Novels Ki Duniya📚🌐🖤
Novels Ki Duniya📚🌐🖤
February 27, 2025 at 05:15 AM
ناول نیم؛؛؛ زندگی تجھے جی نہیں رھے گزار رھےہیں ہم؛؛؛ رائٹر نیم؛؛؛ فاطمہ زیڈ ڈی؛؛؛ لاسٹ ایپسوڈ (32) اگلے دن فجر کے قریب حرا کو ہوش آگی تھی مگر جب اسے اپنی ٹانگیں ضائع ہونے کا معلوم ہوا تو وہ اپنے ہوش و حواس کھونے لگی ڈاکٹرز نے مشکل سے اسے واپس انجیکشن دے کر سلا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرشاہ کو رات میں ہی ہوش آگی تھی اپنی بیٹی کی تکلیف پر تڑپ اٹھے تھے ہوسپٹل کے بیڈ پر پڑے رو دیے تھے وہ مرد تھے دھاڑے مار کر نہیں رو سکتے تھے مگر ایک باپ بھی تھے جو بیٹی کی تکلیف پر تڑپتے رودیے۔۔۔۔۔۔ منہا ساری رات منتہا کو گود میں لیے میرشاہ کے پاس بیٹھی رھی زیادہ ٹینشن لینے سے ان کی طبیعت بگڑ سکتی تھی اس لیے ڈاکٹر نے ان کو انجیکشن دیتے سلا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہفتے بعد ان کو ڈسچارج مل گیا تھا اس ایک ہفتے میں منہا نے خاموشی سے ان کا بھرپور خیال رکھا ۔۔۔۔۔۔۔ آج ڈسچارج ہو کر دونوں گھر آگے تھے حرا تو اپنے کمرے میں بند ہو گی تھی جب کے میرشاہ جھکے سر کے ساتھ ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔۔۔۔۔۔۔ ابو جی کچھ کھانے کو لاوں آپ کے لیے منہا نے دھیمےلہجےمیں آہستہ سے پوچھا۔۔۔۔۔۔ نہیں بہو مجھے بھوک نہیں کہتے اپنی بےساکھی کے ذریعے روم میں چلے گے۔۔۔۔۔۔ منہا خاموشی سے اپنے روم میں منتہا کے پاس چلی گی اتنے دن کی بے خوابی کی وجہ اسے بہت نیند آرھی تھی اس لیے منتہا کو سلاتے خود بھی سو گی ۔۔۔۔۔۔۔ مگر یہ نیند بس کچھ دیر کی تھی جب پھر سے وہی خواب آنے لگے ۔۔۔۔۔۔۔۔ نن۔نہیں چچ۔چھوڑیں مم۔مجھے مرنا چچ۔چھوڑیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ منہاآہستہ آہستہ نیند میں بڑبڑا رھی تھی روم میں آتے حدید نے اسے ایسے سوتے میں کچھ کہتے دیکھاتو قریب جا کر غور سے سنے لگا۔۔۔۔۔۔ منہا کے الفاظ جیسے ہی حدید نے سنے شاک سا دیکھتا رھ گیا۔۔۔۔۔۔۔ مم۔مجھے مرنا ہے چچ۔چھوڑیں مجھے مرنا ہے منہا نیند میں مسلسل اپنے آپ کو نقصان دینے کی کوشش کرتے ہوئے بول رھی تھی ۔۔۔۔۔۔ حدید نے مضبوطی سے اس کے ہاتھ پکڑتے اسے اپنے مضبوط حصارے میں جکر لیا مگر وہ پھر بھی مسلسل مزحمت کر رھی تھی جب حدید جھک کر اسے کے کان کے پاس بولا۔۔۔۔۔۔۔۔ ریلیکس ماہی بس کچھ نہیں ہوا ریلیکس میری جان ۔۔۔۔۔۔۔ وہ آہستہ آہستہ اسے ریلیکس کرنے کی کوشش کر رھا تھا جس سے وہ ہو بھی گی دھیرے دھیرے مزحمت کرتا اس کا وجود ڈھیلا پڑنے لگا اور کچھ ہی دیر میں وہ واپس نیند میں چلی گی۔۔۔۔۔۔۔۔ حدید دھیرے دھیرے اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتے پرسوچ انداز میں اسے دیکھ رھا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر کچھ سوچتے اپنا فون نکال کر کسی کا نمبر ڈائل کرتے باہر نکل گیا۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں منہا کے پاس جانا چاھیے وہ بہن ہے ہماری ہم اسے ایسے نہیں چھوڑ سکتے بھائی مہران نے اصطرابی کیفیت میں کہا۔۔۔۔۔۔۔۔ ہہم مجھے بھی لگتا ہے ہمیں معافی مانگنی چاھیے اس سے منانا چاھیے اسے اسے اعتماد میں لے کر اس جنگلی کے چنگل سے نکالنا چاھیے ورنہ ایسے تو وہ مار دے گا اسے الحان نے مہران کی ہاں میں ہاں ملاتے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں مجھے نہیں لگتا وہ اب حدید سے الگ ہونا چاھے گی زوبیہ نے اپنی رائے دیتے کہا۔۔۔۔۔۔۔ چلو دیکھتے ہیں اس کی طرف چلنے کی تیاری کرو باقی جو اس کی خوشی ہو گی ہم وہی کرے گے اگر وہ ہاں رھنا چاھیے تب بھی اگر نہیں رھنا چاھیے تب بھی اب ہم اسے اس کے کسی فیصلے میں اسے اکیلا نہیں چھوڑے گے نا زبردستی اپنا فیصلہ اس پر تھوپے گے الحان نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔۔۔۔۔۔ اگلے دن ہی وہ لوگ منہا کے گھر موجود تھے۔۔۔۔۔۔ تم لوگ کیوں آئے ہو یہاں اگر منہا کو پٹی پڑھا کر ساتھ لے جانے آئے ہو تو یہ خیال اپنے ذہن سے نکال دو وہ نہیں جائے گی ان کو دیکھتے حدید سرد لہجے میں بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھو حدید ہم یہاں کوئی جھگڑا نہیں کرنے آئے ہم بس اپنی بہن سے ملنے اور اس سے معافی مانگنے آیے ہیں الحان نے صلح جو انداز میں کہا۔۔۔۔۔۔۔۔ ہہم ٹھیک ہے لیکن اسے کوئی بھی غلط مشورہ دینے سے پرہیز کرنا حدید نے ورننگ دیتے کہا۔۔۔۔۔۔ میں بولاتا ہوں اسے حدید کہتے روم میں چلا گیا ۔۔۔۔۔۔۔ یہ پکا اسے پٹی پڑھا کر لائے گا ڈرا دھمکا کر اپنے حق میں فیصلہ کرنے کا بول کر لائے گا دیکھ لینا حوریہ نے آہستہ سے مہران کے کان میں سرگوشی کرتے کہا۔۔۔۔۔۔ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے مہران نے پرسکون انداز میں کہا۔۔۔۔۔۔ اسلام علیکم منہا نے وہاں آتے سب کو مشترکہ سلام کرتے دھیمےلہجےمیں کیا۔۔۔۔۔۔ کیسی ہو منہا الحان نے اٹھ کر اسے اپنے ساتھ لگاتے کہا ۔۔۔۔۔ ان کے اس انداز پر منہا کی آنکھیں نم ہونے لگی مگر خود پر ضبط کیے بیٹھ گی ۔۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہوں بھائی منہا نے دھیمے لہجے میں نظریں جھکائے ہی جواب دیا۔۔۔۔۔۔ سب نے ایک دوسرے کو دیکھا یہ پہلے والی منہا تو نہیں لگی ان کو جو ہمشہ سر اٹھا کر بات کرتی تھی اگلےبندے کی آنکھوں میں دیکھ کر جواب دیتی تھی۔۔۔۔۔ منہا ہم یہاں تم سے معافی مانگنے آیے ہیں الحان نے دھیمے لہجےمیں کہا اور پھر اس کی طرف دیکھا۔۔۔۔۔۔ بھائی مجھے کسی سے کوئی شکوہ شکایت نہیں ہے منہا نے گہرا سانس لیتے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی کو اندر سے مار کر معافی مانگنا اتنا آسان ہے کیا منہا نے دکھ سے سوچا۔۔۔۔۔۔۔ منہا ہم مانتے ہیں ہم سے غلطی ہوئی مگر اب ہم اپنی غلطی سدھارنا چاھتے ہیں الحان نے اسے دیکھتے کہا۔۔۔۔۔۔۔ مطلب کیسے سدھارے گے منہا نے ایک آی برو اٹھاتے ٹھنڈے لہجے میں پوچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا تم جو چاھو گی وہی ہو گا اگر تم چاھو تو ہم تمھیں یہاں سے نکال کر لے جائے گے جو تمھارا فیصلہ ہو گا اب وہی ہو گا ہم تمھارے ساتھ ہیں اب تمھیں اکیلا نہیں چھوڑے گے مہران نے جلدی سے کہا۔۔۔۔۔۔۔ بھائی آپ لوگ یہاں آئے مجھ سے معافی مانگی اتنا سوچا میرے لیے بہت ہے یہی مگر معذرت مجھے اب کسی کے سہارے کی ضرورت نہیں رھی میرے لیے میرا اللہ کافی ہے منہا نے دھیرے سے کہنا شروع کیا۔۔۔۔۔۔۔ تب کہاں تھے آپ لوگ جب مجھے آپ سب کی ضرورت تھی جانتے ہیں اس وقت پل پل میں نے آپ لوگوں کو یاد کیا کتنا پکارا تھا مگر آپ سب نہیں تھے آپ لوگوں نے مجھ پر میری عمر سے زیادہ ذمیداری ڈال دی چھوٹی عمر میں سسرال جیسے رشتوں میں جکڑ دیا اپنی ذمیداری پوری کر کے جان چھوڑا لی اور مڑ کر نہیں دیکھا زندہ بھی ہوں یا مر گی کیوں بھائی اتنی بوجھ تھی آپ پر میں اس کم عمری کی شادی میں بہت کچھ سہہ ہے بھائی اپنی عمر سے زیادہ برداشت کیا ہےبھائی منہا کا لہجہ دھیما تھا مگر کرب لیے ہوا تھا۔۔۔۔۔۔ جو عمر کبھی ہسنے کی رنگوں کو خوشیوں کو جینے کی تھی وہ میں نے اندھیروں اور اذیت میں گزار دی ہے اب میرے پاس بھولے سے بھی کوئی خوشی نہیں ہے کبھی مسکرا کر نہیں دیکھا ان سالوں میں ہسنے کا تو مطلب بھی بھول گی ہوں کہا کچھ نہیں تھا اس کے کرب زدا لہجے میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر آپ سب کے لیے معافی مانگنا اتنا آسان ہے تو جائیں میں نے معاف کیا اگر آپ سب کے معافی مانگ لینے سے آپ لوگ میرے تین سال لوٹا سکتے ہیں تو جائیں میں نے معاف کیا کیا کر سکتے ہیں میرے ان تین سالوں کی تکلیف کم میری اذیت ختم کرسکتے ہیں منہا نے پوری بات میں پہلی بار سر اٹھا کر ان سے سوال کیا۔۔۔۔۔۔ کتنا آسان ہے آپ سب کے لیے معافی مانگ لینا آپ کو کیا لگتا ہے معافی مانگ لینے سے سب ٹھیک ہو جائے گا میری اذیتیں ختم ہو جائیں گی نہیں بھائی کچھ نہیں ٹھیک ہو گا میں تو ختم ہو چکی ہوں اب کچھ نہیں بچا میرے پاس سوائے ان چند سانسوں کے منہا نے تکلیف سے آنکھیں میچتے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پورے لاونچ میں خاموشی چھا گی تھی پیچھے کھڑا حدید اپنی جگہ بلکل سن ہو گیا تھا سب سکتے کی سئ کیفیت میں اسے سن رھے تھے میرشاہ اپنے روم کے دروازے میں سر جھکائے کھڑے تھے تو حرا نے بھی نظریں جھکا لی تھی سامنے بیٹھے بھائی بھابھیوں نے بھی نظریں جھکا لی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ سب لوگ کبھی نہیں سمجھ سکتے سردیوں کی بارش میں رات گزارنے کی تکلیف آپ سب نہیں سمجھ سکتے ڈرگز لینے کی تکلیف نا آپ سب انجیکشن لینے کے بعد ددر سے کراتے جسم کی تکلیف سمجھ سکتے ہیں کیوں کے جس پر گزرتی ہے نا اسے پتہ ہوتا ہے آپ سب تو معافی مانگ کر سائیڈ ہو جاو گے مگر میں کیسے بھولا پاوں گی ان اذیت میں گزرے لمہوں کو جو رات دن مجھے ڈراتے ہیں ہے کوئی ان کا حل تو بتائیں منہا نے پھر سے نظریں اٹھا کر سب کو دیکھا جن کے سر جھک گے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ معذرت بھائی میں آپ سب کو شرمندہ نہیں کرنا چاھتی تھی مگر میں معاف بھی نہیں کر سکتی آپ لوگ جائیں مجھے چھوڑ دیں میرے حال پر مجھے نہیں ضرورت اب کسی کی مجھے عادت ہو گی ہے اکیلے پن کی رھنے دیں اب اکیلی پلیز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری کوئی بات بری لگی ہو تو معذرت کہتے آہستہ سے اٹھ کر اپنے روم کی جانب بڑھ گی ۔۔۔۔۔۔۔۔ سامنے کھڑے حدید کو دیکھا میں روم میں ہوں سائیں جانتی ہوں آپ کو اب کافی غصہ آیا ہوا ہے مجھ پر میں تیار ہوں ہر سزا کے لیے اور ہاں میرا یہئ نصیب تھا میں اسی میں خوش ہوں اپنے شوہر کے گھر ان کو چھوڑ کر کہی نہیں جانا مجھے پلئز آپ لوگ بھی اب یہ خیال نکال دیں اپنے دلوں سے مڑ کر اپنے بھائیوں سے کہتی نظریں جھکاتے روم میں چلی گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا کی بات نےجیسے حدید کی روح کو جھنجھوڑ دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الحان لوگ خاموشی سے کسی ہارے ہوئے کی طرح اٹھ کر چلے گے میرشاہ بھی اپنے میں بند ہو گے حرا بس خالی خالی نظروں سے اس صوفے کو دیکھ رھئ تھی جہاں منہا بیٹھی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ حدید نے مڑ کر کمرے کے بند دروازے کو دیکھا اور باہر نکل گیا۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدید کافی رات کو گھر آیا تھا میرشاہ اور حرا لاونچ میں بیٹھے تھے حدید ان کو دیکھتے وہی آکر بیٹھ گیا سر جھکا ہوا تھا وہ ہار چکا تھا سب کچھ ۔۔۔۔۔۔۔۔ حدید۔۔۔۔ میرشاہ نے آہستہ سے پکارہ ۔۔۔۔۔۔۔ کیوں بابا جان آپ نے مجھے نہیں روکا کیوں ہوں میں ایسا آپ میرا علاج کروا سکتے تھے مگر نہیں کروایا کیوں بابا جان دیکھیں میں نے جس کو اپنے آپ سے بڑھ کر چاھا اسی کو برباد کر دیا اسی کو تکلیف میں رکھا وہ ڈپریشن کی مریضہ بن گی ڈاکٹر کہتے ہیں وقت کے ساتھ ساتھ شاید ٹھیک ہو جائے مگر مجھ سے اس کی حالت برداشت نہیں ہو رھی بابا جان حدید کسی ہارے ہوئے کی طرح بول رھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے معاف کر دو بیٹا میں تم دونوں کی اچھئ تربیت نہیں کر سکا میرشاہ شرمندگی سے بولے۔۔۔۔۔۔ سہی کہا آپ نے ہمیں برباد کیا ہے ابا اگر آپ ہمیں غلط سہئ کا بتاتے تو آج ایک معصوم کی زندگئ ایسے برباد نا ہوتی حرا نے دکھی لہجے میں کہا۔۔۔۔۔۔ حدید خاموشی سے اٹھ کر روم میں چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔ وہ باپ بیٹی وہی بیٹھے اپنی غلطیوں پر ماتم کناہ رھے۔۔۔۔۔ حدید روم میں داخل ہوا تو وہ صوفے پر بیٹھے سو رھی تھی جیسے انتظار کرتے سو گی ہو حدید آہستہ سے چلتے اس کے قریب آ کر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔۔ بغور اسے دیکھتا رھا پھر ہاتھ بڑھا کر اس کے چہرے سے بال پیچھے کرتے ماتھے پر جھک کر بوسہ دیا۔۔۔۔۔ منہا نے نیند میں کسی کی موجودگی محسوس کرتے آہستہ سے آنکھیں واک کی تو سامنے حدید کو دیکھ کر ڈر گی ۔۔۔۔۔۔۔۔ سس۔سائیں وو۔وہ میں سس۔سوری سائیں منہا کو سمجھ نہیں آرھی تھی کیا کہے کیا بولے تب تو غصے میں سب بولتی چلی گی تھی مگر اب حدید کے سامنے ساری بہادری ہوا ہو گی تھی خوف سے کانپتے خود میں سمٹنے لگی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدید نے آہستہ سے کھینچ کر اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔۔۔۔۔۔ ایم سوری ماہئ ایم رئیلی سوری میں جانتا ہوں میرے یہ الفاظ تمھاری تکلیف کم نہیں کر سکتے مگر اب میں سب ٹھیک کر دو گا تمھارے گزرے سال تو واپس نہیں لا سکتا مگر باقی کی زندگی میں اتنی خوشیاں بھر دوں گا کہ تم سب بھول جاو گی حدید اس کے کان کے قریب سرگوشیاں میں بولا۔۔۔۔۔۔ منہا کچھ دیر تو ساکت رھ گی پھر جانے کہاں سے ہمت آئی دھکا دے کر اسے خود دور کرتے کھڑی ہو گی ۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا سمجھ رکھا ہے آپ سب نے مجھے کھلونا ہوں کوئی جیسے چاھیے کھیلتے رھیں گے جانتے بھی ہیں میری اذیتیں کتنی ہیں آپ تو بس تکلیف دیتے تھے جسم پر مگر آپ کی دی تکلیف سے زیادہ میری روح زخمی ہوتی تھی اتنے زخم شاید آپ نے میرے جسم پر نہیں دیے ہو گے جتناروح کو چھلنی کر دیا ہے منہا کی آنکھوں آنسوؤں کی نم تھی مگر اس نے ایک بھی آنسو بہنے نہیں دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جانتا ہوں تمھارے لیے آسان نہیں ماہی مگر میں کوشش کروں کا ان زخموں کو بھرنے کی حدید نے ندامت سے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔ واہ یہ سہی رھا شاہ سائیں پہلے انسان کو زندہ مار دو پھر اسے زندگی کی نوید سناو آپ کو لگتا ہے مرا ہوا انسان دوبارہ زندہ ہو سکتا ہے منہا نے تلخی سے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدید آہستہ اٹھ کر اس کے سامنے آیا تم اب جو کہو گی جو کرو کی میں خاموشی سے سنا کروں گا تمھاری یہ نفرت برداشت کرلوں گا تمھاری اس نفرت کو محبت میں بدلنے کی کوشش کروں ہر خوشی دوں گا تمھیں اب جب تمھارا دل کرے معاف کرنے تب معاف کر دینا میں تمھیں معاف کرنے کا نہیں کہوں گا شاید میرے کیے کی یہی سزا ہے حدید نے سر جھکائے کہا۔۔۔۔۔۔۔ یہ کوئی ڈرامہ یا کہانی نہیں شاہ سائیں جس میں سب کر کے آخر میں ہیپی اینڈینگ ہو جائے حقیقی زندگی ہے اور میری نفرت کبھی نہیں بدلے گی ہاں اس زندگی سے سمجھوتہ کر لیا ہے بس منہا نے تھکے سے انداز میں نیچے بیٹھتے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے تمھاری یہ نفرت ساری زندگی بھی برداشت کرنی پڑی کروں گا ماہی بس مجھے چھوڑ کر مت جانا پلیز حدید نے اس کے سامنے ہی نیچے بیٹھتے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا نے حیرت سےسامنے بیٹھے اس شخص کو دیکھا جو ہمشہ اسے اپنے جوتے کی نوک پر رکھتا تھا جس کو اس کا اپنے قدموں میں بیٹھنا پسند تھا اپنے سامنے جھکاتا آیا تھا تین سال سے آج اس کے برابر نیچے بیٹھا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہ سائیں آپ کچھ بھی کر لیں میرے دل میں اب پہلے والا مقام نہیں پاسکتے اس لیے میری طرف سے اجازت ہے آپ ابوجی کے کہے مطابق شادی کر لیں مجھے کوئی اعتراض نہیں کہتے منہا اٹھ کر جانے لگی جب حدید نے اس کا بازو پکڑتے اپنے طرف کھینچا ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اپنے ذہن سے نکال دو ماہی میں کبھی دوسری شادی نہیں کروں گا تم چاھیے ساری عمر مجھے نفرت دیتی رھو پھر بھی کسی اور کا ہاتھ نہیں پکڑوں گا۔۔۔۔۔۔۔ تو ٹھیک ہے پھر رھیں انتظار میں مگر اب آپ کو میرے اس کھوکھلے وجود کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا کہتے وہ اٹھ کر واش روم میں بند ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدید وہی بیٹھے اسے دیکھتے رھ گیا جو کبھی بہت نرم دل ہوا کرتی تھی آج دل کے ساتھ خود بھی پتھر بن گی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہیلو۔۔۔۔۔۔۔ حدید آفس کے لیے تیار ہو رھا تھا جب اس کا فون رنگ ہونے لگا۔۔۔۔۔۔ ہیلو حدید میں ارحم بول رھا ہوں یار رمیز پر کسی نے اٹیک کیا ہے ارحم نے دکھ سے بتایا۔۔۔۔۔۔۔ واٹ۔۔۔۔ اب کیسا ہے حدید نے پریشانی سے پوچھا۔۔۔۔۔ بہت بری حالت ہے اٹیک کرنے والوں نے تیزاب پھینکا ہے چہرے پر آدھا چہرا جل گیا ہے بہت شاک لگا ہے جب ہوش آتا ہے پاگلوں کی طرح چیخنے لگتا ہے ڈاکٹر کہہ رھے ہیں اگر ایسے ہی رھا تو یا پاگل ہو سکتا ہے یا پھر ڈپریشن میں چلا جائے گا یار ارحم افسردہ سا بولا ۔۔۔۔۔۔۔۔ او گاڈ حدید بس اتنا ہی کہہ پایا تھا اور خاموشی سے فون رکھ دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماہی حدید نے چائے کا کپ رکھتی منہا کو آہستہ سے پکارا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی ۔۔۔۔۔ وہ رمیز یاد ہے تمھیں حدید نے ایک نظر اسے دیکھتے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔ کون رمیز منہا نے نا سمجھی سے دیکھا ۔۔۔۔۔۔ میرا دوست تھا ایک حدید نے چائے کا کپ اٹھاتے لہجہ سرسری رکھتے بتایا۔۔۔۔۔۔۔ اچھا مجھے نہیں پتہ منہا لاوپرواہی سے کہتے بیڈ کی شیٹ سیٹ کرنے لگی۔۔۔۔۔۔۔ ماہی میں علاج شروع کروا رھا ہوں اپنا کچھ دیر بعد حدید نے پھر اسے مخاطب کیا۔۔۔۔۔۔ ہہم جیسے آپ کو بہتر لگے منہا کہتے اب ڈریسنگ کی چیزیں سیٹ کرنے لگی۔۔۔۔۔۔۔ حدید خاموشی سے چائے پیتے سوچنے لگا سچ میں خدا کی لاٹھی بے آواز ہے اس نے ایک پاک دامن پر تمہت لگاکر اس کی زندگی عذاب بنوا دی تھی آج اسی کا انجام بھگت رھا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرشاہ اور حرا نے بھی منہا سے معافی مانگنی چاھی تو منہا نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی ۔۔۔۔۔۔ ابو جی میں کون ہوتی ہوں معاف کرنے والی اللہ کی ذات بڑی ہے اس سے معافی مانگیں اللہ آپ دونوں کی مشکل آسان کرے آمین ۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر بیٹا تم ہمیں معاف کر دو گی تو شاید خدا بھی معاف کردے جب خدا کے بندے معاف نہیں کرے گے تو خدا بھی نہیں کرے گے میرشاہ نے ندامت سے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر آپ لوگ مجھ سے معافی کی امید کر رھے ہیں تو معذرت میرا ظرف اتنا بڑا نہیں ہے کہ معاف کر سکوں اس لیے میں نے خدا پر چھوڑ دیا ہے آپ لوگ اللہ پاک سے مانگیں بے شک وہ ذات رحیم ہے رحمان ہے دو ٹوک لہجے میں کہتی وہ چلی گی تھی ان کو ندامت کے گہرے گڑے میں گرا کر اور وہ لوگ اپنی غلطیوں پر شرمندگی سے سر جھکا کر رھ گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (دوسال بعد) منہا منتہا کو ناشتہ کروا رھی تھی پاس ہی میرشاہ بیٹھے اخبار دیکھ رھے تھے ان کے ساتھ ہی حرا اپنی ویل چیئر پر بیٹھی تھی۔۔۔۔۔۔۔ ماہی یار جلدی سے ناشتہ دے دو مجھے لیٹ ہو گیا ہے حدید نے عجلت میں کہا۔۔۔۔۔ جی ۔۔۔۔۔۔ منہا آج بھی خاموشی سے سب کے کام کرتی تھی مگر اب سب کچھ بدل گیا تھا جہاں کبھی غرور تکبر سے سب حکم چلاتے تھے آج نرمی عزت نے لے لی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ ملازمہ سے بھی کہہ سکتے ہو دیکھ نہیں رھے وہ ناشتہ کروا رھی ہے بچی کو میرشاہ نے حدید کو ڈانٹتے کہا۔۔۔۔۔۔۔ سوری بابا جان تم بیٹھو ماہی فروزہ بی لے آئے گی بھئ تمھارے سسر کو برا لگ گیا حدید شرارت سے بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں لے آو گی یہ سب میرے لیے نیا نہیں ہے سائیں پہلے بھی کرتی تھی اب بھی کر سکتی ہوں منہا سنجیدگی سے کہتے اٹھ کر چلی گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تینوں نے افسوس سے ایک دوسرے کو دیکھا ان دوسالوں میں بھی منہا کا سرد لہجہ نہیں بدلا تھا آج بھی وہ شاید پچھلے تین سالوں میں ہی کہی رھ گی تھی۔۔۔۔۔۔ جہاں سب بدلا وہی کچھ نہیں بدلا تھا تو وہ منہا کے خواب نہیں بدلے تھے حدید نے اپنے علاج کے ساتھ منہا کا بھی علاج شروع کروایا تھا مگر اس میں کوئی خاطرخواہ فرق نظر نہیں آیا تھا آج بھی وہی خواب اسے ڈراتے تھے جن سے کہی بار وہ خود کو نقصان پہچا چکی تھی جس سے حدید بے حد پریشان تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا کا علاج مسلسل چل رھا تھا حدید کو امید تھی ایک نا ایک دن ضرور وہ کامیاب ہو گا اسی امید پر یقین رکھے ہوئے تھا۔۔۔۔۔۔ میں بہت جلدی تمھاری نفرت کو محبت میں بدل دوں گا تمھیں اتنی خوشیاں دوں گا کہ تمھارا دل مجھ سے صاف ہو جائے گا بہت جلد بدل جائے گا یہ وعدہ ہے میرا خود سے حدید نے منہا کو پرسوچ انداز میں دیکھتے دل میں عہد کیا۔۔۔۔۔۔۔ (ختم شد) اب حدید کی کوششوں پر اور قسمت پر تھا کہ وہ منہا کو پہلے جیسی کرنے میں کامیاب ہوتا ہے یا نہیں ہر کہانی کا اینڈ تو ہیپی ہوتا ہے مگر حقیقی زندگی کا اینڈ شاید ہی ہیپی ہوتا ہو خدارا اپنی بچیوں کی کم عمری میں شادی کر کے ان پر وقت سے پہلے سسرال کا بوجھ مت ڈالیں اپنی عمر سے بڑی ذمہ داری ڈال کر ان کو وقت سے پہلے بڑا ہونے پر مجبور نا کریں کریں بہنوں کی جب شادی کریں تو اچھے سے دیکھ بھال کر کریں اور ان سے غافل مت ہو ان کی مصنوئی مسکراہٹ پر یقین کرنے سے بہتر ہے خود ہر معاملے پر نظر رکھیں بہنوں کی شادی کر کے بوجھ مت اتاریں ان سے غفلت نا برتیں ورنہ ہماری ہر بہن اور بیٹی کی قسمت منہا جیسی ہو گی کیوں کے دنیا میں بہت سے حدید ہیں۔۔۔۔۔ شکریہ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ جو انبکس میں آکر بار بار پوچھ رھے ہیں آپ لڑکی ہیں۔کیااو بھئ آپ لوگوں کو ای ڈی نیم سے کیا لگ رھا ہے اور پوچھ رھے ہیں رئیل نیم کیاہے تو جناب میں اپنا رئیل نیم نہیں لکھتی ای ڈی اور رائٹر نیم میری بیٹی کا ہے لاریب فاطمہ ذاھد میرا رئیل نیم جان کے آپ کو کرنا ہی کیاہے جی اب تو آپ لوگوں کو سکون مل جائے گا نا سخت الفاظ کے لیے معزرت مگر آپ لوگوں کے سوالوں نے مجبور کیا ہے سخت الفاظ استعمال کرنے پر۔۔۔۔ اورجن ریڈرز نے اس ناول میں ساتھ دیا ہےان کا شکریہ خوش رھیں خوشیاں بکھیرتے رہیں ۔۔۔۔
❤️ 👍 🙏 😮 😢 👎 💯 😇 😭 🤮 95

Comments