Science ki Duniya سائنس کی دُنیا
Science ki Duniya سائنس کی دُنیا
February 28, 2025 at 12:52 PM
شوخی شوخی میں، میں نے دونوں سٹرکچر بھی بنا لئے (حسبِ معمول لکھائی اور ڈرائنگ گندی ہی نکلی)۔ جس میں اوپر والا سٹرکچر اس dGTP کا ہے، جو اصل میں وائرس کے ڈی این اے میں ہونا چاہیے تھا، یعنی زنجیر (ڈی این اے) کی ایک کڑی۔ جبکہ نیچے والا سٹرکچر ہماری دوائی کی ایکٹیو حالت کا ہے (acyclovir-TP)۔ دونوں سٹرکچرز میں کافی مماثلت ہے، اسی لیے وائرس کا ڈی این اے بنانے والا انزائم ہماری دوائی کو اپنے نیوکلیئوٹائیڈ/نیوکلیئوسائیڈ کے طور پر استعمال کرلیتا ہے۔ لیکن دونوں میں جو سب سے زیادہ ضروری فرق ہے وہ ہے اس OH گروپ کا، جو میں نے dGTP میں سرخ رنگ سے بنایا ہے۔ جس طرح بتایا کہ ڈی این اے کڑیوں سے مل کر بنی ہوئی زنجیر کی صورت میں ہوتا ہے، تو ہر کڑی کے ساتھ جو اگلی کڑی جڑتی ہے وہ اس OH گروپ کے ساتھ جڑتی ہے۔ جبکہ ہماری دوائی (نیچے والا سٹرکچر) میں یہ OH گروپ موجود نہیں، اس لیے جہاں ہماری یہ دوائی وائرس کے ڈی این اے کی زنجیر میں ایک کڑی کی صورت جڑ گئی، اس سے آگے مزید کڑیاں نہیں جڑ پائیں گی کیونکہ اگلی کڑی (نیوکلیئوٹائید) کو جڑنے کے لیے OH گروپ ہی نہیں ملے گا اور یوں ڈی این اے مکمل نہیں بن پائے گا۔۔۔ #وارث_علی
Image from Science ki Duniya سائنس کی دُنیا: شوخی شوخی میں، میں نے دونوں سٹرکچر بھی بنا لئے (حسبِ معمول لکھائی اور ...
👍 ❤️ 6

Comments