے اور بنائے، اپنی تعداد بڑھائے۔ لیکن یہ کام صرف جینیاتی مادے اور پروٹین کے ساتھ نہیں ہوسکتا، اس کے لیے وائرس کو ایک ایسا ماحول چاہیے جہاں ایسی چیزیں موجود ہوں جنہیں استعمال کرتے ہوئے وہ اپنے جینیاتی مادے کے ذریعے اپنی کاپیاں بنا کر اپنی تعداد بڑھائے۔
ایسا ماحول اسے ایک زندہ خلیے کے اندر ملتا ہے، اس لیے وائرس انسانوں، جانوروں، پودوں یہاں تک کہ بیکٹیریا پر حملہ آور ہوکر ان کے خلیوں میں داخل ہوجاتے ہیں اور وہاں اپنی تعداد بڑھانے لگتے ہیں۔ جس سے وائرس کا تو بھلا ہوجاتا ہے لیکن جسم میں یوں وائرس کی تعداد بڑھنے اور پھلنے پھولنے سے ہم بیمار ہوجاتے ہیں،
جیسا کہ پہلے بتایا کہ وائرس کے پاس اپنا جینیاتی مواد ہوتا ہے، اور یہ جینیاتی مواد وہ اپنی اگلی نسل کو بھی منتقل کرتا ہے، اس لیے ایک وائرس ایک خلیے میں آنے کے بعد اپنے جینیاتی مادے کی کاپیاں بنانے لگتا ہے اور انہیں اپنی اگلی نسل میں منتقل کرتا ہے۔
وائرس کا جینیاتی مادہ (ڈی این اے) انسان اور باقی جانداروں کے جینیاتی مادے کی طرح ایک زنجیر نما چیز ہوتی ہے، اور جس طرح زنجیر اپنی کڑیوں سے مل کر بنی ہوتی ہے، اسی طرح ڈی این اے بھی خاص کڑیوں سے مل کر بنا ہوتا ہے جنہیں "نیوکلیوٹائیڈ" (nucleotide) کہتے ہیں۔
تو جینیاتی مادہ بنانے کے لیے وائرس کو ان کڑیوں یعنی نیوکلیوٹائیڈ کی ضرورت ہوتی ہے، تو پہلے وائرس کچھ ایسے انزائم بناتا ہے جو نیوکلیوٹائیڈ بنانے کا کام کریں اور پھر ان سے وائرس کا ڈی این اے بنائیں۔
یہاں پر ہماری یہ دوائی (اور اس جیسی اور) کام آتی ہے۔ یہ دوائی ایک "nucleotide analogue" ہے۔ یعنی اس کی ساخت/بناوٹ ایک نیوکلیوٹائیڈ (dGTP) سے ملتی ہے، لیکن اسکی صرف شکل ویسی ہے، کام بلکل بھی ویسا نہیں۔
تو وائرس نے جو جینیاتی مادے کی کاپیاں تیار کرنے والا انزائم بنایا ہوتا ہے، وہ غلطی سے وائرس کے بننے والے جینیاتی مواد میں اس ضروری نیوکلیوٹائیڈ کی جگہ ہماری اس دوائی کو فٹ کردیتا ہے۔ نتیجۃً وائرس کا بننے والا جینیاتی مادہ ناکارہ ہوجاتا ہے اور وائرس کی نسل تیار نہیں ہو پاتی۔ بیچارے وائرس کی حالت پر شعر یاد آیا کہ
؎ آدمی جان کے کھاتا ہے محبت میں فریب
خود فریبی ہی محبت کا صلہ ہو جیسے
لیکن یہاں یہ سوال بھی اٹھ سکتا ہے کہ پھر کیا یہ دوائی انسانی جینیاتی مادہ بننے کے عمل کو بھی متاثر کر سکتی ہے ؟ کیونکہ انسانی خلیے بھی تو اپنے جیسے نئے خلیے بناتے ہیں اور اس کے لیے اپنا جینیاتی مادہ بھی نیا بناتے ہیں ؟ اصل میں یہ دوائی اپنی ایکٹیو حالت میں نہیں ہوتی، اور اس کو ایکٹیو کرنے کا کام بھی وائرس کا بنایا ہوا ہی ایک انزائم ( vTK) کرتا ہے، اس لیے جن خلیوں میں وائرس اپنی کاروائی نہیں کر رہا ہوتا، وہاں یہ اپنی ایکٹیو حالت میں نہیں آتی۔
یہ دوائی "ہرپیز وائرس" کے لیے ہوتی ہے، اور مختلف وائرسوں کے لیے اس طرح کام کرنے والی مختلف ادویات موجود ہیں۔ ان کے علاؤہ دوسرے طریقوں سے کام کرنے والی "اینٹی وائرل" ادویات بھی موجود ہیں، اور بہتر سے بہتر کی تلاش بھی جاری ہے۔
ساتھ ہی جاری ہے جسم اور ادویات کے کام پر میری تحریریں، جو میری ان دلچسپی کے موضوعات کو بیان کرنے کا ایک ذریعہ ہیں، نہ کہ آپکو کسی دوائی کا بغیر ڈاکٹر کے مشورے کے استعمال کرنے کی تجویز، لہذا ایسا کرنے سے پرہیز کریں۔۔۔
#وارث_علی

❤️
4