Novel Ki Dunya
February 23, 2025 at 05:22 PM
#شاہ_اور_زہرا
#تحریر_عظمی_محمد_عثمان
#قلمی_نام_مٹھو_لاڈلی ✍
#قسط_نمبر_2
عرش زہرا...!!
نور کا پیکر..!
بنا رکے بنا چارج ختم ہوئے چلنے والی بیٹری۔
دنیا جہان کی معلومات۔
جسے ہر پل وہ اندر سے باہر شفٹ کرنے کیلئے بے تاب ہوتی
اور زبان... جی زبان تو گویا میٹھا ٹھنڈا (اور کبھی کڑوا بھی) چشمہ تھا جس میں سے ہر وقت الفاظ کی صورت دریا جاری رہتا...سننے والا سنے جاتا سیر نا ہوتا میٹھی سی پٹر پٹر کرتی کوئل جیسی بولی معصوم سی۔
اب عرش زہرا تو گئ ہاسٹل پیچھے گھر میں کیا ہوا؟
یہ گھر جہاں سات نفوس رہائش پذیر ہیں
عرش کے بابا سرور خان
بھائ اریب خان اور پھر اظہر خان پھر ہماری "عرش زہرا" امی نورینا بیگم اور ایک عدد دادی! اور تایا تائ جنکی کوئ اولاد نا تھی اور انہوں نے اظہر خان کو ہی گود لیا ہوا تھا
اکلوتی ہونے کے سبب اور پورے گھر میں لاڈلی ہونے کے سبب عرش زہرا بچپن سے ہی خاصی خوش گفتار واقع ہوئی
ادھر تائ کا جی گھبرایا برابر کمرے سے جاکر عرش کو لے آئیں اور اسکے منے منے ہاتھ تھام کر اسے گدگدایا اسے بولنے پر اکسایا۔
نئی نئی بولنا سیکھی تو نورینہ بیگم ہر ایک کے آگے بٹھا دیتیں اسے
"عرش بولو' ماما پیاری" وہ توتلی زبان میں دہراتی
"ما'ما پاری"
نئے نئے الفاظ سیکھتی جو چیز دیکھتی اسے گھورنا شروع کردیتی پھر خود بھی ویسی ہی حرکتیں کرنے کی کوششیں....!!
سب خاموشی سے دیکھتے رہتے محفوظ ہوتے ایک ہی تو چڑیا تھی سارے گھر میں...
ہر کوئ کے کر سینے پہ چڑھائے بیٹھا ہوتا تایا ابو ہوتے یا سرور خان "بولو بیٹا بولو" کی گردان ہوتی
اکثر نورینہ بیگم اور تائ سرگوشیاں کرتی نظر آتی "عرش زہرا نا ہوتی تو اس گھر میں تو ہم سناٹے سے ہی مر جاتے اریب اور اظہر تو گویا "گونگے" ہیں" آنسو صاف کرتیں شکر ادا کرتیں.
پھر وقت کا کام ہے بھاگنا اور وہ وہ بھاگتا ہی ہے سو بھاگتا چلا گیا اور "بولو عرش گڑیا" کی گردان میں ہی عرش لڑکپن پھر جوانی میں قدم رکھ چکی
بولنا اسکا من پسند مشغلہ
اور ساتھ ہی ہاتھوں کو حرکت دینا ہر چیز کو پوری جزئیات اور حرکات و سکنات سے بتانا اسکی عادت ہی بن گئ
کھانے کی ٹیبل پر کھانا کھانے بیٹھتے
تو گویا ماحول بنا ہوتا جیسے کسی ٹی وی کے من پسند ٹالک شو کا ٹائم ہوا ہو
سارے دن کے روادار سنانی ہوتی۔ تایا تائ امی ابو اور دادی بھی دلچسپی سے اسے سنے جاتیں۔ کھانا روک کے وہ بتائے جاتی
"پھر پتا ہے کیا ہوا بابا میں نا..."
اور بس شروع
جسکا اینڈ نہیں..
کھانے سے شروع ہوا ٹاپک لاونج میں بھی جاری و ساری رہتا
کالج کے بعد یونیورسٹی کی باری آئ تو مانو عرش زہرا نے دھمال ڈال دیا
"نہیں جانا میں نے یونیورسٹی"
جہان ہی ٹاپک ڈسکس ہوتا وہ اٹھ جاتی
کان لپیٹ لیتی.. مارے باندھے تو کالج کلیئر کیا تھا وہ بھی آرٹس سبجیکٹ میں اب دماغ خراب تھا جو یونیورسٹی جاتی؟
ادھر یونیورسٹی کی بات آتی ادھر نفی میں زور زور سے سر ہلنا شروع ہوجاتا
"میں نہیں جاوں گی"وہ آنسو بھر کے دہائ دیتی
"افوہ ہم علی گڑھ یونیورسٹی کی بات کر رہے ہیں عرش زہرا جو سرسید نے قائم کی تھی قیام پاکستان سے پہلے" بابا جھلا کے جواب دیتے
"اوہ میں سمجھی میری یونیورسٹی بھیجنے کا پلان ہوریا یونی کا نام سنا نا میں نے تو بس اس لئے" وہ کھسیانی ہوجاتی اور کھسک لیتی کہیں لیکچر نا مل جائے
مگر وہ بھی عرش زہرا کے ماں باپ تھے آخر
"عرش تمہارے بابا چاہتے ہیں تم یونیورسٹی جاو" نورینہ بیگم نے بلا تمہید گفتگو شروع کردی
"امی آپ جانتی ہیں مجھے پڑھائ میں کوئ انٹرسٹ نہیں ہے" وہ کانوں سے ہینڈ فری نکال کے سیدھی بیٹھی چہرے پہ خوف کے آثار۔
"دیکھو عرش تم ہماری بہت پیاری بیٹی ہو تمہارے بابا کے سارے فرینڈز کے بچے کوئ ڈاکٹر ہے تو کوئ انجنیئر تو کوئ لیکچرار تم نے ضد کے کر آرٹس لیا اب کم سے کم ماسٹر تو کرلو کل کو آپکی شادی کرنی ہے بیٹا۔ "
وہ دلگرفتہ ہوئیں۔
عرش زہرا سنجیدہ ہوئ من ہی من میں آیت الکرسی پڑھ کے خود پہ پھونکی (کہیں امی کی تقریر اثر نا کر جائے)"
"امی میں نہیں جاوں گی یونیورسٹی اور آپ خود سوچیں میں اپنے ماں باپ کی خاطر مذید پڑھائ پر آمادہ نہیں ہوں تو "کسی ڈاکٹر انجینئر یا لیکچرار کی خاطر" میں کیوں جاوں"
میں نہیں جاوں گی تو بس نہیں! اسنے حتمی مؤقف اپنایا
وہ اسےگھورتے ہوئے زور سے دروازہ بند کرتے چلی گئیں
اور عرش زہرا نے سکون کا سانس لیا بلا ٹلی (پڑھائ)
مگر یہ بلا عارضی ٹلی تھی اور اب مستقل سر پہ سوار ہونے والی تھی
***** رات کو لاونج میں اسکی پیشی آئ تھی
وہ ڈرتے ڈرتے لاونج میں آئ
تو گویا عدالت لگی ہوئ تھی
دادی بھی اپنا کمرہ چھوڑ کے لاونج میں آ بیٹھیں تھیں
ہر وقت چلنے والا ٹی وی بند تھا.
امی کے ہاتھ میں کوئ کام نا تھا پھر بھی وہ وہاں موجود تھیں تایا ابو کے ہاتھ میں بھی کوئ میگزین نہیں تھا نا ہی تائ اماں سوئیٹر بن رہیں تھیں اور تو اور اریب اور اظہر بھی گیمز کھیلنے کے بجائے مودب بن کر بیٹھے تھے۔
وہ دل ہی دل میں اوراد پڑھتی تایا کے برابر آ بیٹھی
ابو گلا کھنکھار کے شروع ہوئے
"عرش بیٹا آپکا یونیورسٹی میں داخلہ ہوگیا ہے آپ فارم فل کردینا میں جمع کروادوں گا۔" بلا تمہید عرش کے سر پر بن پھوٹا۔ گویا دنیا ہی اجڑ گئ
"نہیں میں نہیں جاوں گی" آنکھوں میں آنسو آگئے
اسنے دادی امی اور تائ کو مدد کیلئے دیکھا مگر وہ سب ہی ابو کے ہمنوا تھے۔
"بابا میں نہیں جاوں گی آپ نے کیوں کروایا ایڈمیشن مجھ سے نہیں ہوگا میرا دل نہیں کرتا پلیز بابا" وہ گڑگڑانے لگی انسو گرنے لگے
"بابا کی جان آپکا ایڈمیشن آپکی قابلیت کی وجہ سے نہیں اسفر بھائ کی سفارش سے ہوا ہے بیٹا جی" جتنے آپکے مارکس تھے کوئی یونی یہ "خطرہ" مول لیکر اپنا نام نہیں ڈوبانا چاہتی تھی" آپ شکر کریں" کہ آپکو اسلام آباد یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔
وہ اسے اسی کے انداز میں سمجھانے لگے
گویا ایک اور بم پھوٹا "اسلام آباد یونیورسٹی؟ میں کراچی کی اور میں اسلام آباد یونیورسٹی میں وہاں کیسے کس کے پاس رہوں گی؟" وہ سناٹے میں آگئ تھی
"ہاسٹل" میں عرش بیٹا اور یہ آپکے فیوچر کا مسئلہ ہے اور آپ ہمیں مزید مایوس نہیں کریں گی"جواب امی کی طرف سے آیا تھا
اور یہ آج کے دنا کا تیسرا بم تھا جو عرش زہرا کے حواسوں پر پھٹا تھا
وہ گود میں پکڑے کشن زور سے پرے پھینکتی اپنے کمرے کی طرف گئ تھی
"اسفر بھائ لگا لیں سفارش اب کروائیں ایڈمیشن کل پرسوں تک یہ واقعی فارم مانگے گی فل کرے گی اور ناراض ہو کر جائے گی اگلے مہینے تک روتے دھوتے دکھڑے سناتے مان بھی جائے گی" سرور خان نے نہایت کامیابی سے گیم کھیلا تھا جو کامیاب ہوا تھا
*******
اب عرش زہرا چلی گئ تھی صبح سے چار بار سرور خان اسے کسی کام کیلئے آواز دے چکے تھے مگر یہ یاد آنے پر کہ وہ اب گھر میں نہیں ہے وہ گم سم ہوجاتے
دادی اور تائ بھی لاونج میں بیٹھیں تھیں گویا سناٹا ہی تھا سارے گھر میں ایسا لگ رہا تھا جیسے گھر میں اتنے سالوں سے ہونے والا فنکشن اختتام پر پہنچا ہو اور اب کرنے کیلئے کوئ کام نا ہو۔ انہیں رہ رہ کے عرش یاد آتی اسکا ناراض چہرہ جو وہ منہ بنا کے چلی گئ تھی
نورینہ بیگم لاکھ اسے بھیجنے کی ہمنوا تھیں مگر اب متامل نظر آتیں اس گھر پہ گویا ادسیوں نے ڈیرا ہی ڈال لیا تھا۔ اصل میں رونق اب کہیں اور لگنے والی تھی
****
"لائق فائق اور خوبرو وجیہہ لڑکا یونیورسٹی میں تو وہ خودبخود نگاہوں میں آجاتا ہے۔ "
یہ رافیل کا اپنے بارے میں ارشاد تھا جسے سن کر سر جھٹکنے کے سوا کچھ نہیں کیا جا سکتا تھا
بلا کا فیشن ایبل داڑھی کی جگہ چھوٹی سی فرنچ اور مونچھیں ندار سر پہ کھڑے آدھے فٹ کے بال (جسے سب فرینڈ "جھاڑو" کہا کرتے تھے)
اور مناسب قد
اس میں وہ اپنے آپ کو راجہ اندر سمجھتا رہتا
حق بھی بنتا تھا بھئ "شاہ کے ساتھ زیادہ تو وہ ہی پایا جاتا تھا" مشکل سے 60% لیکر کلئیر ہونے والے رافیل کو اپنے لئے لائق فائق کا لفظ استمعال کرتے دیکھ کر شاہ کا دل کیا وہ اسے ائینہ دکھائے مگر الفاظ کا استعمال فضول ہی لگا سو سر دھن کے رہ گیا۔
شاہ یونی کی لان میں آ بیٹھا اور نوٹس بینچ پہ رکھ دئیے اور سر ٹکا کر آنکھیں موند لیں
کسی نے اسکا کندھا ہلایا تھا وہ آنکھیں سکیڑ کر آنے والے کو دیکھنے لگا وہ وہی تھی جو اس دن ملی تھی اور اسے وہ اسپیشل کیس سمجھا تھا مگر ابھی اس طرح اسکا کندھا ہلا کر متوجہ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اسے تاو آیا
"جی فرمائیں؟ اکھڑ لہجہے میں پوچھا(اف یہ لڑکیاں اتنا کیوں نظر میں آنے کے چکر میں ہوتی ہیں)
"محترم آپنے ابھی تک اپنے ان بٹنوں کا علاج نہیں کروایا؟" وہ کوفت سے بولی تھی
"وجہ جان سکتا ہوں اس کامپلیمینٹ کی؟ وہ ٹیک لگا کر سکون سے بیٹھتے ہوئے بولنے لگا وہ جو آنکھیں چڑھائے اسے دیکھ رہی تھی جز بز ہوئ
"کسی کی جگہ پر آکر بیٹھ جانا بد تہذیبی ہے" جیسے یاد دلایا تھا
"بلکل مگر مجھے ابھی تک کسی نے نہیں بتایا کہ یہ بینچ آپ نے اپنے گھر سے لاکر یہاں نصب کروائ ہے" وہ بھی شاہ تھا
"بہتر مگر کوئ نشانی چھوڑ کے جائے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ انسان آرہا ہے اپنی جگہ واپس" اسنے ایک دو صفحات پر مشتمل فولڈ کئے ہوئے نوٹس بینچ سے اٹھاتے گویا اسے جتایا تھا۔
وہ چونکا یہ نوٹس وہ دیکھ نہیں سکاتھا اور حیران ہوا تھا کہ کس حد تک غیر ذمےدار لڑکی ہے اگر ہوا سے نوٹس اڑ جاتے تو؟
"اپنی چیزوں کی حفاظت کیا کریں یہ نوٹس جہاز بنا کر اڑانے کیلئے نہیں ہوتے۔ اور یہ اتنے کم تعداد میں ہیں میں نوٹ نہیں کر پایا کہ ہی نوٹس بھی ہو سکتے ہیں مجھے لگا کسی نے رجسٹر میں سے چند صفحات پھاڑ کے پھینکے ہیں"
وہ شرمندہ کیا ہوتا الٹا طنز کی بوچھاڑ کردی اور ایسے دیکھنے لگا جیسے کہہ رہا ہو ابھی بھی بینچ چاہئے کیا؟
"سو واٹ؟ اڑ جاتے میری بلا سے میں نے کونسا لیکچر اٹینڈ کر کر کے بنائے ہیں میں نے خود میمونہ سے لئے ہیں جہاں تک بات ہے حفاظت کرنے کی تو..وہ اسکے آنکھوں میں جھانکنے لگی طنز سے بات جاری رکھی
"میں اچھی طرح جانتی ہوں مجھے کس چیز کی حفاظت کرنی ہے کم سے کم کسی لڑکی کی نظروں میں آنے کیلئے اتنی "اوچھی" حرکتیں نہیں کرنی چاہیے" وہ بات مکمل کر کے وہاں سے چلی گئ اور شاہ "جواب دیکر ٹائم ضائع کرنے کے مصداق تھا اسلئے سر جھٹک کر رہ گیا"
***
رات اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ براجمان تھی وہ لائبریری کے باہر اور اندر اسٹوڈنٹس کا ہجوم تھا امتحانات قریب تھے وہ سیڑھیوں پہ بیٹھا تھا۔
جب احمد اسکے پاس آیا۔
اور اسے دیکھتے ہی شاہ کو کوفت ہوئ تھی۔
"شاہ ثنا میر واقعی تم سے پیارکرتی ہے اور سیریس ہے اچھی لڑکی ہے فیملی بھی اچھی ہے اور کیا چاہتے ہو تم؟"
"میں اس سے شادی نہیں کرسکتا احمد"
اسے جی بھر کے تاو آیا تھا عجیب مصیبت میں جان پھنس گئ تھی
"یار شاہ تم سے شادی کیلئے کون کہہ رہا ہے کم سے کم تم اسے پازیٹیو رسپانس تو دے سکتے ہو؟ احمد جیسے ٹھان کر آیا تھا کہ شاہ سے "ہاں" کروا کر ہی جائے گا
" میں پازیٹیو رسپانس دے دوں سیدھے سیدھے اسکا مطلب ہےمیں "ٹائم پاس " کروں
اسے آگے تک لے آوں اور بعد میں مجھے شرم سے جھوٹ گھڑ کر بولنے پڑیں کہ میں شادی نہیں کرسکتا؟ یہ مجھے زیب نہیں دیتا" میرے ماں باپ نے مجھے ہمیشہ دھوکہ نا دینے کی تاکید کی ہے احمد مجھے اس میں کوئ دلچسپی نہیں ہے وہ اچھی لڑکی ہے مگر میرے لیئے ٹھیک نہیں ہے یہ جا کر تم اسے کہہ دینا جس نے تمہیں سکھا کر میرے پاس بھیجا ہے" آخری الفاظ احمد کی انکھوں میں جھانک کر ادا کئے تھے اور احمد جیسے پول کھلنے پہ جزبز ہوا تھا آئیں بائیں شائیں کرتے وہ وہاں سے چلا گیا۔
شاہ ٹھنڈی سانس بھر کے رہ گیا کافی کا مگ ہاتھ میں لئے پڑھائ سے بے نیاز واک کرتی عرش زہرا نے ساری گفتگو سنی تھی اپنی تمام تو نالائقیوں کے باوجود اسے سمجھ آگئ تھی یہ بندہ بہت ڈیشنگ ہے
"خیر مجھے کیا" اسنے کندھے اچکائے تھے اور واک کرنے لگی تھی
*****
#جاری_ہے
❤️
👍
😂
😘
🤭
58