Novels Ki Duniya📚🌐🖤
Novels Ki Duniya📚🌐🖤
February 27, 2025 at 05:14 AM
ناول نیم؛؛ زندگی تجھے جی نہیں رھے گزار رھے ھیں ہم؛؛ رائٹر نیم؛؛ فاطمہ زیڈ ڈی؛؛؛ قسط؛؛12،،، اسلام علیکم میری جان کیسی طبیعت ہے اب تمھاری۔۔۔ حدید آفس سے آتے ہی روم میں ماہی کے پاس گیا تھا ۔۔۔۔۔۔ جاتے جاتے رضیہ سے ماہی کے کھانے کا پوچھا اور اپنے کھانے سےمنع کیا وہ باہر سے کھا کر آیا تھا اس لیے بھوک نہیں تھی تو منع کر گیا رضیہ کے بتانے پر کے ماہی نے سوپ پی لیا تھا کچھ دیر پہلے تو حدید مطمن ہوتا روم میں چلا آیا تھا۔۔۔۔۔۔ اس کے چہرے کو نرمی سے اپنے ہاتھوں کی گرفت میں لیے پوچھا۔۔۔۔ ماہی جو آنکھیں بند کیے جانے کن سوچوں میں ڈوبی تھی اس کا لمس چہرے پر محسوس کرتے کانپ سی گی۔۔۔۔۔ آنکھیں جو بند تھی اور زور سے میچ لی۔۔۔۔۔۔ اس کی حرکت پر حدید مسکرائے بغیر نا رھ سکا۔۔۔۔۔ جان میں جانتا ہوں تم جاگ رھی ہو میں تو تمھاری سانس تک گن لیتا ہوں تو کیا تمھارے سونے جاگنے کا پتہ نہیں لگے گا مجھے۔۔۔۔۔ اس کے چہرے پر جھکتےسرگوشی نما آواز میں بولا ۔۔۔۔۔۔ ماہی اسےاپنے اتنا قریب محسوس کر رھی تھی یہ جان کر ہی لرزنے لگی تھی سانس ایتھل پتھل ہونے لگی تھی۔۔۔۔ ویسے جان میں کچھ لایا ہوں تمھارے لیے مسکراتے بولا ۔۔۔۔۔۔ پوچھو گی نہیں کیا اسے ہنوز چت لیٹے آنکھیں زور سے میچے دیکھ کر بولا۔۔۔۔ ماہی نے آہستہ سے آنکھیں کھولی اور کمرے میں نظردوڑائی تو اسے حدید کہیں نہیں نظر آیا تو سکھ کا سانس لیا۔۔۔۔۔۔ اس کا یہ سکون بس دوپل کا تھا جب اچانک ماہی کو اپنی گردن پر حدید کے ہاتھ کی حرکت محسوس ہوئی جھٹکے سے آنکھیں کھولی تو حدید کو اپنے بلکل ساتھ لیٹے دیکھ کر اس کی سانس تھم گی دل اتنی تیزی سے دھڑک رھا تھا جیسے ابھی باہر آجائے گا۔۔۔۔۔۔ تم کیا سمجھی میں تمھیں سوتی ہوئی سمجھ کر چلا گیا کیا اتنا آسان ہےمجھ سے بچنا ہمم آہستہ آہستہ اس کی گردن سے اب اس کے ہاتھ کا رخ ماہی کے چہرے کی جانب تھا اس کی گال پر نرمی سے لکیرے بناتے بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اف تمھاری یہ سہمی ہوئی معصوم صورت اور یہ آنکھوں میں میرا خوف اور اس خوف سے کانپتا تمھارا وجود جانتی ہو کتنا مزہ دیتا ہے مجھے۔۔۔۔۔۔ اس کی گردن میں چہرا چھپاتے دھیمے لہجے میں بولتے ماہی کا کا سانس سوکھا رھا تھا وہ۔۔۔۔۔۔ وہ بغیر کسی حرکت کے چت لیٹی مٹھیوں میں بیڈ شیٹ دبوچے اپنی ناہموار سانسوں کو سنبھالنے کی کوشش میں ہلکان ہو رھی تھی۔۔۔۔۔۔ حدید نے آہستہ سے اپنا چہرہ اٹھا کر اس کےسرخ پڑتے چہرے کو دیکھا دلچسپی اس کے چہرے پر بدلتے رنگوں دیکھتے اس کی نظر نے ماہی کے نازک ہونٹوں تک کاسفر کیا۔۔۔۔۔۔ نرمی سے ہاتھ بڑھا کر اس کے ہونٹوں کو چھونے لگاپھر اچانک اس کے چہرےپر جھکتے اس کے ہونٹوں کو اپنی گرفت لیتے اس کی سانسوں کو اپنے اندر اتارنے لگا۔۔۔۔۔ ماہی کا سانس اٹکا تھا آنکھیں زور سے میچ لی تھی چادر پر ہاتھوں کی گرفت اور سخت ہو گی تھی۔۔۔۔۔۔ کافی دیر اس کی سانسوں پر اپنا قبضہ جمائے رکھنے کے بعد جب اسے ماہی کی سانسیں اکھڑتی محسوس ہوئی تو آہستہ سےاسے چھوڑتے پیچھےہوا۔۔۔۔۔ اس کے ہٹتے ہی ماہی آنکھیں میچے گہرے گہرے سانس لیتی اپنےتنفس کو بھال کرنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔۔۔۔ حدید مسکرتے اس کوسرخ پڑے چہرے کے ساتھ گہرےسانس لیتے دیکھنے لگا۔۔۔۔۔۔ جب کچھ دیر بعد اس کا تنفس کچھ بھال ہوا تو حدید پھر سے کے اوپر جھکاتے اسے اپنے سائے میں بلکل چھپا گیا۔۔۔۔۔۔ حدید کو واپس اپنے اوپر جھکتے دیکھ کر ماہئ کی حالت غیر ہونے لگی تھی بھاری ہوتی سانسوں سے فقت سر نفی میں ہلا سکی تھی وہ۔۔۔۔۔۔ اس کے نفی میں ہلتے سر کو دیکھ حدید کے چہرے کا رنگ پل میں بدلا تھا۔۔۔۔۔ شش۔۔۔۔۔ نہیں ڈئیرماہی کوئی مزحمت مت کرنا بس مجھے کرنے دو جو میں میں چاھتا ہوں تمھاری ہر سانس پر بس میرا قبضہ ہونا چاھیے تمھارےوجود پر صرف میرا حکم چلے گا تمھارے وجود پر صرف میری پرچھائی ہو گی گی سمجھی۔۔۔۔۔ اور تم جانتی ہو نا مجھے میرے کام میں مداخلت پسند نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ سرد لہجے میں بولتے اس کی روح تک کو کانپنے پر مجبور کرگیا تھا وہ ماہی کو اپناوجود شل ہوتا محسوس ہو رھا تھا چند آنسو اس کی آنکھوں سے ٹوٹ کر تکیے میں جذب ہوئے تھے۔۔۔۔۔۔ بولو جاناں معلوم ہے ناآہستہ سے اس کی شفاف گردن پر انگیاں چلاتے سرد لہجے میں بولا ۔۔۔۔۔۔ ج۔جی بہت آہستہ آواز میں جواب دیا۔۔۔۔۔۔ کیا مجھے سنائی نہیں دیا پھر سے بولو جاناں۔۔۔۔۔ اس کی حالت سے محضوظ ہوتے بولا۔۔۔۔۔ جج۔جی س۔سائیں ماہی نے اپنی سسکی کو دباتے مشکل سے الفاظ ادا کیے ۔۔۔۔۔ ہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔ حدید نے اس کے جواب پر فلگ شگاف قہقہ لگایا۔۔۔۔۔ یہی یہی چیز میں دیکھناچاھتا ہوں اپنی ماہی میں تمھاری یہی فرمابرداری میرے دل کو چھو جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہستے ہوئے اس کے چہرے کو اپنی نظروں کے حصارے میں لیے بولا۔۔۔۔۔۔ اچھا بتاو ایک اچھی بیوی کا کیا کام ہوتا ہے اس کی گال کو سلھاتے پوچھا آنکھوں میں عجیب وحشت چھائی ہوئی تھی جیسے دیکھنے کی ہمت ماہی میں نہیں تھی ۔۔۔۔۔۔۔ بولو جاناں جواب دو ۔۔۔۔۔ آواز میں سرد مہری لیے بولا۔۔۔۔۔ ہاتھ ہنوز ماہی کے چہرے اور گردن پر حرکت کر رھا تھا جو اب آہستہ آہستہ نیچے کی طرف سفر کر رھا تھا جس سے ماہی کو اپنی جان نکلتی محسوس ہو رھی تھی۔۔۔۔۔ اا۔اپنے ش۔شوہر کی ہہ۔ہر بب۔بات مانا اا۔ان کک۔کی فف۔فرمابرداری کک۔کرنا۔۔۔۔ حدید کی آواز میں موجود سرد پن سے مزید خوف ذدہ ہوتے اٹک اٹک کر بولی ۔۔۔۔ گڈ واہ میری جان تو بہت جلدی سیکھ گی اسی خوشی میں جو میں لایا ہوں تمھارے لیے آج وہ جلدی تمھیں دوں گاایک سرپرائز ہے جو تمھارے ٹھیک ہونے کے بعد تمھیں ملے گا مسکراتے بولا۔۔۔۔۔۔ اس کی بات پر وہ یوں ہی خاموشی سے لب سیے ہی لیٹی رھی۔۔۔۔۔ جس پرحدید کچھ دیر اسے دیکھتے رھنے کے بعد بلکل اچانک ماہی کے بالوں میں ہاتھ پھنساتے اس کے چہرہ کے قریب اپنی چہرا کر گیا۔۔۔۔۔ ادھر دیکھو میری طرف میری آنکھوں میں دیکھو ماہی۔۔۔۔ آنکھوں میں بھرپور وحشت لیےعجیب پراسرار سی آواز میں بولا۔۔۔۔۔ ماہی کو تکلیف سے اپنا سر پھٹتا محسوس ہوا جیسے ابھی کوئی نس پھٹ جائے گی تکلیف کو با مشکل برداشت کرتےماہی نے اس کے حکم پر ڈرتے ڈرتے پلکیں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔۔۔۔۔ اس دن میرے منع کرنے کے باوجود تم بیڈ سے کیوں اٹھی تھی بلکل اچانک دو دن پہلے ہونے والے واقعے کےبارےپوچھا ماہی کو اندازہ نہیں تھا یہ بات حدید کو ابھی تک یاد ہوگی حدید کی آواز کا سرد پن آنکھوں میں چھائی وحشت دیکھتے ماہی کا سانس روک سا گیا تھا۔۔۔۔۔ حدیدکی آنکھوں میں دیکھنا ماہی کے لیے کبھی آسان نہیں رھاتھا اس کی آنکھوں میں چھائی وحشت سے ماہی کو اپنا وجود چھلنی ہوتا محسوس ہوتا تھا پل میں آنکھیں جھکی تھی۔۔۔۔۔ ادھر دیکھو جواب دو میری بات کاماہی کے بالوں میں پھنسائی انگلیوں سے جھٹکا دیا تھا اس کے سر کو۔۔۔۔۔ آہ۔۔۔۔۔ درد کی ٹھیسیں اٹھی تھی اس کے پٹی میں بندھے سر میں جس پر وہ کراہ کررھی گی تھی۔۔۔۔۔ اس کے کراہنے پر حدید شاہ پل میں جیسے ہوش کی دنیا میں لوٹا تھا۔۔۔۔۔ کیا ہوا ماہی سوری درد ہو رھا میری جان کو کتنی بار کہا ہے جاناں مجھے تنگ مت کیا کرو نا غصہ دلایا کرو جانتی ہو نا تمھارے حق میں یہ بہتر نہیں۔۔۔۔۔ عجیب پراسرار سا شخص تھا حدید شاہ پیار فکر بھی کرتا تھا مگر جنونی انداز میں اس کی فکر پیار محبت بھی ماہی کے لیے صرف تکلیف کا بعص ہی بنتی تھی ان میں بھی ایک جنون ساہوتا تھا جو ماہی کو صرف تکلیف سے دوچار کرتا تھاماہی کے لیے اس کے ہرانداز میں سوائے تکلیف کے اور کچھ نہیں تھا۔۔۔۔۔ اچھا سوری ریلیکس ہو جاو اب کچھ نہیں کہوں گا بس مجھے ڈسٹرب مت کیا کرو اوکے پیار سے اس کے چہرے کو تھپکتے بولا۔۔۔۔۔ اور آہستہ سے اس کی گردن میں چہرا چھپا گیا کچھ ہی دیر میں نائٹ بلب کی روشنی پورے روم میں پھیل گی اور روم میں معنی خیزی سی خاموشی چھا گی جس میں صرف ماہی کی بھاری سانسوں کے ساتھ مدھم سی سسکیوں کی آوازتھی جو اس خاموشی میں بھی دبتی جارھی تھی وہ کوئی بھی مزحمت کیےبغیر لیٹی بس سسک ہی سکی تھی۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج الحان کی مہندی تھی سب تیار سے لون میں موجود تھے جہاں فنکشن کا انتظام کیا گیا تھا۔۔۔۔۔ الحان خوشی سے دمکتا چہرہ لیے سٹیج پر بیٹھا تھا جہاں سب اسے مہندی لگا کر رسم کر رھے تھے۔۔۔۔۔ آمنہ۔۔۔۔۔ پریشے نے سٹیج کی طرف جاتی آمنہ کو پکارا۔۔۔۔ جی آپی آمنہ پریشے کے پکارنے پر پلٹ کر اس کے پاس آبیٹھی۔۔۔۔۔ آمنہ منہا کہاں ہے نظر نہیں آرھی پریشے نے فکر مندی سے پوچھا ۔۔۔۔۔ اپنے روم ہے آپی آمنہ نے بےزاری سے جواب دیا ۔۔۔۔ کیوں وہاں کیا کر رھی ہے اسے تو اس وقت یہاں ہونا چاھیے تھا پریشے نے اچنبھے سے پوچھا۔۔۔۔۔ مجھے کیا پتہ آپی ویسے بھی وہ ہمیں کچھ بتا کر تھوڑی کرتی ہے اپنی مرضی کی مالک ہے بھئ کیا کہہ سکتے ہیں آمنہ نے تلخ لہجے میں کہا۔۔۔۔۔ اچھا بس کرو تم ہر وقت نا شروع ہو جایا کرو جاو تم میں دیکھتی ہوں پریشے آمنہ کو ڈانٹتے بولی۔۔۔۔ ہاں جی میں ہی شروع ہوتی ہوں اسے کوئی کچھ نا کہہ یہ زیادہ سر چڑھانے کا نتیجہ ہی ہے آمنہ سٹیج کی طرف اشارہ کرتی بولی جہاں الحان ہر چیز فرموش کیے اپنی ہی خوشی میں گم بیٹھا مہندی کی رسم کروا رھا تھا۔۔۔۔۔۔ پاس سے گزرتی مریم بیگم کے کانوں تک بھی آمنہ کی بات پہنچی تھی وہ بھی ان کی طرف ہی چلی آئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہوا ہے اب کیا کیا ہے اس نے مریم بیگم نے ناگواری سے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔ کچھ نہیں امی وہ منہا کمرے سے نہیں نکل کر آئی فنکشن میں تو بس اسی کی بات کر رھی تھی پریشے نے کھڑے ہوتے کہا۔۔۔۔۔ مریم بیگم نے آس پاس نظردوڑا کر دیکھا جہاں ان کو منہا کہی نہیں نظر آئی۔۔۔۔ میں دیکھ کر آتی ہوں مریم بیگم ان سے کہتی منہا کے روم کی طرف بڑھ گی ۔۔۔۔۔ ان دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا جیسے کہہ رھی ہو اب کیا ہونے والے ہے۔۔۔۔۔۔ مریم بیگم نے جیسے ہی دورازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھا دروازہ کھولتا چلا گیا کمرےمیں گھپ اندھیرا تھا مریم بیگم نے آگے بڑھ کر لائٹ آن کی تو سامنے ہی منہا بیڈ پر الٹی لیٹی ہوئی تھی بال رف سے جوڑے میں مقید تھے بکھری سی حالت میں لیٹی ہوئی تھی۔۔۔۔۔ مریم بیگم کو اس کی حالت دیکھ کر مزید غصہ آیا وہ صرف مہمانوں کی وجہ سے اسے بولانے آئی تھی جانتی تھی کسی اور کے کہنے پر نہیں نکلے گی روم سے اس لیے خود ہی چلی آئی۔۔۔۔۔ مگر سامنے اس کی حالت دیکھ کر ان کو مزید تپ چڑھی غصے سے آگے بڑھ کر بازو سے پکڑ کر جھٹکے سے اٹھایا۔۔۔۔ اٹھو اب یہاں منہ چھپا کر کیوں پڑی ہو نکلو باہر اور دیکھو اپنی کیے کا انجام بھی غصے بولتے اسے جھٹکے سے کھڑا کیا۔۔۔۔ مگر اگلے ہی پل منہا ان کے ہاتھوں میں جھول گی یہ دیکھ کر مریم بیگم بوکھلا ہی گی ۔۔۔۔۔۔ منہا کے روم کے سامنے سے گزرتے احمد صاحب نے بھی یہ منظر باخوبی دیکھا تھا فورا سے وہ بھی منہا کی طرف لپکے تھے۔۔۔۔۔ کیا ہوا اسے پریشانی سے اسے بیڈ پر لیٹاتے بولے۔۔۔۔ پتہ نہیں میں تو بس اسے لینے آئی تھی مگر جب میں نے پکڑ کر کھڑا کیا تو بےہوش ہو گی۔۔۔۔۔ احمد صاحب نے آگے بڑھ کر پہلے منہا کا ماتھا چھو کر دیکھا پھر پانی کا گلاس لے کر اس کے چہرے پر چھینٹے مارنے لگئ دس پندرہ منٹ کی محنت کے بعد آہستہ سے اس کی بند پلکوں میں جبش ہوئی تھی۔۔۔۔۔ نن۔نہیں پلیز نن۔نہیں اا۔امی اابو نن۔نہیں مم۔میں۔مم۔مرجاوں گگ۔گی آآپ کک۔کے بب۔بغیر۔۔۔۔۔۔۔ منہا نیم بےہوشی میں آہستہ آہستہ بڑبڑاتے بول رھی تھی۔۔۔۔۔ مریم بیگم اور احمد صاحب نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر مریمبیگم نے جلدی سے کمرے کا دروازہ بند کیا اور اندر سے لاک لگا کر اس کئ طرف بڑھی۔۔۔۔ احمد صاحب بس خاموشی سےان کی کاروائی دیکھ رھے تھے۔۔۔۔ مریم بیگم نے طیش کے عالم میں آگے بڑھتے منہا کو بازو سے پکڑے جھنجھوڑتے ہوئے اٹھایا۔۔۔۔۔ اٹھو منہا کیا تماشا لگا رکھا ہے اب یہ تم نے کیا چاھتی ہو گھر آئے مہمانوں کے سامنے شرمندہ کروانے کا ارادہ ہے کیا اب ہمیں۔۔۔۔۔ غصے سے بولتی اسے جھنجھوڑے جا رھی تھی۔۔۔۔۔ کسی کے یوں جھنجھوڑنے پر منہانے ہڑبڑتے آنکھیں کھولی۔۔۔۔ سامنے ماں باپ کو دیکھ کر منہا کی روح قبض ہوئی تھی اپنے آپ کو سنبھالتے سر پر دوپٹہ سیٹ کرتے جلدی سے کھڑی ہوئی۔۔۔۔۔ جلدی سے کھڑئے ہونے پر ایک دم اس کا سرچکرایا۔۔۔۔ اس سے پہلے وہ گرتی مریم بیگم نے اسے بازو سے تھامتےگرنے سے بچایا۔۔۔۔۔ اب بولو کیا تکلیف ہے اب تمھیں اب اس تماشے کا کیا مقصد ہے بولو جواب دو۔۔۔۔۔۔ مریم بیگم نے اس کی بازو سختی سے دبوچے غصے سے ہوچھا۔۔۔۔۔۔ ک۔کچھ نہیں امی جی ان کے غصے پر منہا سر جھکاتے منمنائی تھی۔۔۔۔ پھر باہر کیوں نہیں آئی تیار ہو کر مریم بیگم نے سخت نظروں سے گھورتے پوچھا۔۔۔۔۔ تیار ہو کر کیوں تیار کیوں ہونا منہا نے حیرت سے پوچھا ۔۔۔۔۔ اس کی بے خبری پر ان دونوں میاں بیوی کا اپنا سر پیٹ لینے کو دل چاھا تھا۔۔۔۔۔ تمھارا دماغ کہاں ہے منہا آج الحان کی مہندی ہےاحمد صاحب نے مریم بیگم کو غصے سے سرخ ہوتے دیکھا تو ان کے قریب جا کر نرمی سے ان کو تھام کر منہا سے دور کرتے بولے۔۔۔۔۔ منہا کو اپنی بےخبری پر جی بھر کر شرمندگی ہوئی۔۔۔۔۔۔۔ س۔سوری ابوجی مجھے یاد نہیں رھا آج بھائی کی مہندی کاشرمندگی سے سرجھکائے بولی ۔۔۔۔۔ ہہم اب یاد آگیا نا اگلے دس منٹ میں تم مجھے باہر نظر آو سمجھی مریم بیگم اسے سخت نظروں سے گھورتے ہوئے بول کر باہر نکل گی۔۔۔۔۔ احمد صاحب بھی خاموشی سے ان کے پیچھے چل دیے پھر کچھ یاد آنے پر پلٹے۔۔۔۔ بات سنو منہا۔۔۔۔۔ ان کے اچانک پکارنے پر اپنی آنکھوں کو دباتی منہا ایک دم ڈر گی۔۔۔۔۔ اس کے ڈرنے پر احمد صاحب نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔۔۔ کیا ہوا ڈر کیوں گی احمد صاحب نے بغور اسے دیکھتے۔ پوچھا۔۔۔۔ ن۔نہیں کچھ نہیں ابو جی آپ کک۔کچھ کہہ رھے تھے۔۔۔۔۔ ان کے ایسے دیکھنے پر منہانروس ہوتی بولی۔۔۔۔۔ ہاں وہ میں پوچھ رھا تھا تم بے ہوش کیوں ہوئی تھی کچھ دیر پہلے۔۔۔۔۔ احمد صاحب نے دل میں کھٹکتا سوال پوچھتے اس کے چہرے کو بغور دیکھ رھے تھے۔۔۔۔۔ نہیں ابوجی کچھ نہیں ہوا تھا وہ میں نے نیند کی میڈیسن لے رکھی تھی شاید اس لیے امی کے اٹھانے پر آنکھ نہیں کھولی ہو گی تو وہ سمجھی میں بےہوش یو ھی ہوں احمد صاحب کی نظریں منہا کو نروس کر رھی تھی سر جھکائے صفائی پیش کی۔۔۔۔۔ ہہم کم لیا کرو کتنی بار منع کیا ہے چلو اب تیار ہو کر آو احمد صاحب ہلکا سا ڈانٹنے والے انداز میں بولتے پلٹ گے۔۔۔۔ ان دونوں کے جانے کے بعد منہا نے گہرا سانس بھرا اور خود کو کمپوز کرتی تیار ہونے چل دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج کافی دن بعد ماہی اپنے روم سے نکلی وہ پہلے سے اب کافی بہتر ہو گی تھی ان چند دنوں میں حدید نے بھی اسے زیادہ کچھ نہیں کہا تھا ۔۔۔۔۔ موسم کافی خوش گوار تھا ماہی کا دل چاھ رھا تھا لون میں جانے کو کچھ سوچ کر لون میں چلی آئی وہاں موجود پھول بہت پیارے لگ رھے تھے ماہی وہی پھولوں کے پاس بیٹھے ان کو دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔۔ اسے وہاں بیٹھے ابھی کچھ وقت ہی بیتا تھا جب رضیہ اسے ڈھونڈتے وہاں آئی ۔۔۔۔۔۔ بی بی جی آپ یہاں ہیں میں آپ کو سارے گھر میں ڈھونڈتے تھک گی ۔۔۔۔۔۔ وہ کافی محوت سے پھولوں کو دیکھ رھی تھی جب ضیہ کی آواز پر وہ چونکی تھی۔۔۔۔۔۔ کیا ہوا آپی۔۔۔۔ رضیہ ماہی سے کافی زیادہ بڑی تھی جس کی وجہ سے ماہی کو اس کا نام لینا عجیب لگتا تھا اس بنا پر وہ رضیہ کو آپی کہتی تھی جس پر رضیہ نے بھی کبھی عتراض نہیں کیا تھا۔۔۔۔ یہ صاحب کا فون آرھا ہے کب سے رضیہ موبائل اس کی طرف بڑھاتے بولی۔۔۔۔۔ حدید کے نام پر ماہی کے گلے کی گلٹی اوبھر کر مدھم ہوئئ تھی۔۔۔۔۔۔ ابھی وہ شش وپیج میں تھی جب ایک بار پھر فون کی گھنٹی زور شور دے بجنے لگی۔۔۔۔۔۔ یہ لیں پھر سے آگیا رضیہ نے ایک بار پھر فون اس کی جانب بڑھایا۔۔۔۔۔۔ جیسے ماہی نے کانپتے ہاتھوں سے تھامہ کال اوکے کرتے کان سے لگایا۔۔۔۔۔ ااسلام علیکم دھیمے لہجے میں بولی ۔۔۔۔۔ کہاں تھی تم کب سے کال کر رھا ہوں اٹھا کیوں نہیں رھی بہری ہو گی تھی کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے کال اوکے کرتے ہی بغیر سلام کا جواب دیے حدید غصےسےشروع ہو چکا تھا۔۔۔۔۔۔ اس کی غصے سے بھری آواز سن ماہی اور خوف ذدہ ہوتی کانپنے لگی آنکھیں نمکین پانی سے بھرنے لگی تھی جن کو زور سے بند کرتے برسنے سے روکنے کی اپنی سی کوشش کی تھی اس نے ۔۔۔۔۔۔ بولو اب جواب دو یا اب زبان بھی نہیں رھی طنز کرتے بولا۔۔۔۔۔۔ مم۔معذرت سائیں جی میں لون میں تھی پتہ نہیں لگا کال کب آئی ۔۔۔۔۔۔۔ دھیمی سی آواز میں صفائی پیش کی۔۔۔۔۔۔۔ لون میں کیا کر رھی ہو اب کے آواز میں سرد پن واضح تھا۔۔۔۔۔۔ وو۔وہ سائیں جی اا۔اندر دل گھبرا رھا تت۔تھا بب۔بس اس لیے آگی۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں باہر ایسا کون تھا جو تمھارا دل لیتا۔۔۔۔۔۔۔ شکی انداز میں اگلاسوال کیا تھا۔۔۔۔۔۔ کک۔کوئی نن۔نہیں ہے سائیں جی ماہی پوری گڑبڑا گی اس کے سوال پرمشکل سے جواب دیا۔۔۔۔۔۔ دفا ہو جاو اندر اب مجھے تم لون میں نظر نا آو سمجھی ورنہ اچھے سے جانتی ہو میں کیا کروں گا۔۔۔۔۔۔ اس کے سختی سے بولنے پر ماہی نے اندر کی جانب دوڑ لگائی تھی جیسے وہ سامنے اسے دیکھ رھا ہو۔۔۔۔۔ دوسری بات آج کھانا تم بناو سپیشل انتظام کرنا اور میرے آنے سے پہلے ریڈی ہو جانا اوکے ۔۔۔۔۔۔۔ اب کے نرمی سے بولا ۔۔۔۔۔۔ ماہی تو حیران ہو گی اس کے پل میں موڈ بدلنے پر۔۔۔۔۔ سن رھی ہو نا ماہی ۔۔۔۔۔۔ ماہی جو اس کے پل پل بدلتے رویہ پر ساکت سی ہوئی سوچ رھی تھی اس کی ایک بار پھر آتی آواز پر چونکی۔۔۔۔۔ ج۔جی جی سائیں گھبراتے جلدی سے بولی۔۔۔۔۔ ہہم گڈ چلو پھر گھر آکر کرتا ہوں بات کہتے اس کی سنے بغیر کال کٹ کر گیا۔۔۔۔۔ جاری ہے۔۔۔۔۔ جی تو پیارے ریڈرز حدید کیاسپیشل کرنے والا ہے😉 اور منہا کی ضد پر الحان اورزوبیہ کی شادی کیا رنگ دیکھانے والی ہے 🤔🤔 پیارے ریڈرز گھر میں شادی ہے میری نند کی جس کی بہت ساری مصروفیات ہیں جن کی وجہ سے میں کچھ دن ایپی نہیں دے پاؤں گی بہت معزرت ۔۔۔۔
❤️ 👍 😡 😢 🙏 36

Comments