Novel Ki Dunya

17.7K subscribers

About Novel Ki Dunya

https://whatsapp.com/channel/0029Va86IjaKWEKhMaNx9m0e

Similar Channels

Swipe to see more

Posts

Novel Ki Dunya
6/1/2025, 4:22:49 PM

#کبھی_دل_نہ_ٹوٹے #تحریر_عاصمہ_بلوچ #قسط_نمبر_11 بیٹا میں تو کب سے صوفے پر آ کر بیٹھی ہوں تم ٹی وی میں کھوۓ ہوۓ تھے کوئی خاص پروگرام بھی نہیں ہے شہری فورا بات کو کھماتے ہوۓ بولا چھوڑیں ٹی وہی کو اور اٹھ کر زمین پر بیٹھ گیا اور سر ماں کی گود میں رکھ دیا ماں اس کو پیار سے سر دبانے اور بال پیچھے کرنے لگی شہری کو بہت سکون محسوس ہو رہا تھا ماما ایک بات پوچھوں ؟ ہاں بیٹا جتنی مرضی پوچھو ایک کیوں کبھی ایسا وقت آ جاۓ کہ ہمیں گھر بیچنا پڑ جاۓ تو آپ بیچ کر خالہ خالو کے ساتھ رہو گی۔ شبانہ خاموش سی ہو گئی کچھ بول نہیں پائی اس کی خاموشی بتا رہی تھی کہ وہ اپنے شوہر کی کمائی سے بنا گھر نہیں بیچنا چاہتی۔ وہ بات کو بدل کر کچھ اور اس سے پوچھنے لگی شہری تم اور تبسم کس بات پر اتنا چلا رہے تھے شہری بجھے سے لہجے میں بولا کچھ نہیں ماما وہ کال کر کے بتایا نہیں تو غصہ ہو رہی تھی کہ اسے یا آپ کو بتا کر جایا کروں شبانہ خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھی شہری بولا ماما یہاں دبائیں یہاں درد ہے شبانہ اس کا سر چومتے ہوۓ دبانے لگی شہری ماں کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا ماما آپ کے پاس سکون ملا اب مجھے نیند آ رہی میں اب سونے چلا آپ بھی اب جا کر آرام کریں شہری اٹھ کر دبے قدموں سے اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔ _______________ لائبہ اور زیشان شرماتے ہوۓ باہر نکلے تو سامنے بیٹھی جمیلہ اور پاکیزہ انہیں دیکھ کر فورا اٹھی اور ان کے قریب آ کر دیکھنے لگی لائبہ کی نظریں جھکی ہوئی تھی زیشان شرماتے ہوۓ بولنے لگا ماما وہ ہاں بیٹا بولو کیا کہا ڈاکٹرنے ؟ ماما آپ دادی بننے والی ہیں پاکیزہ خوشی سے اچل پڑی ارے واہ اس کا مطلب میں پھوپھو جمیلہ لائبہ کے قریب ہو کر اس کا ماتھا چوم کر دعا دینے لگی لائبہ جھکی نظروں سے مسکراتی رہی پاکیزہ بولی زیشو اب تمہارے بچوں کی خیر نہیں اب میں تمہارے بدلے ان سے گن گن کر لوں گی۔ زیشو مسکراتے ہوۓ بولا ہوۓ خبر دار میں تمہیں ان سے بدلہ نہیں لینے دوں گا اور میں انہیں سب سیکھا دوں گا کہ پھوپھو سے زرا بچ کے رہنا یہ بہت چالاک لومڑی ہے پاکیزہ روہنسی ہو کر بولی ماما دیکھو نا زیشو کیا بول رہا ہے جمیلہ دونوں کے کان پکڑ کر بولی اب تم دونوں سدھر جاؤ بڑے ہو گۓ ہو دیکھتے بھی نہیں کہ کہاں پر ہیں بس شروع ہو جاتے ہو لائبہ دونوں کا اس طرح دیکھ کر ہنستی رہی باتوں باتوں میں سب کار تک پہنچے اور گھر کی طرف نکل گئے۔ زیشان ڈرائیو کرتے بار بار لائبہ کو دیکھ رہا تھا جو اس کے ساتھ اگے بیٹھی ہوئی تھی لائبہ زیشان کا دیکھنا محسوس کر رہی تھی اور ہنستی شرماتی رہی پاکیزہ خاموشی سے باہر دیکھتی رہی زیشان سامنے والے شیشے سے پاکیزہ کو دیکھتے ہوۓ بولا پاکی تمیں کچھ یاد آیا اس روڈ کو دیکھ کر پاکیزہ زیشان کی طرف اگے دیکھتے ہوۓ بولی ہاں یہ تو میری یونی کا رستہ ہے افف بدو وہ نہیں کچھ اور پاکیزہ دماغ پر زور دیتے ہوۓ اووو ہاں یاد آیا ہاۓ زیشو وہ دن بھی کیا دن تھے ہر روز کار روک کر بریانی کھا کر آتے تھے اور گھر نخرے کرتے یہ بنا وہ بنا ہم نہیں کھاتے بھوکے رہنے کا ناٹک کرتے تھے اور ماما پریشان کے بچے کچھ کھا کیوں نہیں رہے۔ زیشان قہقہ لگا کر ہنسنے لگا جمیلہ کو اب دونوں کی حرکتيں پتہ چل رہی تھی اور مسکراتے ہوۓ سنتی رہی ۔ زیشان نے کار روکی اور وہی بریانی پھر سے لینے جا رہا تھا تو سب سے پوچھنے لگا لائبہ نے کہا مجھے کچھ نہیں کھانا دل نہیں ہو رہا لے آؤ مگر گھر جا کر کھاؤں گی دو پلیٹ لانا کنجوسی نہیں کرنا جمیلہ بولی نہیں بیٹا زیشان جا کر تین پلیٹیں بریانی لا کر کار میں رکھی اس کی خوشبو کار میں پھیلی تو سب کو بھوک لگنے لگی لائبہ نے زیشان کو دیکھ کر اشارہ کیا کہ پلیز اب کار کہیں نہ روکنا مجھے گھر جا کر آرام کرنا ہے زیشان اس کا اشارہ سمجھ نہیں پایا اور اسے رستے سے میٹھائی بھی تو لینی تھی اس نے تھوڑا اگے کا کر کار رکی اور نکلتے ہوۓ پھر سے پوچھنے لگا کسی کو کچھ چاہیے سب نے کہا نہیں زیشان موبائل اٹھا کر سامنے دکان میں چلا گیا لائبہ موبائل اٹھا کر کچھ ٹائپ کرنے لگی دکان میں کھڑے زیشان نے میسج کھولا Laiba:- Shani plz ghr chalo kab sy ishary kr rahi hon meri tabiyat nahi thek aram krna chati hon ab ghr chlo dekho kesy class letti hon main khamosh hon in dono ki waja sy..😓 زیشان میسج پڑھتے ہوۓ مسکرانے لگا اور ٹائپ کرنے لگا Zeeshan:- Hay main sadky jawan cool down gusa nahi sehat ky liye acha meri janaa😘 اگے سے فورا جواب آیا Laiba:- Nahi hona cool jaldi aa jao bata rahi hon naraz ho gi too phr kabi nahi manu gi😡 زیشان نے دکان کے کونے میں ہو کر مسکراتے ہوۓ ٹائپ کیا Zeeshan:- Hayy janaa plz cool masoom ki jan lo gi kiya😜😘 Laiba:- han lun gi 😡 زیشان نے کار کی طرف وہاں سے ہی نظر ماری اور لکھنے لگا Zeeshan:- Jab sy itni achi news sunahi ha hame to ap ky or dewany pagl se ho gay😂😍 لائبہ منہ بناتے ہوۓ Laiba:- Ok bas ab jaldi aa jao😡 جی بیگم صاحبہ آپ کا حکم سر آنکھوں پر دو منٹ میں پہنچا جیسے بولو گی اب ویسے ہو گا لائبہ نے ہنستے ہوۓ ٹائپ کیا Laiba:-Hahaha pagal😂😂😂 زیشان کو بھی یہاں لائبہ سے چیٹ کر کے بہت مزہ آ رہا تھا تو اور لکھنے لگا Zeeshan:- Haye hans kyu rahi ho ab our kitna gumao gi main to pahly he ap pe fihda hon itni peyari bv jo mil gai لائبہ تیزی سے ٹائپ کرتے ہوۓ Laiba:-Bas b kro ap ko romince ki pari ha muje gusa aa rahi hai.😁😡 زیشان لاسٹ ٹائپ کرتے دکان سے باہر آ گیا Zeshan:- Hahaha زیشان آتے ہی کار تیزی سے گھر کی طرف لے گیا گھر آتے ہی جمیلہ نے لائبہ کو لے کر اند تک چھوڑا پاکیزہ چیزیں اٹھا کر اندر جانے لگی زیشان کار کو اندر کر کے بند کی اور گھوم کر اندر آ گیا جمیلہ آ کر سلطانہ کو خوش خبری سنائی اور میٹھائی دینے لگی سلطانہ بہت ساری دعائیں دینے لگی لائبہ وہاں پڑے صوفے پر بیٹھ گئی پاکیزہ بریانی کو پلیٹ میں نکالنے لگی جمیلہ زیشان کو اندر آتے دیکھ کر بولی بیٹا مجھے پتہ ہے تم اپنے کمرے میں جا رہے ہو لائبہ کو بھی لیتے جاؤ آرام کر لے کچھ دن تک آپ کا کمرہ نیچے کر دوں گی یہ سیڑھیاں اترنا چڑھنا نہ پڑیں نہیں ماما میرا اوپر کمرہ ٹھیک ہے نہیں بیٹا لائبہ کے لیے آنے جانے کا اب مسلہ ہو گا اچھا یہ اب شام کو بتاؤں گا ابھی فریش ہو لوں وہ بول کر اگے بڑھا پھر جمیلہ بولی زیشان سنو زیشان مڑ کر جی ماما بہو کو بھی ساتھ لے جاؤ نا آرام کرے اسے اب آرام کی بہت ضرورت ہے زیشان مسکراتے ہوۓ لائبہ کو تھام کر سیڈھیاں چڑھانے لگا اور کان میں بولا اٹھا کر نہ لے چلوں لائبہ نے منہ بناتے ہوۓ دیکھا کمرے میں جانے ہی لگے تھے کہ زیشان رک گیا ✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨ لائبہ سیریس ہو کر زیشان کو دیکھنے لگی زیشان لائبہ کو دیکھ کر اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوۓ بولا جانوں تمہیں پتہ ہے میں تم سے بے حد محبت کرتا ہوں اس دن سے کرتا ہوں جب پہلی بار تمیں غصہ کرتے دیکھا تھا تب سے اب تک پیار بڑھتا رہی جا رہا ہے اور اب یہ گڈ نیوز سنا دی اب تو پلکوں پر بیٹھا کر رکھنے کو دل کرتا ہے اتنی محبت کرتا ہوں لائبہ مسکراتے ہوۓ اس کے ہاتھ پر پیار کر کے بولی ایک بات پوچھوں اگر مجھے کچھ ہو گیا تو۔۔۔۔؟ زیشان نے ایک دم اس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھتے ہوۓ نفی میں سر ہلایا اور خاموش کروا دیا اور بولنے لگا آج میں اتنا خوش ہوں اور تم ہو کہ کہا الٹا پلٹا بولے جا رہی ہو اب میں بتا رہا ہوں ایسی حالت میں کچھ بھی الٹا سوچا نہ دیکھنا بات بھی نہیں کروں گا ابھی زندگی شروع ہے ہماری وہ منہ بنا کر اٹھ گیا لائبہ اسے روکنے لگی اچھا بابا یہ لو کان پکڑ کے سوری اب میں ایسی بات کبھی نہیں کروں گی زیشان واش روم میں گھس گیا زیشان واش روم سے تولیے سے منہ ہاتھ صاف کرتا ہوا نکلا اور بالکل خاموش تھا لائبہ نے بولا زیشو بات تو سنیں زیشان لائبہ کو دیکھتے ہوۓ خاموش رہا اچھا سوری نا۔۔۔۔ وہ کچھ بولے بنا کھانا کھانے کمرے سے نکل گیا زیشان جیسے ہی کھانے کے میز پر آ کر کرسی پیچھے کر کے بیٹھنے ہی لگا تھا کہ جمیلہ بولی بیٹا ایسا کرو کھانا پڑا ہے اپنے کمرے میں ہی لے جاؤ بیوی کو بھی دو خود بھی وہی کھا لو نہیں ماما اس کا دل خراب ہےتو اس نے کہا کہ وہ کھانا نہیں کھاۓ گی زیشان وہی بیٹھ کر کھانا کھایا اور پھر اوپر کمرے میں چلا گیا اور کمرہ بند کر کے صوفے پر بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے لگا لائبہ زیشان کو ایسے خاموش دیکھ کر بیڈ سے اٹھی اور زیشان کے پاس جا کر کان پکڑ لیا اور بولی دیکھو سوری آج کے بعد کبھی ایسی بات نہیں کروں گی زیشان خاموشی کو توڑتے ہوۓ بولا ایسی بات کی ہی کیوں جس سے میرا موڈ بار بار خراب ہو جاۓ تم جانتی ہو نا کتنا پیار کرتا ہوں تم سے ہاں جانتی ہوں بس ڈر پڑتی ہوں تو بول دیتی ہوں پر اب کے بار پکا وعدہ ایسے نہیں بولو گی زیشان نے لائبہ کو ایسے پریشان سا دیکھا تو گلے لگا کر مسکرانے لگا اور پیار کرنے لگا۔ """"":::::::""""":::::"""""":::::""":::::"""::::::""""" وقت گزرتا گیا شہری تبسم سے بے زار ہو کر ادھر اُدھر وقت گزارنے لگا تبسم اب شہری کو ایسے انداز میں دیکھ کر اداس ہونے لگی کیونکہ تبسم کو اب شہری سے محبت ہونے لگی تھی وہ نیند سے اٹھی تو دیکھا روز کی طرح شہری آفس کے لیے نکل گیا ہے وہ دل میں غصہ تو ہوئی ساتھ سوچنے لگی ایسا کیا کروں کے شہری مان جاۓ روز معافی مانگ تو لیتی ہوں مگر پھر غلطی کر دیتی ہوں شہری اس کے روز روز ایسے رویے سے اب اگتا گیا تھا تو اب اس کی ہر بات کو اگنور کرنے لگا جیسے اس کے لیے اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے تبسم کو اب کچھ احساس ہونے لگ گیا کہ شہری بہت دور ہوگیا آج بہت ٹائم بعد وہ شہری سے پہلے اٹھ گئی اور شہری کی تمام ضرورت کی چیزیں نکال کر بیڈ پر رکھ دی اور بیڈ پر شہری کے پاس بیٹھ کر اس کے بالوں میں ہاتھ کھماتے ہوۓ پیار سے دیکھنے لگی اور جیسے ہی وہ بوسے کے لیے جھکی تھی کہ شہری کی آنکھ کھل گئی وہ تبسم کو پاس دیکھ کر سیڈ پلٹ کر سو گیا مگر تبسم اسے اب بھی بہت نرمی سے دیکھ رہی تھی اور پھر سے اسے اٹھنے کے لیے پیار کرنے لگی شہری نیند میں اسے ڈانٹنے لگا کیا کر رہی ہو اور تمیں کس نے کہا مجھے اٹھا دو میں اپنے حساب سے خود اٹھ جاتا ہوں تمہیں مجھے اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے شہری بہت کچھ بولتا رہا وہ روز کا تنگ ہوا کبھی کھبار دل کی بڑاس نکالتا آج بھی بولے جا رہا تھا مگر اس بار تبسم غصہ نہیں اسے پیار سے دیکھ رہی تھی کیونکہ اب اسے شہری سے بہت پیار ہو گیا تھا کب کیسے ہو گیا اسے نہیں پتہ چلا شہری اٹھ کر بیڈ سے اترنے لگا اور تبسم کو ہلا کر بولا کہ خیالی پلاؤ پکانا چھوڑو اور ہٹو اگے سے میں اٹھوں کیا پاگل ہو گئی ہو میں کب سے ڈانٹے جا رہا اور تم ٹس سے مس نہیں ہوئی مسکراۓ جا رہی ہو تبسم نے پاگل کا سنا تو گردن ہلا کہ بولی ہاں پاگل ہو گئی نہ پوچھ میرے پاگل پن کی وضاحت اے دل نادان...!!! محبت میں کچھ---- سوالوں کے جواب نہیں ہوتے...!!! شہری اٹھ کر واش روم چلا گیا تبسم اب تک وہی مسکرا رہی تھی آج اسے شہری کی کوئی بات بھی بری نہیں لگی تھی شہری نہا کر بالوں کو تولیے سے خشک کر رہا تھا تبسم اسے ہی دیکھ رہی تھی شہری مکمل تیار ہو کر سامنے صوفے پر بیٹھ کر شوز پہننے لگا تو تبسم بیڈ سے جرابے اٹھا کر پیار سے دینے لگی شہری کو وہی تبسم نظر آ رہی تھی ایک دن میں کیا فرق آنا تھا جرابے چھننے کے انداز میں لے کر پہننے لگا اور اٹھ کر بالوں میں برش کرتا ہوا باہر کی طرف جانے لگا اور آواز دینے لگا نوری ۔۔۔۔۔نوری ناشتہ لگا دو تبسم فورا کچن میں گئی نوری یہ ٹرے مجھے دو میں لےکر جاتی ہوں نوری بھی حیرت سے دیکھتے ہوۓ اسے دینے لگی اور چپ چاپ دیکھنے لگی تبسم ٹرے لے کر شہری کے پاس گئی اور ناشتہ اس کے سامنے لگانے لگی اور پاس خود بھی بیٹھ کر کرنے لگی اور شہری کو دیکھنے لگی مگرشہری کو اب کوئی دلچسپی نہیں تھی وہ دل میں حیران بھی تھا مگر اسے پتہ تھا یہ ڈرامہ ایک دن کا ہی ہے کیونکہ بہت بار اس کے ساتھ ایسا ہو چکا تھا دل میں سوچتا رہا تبسم بیگم کتنا ڈرامہ کر لو اب میں تمیں معاف نہیں کرو گا تم اگر ندیم آدئیاں کی بیٹی ہو تو میں بھی اپنے خالد بٹ کا بیٹا ہوں اب کچھ بھی ڈرامہ کر لو اب میں نہیں ان حرکتوں میں آنے والا شہری ناشتہ کرتے ہی کچھ بات کیے بنا چابی اور موبائل اٹھا کر آفس کے لیے نکل گیا تبسم نوری کو برتن اٹھانے کا بول کر اپنے کمرے میں چلی گئی اور شہری کے ساتھ گزرے اچھے پل یاد کر کے خوش ہوتی رہی کوئی عادت____کوئی بات____یا صرف میری خاموشی کبھی تو_____کچھ تو______یاد اسےبھی آتا ہو گا. """::::""""::::""":::::"""":::::"""":::::""":::::"""" زیشان اب زیادہ تر خود ہی تیار ہو کر آفس کے لیے نکل جاتا تھا لائبہ بیڈ پر لیٹے لیٹے بور ہو گئی تھی آج سوچ رہی تھی کیسے تنگ کرو میں اسے زیشان شیسے کے اگے تیار ہو رہا تھا شٹ کے بٹن باندھ رہا تھا اور شیشے سے ہی لائبہ کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا زیشان بال بنا کر برش رکھ ہی رہا تھا کہ لائبہ نے منہ بنا کر اشارہ کیا کہ اچھے نہیں بنے زیشان پھر سے بالوں کو برش کر کے ہیر سٹائل بدلنے لگا اور لائبہ سے پوچھنے لگا اب کیسا ہے لائبہ نے سر نفی میں ہلایا کیونکہ وہ آج تنگ کرنے کے موڈ میں تھی زیشان کتنی بار بال بنا کر بتاتا رہا وہ نفی میں سر ہلاتی رہی آخر براش لے کر لائبہ کے پاس آ گیا افف میں نے ہر طرح کے بنا لیے یہ لو جو تمہارے دماغ میں ہے خود بنا دو یہ لو براش اور یہ رہا میرا سر وہ اس کے پاس نیچے بیٹھ گیا چلو جی بیگم پالر صاحبہ اب مرضی سے بنا دو لائبہ ہنستے ہوۓ بال بنانے لگی اور ایک طرف سے بال بیٹھا دیے ایک طرف سے سارے اوپر کر کے فنی سا بنا کر بولی اب ٹھیک ہے زیشان شیشے میں جا کر دیکھنے لگا اور بہت ہنسا کہ اتنی دیر لگا کر یہ بنایا ہے ویسے اچھا ہے آج میں آفس اسی سٹائل میں جاؤں گا چاہیے لوگ جو بھی بولیں لائبہ ہنستے ہوۓ بولی ارے زیشو تنگ کرنے کو موڈ تھا نہ اس لیے تنگ کیا زیشان شوز پہنتے ہوۓ نہیں آج یہی ٹھیک ہیں بال ارے یہ کیا بچوں والی ضد ہوئی اچھا تو میں مسز زیشان کی طرح ضد کروں جو روز دودھ اور جوس پینتے وقت کرتی ہے زیشو دیکھو نہیں کرو میں بس ایسے ہی بناۓ ہیں آج میں کسی کی نہیں سنوں گا اچھا آپ ایسے ہی جاؤ میں بھی آج سارا دن کچھ بھی نہیں کھاؤں پیوں گی وہ اسے بلیک میل کرنے لگی زیشان نے بولا نہیں کھاؤ گی مجھے بھی کھلانا آتا ہے آج میں بس یہی اسٹائل لے کر جاؤں گا اب وہ الٹا لائبہ کو تنگ کرنے لگا اور جوس کا گلاس اسے دیتے ہوۓ بولا اب جلدی سے میرے سامنے اسے ختم کرو لائبہ نے منہ بنا کر بولا نہیں کروں گی پہلے ہیر سٹائل چینج کرو زیشان لائبہ کے پاس بیٹھ کر زبردستی گلاس اس کے منہ سے لگا کر پلا کر اٹھ کر کھڑا ہوگیا اور خود کو شیشے میں دیکھ کر لائبہ کو دور سے ہونٹ کس والے بنا کر کمرے سے نکل گیا """":::"""::::""":::::::"""":::::""":::::""""::::"""""" تبسم کبھی جان ہی نہیں پائی شوہر کا مقام کیا ہوتا ہے اور وہ اس سے کیا چاہتا ہے وہ اپنی مرضی سے اپنے حساب سے اپنی زندگی گزارتی رہی تھی مگر اب وہ اس کے پیار میں بدل رہی تھی مگر شہری کا مکمل طور پر اب اس سے دل بھر گیا تھا ہر روز جھوٹ بہنے سن سن کر اب اس کا اصل بھی اسے نقلی لگ رہا تھا۔ ✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨ وقت کا کام ہے گزرنا وہ گزرتا گیا تبسم ہر ممکن کوشش کر رہی تھی کہ شہری پہلے جیسے ہو جاۓ مگر وہ پہلے جیسا سلوک نہیں کرتا تھا بس خاموش سا رہتا تھا تبسم اب کافی اندر سے بدل چکی تھی اور سمجھ دار بھی ہو گئی تھی وہ اکیلے میں میں سوچتی رہی کہ شہری کتنا اچھا تھا کتنا اخلاق والا تھا میرے برتاؤ کی وجہ سے آج وہ ایسا ہے اِس میں اس کی کوئی غلطی نہیں ہے سب میرا کیا دھیرا ہے کیوں میں خالہ امی سے بدتميزی کرتی رہی کیوں میں بنا پوچھے گھر سے جاتی رہی اور بیوی کےہوتے ہوۓ شہری تنہا رہا اور خود ہیاٹھ کر آفس جاتا رہا وہ یہ سب سوچ رہی تھی اس کے آنسو خود ہی بہہ بہہ کر اس کے گالوں سے نیچے گر رہے تھے شہری آفس سے سیدھا کمرے میں آیا تو کمرے میں اندھیرا چھایا ہوا تھا اس نے لائٹ آن کی جیسے ہی تبسم کو روشنی محسوس ہوئی تو ایک دم دے منہ آنکھیں صاف کرتے ہوۓ ادھر اُدھر دیکھنے لگی جیسے آنکھوں کو چھپا رہی ہو آپ آ گئے شہری؟ شہری نے ایک ہی نظر میں دیکھ لی تھی تبسم کی آنکھیں سوجی ہوئی مگر کچھ بولے بغیر وہ آفس کا بیگ رکھ کر واش روم چلا گیا تبسم اٹھ کر شیشے کے سامنے اپنا حولیہ درست کرنے لگی اور پھر کچن میں نوری کے پاس چلی گئی نوری کچن میں کام کر رہی تھی تبسم نے آ کر بولا نوری نوری آج شہری جلدی آ گئے ہیں تم ایسا کرو جا کر خالہ امی کو بتا دو شہری آ گئے تب تک میں یہ سب کر لیتی ہوں نوری نے کہا جی بیگم صاحبہ جیسے آپکی مرضی نوری شبانہ کو بتایا اور انہیں باہر لے کر آنے لگی تبسم کھانا ڈال کر میز پر لگا رہی تھی اور نوری اور خالہ کو آتا دیکھ کر بولنے لگی خالہ سنیں اور نوری تم بھی سنو شبانہ کرسی پیچھے کرتےہوۓ بیٹھی اور تبسم کو دیکھنے لگی نوری بھی تبسم کو دیکھ رہی تھی کہ کیا بولے گی میری آپ دونوں سے ایک چھوٹی سی التجا ہے جاری ہے

❤️ 👍 😢 😮 😂 🙏 186
Novel Ki Dunya
6/2/2025, 10:51:38 AM

#کبھی_دل_نہ_ٹوٹے #تحریر_عاصمہ_بلوچ #قسط_نمبر_14 ایسے ہی کافی وقت گزر گیا تبسم اور شہری بہت خوش اور محبت سے رہ رہے تھے مگر تبسم کی پرانی عادت اب تک گئی نہیں تھی وہ ہر موقعے کی تصوریں فیس بک پر اور وائٹس ایپ پر ڈال کر دم لیتی تھی شہری کو یہ عادت اس کی ہمیشہ سے ناگوار تھی مگر اب وہ چپ تھا کیونکہ اس بات سے اکثر ان میں تکرار ہو جاتا تھا جیسے شہری کچھ بولتا تو وہ ناراض ہوتی اور لڑ پڑتی تھی باقی سب باتیں مان لیتی مگر یہ نہیں چھوڑا کہ تصوریں ہی ہیں اور کون سا لوگ ایڈ ہیں سب اپنے ہی دوست کزن ہیں اس سے کیا مسلہ ہے تو اب شہری بس دیکھ کر خاموش تھا۔ وہ ہمیشہ کی طرح تصوریں دوستوں کو ٹیگ کرتی تھی۔اور اپنی تعریف سن کر بہت خوشی محسوس کرتی تھی اب فیس بک وائٹس ایپ کے علاوه ٹک ٹاک بھی ہو گیا وہاں بھی دوست ہی ایڈ تھے وہ کسی انجانے کو ایڈ نہیں کرتی تھی کبھی۔ سمیرا تبسم کی جو دوست تھی اس کا یونیورسٹی میں کسی حمزہ علی کے ساتھ چکر چلتا رہا وہ کبھی اس کے پاس تو نہیں آیا مگر دور سے سلام دعا کر دیتا تھا سمیرا نے فیس بک آئی ڈی میں حمزہ علی کو ایڈ کر لیا تھا حمزہ علی کو سمیرہ سے اتنا تھا نہیں مگر جب تبسم اپنی پک سمیرا کو ٹیگ کرتی تو وہ حمزہ بھی دیکھ لیتا تھا یونیورسٹی میں حمزہ علی تبسم کا دیوانہ تھا کئی بار وہ تبسم سے بات کرنے کی کوشش کرتا رہا مگر تبسم کبھی اسے منہ نہیں لگاتی تھی پھر حمزہ علی نے اس کی دوست سمیرہ سے رابطے بڑھاۓ کیونکہ وہ اب تبسم کی بےروخی سے اس کو بدنام کرنا چاہتا تھا تبسم نے بہت بار حمزہ کی بےعزتی کی وہ اندر ہی اندر انتقام لینے کا سوچتا رہا اور سمیرا کو سیڑھی بنا کر اس تک پہنچا چاہتا تھا سمیرا کو جھوٹی محبت میں پھنسایا مگر سمیرہ اس کا ایسے کرنا پیار سمجھ رہی تھی اور وہ اس کی محبت میں گرفتار ہو چکی تھی اسے خبر بھی نہیں تھی کہ وہ آستین کا سانپ پال رہی ہے۔جو انہیں اس طرح زلیل کر دے گا سوچا بھی نہیں تھا۔ اب دن رات سمیرا اس سے باتیں کرتی اس کی دیوانی ہو چکی تھی کہ اس کو آئی ڈی میں بھی ایڈ کر لیا تھا اور اپنا نمبر بھی اسے دے دی تھی حمزہ ٹائم پاس کے لیے سمیرا سے بات چیت کر لیتا اور سمیرا نے خوابوں کا شہزادہ بنا لیا تھا حمزہ تبسم کے پاس ایڈ تو نہ تھا مگر جب تبسم سمیرا کو اپنی تصوریں ٹیگ کرتی تو حمزہ کو بھی وہ نظر آ جاتی تھی وہ تبسم کی ہر تصویر اٹھا کر اپنے موبائل سیور کرتا رہا اور سو سے اوپر تصوریں ہو گئی تو اس نے تبسم کے نام سے ایک فیک آئی ڈی بنا لی اور ہر لڑکے کو ایڈ کر کے ان کو بےوقوف بناتا رہا سب تبسم تبسم کرتے وہ ہر روز نئی نئی تصوریر لگاتا تو ہزاروں لائیک لیتا اور بہت سے تبسم بن کر بات کرتا حمزہ سمیرا سے اس کی آواز میں میسج مانگتا اور وہ اسے دے دیتی تھی حمزہ اس کی آواز اور لڑکوں کو بھی دے دیتا تھا وہ سچ سمجھتے کہ یہ تبسم ہی ہے اور کسی کو نہیں پتہ تھا کہ اس تبسم نام کی آئی ڈی میں حمزہ علی ہے سب تبسم کے دیوانے ہوۓ بیٹھے تھے اسطرح تبسم کو وہ بدنام کر رہا تھا بہت سے لڑکوں سے ایسی بےہودہ چیٹ کرتا کہ سب بات کے لیے بےچین ہوۓ رہتے سمیرا اپنی تصویر آپلوڈ کرتی تھی مگر ہمیشہ دوستوں کے ساتھ تبسم کے ساتھ ہوتی تھی جو ٹک ٹاک پر بناتی تھی اور پھر یہاں بھی ڈالتی تو حمزہ مزے سے دیکھتا اور پھر اٹھا کر فیک والی تبسم کی آئی ڈی میں ڈال دیتا تبسم اب شہری کے ساتھ خوش خوش اپنی تصوریں لگانے لگی تھی حمزہ وہ دیکھ دیکھ کر جلتا رہتا اور تنہائی میں جب بھی نشے کی حاکت میں ہوتا تصوریں کھول کر دیکھتا اور بولتا تم بس میری ہو صرف میری میں تمہیں کسی اور کا نہیں ہونے دوں گا اگر تم میری نہیں ہو سکتی تو میں تمہیں کسی اور کا بھی نہیں ہونے دوں گا وہ نشے میں چلا چلا کر بولتا اور پھر وہی سو جاتا ______________ شہری آج نیند سے اٹھا تبسم کو گیلے بالوں میں دیکھ کر ہلکی پالکیں چھپک کر بولنے لگا جان اندر آؤ نا تبسم شیشے سے دیکھتے ہوۓ بولی جناب زرا ٹائم پر بھی ایک نظر ڈال لیا کرو جب دیکھو رومینس کی پاتی ریتی ہے ارے جانی وقت دیکھا ہوا ہے روز ہی ہاں تو یہ وقت آفس کا ہوتا ہے تبسم بالوں کا جوڑا بناتے ہوۓ مڑی چلو جلدی سے تیار ہو کے آئیں میں ناشتہ لگواتی ہوں اور ہاں میں نے سب کچھ نکال کر اپنی جگہ رکھ دیا ہے آپ فریش ہو کر سب پہن کر نیچے آ جائیں شہری تبسم کو دیکھ کر منہ بنایا بیڈ پر تکیہ لے کر منہ پر رکھا اور سو گیا تبسم ہنستی ہوئی کمرے سے نکل کر کچن میں چلی گئی وہاں نوری ناشتہ تیار کر رہی تھی تبسم نے نوری کو دلام کیا اور دیکھنے لگی کیا کچھ تیار ہوا نوری سلام کا جواب دیتے ہوۓ بعلی بیگم صاحبہ میں نے سب کر لیا ہے نوری تم برتن دیکھ لو میں چاۓ بنا لیتی ہوں ویسے بھی خالہ امی کو اور شہری کو میرے ہاتھ کی چاۓ پسند ہے تبسم چاۓ بنا کر اور نوری کے بنے پراٹھے اور املیٹ میز پر رکھنے لگی شہری مشکل سے اٹھ کر تیار ہو رہا تھا اور ساتھ ساتھ تبسم کو آوزیں بھی دے رہا تھا فضول میں ہی مگر تبسم اب سب شہری کی حرکتوں سے واقف تھی۔وہ یہی سے ہنس کر آواز لگاتی چیزیں صوفے پر رکھی ہیں جلدی تیار ہو کے نیچے آ جائیں ۔وہ تبسم کے ایسے جواب سن کر منہ بھی بنا لیتا تھا اور ساتھ تیاری کرتا رہتا تبسم اتنے میں شبانہ کو بھی میز پر لے آئی شہری چلا کر پھر سے تبسم کو بولانے لگا تابوں جلدی آؤ دیکھو شرٹ کا بٹن ٹوٹ گیا ہے تبسم شبانہ کو کرسی پر بیٹھا کر خود شہری کے پاس چلی گئی اور بولی جی فرماؤ کتنا شور مچاتےہو بولو اب کیوں بولایا تھا یہ دیکھو نا شرٹ کا بٹن افف شہری یہ بھی خود توڑا ہو گا شہری بالوں میں ہاتھ مارتے ہوۓ پتہ نہیں یاد نہیں بس ٹوٹ گیا تبسم نے بولا اچھا آپ یہی روکو میں آتی ہوں شہری کے دماغ میں فلم کی طرع رومینس گھوم رہا تھا کہ ایک بیوی شوہر کا بٹن لگاتی ہے اور وہ اسے باہوں میں بھر لیتا ہے اگے بھی تبسم تھی ایک دم دوسری شرٹ نکال کر اس کے ہاتھ میں دے کر بولی یہ پہن لیں اور خود کمرے سے باہر نکل گئی شہری نے منہ بنا لیا اور خود سے بڑبڑانے لگا کہ کتنی ظالم بیوی ملی ہے مجھے لگا پیار سے آ کر بٹن لگاۓ گی وہ الٹا اور شرٹ دے کر چلتی بنی۔ شہری شرٹ بدل کر باہر آ گیا اور ناشتے کے میز پر چپ چاپ ناشتہ کرتا رہا تبسم شہری کا پلاں فیل کر کے مسکرتی رہی شہری منہ بنا کر ناشتے سے فارغ ہوتے ہاتھ دھو کر بیگ اٹھا کر بنا کچھ بولے آفس کے لیے نکل گیا تبسم پیچھے ہنستی رہی اور کمرہ صاف کرنے لگی شہری آفس پہنچ کر اپنے کام میں مصروف ہو گیا مگر تبسم کو ہی سوچتا اتنے میں دروازہ بجا تو شہری نے آرام سے کہا آ جاؤ عالیہ اندر آئی اور بولی شہری سر آپ کو سر ندیم بولا رہیے ہیں اچھا تم چلو آتا ہوں شہری لیپ ٹاپ بند کرتے ہوۓ کرسی پیچھے کی اور تیزی سے ندیم صاحب کے آفس دروازہ بجا کر داخل ہوا ندیم صاحب کی میز پر ایک فائیل تھی جو وہ پڑھ کر پریشان ہو رہے تھے شہری کو دیکھ کر اسے بیٹھنے کو بولا شہری ان کی پریشانی چہرے سے محسوس کرتے ہوۓ کرسی کھنچ کر بیٹھا سر سب ٹھیک تو ہے؟ ندیم وہ فائیل اس کو دیتے ہوۓ بولے دیکھو اس کو شہری بھی فائیل دیکھ کر پریشان سا ہو گیا سر اتنا نقصان ہو رہا ہے اس والی فیکٹری کو آپ نے یہ ایاز خان کو دی تھی نا پھر اتنا نقصان کیسے ہو رہا ہے ندیم شہری کو دیکھتے ہوۓ بولے پتہ نہیں بیٹا میری سمجھ سے باہر ہے اب یہ وہاں جا کر ہی پتہ چلے گا آخر ہو گیا رہا ہے اچھا ایسا کرو تم ہی جا کر دیکھ لو شہری بنا بولے ھھمم اوکے سر دیکھ لوں گا شہری یہ بول کر اٹھا فائیل لے کر اپنے آفس روم چلا گیا وہاں خاموشی سے فائیل دیکھ کر جائزہ لیتا رہا _______________ حمزہ نے آخر وہ کر ڈالا جو سمیرہ نے کبھی سوچا بھی نہ تھا حمزہ سمیرا کو کال کر کے گھومنے جانےکےلیے بولتا ہے سمیرا نے کہا حمزہ دیکھو جب ہم یونیورسٹی تھے تو میں تمہیں مل لیا کرتی تھی مگر اب میں گھر سے نہیں نکل سکتی نہ میں جاب کرتی ہوں کہ نکل سکوں ایسے کیسے ملوں افف جا میں جاب کے لیے بہت کوشش کر رہا ہوں جیسے ہی کوئی اچھی جاب ملتی امی کو آپ کے ہاں بھجیوں گا بس تم دعا کرو جاب مل جاۓپھر ہم جلد شادی کر لیں گے ہاں وہ تو ہے دعا تو میان کرتی ہوں مگر مل نہیں سکتی یہ میرے لیے ممکن نہیں جان پورے چھ ماہ ہو گئے تمہیں دیکھے ہوۓ بس میسج کال بات ہو رہی مجھے اب بس کیسے بھی میری جان سے ملنا ہے۔ ارے حمزہ پلیز سمجھو ضد نہیں کرو بس اب مجھ سے بات نہیں کرو میں ناراض ہوں تم سے ایک خواہش نہیں پوری کر سکتی میری یہ کیسی محبت ہے کہ جس پر یقین ہی نہ ہو حمزہ سمیرہ سے ناراض ہونے کا ڈرامہ کیا سمیرہ بہت میسج کال مگر وہ بات نہیں کرتا تھا سمیرا تو اسے بہت دل جان سے چاہینے لگی تھی آخر اس سے اس کی ناراضگی برداشت نہیں ہوئی اس سے رہ نہیں گیا اس نے حمزہ کو میسج کیا کہ میں ملنے کو تیار ہوں وہ گئی اور وہ اس سے ملا اور دوستوں کو تصوریں بنانے کا بولا ہوا تھا اس کے دوست اس کی تصوریں بناتے رہے ایسے سمیرہ اب ہر ماہ اس سے ملنے آ جاتی تھی پھر حمزہ نے ضد کی کہ یہ بہت لمبا وقت ہے پندہ دن کر لو تو سمیرہ تبسم کے گھر جانے کا بہانہ کر کے اس سے پندہ دن بعد ملنے لگی حمزہ ہر ملاقات پر نئی تصوریں بنواتا رہا حمزہ اپنے پلان میں اب کافی حد تک کامیاب ہو چکا تھا اب اسے اس دن کا انتظار تھا جب تبسم اس کے پاس آۓ _______________ شہری گھر آتے ہی تھکا تھکا تھا سامنے نوری تھی بولا نوری پانی لے آؤ نوری نے پانی لایا تو شہری نے پانی لیتے ہوۓ بولا تبسم کہاں ہے؟ شہری صاحب وہ اپنے کمرے میں ہیں تبسم نے شہری کی آواز سنی تو کمرے سے باہر آ کر شہری کو دیکھ کر بولی شہری آپ کو کچھ چائیے؟ شہری جو صوفے سے ٹیک لگاۓ آنکھیں بند کر کے ریلکس ہو رہا تھا فورا آنکھیں کھولی نہیں پانی چاہیے تھا نوری نے دے دیا تبسم شہری کی آفس چیزیں جو اس نے میز پر رکھی تھی اٹھا کر کمرے میں جانے لگی شہری بھی اٹھ کر اس کے پیچھے آ گیا اور آ کر بیڈ بیٹھ کر شوز اتارنے لگا تبسم نے بولا آپ رہنے دو میں کر دیتی ہوں نہیں بس تم مجھے کپڑے دے دو چنچ کر کے سونا چاہتا ہوں سر میں بہت درد ہے کھانا بھی اٹھ کر ہی کھاؤں گا تبسم نے المارے سے کپڑے نکال کر اسے دیے لگتا ہے بہت آج تھک گئے ہو ہاں بس شہری نے کپڑے لیے اور واش روم گھس گیا تبسم جلدی سے ایپل کا فریش جوش لے آئی جیسے شہری فریش ہو کر نکلا تو تبسم کے ہاتھ میں جوس کا گلاس دیکھ کر بولا اس کا بھی دل نہیں ہے بس آرام کرنا چاہتا ہوں لائٹ آف کر دو شہری لیٹ گیا تبسم لائٹ آف کر کے اس کے پاس بیٹھ کر بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگی کیا بات ہے شہری آپ کچھ پریشان سے لگ رہے ہو نہیں بس تھک گیا ہوں سو کر اٹھو گا تو نارمل ہو جاؤں گا اچھا آپ سو جائیں میں سر دباتی ہوں وہ سر دبانے لگی اور آہستہ آہستہ سارے دن کی باتیں پوچھتی رہی افف بابا نے آپ کو یہ کیوں دیا اب دو دن آپ مجھ سے دور رہو گئے میں بابا سے بول کر منا کر دیتی ہوں ارے جان میں اگر تمہارے بابا کے ساتھ نہ ہوتا تو اور بھی جگہ ایسے کام ہوتے نا تبسم نے منہ بنا کر بولا تو پھر میں بھی ساتھ چلوں گی شہری نے ہنسی دباتے ہوۓ بولا افف تم ساتھ گئی تو میں اپنی لوور کے ساتھ ڈیٹ کیسے ماروں گا تبسم نے اس کے سینے پر لاڈ سے مکا جڑ دیا شہری آپباز نہیں آئیں گے ایسی باتوں سے شہری نے کہا مجھے مزہ آتا ہے تمہارے چہرے کے زاویے بدلتے دیکھ کر شہری باتیں کرتے کرتے وہی سو گیا دن گزرتے رہے آۓ دن حمزہ سمیرہ کو تنگ کرتا رہا اس کی بنی تصوریں اسے دیکھ کر بلیک میل کرتا اور اسے ملنے پر مجبور کرتا سمیرا اب اپنے گھر والوں کی عزت کے لیے اس کے اگے کٹ پتکی بنی رہی _________________ شہری اٹھا اور اپنی شہر سے باہر دو دن رہنے کی پیکنگ کروا رہا تھا تبسم پوچھ پوچھ کر سب ضرورت کی چیزیں ڈال رہی تھی اور اس کے جانے پر دل بہت اداس بھی تھا اس کا شہری تیار ہو کر بیگ اٹھا کر نکلنے لگا اور گلے مل کر بولا جان ماما کا بہت خیال رکھنا اور جب تک میں نہیں آؤں گھر سے نہیں جانا کہیں بھی پھر میں آؤں گا تو گھومنے چلیں گے وہاں سے کچھ بھی چاییۓ ہوا میسج کر دینا اپنی جان کے لیے لیتا آؤں گا تبسم بس خاموش اداس اسے دیکھتی رہی شہری اس کے ماتھے پر بوسہ لیتے ہوۓ اپنی ماما کو سوتے میں دیکھ کر سفر پر نکل گیا ۔ تبسم شہری کے جاتے ہی اداس رہی ناشتہ بھی نہیں ٹھیک سے کیا نہ کھانا صیحح سے کھایا خاموشی سے کمرے میں لیٹی ہوئی تھی اتنے میں میں سمیرا نے ویڈیو گروپ بنایا اس میں تبسم اور افزاء کو ایڈ کیا اور کال بات کرنے لگی تبسم نے سمیرا کو دیکھا جو بہت کمزور اور کلر خراب ہوا تھا تبسم سمیرا کی حالت دیکھ کر غصہ ہوئی اس پر افزاء بھی اسے سناتی رہی تب سمیرا دونوں کے سامنے رونے گڑگڑانے لگی مدد مانگنے لگی مگر دونوں نے اس کی مدد کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا سمیرہ روتے ہوۓ موبائل بند کر کے رکھ دیا کچھ دیر بعد تبسم کو خیال آیا کہ دوست ہے بےبس ہے تو اس کی مدد کر دینی چاہیے اس کا ایک دل کر رہا تھا جا کر حمزہ کو بہت سنا کر آئے مگر پھر اسے یاد آیا کہ شہری نے باہر جانے سے روکا ہے تو میں شہری کو نہیں کھونا چاہتی۔ تبسم اسی بارے میں سوچتی رہی اور شام ہو گئی رات کو شہری کی کال آئی تبسم نے شہری کی دیکھ کر فورا اٹھائی کیسے ہیں آپ میں ٹھیک ہوں میں خیریت سے پہنچ گیا ہوں اب تھوڑا تھکا ہوا سو کر اٹھوں گا تو فریش محسوس کروں گا اور ماما کیسی ہیں خالہ امی ٹھیک ہیں انہیں کھانا کھلا کر دوا دے کر سلا دیا اب میں بھی سونے ہی لگی تھی اچھا جانی تم اب سو جاؤ میں بھی سونے لگا ہوں تبسم نے بہت ٹائم بعد آج شہری سے پھر جھوٹ بولا اور موبائل رکھ کر تیار ہونے لگی تیار ہو کر شبانہ کے پاس آئی خالہ امی شہری نہیں ہیں تو دل بہت گھبرا سا رہا ہے اگر آپ اجازت دیں تو میں ماما کے گھر سے ہو آؤں کچھ دیر میں آ جاؤں گی ہاں بیٹا تم جاؤ شہری کی کال آئی تو بتا دوں گی نہیں خالہ امی انہیوں نے ابھی کال کی تھی آپ کا بھی پوچھا تھا سفر سے تھکے تھے سونے لگے تھے۔ شبانہ تبسم کو دیکھتے ہوۓ بولی اچھا بیٹا تم ہو کے آ جاؤ یہاں سے بھی کامیاب ہو گئی تھی اور خود ڈرئیو کرتے ہوۓ نکل گئی اور رستے میں سمیرا کو کال کی کہ تم تیار رہو میں تمیں لینے آ رہی ہوں جیسے سمیرا کے گھر کے پاس گئی وہ اگے تیار تھی دونوں باتیں اور سفر جاری تھا تبسم سمیرا سے ساری تفسیل لیتی رہی جب ساری بات جان لی تو بولی تم حمزہ کو کال کر کے کسی ریسٹورینٹ میں بولا لو میں اس سے خود بات کروں گی تم کار میں ہی انتظار کرو میں ساری تصوریں اس کے موبائل سے ختم کروا کر واش کر کے آؤں گی اور تبسم حمزہ کے بتاۓ ہوۓ رستے پر انتظار کرتی رہی ____________ ✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨ حمزہ لال شرٹ اور کالی پینٹ میں تھا سامنے تبسم کو دیکھ کر مسکرایا وہ چالاک انسان ایسے کیسے اکیلا آ سکتا تھا ساتھ دو دوست لایا جو ان دونوں کی تصوریں بنائیں گے حمزہ اور تبسم جیسے آمنے سامنے ہوۓ ادھر دوستوں نے تصوروں کا کام جاری کر دیا تبسم اس بات سے انجان تھی حمزہ تبسم کو کھانے کا بولتا رہا مگر تبسم نے بس جوس پیا اور مسلسل سمیرا کی تصوریں لینے کی ڈیمنٹ کرتی رہی اور بولی کہ اپنا موبائیل دو میں اس سے ساری واش کروں گی اور جو کمیرے والی ہیں وہ بھی میرے حوالے کرو میں تمہیں اس کی منہ مانگی قیمت ادا کرنے کو تیار ہوں ارے تبسم جی آپ کا کہنا ہی میرے لیے کافی ہے آپ قیمت کی کیا بات کرتی ہیں حد ہے یار اور ساتھ ہی حمزہ کا شیطانی قہقہ بلند ہوا ہاہاہاہاہا تبسم نے غصے سے اسے دیکھا یہ فصول کا ہنسنا بند کرو اور کام کی بات کرو مجھے وہ میمری دو جس میں سمیرا کی ساری تصوریں ہیں اور جو موبائیل میں ہیں وہ میرے سامنے ساری ختم کرو وہ بہت سیریز ہو کر بولتی رہی حمزہ نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو تبسم نے ہاتھ اگے کر دیا اور حمزہ نے رنگ نکال کر اگے کی تبسم کی اور اسکی ساری تصوریں بنتی رہی تبسم ایک دم غصے میں اٹھ کر کھڑی ہو گئی اور بولی گھٹیا پن بند کرو اور تصویریں دو حمزہ بولا کول یار بیٹھو دیتا ہوں دوست نے اشارہ کیا کے کام ہو گیا جاری ہے

❤️ 👍 😢 😮 🙏 😂 158
Novel Ki Dunya
6/3/2025, 6:34:55 AM

#کبھی_دل_نہ_ٹوٹے #تحریر_عاصمہ_بلوچ #قسط_نمبر_17 شہری تبسم کو جاتا دیکھ کر اپنے آنسو صاف کر کے جانے کےلیے موڑا ہی تھا کہ شہلا اور ندیم اندر داخل ہوۓ شہری انہیں دیکھ کر بنا کچھ بولے منہ موڑ کر نکل گیا جب ندیم کو ساری حقیقت کا پتہ چلا تو بہت پریشان رہنے لگا ایک سال سے اوپر گزر گیا اپنی بیٹی کی شکل تک نہ دیکھی اور اس کی بات پر بھی بھروسہ نہ کیا وہ تبسم کے کمرے میں جا کر معافی مانگنے لگے تبسم نے انہیں معاف کر دیا مگر اس کا دل باپ کی محبت سے بھی ٹوٹ چکا تھا جن کو اپنی پرورش پر بھی شک تھا بے شک میں لاڈ سے تھوڑی بگڑی تھی مگر اتنا گٹھیا پن نہیں کر سکتی تھی آخر میں خون تھی ان کو تو بھروسہ کرنا چاہیے تھا وہ اب اکیلے رہنا زیادہ پسند کرتی تھی اور تنہائی سے خوش تھی _____________ مزید تین سال بعد زیشان گلاسسز پہنے بیڈ پر بیٹھا اپنا آفس کا کچھ کام کر رہا تھا پاکیزہ لینہ کے ساتھ مل کر کچن میں میگی بنا رہی تھی اور پاس ہی سلطانہ چاۓ بنا رہی تھی پاکیزہ اور سلطانہ لینہ کی باتیں سن کر ہنستی رہی لینہ پاکیزہ کو ہلاتے ہوۓ بولی ایلے پھوپھو جلدی کالو نا مجھے میگی کھانی بھوگ لدی ہے(ارے پھوپھو جلدی کرو نا میگی کھانی ہے بھوک لگی ہے) لینہ جنپ کرتے ہوۓ کچن میں ادھر اُدھر اچھلتی رہی ساتھ بولتی رہی پاکیزہ لینہ کو دیکھتے ہوۓ بولی پھوپھو کی جان تھوڑا سا اور انتظار کرو ابھی تو پانی میں ڈالی ہے سلطانہ زیشان کے لیے چاۓ بنا کر اسے دینے جا رہی تھی ادھر سے زیشان نکل کر کچن کی طرف ہی آ رہا تھا زیشان بچہ میں چاۓ لے کر تمہارے کمرے میں ہی آ رہی تھی ارے آپا وہاں میز پر رکھ دیں لینہ کہاں ہے نظر نہیں آ رہی وہ پاکی کے ساتھ کچن میں ہے زیشان سن کر کچن کی طرف آ گیا اور کچن آتے ہی لینہ کو ایسے دیکھ کر مسکرانے لگا اور کسی کھوئی ہوئی چیز کو ڈھوڈنے کے انداز میں ادھر ادھر دیکھ کر بولنے لگا ارے پاپا کی گڑیا لینہ پتہ نہیں کدھر کھو گئی مل نہیں رہی لینہ سنتے ہی ہنستے ہوۓ اس کی طرف بھاگی وہ پھر بھی بولتا رہا نظر نہیں آ رہی آج کدھر گئی میری گڑیا اتنے میں پاکیزہ آئی اور بولی ارے زیشو یہ رہی لینہ جنپ کرتے ہوۓ بولنے لگی پاپا ادھر دیکھو نا یہ رہی میں وہ زیشان کی ٹانگوں سی لیپٹنے لگی زیشان نے پاکیزہ سے کہا آؤ ہم باہر لینہ کو ڈھونڈنے چلے یہ لڑکی پتہ نہیں کون آ گئی ہے لینہ رونے لگی پاپا میں یہ ہوں نا۔۔۔۔ زیشان ایک دم اسے اٹھا کر پیار کرنے لگا اور چپ کروانے لگا اور جا کر سامنے والے صوفے پر بیٹھ گیا اور بیٹی سے بہت مستی کر کے کھیلنے لگا پاکیزہ میگی لا کر میز پر رکھی اور بولی آ جاؤ اب کھاتے ہیں زیشان بھی ساتھ ان کے کھانے لگا اور ایسے ہنسی مزاق میں میگی سب نے کھائی جمیلہ خادم حسین کے ساتھ ہر بار لڑ پڑتی زیشان کے بابا پاکیزہ اب جوان ہو گئی ہے اس کی شادی کی اب فکر کریں جو بھی رشتہ آتا ہے اچھا بھلا ہوتا ہے آپ کو لڑکے میں خرابی ہی نظر آتی ہے کہاں سے اترے گا شہزادہ اب اس کے لیے ۔۔۔ اس کی شادی کرنی بھی ہے یا گھر ہی بیٹھا کر رکھنا ہے عمر شادی کی نکل گئی تو رشتے بھی نہیں آئیں گے ارے جان کیوں اتنی فکر کرتی ہو اللہ نے جوڑی بنائی ہوئی ہو گئی جلدی یا دیر سے وہی آۓ گا اور کوئی نہیں لے جا سکتا میں نے کافی لوگوں سے بول رکھا ہے اچھا لڑکا ملے تو ہو جاۓ گئی یہ شادی نصیب سے ہوتی ہے ہماری تمہاری مرضی سے نہیں ہوتی ۔جب قسمت میں ہوئی ہو جاۓ گی بے فکر رہو ۔ اوپر سے زیشان کے لیے جہاں دیکھوں رشتہ وہ لوگ ہمیں شک کی نظر سے دیکھتے ہیں زیشان بھی دوسری شادی کے لیے مانتا ہی نہیں ۔جب بولوں بات کو گھما دیتا ہے غصہ کر جاتا ہے بچوں کی عمر نکلی جا رہی ہے ماں ہوں تو فکر تو ہو گی نا۔۔۔ ہاں جان میں سمجھ رہا ہوں تمہاری بات کو مگر اپنی طرف سے میں بھی کوشش کر رہا ہوں جمیلہ اور خادم کی ٹوک نوک چلتی رہی ۔۔ ✨✨✨✨✨✨✨✨✨ وقت تو جیسے پر لگاۓ اڑتا جا رہا تھا ہاتھ سے نکلتا رہا زیشان نے لینہ کا سکول میں داخلہ کروا دیا لینہ بہت خوشی سے سکول جاتی تھی عام بچوں کی طرح تنگ بھی نہیں کرتی تھی زیشان روزانہ آفس جاتے لینہ کو سکول چھوڑتا تھا اور واپس شیر گل کے ساتھ آتی تھی تبسم گھر میں بہت بور سی ہونے لگی تو وہ اپنے گھر کے سامنے والے بچوں کے سکول چلی جاتی اور ایک دو کھنٹے بچوں کے ساتھ گزار کر بہت سکون سا محسوس کرتی خاص کر بریک میں بچوں کے ساتھ باتیں کھانا پینا کھیلنا پھر گھر چلی جاتی سب ٹیچرز اسے جانتی تھی اس لیے اس پر آنے جانے کی کوئی پابندی نہیں تھی کافی ٹائم سے اس کا اب یہی معمول بن چکا تھا لینہ جب سے داخل ہوئی اس کی دوستی تبسم سے ہو گئی لینہ زیشان بہت سلجھی ہوئی تمیز دار بچی تھی کلاس میں بھی اکٹیو رہتی اور بریک میں تبسم کے ساتھ وقت گزارتی تبسم اس سے پیار سے پوچھنے لگی ارے شونی شی گڑیا کا نام کیا ہے؟ لینہ لنچ کرتے ہوۓ بولی انٹی میلا نام لینہ زیشان ہے اوو بہت پیارا نام ہے اور لینہ زیشان یہاں کیا کرتی ہے انٹی میں پوائم پڑھتی ہوں ارے واہ آپ کو پوائم آتی ہے ہاں نا مجھے سب کچھ آتا ہے تبسم اس کی پیاری پیاری معصوم باتیں بہت انجوۓ کرتی اور ہنستی اب تبسم اور لینہ کی سکول میں کافی دوستی ہو چکی تھی اور تبسم اب لینہ سے ہی ملنے سکول آیا کرتی تھی ______________ شہری اب آفس جاتے ہوۓ پاکیزہ کا پروگرام انجواۓ کرتا جاتا تھا اور بہت شوق سے سنتا تھا اور نہ جانے کیا اس کی آواز میں اسے اک انجانی سی کشش محسوس ہوتی تھی وہ پاکیزہ کے بارے میں معلوم کرنا چاہتا تھا کہ یہ کہاں کی لڑکی ہے اس کی آواز میں ایسا کیا جادو ہے کہ نہ چاہتے ہوۓ بھی میں اس کی طرف کشش محسوس کرتا ہوں وہ اس کے پروگرام اکثر کال ملا کر بات بھی کر لیتا تھا مگر اب آن لائن تو اس کی لائف کے بارے میں کچھ پوچھ نہیں سکتا تھا مگر اسے دل میں بہت خواہش تھی کہ اس لڑکی کے بارے میں کچھ تو پتہ چلے ۔ پاکیزہ کو خبر بھی نہیں تھی کہ اس کے سنننے والے اس قدد اس کی آواز کے گرویدا ہیں ۔ _______________ اب لینہ کی یہ ضد تھی پاپا ہی مجھے چھوڑنے آئیں اور لینے بھی مجھے شیرگل بابا کے ساتھ نہیں جانا تو اب زیشان بیٹی کے پیار سے مجبور آفس سے کام چھوڑ کر اسے لینے آ جاتا تھا سب اب خوش باش تھے۔۔ _______________ زیشان آفس کا کچھ کام گھر میں رات کو بھی کر لیتا تھا جیسے ہی ختم کیا لینہ کے لیے دودھ لایا یہ پیو اور پھر سوتے ہیں کل سکول بھی تو جانا ہے میری گڑیا کو پاپا ابھی نیند نہیں آ رہی نا کیسے سو جاؤں اچھا دودھ تو پی لو لینہ بیڈ پر جنپ کرتے ہوۓ بولی پاپا روز دودھ نہیں نا میری گڑیا دودھ نہیں پیے گی تو بڑی کیسے ہو گئ پاپا میں ایک شرط پر پیوں گی اوو ہوو اب پاپا سے شرط بھی رکھی جاۓ گی اچھا جلدی سے بتاؤ کون سی شرط؟ مجھے دودھ نہیں بنانا شیک چاہیے مگر بیٹا آج یہ پی لو کل سے پکا وہی بنا دوں گا نہیں نہیں وہ بیڈ سے جھلانگ لگا کر پورے کمرے کے چکر لگانے لگی اور ضد بھی زیشان نے اسے ایسے ضد میں دیکھا اچھا پہلے پاپا کو میٹھی سی kissii دو انرجی ملے گئ تو بنا کے لا سکوں گا لینہ بھاگ کر آئی زور سے گلے لگ کر کِس کرنے لگی زیشان اس کا ہاتھ پکڑ کر دونوں کچن آ گئے لینہ اپنے پاپا کو سب کرتا دیکھ کر ساتھ پیاری پیاری باتیں کرتی رہی زیشان بھی اس سے سوال کرتا رہا تا کہ بور محسوس نہ کرے اچھا بتاؤ سکول ٹیچر مارتی تو نہیں نو پاپا سب مجھے بہت پیار کرتی ہیں ارے واہ پھر تو ٹیچر تو فرینڈ بن گئی اور کیا کچھ سیکھا پوئم سیکھی ہے جی پاپا میں سناؤں ؟ ہاں آپ سناؤ میں جوسر چلاتا ہوں ساتھ میوزک بھی تو ہو لینہ ہاہاہا جوسر مشین چل پڑی لینہ اسے گھومتا دیکھتے ساتھ پوائم سناتی رہی ساتھ تالیاں بجاتی رہی بنانا شیک تیار ہوا تو پوائم بھی ختم ہوئی زیشان ایک ہاتھ سے جوس اور دوسری پر لینہ کو اٹھایا اور دونوں روم آ گئے سب گھر والے سو رہےتھے میز پر شیک رکھ کر لینہ کو بیڈ پر بیٹھایا خود بھی پاس بیٹھ کر جوس اٹھا کر اس کے منہ سے لگاتے ہوۓ ساتھ بولا میری گڑیا کے دوست بھی ہیں کلاس میں؟ لینہ جوس پیتے سانس لی اوپر کے لیپس پر سفد موچھیں بنی ہوئی بتانے لگی میرا ایک دوست علی ہے پر وہ کلاس میں روتا ہے آپ نے کہا تھا اچھے بچے نہیں روتے کیا وہ گندا بچہ ہے؟ زیشان پیار کرتے ہوۓ ہاں وہ تو گندا بچہ ہے وہ روتا ہے میری گڑیا تو سب سے پیاری ہے بالکل نہیں روتی باتوں باتوں میں زیشان نے پورا گلاس اسے پلا دیا اور پاس لیٹا کر باتیں کرنے لگا پاپا آپ کو پتہ ہے ایک انٹی ہیں انہیں بھی بنانا شیک بہت اچھا لگتا ہے ذیشان حیرانی سے نہیں یہ تو بچوں کو اچھا لگتا انٹی کو تو نہیں لینہ سر پر ہاتھ مارتے ہوۓ افف پاپا آپ ان کو جانتے نہیں وہ بس میری سکول میں دوست ہیں نام بھول گئی کل پوچھ کے آؤں گی وہ میرے ساتھ باتیں کرتی کھیلتی بریک میں اور چلی جاتی ہیں زیشان حیران تھا کہ کوئی ایسی ویسی عورت نہ ہو جو بچوں کو اٹھا کر لے جاتی ہیں پھر اسے پیار سے سولانے لگا ____________ دن گزرتے گئے لینہ کی تبسم سے دوستی بہت اچھی ہو چکی تھی وہ اب بریک میں لینہ سے ہی ملنے آتی چیزیں بھی لاتی مگر وہ اگے زیشان کی بیٹی تھی چیزیں نہیں لیتی تھی ایک دن تبسم کو اٹھنے میں لیٹ ہو گیا اور بریک سے اب چھٹی کا ٹائم ہو چکا تھا تبسم کو خود پر بہت غصہ آیا کہ لینہ میرا انتظار کرتی رہی ہو گئی تبسم کو سکون نہیں تھا تو خود ڈرائیو کر کے پیزا کھانے نکلی لینہ کو زیشان لینے آیا تو اس کا آج دل اداس تھا تبسم کہ نہ آنے سے آج وہ بہت آئستگی سے چل کر آ رہی تھی زیشان کو لگا شاید بیمار ہے اگے ہو کر اسے اٹھا لیا کیا ہوا آج چہرہ کیوں اترا ہوا پاپا کی جان کا پاپا آج میری دوست انٹی نہیں آئی مزہ نہیں آیا نہ میں نے آج لنچ کیا نہ اور کچھ پیا۔ ارے وہ کون ہیں اب تو مجھے بھی ان کو ملنا ہو گا جہنوں نے میری لینہ کو اداس کر دیا اور غصہ بھی ان کو کرنا پڑے گا نہیں پاپا ان کو ڈانٹنا مت نہیں تو میں آپ سے کٹی ہو جاؤں گی زیشان لینہ کو کار بیٹھاتے ہوۓ خود بھی بیٹھا اچھا نہیں ڈانٹتا اب یہ موڈ تو اچھا کرو نا لینہ ہنستے ہوۓ بولی دیکھو موڈ اچھا ہو گیا گھر جا رہیے تھے کہ لینہ نے بولا پاپا مجھے برگر کھانا ہے آج لنچ بھی نہیں کیا بہت بھوک لگی ہے۔ زیشان نے لینہ کو ضد کرتے دیکھا برگر اور پیزا لینڈ کے سامنے کار روکی اور اندر چلے گئے زیشان لینہ کو کرسی پر بیٹھا کر خود اوڈر دینے چلا گیا لینہ گلاس کو میز پر گھوماتی رہی اور پوائم اونچی اونچی گنگناتی رہی زیشان بار بار وہاں سے بیٹی کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا وہاں کے لوگ بہت پیار سے لینہ کو دیکھ رہے تھے اسی کونے میں تبسم بھی خاموشی سے بیٹھی پیزے کے آنے کا انتظار کر رہی تھی اور کانوں میں ہیڈ فون تھا لینہ کی نظر اچانک تبسم پر جا پڑی تو وہ فورا کرسی سے اتر کر تبسم کی طرف بھاگی اور جاتے ہی اس کے ساتھ چپک گئی تبسم دیکھ کر خوش ہو گئی گود میں بیٹھا کر ہاتھ سے اس کے بال ٹھیک کرنے لگی وہ لینہ اس سے باتیں اور نہ آنے کی وجہ پوچھنے لگی اور بولی آپ کو پتہ ہے میں نے آپ کو اتنا مس کیا دونوں بازوں کھول کر بتانے لگی اور میں نے آج کچھ بھی نہیں کھایا تھا بریک میں تبسم مسکراتے پیار دینے لگی میری پیاری دوست میں میڈیسن لیتی ہوں نا تو آج ان کے اثر سے اٹھ نہیں پائی لیٹ ہو گئی لینہ منہ بنا کر بولی میں آپ سے کٹی ہوں نہیں میری دوست مجھ سے کٹی ہو ہی نہیں سکتی اچھا یہ لو کان پکڑ کر سوری لینہ نے اسے ایسے دیکھا تو گلے میں باہنں ڈال کر پیار کرنے لگی کس کرنے لگی زیشان پارسل لے کر جب میز پر آیا تو اگے پیچھے دیکھنے لگا پریشان ہو کیا ۔ اسی میز پر پارسل رکھ کر ادھر اُدھر پریشانی سے دیکھنے لگا اور پریشانی سے بال پیچھے کرتے ہوۓ اسے اونچا اونچا پکارنے لگا لینہ۔۔۔۔۔۔۔۔لینہ ۔۔۔کہاں ہو۔۔ لینہ کو جیسے اس کی آواز پہنچی میز پر چڑھ کر کھڑی ہو کر بولی پاپا میں یہاں ہوں زیشان نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اس کی جان میں جیسے جان آ گئی اور تیزی سے اس کے پاس جا کر گلے لگا کر پاگلوں کی طرح اس کا منہ ماتھا چومنے لگا پیار کے بعد غصہ بھی کیا کہ اتنا بھی نہیں پتہ بتا کر کہیں نہیں جاتے ہیں میں کتنا پریشان ہو گیا تھا بولا بھی تھا جب تک میں نہ آؤں یہی بیٹھی رہنا۔ زیشان کے اس طرع غصے سے لینہ رونے لگی سوری پاپا تبسم سے رہا نہیں گیا اٹھ کر لینہ کو زیشان سے لیتے ہوۓ اسے غصے ہونے لگی بیٹی کے باپ تو بن گئے مگر اتنا نہیں پتہ اسطرح ایک دم بچوں پر غصہ نہیں ہوتے مانا آپ کو اپنی جگہ نہیں ملی آپ کو پریشانی ہوئی آپ پیار سے سمجھا دیتے دوبارہ نہیں کرتی لینہ تبسم کو کس کرتے ہوۓ بولی پاپا میں آپ سے بہت ناراض ہوں اور تبسم کے ساتھ لیپٹ گئی۔ تبسم بھی اس کے بالوں کو سیدھا کرتے پیار کرنے لگی تبسم نے لینہ سے کہا پاپا کو سوری کرو بولو دوبارہ ایسا نہیں کروں گی لینہ نیچے اتر کر زیشان کے ساتھ لیپٹی اور پھر کان پکڑ کر سوری کرنے لگی زیشان نے مسکرا کر اسے گلے لگا لیا لینہ بولی پاپا یہ وہی میری دوست انٹی ہیں جو آج سکول نہیں آئی تھی او اچھا تو یہ ہیں آپ کی دوست تبسم اور زیشان ایک دوسرے سے سلام دعا کی اس کے بعد لینہ زیشان پارسل لے کر گھر کی طرف نکل گئے۔ اب زیشان کو لینہ روز تبسم کی باتیں سناتی زیشان کو بھی تبسم اچھی لگنے لگی کیونکہ اتنا پیار اس کی بیٹی کو دیتی ایک دن زیشان نے لینہ سے کہا اگر آپ کی دوست کو آپ کی ماما بنا کر گھر لے آؤں تو ۔۔۔ لینہ پیار کرتے ہوۓ پوچھنے لگی میری دوست میری ماما بن سکتی ہے کیا؟؟ ۔۔ ہاں بن سکتی ہے اگر آپ چاہو تو لینہ نے خوشی سے کہا جی پاپا میں بہت خوش ہوں گی وہ بہت اچھی ہیں مگر بہت کم ٹائم ملتی ہیں مجھے زیشان اور تبسم کی ملاقات اب کافی بار سکول ہو چکی تھی اب وہ ان کے گھر بھی آنے جانے لگی تھی گھر میں پاکیزہ سے بھی ملاقات ہو گئی۔پاکیزہ اسے دیکھ کر بہت حیران ہوئی کہ تم کیسے اتنی بدل گئی تبسم نے اپنی پوری داستان اسے سنا دی اور بولی تم ٹھیک تھی ہمیشہ کہتی تھی کہ تصوریں مت ادھر اُدھر ڈالا کرو ہم تمہیں اولڈ سوچ کہتی تھی مگر اسی میری لاپرواہی نے میری زندگی اجاڈ دی۔ پاکیزہ سن کر بہت دکھی ہوئی سمیرا کی موت کا بھی سن کر بہت دکھ ہوا اسے پھر پاکیزہ اور زیشان نے گھر والوں سے بات کی وہ تو کب سے ہی یہی چاہتے تھے شکر کیا کہ شادی کے لیے کسی طرح تو مانا اسے تبسم لینہ کی ماما بن کر گھر آ گئی ۔ تبسم کو اب اک نئی زندگی ملی تھی ساس سسر اتنا پیار کرنے والے شوہر اتنا خیال رکھنے والا اور بیٹی تو پہلے ہی اس کی جان تھی۔۔ زیشان روز لینہ کو سوتے وقت اسلامی اسٹوریز سناتا تھا لینہ زیشان کے پیٹ پر لیٹ جاتی اور تبسم اس کے بازوں پر لینہ سنتے سنتے وہی سو جاتی جیسے لینہ سوتی تبسم بہت پیار سے اٹھا کر اسے الگ سلا دیتی بہت پیار کرتی زیشان اس کی محبت دیکھ کر بہت فدا ہو گیا اب ان کی زندگی میں خوشیاں اور سکون تھا۔ _______________________ آج موسم بارش کا بنا ہوا تھا شہری الارم سے کروٹ بدل کر اٹھا اور تو کھڑی سے ایسا موسم دیکھ کر ارادہ کرنے لگا کہ آج چھٹی کی جاۓ اس نے اسی ارادے سے موبائل اٹھایا کہ کال کر کے چھٹی کا بول دے موبائیل پر آیا میسج دیکھ کر منہ بنا لیا میسج تھا کہ آج بہت ضروری میٹنگ ہے وقت سے پہنچ آنا شہری موبائیل رکھ کر فریش ہونے گھس گیا کچھ دیر میں تیار ہو کر باہر نکلا اور ماں تو سلام کر کے پیار کرنے لگا اور پھر ناشتے جو پہلے سے تیار پڑا تھا بیٹھ کر دونوں کرنے لگے ناشتہ کرتے ہی شہری آفس بیگ اٹھایا اور نکل گیا رستے میں روز کی طرح ایف ایم لگا لیا اور پاکیزہ کے پروگرام آنے کا انتظار بھی تھا آج موسم کی نسبت سے سب بارش پر گانے چلتے رہے جو وہ بہت انجواۓ اور سلو ڈرائیو کے ساتھ جا رہا تھا شو ختم ہوتے ہی شہری میٹنگ میں چلا گیا آج اسے بہت اچھا رزلٹ ملا میٹنگ سے بہت خوش تھا میٹنگ کے بعد گھر کے لیے نکلنے لگا تو باہر کافی بارش ہو رہی تھی وہاں کے سٹاف ممبرز سعدیہ اور کاشف نے شہری سے کہا کہ ہمیں بس سٹاپ تک چھوڑ دیں تو مہربانی ہو گئی شہری نے کہا ہاں کیوں نہیں آ جاؤ کاشف کا گھر زیادہ دور نہیں تھا اسے گھر میں چھوڑا اور پیچھے بیٹھی سعدیہ کو بس سٹاپ چھوڑنے جا رہا تھا شہری کبھی فری بات نہیں کرتا تھا بس آفس کی حد تک آج بور نہ ہو اس لیے بات چیت کرتا لے جا رہا تھا __________ جاری ہے

❤️ 👍 😮 😂 😢 172
Novel Ki Dunya
6/2/2025, 2:23:09 AM

#کبھی_دل_نہ_ٹوٹے #تحریر_عاصمہ_بلوچ #قسط_نمبر_12 آج جب شہری کھانے کے میز پر آۓ تو اسے مت بتانا کہ کھانا میں نے بنایا ہے پلیز اسے نہیں پتہ چلنا چاہیے نوری بولی بیگم صاحبہ لیکن۔۔۔۔۔۔۔ تبسم اس کی بات کاٹتے ہوۓ بولی لیکن ویلکن کچھ نہیں بس خاموش رہو شہری آ رہا ہے جاؤ تم پانی لےآؤ سب بیٹھ کر کھانا ڈالنے اور کھانے لگے شہری نے کھانا کھاتے ہوۓ آنکھیں بند کر لی اور بولا واؤو آج تو کھانا بہت مزے کا بنا ہے یہ بولتے ہی چلانے لگا نوری ۔۔۔۔نوری۔۔۔۔ نوری پانی لا رہی تھی میز پر رکھتے ہوۓ بولی جی شہری صاحب نوری آج تو تم نے کھانا بہت ہی اچھا بنایا ہے نوری شبانہ اور تبسم کے چہرے کو دیکھ کر بولنا چاہتی تھی کہ میں نے نہیں بنایا مگر تبسم نے آنکھیں دکھا کر خاموش رہنے کا کہا تو بولی بس اتنا بولی شکریہ صاحب اور وہاں سے چلی گئی شہری کھانا کھا کر ہاتھ دھو کر دانتوں میں ٹوتھ پک کرتا ہوا کمرے میں چلا گیا تبسم نے نوری سے کہا برتن سمیٹ لو شبانہ کھانا کھانے کے بعد اپنے کمرے کی طرف چل دی اور تبسم نوری کو بول کر اپنے کمرے کی طرف چلی گئی اب ہر روز کھانا تبسم بناتی شہری کے آنے سے پہلے اور شہری روز نوری کی تعریف کرتا تو تبسم کو اپنی تعریف ہوتی محسوس ہوتی اور اس کے دل میں شہری کے لیے اور محبت بڑھتی گئی ایک دن تبسم اور شہری دونوں اپنے کمرے میں تھے شہری آفس کا کچھ کام لپ ٹاپ پر کر رہا تھا اور تبسم گانے سن رہی تھی ارے ہو بے رحم بے قدر بے مروت ٹھکرا رہا ہے تو میری محبت پیار کرتی ہوں تم سے ارے ہو ظالم چاینے والوں کو کوئی ایسے تڑپاتا ہے اوو میرے راجہ دیکھ لائن پہ آ جا ورنہ بجا دوں گئ میں تیرا بینڈ باجہ تو نے آگر پیار سے دیکھا نہیں مجھ کو تو چھوڑ کے شہر میں چلی جاؤں گی ضد نہ کرو جانِ وفا مان لو کہنا ورنہ میں لوٹ کے نہ کبھی آؤں گی شہری نے کام کرتے ہوۓ ایک نظر اٹھا کر تبسم کو دیکھا اور وہ بھی شاید گانا انجواۓ کر رہا تھا اور سن رہا تھا میں نے چاہا ہے تمیں چاہوں گی ہو کہ تم سے جدا نہ میں جی پاؤں گی ایک دوسرے کی محبت کو آزمانے میں عمر بیت نہ جاۓ روٹھنے مانانے میں ہر گھڑی تم کو میری یاد بہت آۓ گی چین لینے نہ دوں گی تمیں تڑپاؤں گی تم نے اگر جانِ جگر دل میرا توڑا موبائل بج رہا تھا مگر تبسم شہری کو دیکھ کر اس میں کھوئی ہوئی تھی موبائل بج بج کر بند ہو گیا جب پھر سے موبائل بجا تو شہری نے موبائل کی سکرین پر دیکھا تو سمیرا کالنگ شہری نے کہا میم صاحبہ آپ کی دوست کی کال آ رہی ہے تبسم اپنے ہی خیالوں میں گم تھی شہری کو بھی نہیں سن پائی آخر کار شہری نے اس کے کندھے کو ہاتھ سے ہلایا اور بولا بیگم صاحبہ خیالوں کی دنیا سے فرصت ملے تو کال سن لو کب سے بج کر سر کھا رہا ہے موبائل تبسم نے فورا موبائل کو دیکھا اور پھر سویچ آف کر کے رکھ دیا اتنے میں شہری اٹھ کر الماری سے جوئی فائیل لینے گیا تبسم اٹھ کر کچن کی طرف چلی گئی نوری نے تبسم کو دیکھا اور بولی بیگم صاحبہ میں نے سب چیزیں کاٹ کر دھو کر رکھ دی ہیں تبسم فورا کھانا بنانے لگی اور پھر آ کر ٹی وی لانچ میں بیٹھ گئی کچھ پل وہاں سانس لے کر بالوں کا جوڑا بناتے ہوۓ کمرے کی طرف چل دی تبسم ابھی کمرے کے اندر جانے ہی والی تھی کہ شہری نے آواز لگائی نوری کھانا لگا دو کچھ دیر میں سب نے مل کر کھانا کھایا اب تبسم شہری کی ہر چھوٹی موٹی بات کا خیال رکھتی تھی شہری اب جب گھر آتا تو ماں سے تبسم کی تعریف سنتا تھا اور شہری اب خود بھی محسوس کرنے لگا تھا کہ تبسم اب واقحی بہت بدل چکی ہے شہری کو بھی اب تبسم سے پیار ہونے لگا تھا اب آفس میں ہو یا گھر میں اکیلے اب تبسم ہی اس کے خیالون میں ہوتی تھی مگر وہ اپنے پیار کا اب اظہار نہیں کر رہا تھا خاموش رہتا تھا آج تبسم نے شہری کو آفس بھیج کر کمرے میں آئی تو نوری نے دروازہ بجاتے ہوۓ بولا بیگم صاحبہ میں نے سب کچھ کاٹ کر رکھ دیا ہے اب میں چھت پر جاؤں کپڑے دھونے تبسم نے نوری سے بولا ہاں جاؤ اور ہمارے واش روم سے بھی ہمارے کپڑے لیتی جانا نوری ان کے باتھ روم سے کپڑے اٹھا کر چھت پر چلی گئی شبانہ اپنے کمرے میں تسبیح پڑھ رہی تھی تبسم کمرے سے نکلتی خود کلامی کرتے جا رہی تھی کہ آج بریانی اور سالن روٹی بنا دوں دوں گی ویسے بھی بریانی شہری کو بہت پسند ہے آج نوری کپڑے دھونے میں لگی تھی تو تبسم کو سارا کام خود کرنا پڑا آج شہری کی طبعیت کچھ ٹھیک نہیں تھی تو وہ آفس سے جلدی چھٹی کر کے آ گیا اور اندر آتے ہی کچن کی طرف دیکھ کر نوری سے پانی مانگنے لگا تو کھڑی سے اس کی نظر تبسم پر پڑھی جو کھانا پکانے میں مگن تھی شہری تبسم کو ایسے دیکھ کر مسکرانے لگا اور اسے دیکھ رہا تھا مگر تبسم کو کہاں ہوش تھا کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے تبسم حساب لگا رہی تھی اور بول بھی رہی تھی شہری کی پسند بھی بن گئی سالن خالہ امی کے لیے بھی تیار ہو گیا اب روٹی رہتی ہے بس وہ سب خوشی سے کر رہی تھی اب وہ آٹا گوندنے لگی سالن اور بریانی کو دم رکھ کر اب آٹا گوندتے بال اوڑ اوڑ کر اسے تنگ کر رہے تھے شہری کو یہ دیکھ کر اس پر پیار آ رہا تھا تو اپنا بیگ اور فائیل میز پر رکھ کر کچن کے دروازے پر آ کر رکا اور مسکرانے لگا تبسم کو جیسے جلنے کی بو آئی تو ایک دم آٹے والے ہاتھ سے اٹھ کر چولہا بند کرنے موڑنے لگی کہ اس کا پاؤ کسی چیز سے ٹکرا گیا اور جیسے گرنے لگی شہری نے اسے بانہوں میں تھا لیا گرنے سے بجا لیا دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھنے لگے تبسم کو پھر سے بو آئی ایک دم سھبل کر سیدھی ہوئی اور چولہا بند کر دیا اور شرمانے لگی شہری اس کا ایسے چہرہ دیکھ کر بولا توبہ ادھر دیکھو تبسم آنکھیں جھکی اسی طرف پلٹی شہری اپنے جیب سے ٹیشو نکال کر اس کے چہرے پر لگا آٹا صاف کرنے لگا تبسم شہری کو دیکھ کر ایسے شرما رہی تھی جیسے کوئی نئی دلہن ہو اور شہری کو اس کا یہ انداز بہت اس کے قریب کر رہا تھا نوری سیڑھیاں اترتے بولی بیگم صاحبہ کچھ جل رہا ہے دونوں نے نوری کی آواز سنی تو ایک دوسرے سے دور ہوۓ شہری جگ سے پانی ڈال کر پینے لگا تبسم آٹا اٹھا کر کور کرنے لگی اتنے میں نوری کچن میں آئی اور شہری کو دیکھ کر حیران ہوئی صاحب جی آج آپ اتنا جلدی آ گئے ؟ شہری بنا کچھ بولے کمرے کی طرف چلا گیا اور بیگ رکھ کر بٹن کھولتے ہوۓ فریش ہونے واش روم گھس گیا تبسم نوری کو بولنے لگی نوری میں نے یہ سب کر لیا ہے باقی اگے تم دیکھ لینا میں تمہارے صاحب کو کپڑے وغیرہ دے کر آتی ہوں کھانا بھی لگا دینا۔ تبسم بول کر کمرے میں آئی اور الماری میں لٹکے کپڑے نکالنے لگی وہ کپڑے دیکھ رہی تھی کہ شہری واش روم سے باہر آیا اور آواز دینے ہی لگا تھا کہ سامنے الماری کے پاس کھڑی تبسم کو دیکھ کر رک گیا تبسم اس کے پاس آ کر کپڑے دینے لگی تو شہری کپڑے پکڑتے ہوۓ اس کی طرف بڑھنے لگا تبسم پیچھے کی طرف ہونے لگی اور جا کر الماری سے لگ گی شہری ایک ہاتھ اس کی کمر میں ڈالا اور دوسرا الماری پر رکھ کر جیسے اس کی طرف جھکا تو دروازہ بجنے لگا شہری فورا پیچھے ہو کر بولا کون ہے صاحب کھانا لگا دیا ہے بڑی بیگم صاحبہ آپ کا انتظار کر رہی ہیں اچھا تم چلو ہم آ رہے ہیں تبسم فورا باہر کی طرف نکل گئی اور شہری چینج کر کے آ گیا سب مل کر کھانا کھانے لگے ✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨ اگلے دن تبسم کی فجر کے وقت آنکھ کھل گئی آزان ہو رہی تھی اس نے آزان کی آواز سنتے ہی اٹھ گئی وضو کیا اور نماز پڑھنے لگی نماز کے بعد اپنے تمام گناہوں کی معافی مانگنے لگی اور پھر شہری کی طرف دیکھ کر اللہ سے اس کی محبت مانگنے لگی اور روتے ہوۓ دعا کرتی رہی شہری نے کروٹ بدلی اور بیڈ پر اگے پیچھے ہاتھ مارنے لگا تبسم کو بیڈ پر نہ پا کر سر اٹھا کر اگے پیچھے دیکھنے لگا تو سامنے جاۓ نماز پر بیٹھی تبسم کو دیکھ کر اسے بہت خوشی ہوئی اور مسکرا کر خود بھی وضو کے لیے اٹھ گیا تبسم نماز ادا کر کے جاۓ نماز طے کر کے صوفے کی ٹیک پر رکھی اتنے میں شہری وضو کر کے نکلا تبسم دیکھ کر مسکرائی اور جاۓ نماز واپس اٹھا کر اسے دی شہری تو روز ہی پڑھتا تھا تبسم بیڈ پر بیٹھ کرٹیک لگاۓ اسےنماز پڑھتے دیکھ رہی تھی ساتھ دعائیں پڑھ رہی تھی جو جو اسے آتی تھی آج اس کی آنکھیں خود با خود برس رہی تھی شاید اللہ نے دل میں نرمی پیدا کر دی تھی شہری نماز پڑھ کر جاۓ نماز کو میز پر رکھتے ہوۓ اس کو ایسے دیکھ کر اس کے پاس بیٹھا اور آنسو صاف کرنے لگا اور آنسوں کیوجہ پوچھنے لگا۔کیا ہوا یہ آنسو کیوں ؟ چھوڑیں نا بس آپ اب پھر سے سو جائیں میں آپ کو آفس ٹائم اٹھا دوں گی شہری نے کہا میں روز نماز کے بعد سو جاتا ہوں مگر آج میں اپنی بیوی سے بہت ساری باتیں کرنی ہیں شہری نے اپنا سر تبسم کی گود میں رکھا اور لیٹ گیا تبسم نے مسکراتے ہوۓ اس کے بالوں میں اپنا ہاتھ ڈالا اور ماتھے پر اپنے پیار کی مہر ثابت کر دی اور بولی شہری اگر میں آپ سے کچھ مانگوں تو کیا مجھے دیں گے افف یہ کیسا سوال ہے میری ہر چیز پر تمہارا حق ہے تم کوئی کزن نہیں ہو جو پوچھ رہی ہو بیوی ہو حق ہے تمہارا جان بھی مانگو تو حاضر ہے تبسم کے آنسو پھر سے جاری ہو گئے اور آنسو شہری کے گال پر جا گرا تبسم شہری کے ہونٹوں پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوۓ بولی مجھے جان نہیں بس ایک وعدہ چاہیے آپ سے کیسا وعدہ شہری نے اس کی آنکھوں میں جھنکا یہی کہ آپ ہمیشہ میرے ساتھ رہو گے کبھی مجھے اکیلا نہیں چھوڑو گے شہری میں آپ سے بے حد محبت کر بیٹھی ہوں شہری فورا اٹھ کر بیٹھ گیا اور اس کے آنسو صاف کرتے ہوۓ بولا تم ایسی ہی اچھی بیوی بنی رہو تو کون پاگل ہے جو دور ہونا چاہیے گا بس میرا دل کبھی نہیں توڑنا تبسم نے شہری کو دیکھتے ہوۓ بولا میں اب آپ کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کروں گی جہاں بھی جانا ہو آپ سے پوچھ کر اجازت سے جاؤں گی نہیں تو نہیں ہر بات کا خیال رکھوں گی کہ آپ کو مجھ سے کبھی شکایت نہ ہو شہری نے مسکراتے ہوۓ اسے گلے لگا لیا اور ماتھا چومنے لگا وہ دونوں لیٹے اور باتیں کرتے ہوۓ پھر سے سو گئے الارم کی آواز سے تبسم کی آنکھ کھلی تو شہری کو بھی پیار کر کے جگانے لگی بال پیچھے کرتے ہوۓ بہت آہستگی سے بولی شہری اٹھ جائیں آفس کے لیے تیار ہو جائیں شہری نیند میں بولا چھوڑو آج نہیں جاتا افف شہری رات تو آپ نے کہا تھا جلدی جگانا آج آفس میٹنگ ہے آپ اٹھیں میں ناشتہ دیکھتی ہوں یہ بولتے ہی تبسم بیڈ سے اٹھنے لگی کہ شہری نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کھنچا اور اپنے اوپر کرا لی دل نہیں آج کہیں بھی جانے کو دل ہے بس سویا رہوں وہ بھی تمہارے پہلو میں تبسم ہنستے ہوۓ افف شرم کرو اب اٹھ جاؤ میں کپڑے نکال دیتی ہوں شہری نے اسے باہنوں کے گھیر میں مضبوط کر لیا ظالم بیوی مجھے کہیں نہیں جانا مجھے جو بھی بولیں منظور ہے مگر آفس سے چھٹی بس اتوار کو اس سے پہلے نہیں ۔ وہ شہری کو گدگدی کرتے ہوۓ اپنی جان چھوڑا کر اٹھ گئ تو شہری بھی مسکراتا ہوا اٹھا اور بولا کتنی بری ہو نا شوہر بول رہا نہیں جانا زبردستی بھیج رہی ہو باقی لوگوں کی بیویاں ترستی ہیں چھٹی کریں تبسم ہنستےہوۓ کپڑے نکال کر بیڈ پر رکھتے ہوۓ بولی لیکن مجھے تو کسی پر ترس نہیں آ رہا ہاہاہا تبسم شہری کو کندھے سے پکڑ کر واش روم بھیج دیا اور کمرے سے نکل کر شبانہ کو جا کر سلام کرنے گئی تو وہ سو رہی تھی پھر کچن میں آ کر نوری کے ساتھ ہاتھ بٹانے لگی ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوۓ بولی افف نوری یہ سب کر دو میں تمہارے صاحب کے شوز اور سوکس نکالنا بھول گئی میں رکھ کر آتی ہوں جی آپ جاؤ میں کر لوں گی تبسم تیزی سے کمرے میں آئی اور جرابیں نکال کر بیڈ پر رکھی اور شوز بھی نکال کر رکھے اتنے میں بیڈ پر پڑے شہری کے موبائل کی سکرین پر روشنی ہوئی تو تبسم نے جھانک کر موبائل دیکھا تو کسی عالیہ نام کی لڑکی کا میسج تھا شہری جی آپ کب تک آئیں گے تبسم میسج دیکھ کر حیران ہوئی اتنے میں واش روم کے دروازے کے کھولنے کی آواز آئی اس نے موبائل اٹھا کر میز پر رکھ دیا اور اپنے بال کھول کر واپس انہیں باندھنے لگی شہری کو شک بھی نہیں ہونے دیا کہ وہ موبائل دیکھ رہی تھی شہری بالوں میں تولیہ کرتے ہوۓ شیشے کے سامنے کھڑا ہوا اتنے میں واپس میسج کی ٹیون بجی تو شہری نے پلٹ کر میز سے موبائل اٹھایا اور تیزی سے میسج ٹیپ کرنے لگا Main 15 mint tak aa jaun ga یہ لکھ کر بھیجا اور موبائل واپس میز پر رکھ دیا تبسم خاموشی سے اسے دیکھتی رہی اسے بہت غصہ بھی آ رہا تھا مگر غصے پر قابو کیا ہوا تھا شہری نے اسے خاموش دیکھا تو بولا تابو جانی جرابیں دو گی یا ہاتھ میں ہی رکھو گی تبسم نے بولا آپ یہاں صوفے پر بیٹھو میں پہنا دیتی ہوں وہ جیسے ہی زمیں پر بیٹھ کر پاؤں کو چھونے لگی تو شہری نے کندھے سے پکڑ کر ساتھ بیٹھا لیا اور بولا یہ کام تمہارا نہیں ہے میرا ہے اب بچے کا اتنا دماغ خراب نہیں کرو کے تم میکےجانا چاہو تو جانےنہ دے تبسم مسکرانے کے بجاۓ خاموشی سے اٹھ کر کمرےسے باہر نکل گئی اس کے دماغ میں اب تک یہ تھا کہ کون ہے عالیہ اور ایسی کون سی میٹنگ ہے اس کے دماغ میں بہت سارے سوال تھے مگر شہری سے پوچھتی تو اس سے دوری کا ڈر بھی تھا اب وہ شہری کو کھونا نہیں چاہتی تھی کیونکہ اب وہ اس سے بہت محبت کرنے لگی تھی شہری نے اسے چپ چپ دیکھا مگر بنا کچھ پوچھے ناشتہ کر کے نکل گیا جیسے آفس پہنچا عالیہ فائیل لے کر آئی سلام کیا آج شہری کافی خوش تھا اس کے سلام کا جواب بھی اچھے سے دیا اور خوشی سے بولا مس عالیہ جی سر؟ ندیم صاحب آ گئے ہیں میٹنگ شروع ہونے والی ہے جی سر وہ لوگ آپ کا ہی انتظار کر رہے ہیں شہری فائیل کو الٹ پلٹ کر دیکھا اور پھر میٹنگ روم جا کر داخل ہوا جہاں سب اسی کا انتظار کر رہے تھے سب نے شہری کی طرف دیکھا شہری سلام کرتے ہوۓ کرسی کھنچ کر بیٹھا اور اپنا لیکچر شروع کر دیا سب خاموشی سے اسے دیکھ رہیے تھے شہری لیکچر میں سب پر نظر ڈال رہا تھا اسے ان میں بھی تبسم نظر آنے آتی وہ مسکرا کر اپنا سارا جو تھا بول دیا سب نے تالیاں بجائی اور وہ کامیاب بھی رہا ندیم آرئیاں اٹھ کر شہری کو گلے لگاتے ہوۓ بولے Well-done my son in law Well-done , once again you impressed me. شہری اپنے سسر ندیم آرئیاں کے گلے مل کر بولا بہت شکریہ سر پھر وہاں سب موجود لوگوں سے ہاتھ ملا کر شکریہ کرتا رہا آج کافی عرصے بعد ندیم کو وہ کونٹرکٹ ملا جو وہ شوگر مل کے لیے بہت عرصے سے کوشش میں تھا سب میٹنگ روم سے خوشی سے نکلنے لگے شہری بھی نکل کر اپنے آفس روم کی طرف جانے لگا تو ندیم آرئیاں نے اسے آواز دے کر روک لیا شہری پیچھے مڑ کر بولا جی سر؟ تم میرا ایک چھوٹا سا کام کرو جی کون سا؟ کل تم تبسم کو شام ہمارے یہاں لے آنا کیوں سر کوئی خاص بات ہے؟ ہاں کل تبسم کی سالگره ہے اور میں چاہتا ہوں تمہاری میٹنگ کی کامیابی اور اس کی سالگره دونوں ساتھ میں سلیبریٹ کریں جس میں آفس کے لوگ بھی ہوں جی سر میں کل اسے آپ کے یہاں لے آؤں گا لیکن بیٹا ایک بات کا خیال رکھنا کس بات کا؟ اسے پتہ نہیں چلنا چاہیے پارٹی کا اوکے سر نہیں پتہ چلے گا شہری افس کے روم بیٹھ کر تبسم کے برٹھ ڈے گفٹ کا سوچتا رہا گھر میں تبسم کا کسی چیز میں آج دل نہیں لگ رہا تھا وہ اکیلے بیٹھ کر روتی رہی اسے اب ڈر لگنے لگ گیا تھا کہ کہیں میری بد سلوکی کے دوران شہری کسی اور میں تو نہیں خود ہی سر ہلانے لگی نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا دل ڈر بھی رہا تھا شہری کہیں مجھے چھوڑ تو نہیں دے گا اتنے میں نوری نے دروازہ بجایا تبسم ایک دم بولی کون ہے بیگم صاحبہ میں نے سب کر لیا آپ آ جائیں نوری پلیز آج کھانا سرو خود کر لو میرے سر میں درد ہے آرام کرنا چاہتی ہوں نوری کچن میں جا کر کام کرنے لگی تبسم شہری کو کھونے کے ڈر سے روتی رہی اگر وہ کسی اور کے چکر میں ہے تو مجھ سے شیئر کر لیتے عالیہ کے ساتھ کون سی میٹنگ ان کی تو مردانہ میٹنگ ہوتی ہے وہ کہیں اس اسے شادی تو نہیں کر رہیے اس کے دل میں طرح طرح کے وسواسے کہیں اسے شاپنگ تو نہیں کروانے لے گئے وہ سب الٹا سوچ رہی تھی اور آس پاس پڑی چیزیں ادھر اُدھر پھینک دی اور کمرے کے کونے میں بیٹھ کر روتی رہی آج پھر شہری اف ڈے لے کر خوشی سے گھر کے لیے نکلا کیونکہ وہ تبسم کو برتھ ڈے گفٹ دینا چاہتا تھا وہ جیسے گھر آیا سیدھا اپنی ماں کے پاس گلے مل کر اپنی خوشی کا اظہار کیا کیونکہ اس کے لیے بہت انتظار تھا اسے جاری ہے

❤️ 👍 😢 😂 😮 🙏 172
Novel Ki Dunya
6/2/2025, 3:10:30 PM

#کبھی_دل_نہ_ٹوٹے #تحریر_عاصمہ_بلوچ #قسط_نمبر_15 تبسم وہ تصوریں اس وقت میرے پاس نہیں ہیں میں تمہیں پرسوں دے دوں گا کل مجھے کسی کام سے جانا ہے کل نہیں دے سکوں گا تبسم بہت غصے میں ہو کر بولی اب تم میری کال کا انتظار کرنا میں تمہیں خود بولا کر لے لو گی تبسم بےچاری کو نہیں پتہ تھا کہ دوست کو بچانے کے چکر میں اس کی زندگی داؤ پر لگ گئی ہے حمزہ نے دوسرے دن وہ ساری اپنی اور تبسم کی تصوریں بڑے بوز میں رنگ بھی دے رہا وہ ہاتھ اگے کر رہی اس طرح ساری تصوریں تبسم والی فیک آئی ڈی میں ڈال دی۔اور دوستوں کے ساتھ آج حمزہ جشن منا کر بہت خوش تھا کچھ دن گزر گئے شہری کو اس بات کی خبر بھی نہیں ہوئی کہ یہ گھر سے گئی تھی نہ ہی تبسم نے زکر کیا کچھ دن کے بعد شہری کو دوبارہ شہر سے باہر جانا پڑا تو تبسم کو یہ موقح اچھا ملا وہ پھر سے سمیرا کو بچانے نکلی اور حمزہ کو پارک میں بلوایا مگر حمزہ نے اس بار بہت اچھا انتظام کیا ہوا تھا تبسم جیسے ہی کار پارک کر کے نکلی تو کسی چیز سے ٹکرا کر گرنے لگی تو حمزہ نے اسے باہنوں میں تھام لیا اور ہنستے ہوۓ سیدھا کیا ادھر تصوریں بن رہی تھی افف تبسم سوری میں بھول آیا گھر کل یہی آنا میں دے دوں گا یہ اس کی ایک اور چال تھی تبسم نے کہا میں یہی سے واپس جا رہی ہوں اور صبع سات بجے یہی پر لے کر آنا صبح تبسم جلدی اٹھ کر اس سے تصوریں لینے گئی تو حمزہ نے پار کے باہر الگ انتظام کیا ہوا تھا جیسے تبسم آ رہی تھی کہ ایک دوست نے اگے اپنی لات کر دی تبسم سیدھی جا کر حمزہ پر گری اور دوسرا دوست بڑی پھرتی سے تصوریں نکالتا رہا تبسم اٹھ کر اس پر برس پڑی بہت سنا دی وہ سوری کر کے معصوم بن کر چلا گیا اس تیسری ملاقات میں اس نے سمیرا کی ساری تصوریں سب کچھ تبسم کے حوالے کر دیا تبسم بہت خوش ہو کر گھر لوٹ آئی چند دن بہت آرام سے گزرے سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا تبسم کو بہت فخر کہ میں نے سمیرا کی عزت بچا لی دونوں دوست تبسم کی بہت تعریف کرتی رہی مگر تبسم نے سختی سے منا کیا کہ یہ بات شہری تک کبھی نہیں پہنچنی چاہیے تبسم اور شہری اپنی زندگی سکون سے رہنے لگے ادھر حمزہ اپنے پلان میں کامیاب ہو چکا تھا اس نے وہ سارے تصوریں اسی تبسم والی آئی ڈی میں ڈال دی اور بہت سارے لڑکوں سے چیٹ کرتا رہا تبسم بن کر اور ان میں سے کافی لڑکوں کے ساتھ پک ایڈیٹ کر کے وہ بھی اپلوڈ کر دی اب وہ بہت خوش تھا ______________ کچھ دن گزرے آج پھر شہری کو شہر سے باہر جانا پڑ گیا وہ بھی دو دن کے لیے شہری کو اب تبسم بہت فرمابردار بیوی لگنے لگی تھی کہ میں اسے بولا باہر نہیں جانا وہ نہیں گئی اب میرے بغیر کئ نہیں جاتی وہ اسی میں خوش تھا شبانہ جاتے دیکھتی رہی مگر اسے لگا شہری کو بتا کر جاتی ہے اس لیے یہ بات کسی کو نہیں پتہ ہوئی کہ تبسم باہر جاتی رہی جب تبسم کی واپسی تھی تو کال کر کے بات کی تو تبسم نے بولا بتاؤ آج کیا کھانا پسند کرو گے میں خود آپ کے لیے بناؤں گی شہری نے کہا جان میں کچھ فائیل ضروری پہلے آفس دوں گا پھر گھر آؤں گا تم تیار ہو کر رہو تبسم نے کہا کیوں آج کوئی خاص بات ہے؟ نہیں نہیں میں پیچھلے دو ماہ سے کافی بزی رہا اپنی جان کو ٹھیک سے وقت نہیں دے پایا بس اب سوچ لیا کتنا بھی تھکا ہوں آج ہم کھانا باہر ہی کھائیں گے تھوڑی تمہاری اوٹینگ ہو جاۓ گی ارے شہری آپ سفر کر کے اتنے تھکے آؤ گے ضروری تو نہیں ہم پھر کبھی چلے جائیں گے ارے جان تم سے بڑ کر اب کچھ نہیں ہے بس میں نے بول دیا سو بول دیا تیار رہنا میں آتے ہی لے چلوں گا شہری نے پیار کر کے کال رکھ دی تبسم بہت خوش اور تیار ہونے لگی _____________ حمزہ نے بہت مشکل سے آخر شہری کی آئی ڈی ڈھونڈ ہی لی اور شیطانی مسکراہٹ کرتے اسے ساری تصوریں بھجتا رہا انبکس میں شہری نے فیس بک تو نہیں مگر میسنجر اوپن ہی تھا مگر وہ کام سے جا رہا تھا تو مناسب نہیں سمجھا اوپن کرنا اور آفس آ کر ندیم صاحب کو فائیل دی اور بولا اب میں گھر چلتا ہوں وہ بہت خوش تھا اور چابی گھوماتا ہوا کار میں آیا شہری کار اسٹاٹ کرنے سے پہلے موبائل پر کسی کو میسج کرنے لگا تو اس نے کافی سارے میسنجر پر آۓ میسج دیکھے تو میسنجر کھول لیا جیسے کھولا تو تصویروں کی بھرمار حمزہ اپنی اصل آئی ڈی سے تبسم والی فیک آئی ڈی میسج کرتا اور وہاں سے خود ہی تبسم بن کر میسج کے جواب دہے ہوۓ وہ بھی سکرین شاٹ لے کر بھجے شہری وہ سب خاموشی سے دیکھتا اور پڑھتا رہا اس کی آنکھیں دکھ اور غصے سے لال ہوتی رہی شہری نے بہت تیز ڈرائیو سے کار گھر کی طرف بھاگا دی گھر پہنچ کر بہت غصے میں طوفان کی طرح گھر داخل ہوا تبسم آج شیشے کے آگے بال بناتے ہوۓ بہت خوش تھی کیونکہ اس کو اتنا اچھا خیال کرنے والا ہمدرد مخلص انسان اس کے پاس تھا مگر اس کو بہت بعد میں اس بات کا احساس ہوا اب وہ اسے کھونا نہیں چاہتی تھی اب ہر مکمن کوشش سے اسے اپنا کر لیا تھا اور اب وہ بہت خوشی سے رہتی تھی ابھی تبسم بال بنا ہی تھی تھی کہ اچانک وہ ہوا جس کا اس نے سوچا بھی نہیں تھا شہری آتے ہی تبسم کو بازو سے پکڑا اور بہت زور دار ٹھپڑ مارا نکل جاؤ میرے گھر سے مکار عورت اس سے پہلے کے تبسم وجہ پوچھتی شہری بہت غصے میں تھا بجاۓ یہ کہ اسے مارتا پیٹتا اس کی زبان پر یہ الفاظ تھے تبسم کو دیکھ کر بولا تبسم آرائیاں میں اپنے پورے ہوش و احواس میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ۔۔میں تمیں طلاق دیتا ہوں ۔۔۔۔تبسم میں تمیں طلاق دیتا ہوں تیں بار طلاق دےکر بیڈ پر بیٹھ کر سر پر ہاتھ رکھ کر خاموش ہو گیا تبسم یہ سنتے ہی مردہ لاش کی طرح زمیں پر بیٹھ گئ اور رونے لگی کہ میں نے ایساکیا کر دیا جو شہری نے میری زندگی اجاڑ دی وہ بنا کچھ بولے سوچے جا رہی تھی اور روۓ جا رہی تھی وہ یہ بات بات سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ جو تصوریں بڑے شوق سے پیاری پیاری بنا کر اپلوڈ کرتی رہی آج انہیں کی وجہ سے یہ سب ہوا۔ ✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨ شہری نے کافی دیر بعد سر اوپر اٹھایا تو تبسم کو گرا ہوا بےہوش دیکھا تو بوجھل قدموں سے چلتا اس کے پاس آیا اسے بے ہوش دیکھ کر پاس ٹیبل پر پڑا پانی اس کے اوپر چھڑکاؤ کرنے لگا جب تبسم بلکل بھی ہلی جولی نہیں گھبرا سا گیا اور اسے اٹھا کر باہر کی طرف بھاگا اور شور مچاتے انداز میں شکیل شکیل دروازہ کھولو شکیل جو آرام سے بیٹھا تھا سن کر شہری کی گھبرائی آواز تو بھاگ کر دروازہ کھولا شبانہ نے بیٹے کی چلانے کی آواز سنی تو نوری کو آوازیں لگانے لگی نوری بھی شہری کو ایسے جاتے دیکھ کر شبانہ کی طرف بھاگی شبانہ نوری کا سہارا لیتے ہوۓ شہری تک چلتی آئی شہری کیا ہوا ہے بہو کو شہری بنا کچھ بولے تبسم کو کار میں ڈال رہا تھا اور دروازہ بند کر کے خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر جیسے ہی چلانے لگا شبانہ نے شہری کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا بولتے کیوں نہیں ہو کیا ہوا ہے تبسم کو شہری ماں کا ہاتھ پیچھے کرتے ہوۓ نوری کو بولا ماں کا خیال رکھنا میں اسے ہسپتال سے دیکھا کر آتا ہوں شبانہ ضد کرنے لگی نوری مجھے بھی کار میں پیچھے بیٹھا دو شہری ماں کا سن کا چپ ہو گیا تو نوری شبانہ کے ساتھ خود بھی بیٹھ گئی شہری نے تیز ڈرائیو کرتے ہوۓ سی ایم ایچ ہسپتال لے گیا وہاں ڈاکٹر نے تبسم کی حالت دیکھتے ہوۓ آئی سی او میں بھیج دیا شہری دیوار سے ٹیک لگا کر خود کو ہی سھبالتا رہا شبانہ اور نوری پاس پڑے بینچ پر بیٹھ گئی سب میں مکمل خاموشی تھی ندیم اور شہلا اتنے میں آ گئے اور آتے ہی شہری سے تبسم کی خیریت پوچھنے لگے شہری اس وقت کسی سے بھی بات کے موڈ میں نہیں تھا وہ خود بھی ڈاکٹر کے جواب کا انتظار کر رہا تھا آئی سی اؤ میں سے جیسے ڈاکٹر باہر آیا سب اس کی طرف دیکھنے لگے ڈاکٹر نے کہا آپ کے پیشنٹ کی حالت کافی خراب ہے اچانک اسے بہت بڑا صدمہ لگا ہے بس دعا کریں اسے دعا کی ضرورت ہے ورنہ کومے میں جانے کا ڈر ہے شہری یہ سنتے ہی اپنے ہاتھ دونوں منہ پر رکھ کر دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑا ہو گیا اور خاموش ہی رہا اتنے میں آزان کی آواز آنے لگی شہری نے جیسے آزان کی آواز سنی اسے لگا خدا مجھے دعوت دے رہا ہے تو شہری فورا نماز کے لیے چلا گیا شہری نماز پڑھ کر جب لوٹا تو کچھ ہی دیر بعد نرس باہر آئی سب ہی اسے امید سے دیکھ رہیے تھے نرس نے کہا آپ کی پیشنٹ ہوش میں آ چکی ہے اب خطرے سے باہر ہے ایسے مریض کومہ میں بھی چلے جاتے ہیں اللہ کا بہت کرم ہوا آئی سی آو میں تو نہیں مگر کچھ دیر میں اسے روم شفٹ کر دیا جاۓ گا آپ لوگ وہی مل سکتے ہیں سب اللہ کا شکر ادا کرتے رہے کچھ دیر بعد تبسم کو روم بھیج دیا گیا سب سے پہلے شبانہ نے نوری کا سہارا لیا اور تبسم سے ملنے گئی پیچھے ہی ندیم اور شہلا بھی اس کے کمرے میں آۓ تبسم بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی اور آنکھیں بند ہی تھی ندیم تبسم کے سر ہاتھ پھرنے لگا شہلا بھی پاس ہاتھ پکڑ کر بیٹھ گئی شبانہ بھی پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گئی پاس ان کے نوری کھڑی سن تبسم کو ہی دیکھ رہے تھے تبسم کو ہوش میں آ تو چکی تھی مگر دواؤں کے زیر اثر شاید غنودگی میں تھی جیسے غنودگی ختم ہوئی اور اسے سب یاد بھی آنے لگا تو رونے لگی سسکیاں لے لے کر ندیم اور شہلا اسے پیار کرنے اور سہارا دینے لگے اور اصل وجہ پوچھنے لگے۔ تبسم بس روتی اور سسکیاں لیتی رہی شہلا اس کے اور نزديک ہوئی اس کے بالوں کو پیچھے کرتے ہوۓ پیار سے بولی میری جان بتاؤ مجھے کیا ہوا کیا شہری نے کچھ کہا تھا ڈانٹا تھا؟ تبسم روتے ہوۓ بولی ماما شہری نے مجھے۔۔۔۔ ہاں ہاں بیٹا کیا کہا شہری نے تمیں بولو ڈررو نہیں ما۔۔۔۔ما۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔مجھے۔۔۔۔شش۔۔۔شہری نے ایک دم پھر سے رونے لگی ماں نے ساتھ لگاتے ہوۓ پوچھا کیا شہری نے کیا؟؟ مجھے طط طلاق دے دی شبانہ نے تو طلاق کی آواز سنی تو مردہ لاش کی طرح ہو گئی شہلا اور ندیم حیرانی سے سوال کرنے لگے کہ طلاق مگر کیوں کیا وجہ ہوئی تبسم مزید روتے سر اور ہاتھ کے اشارے سے بولی مجھے نہیں پتہ کیوں دی ندیم نے بیٹی کے سر پر پیار سے بوسہ دیتے ہوۓ اسے ہمت دینے لگے اس کا ہاتھ پکڑ لیا شہلا بھی اس کو پیار کرنے لگی شبانہ کو اب شہری کے آنے کا انتظار تھا شہری خاموشی سے دروازہ کھولا اور اندر آیا شب شہری کی طرف دیکھنے لگی کہ کچھ بولے گا مگر شہری بھی خوموشی اور دکھ سے تبسم کو دیکھ رہا تھا تبسم نے شہری کو دیکھ کر گردن گھما لی شبانہ نے نوری کا سہارا لیا اور اٹھ کر شہری کے پاس آئی اور آتے ہی زور دار تھپڑ شہری کو دے مارا شہری بالکل خاموش کھڑا رہا اس کی آنکھیں بہنے کو تیار تھی مگر اس نے خود کو بہت مضبوطی سے سھبالا ہوا تھا شبانہ نے شہری کو کالر سے پکڑ کر جھجوڑا اور پوچھنے لگی کہ تم نے اسے طلاق کیوں دی کس لیے دی شہری ماں کو بس چلاتے سن رہا تھا مگر بے جان سا ہو کے شبانہ بیٹے کی باہنوں میں ہی جھول گئی اور بےہوش ہو گئی شہری نے تھام کر پاس کرسی پر بیٹھا کر ٹیک لگا دی نوری نے تھام لیا اور شہری پانی کا چھڑکاؤ کر کے ہوش میں لانے لگا شبانہ ہوش میں آ تو گئی مگر بالکل خاموش سی ہو گئی اتنے میں ندیم صاحب نے بہت تعمیل سے بولا شہری صاحب اب ہمیں بتا دو کہ طلاق کیوں دی ہے شہری بامشکل بولا اپنی بیٹی سے پوچھ لیں تبسم خاموشی سے دیکھنے لگی ندیم نے پھر کہا اسے خود بھی نہیں پتہ تم ہی بتا دو شہری نے کہا میرا تو دل تھا اس کا گلا ہی دبا دوں مار دوں اسے اور خود پھانسی پر چڑھ جاؤں وہ لال ہوتی آنکھوں سے چلا کر بولنے لگا ندیم نے کہا آرام سے بات کرو ہسپتال ہے تمہارا گھر نہیں شہری نے اپنا موبائل نکال کر ندیم کے ہاتھ میں رکھ دیااور بولا میسنجر کو کھول کر دیکھیں ندیم نے کھولا تو ساری تصوریں اور میسج پڑھنے لگا ایسی تصوریں اور وہ بھی اتنے لوگوں کے ساتھ میسج بھی بےہودہ تو ندیم وہی لڑکھڑانے لگا شہری نے سہارا دے کر کرسی پر بیٹھایا اور موبائیل اب ندیم سے لے کر شہلا کو دینے لگا وہ بھی پھٹی آنکھوں سے دیکھنے لگی پھر شہری نے موبائیل اپنی ماں کو دیا سب موبائیل دیکھ کر شبابہ بھی اور سب تبسم کو گھورنے لگے اور نفرت سے دیکھنے لگے تبسم نے بولا مجھے بھی دیکھاؤ ایسا کیا ہے نوری نے شہری سے موبائیل لے کر اسے دے دیا تبسم نے جیسے ہی دیکھا اس کے تو ہوش ہی اڑ گئے حمزہ کے ساتھ تصوریں اور لڑکوں کے ساتھ بھی اور چیٹ بھی تو چلا کر روتے ہوۓ بولنے لگی یہ کسی نے میرے خلاف شازش کی ہے یہ میں نہیں ہوں شہری بولا مس تبسم پھر بولا اب تو نام لیتےہوۓ بھی نفرت آتی ہے مجھے بس اتنا بتاؤ میرے شہر سے باہر جانے پر تم گھر سے باہر گئی تھی کہ نہیں ؟؟ تبسم خاموش رہی کیونکہ اسے الفاظ ہی نہیں مل رہیے تھے کیا بولے شہری نے کہا تمہاری خاموشی نے مجھے توڑ دیا ہے شہری کہ آنسو گرنے لگے وہ بنا مزید بولے کمرے سے نکل گیا شبانہ نوری کا سہارا لیتے ہوۓ کار تک آئی ندیم تبسم کو دیکھ کر تیزی سے کمرے سے باہر نکل گئے۔۔۔۔ شہلا نہ چاہتے ہوۓ بھی ماں تھی کیا کرتی وہی بیٹھی تھی تبسم اپنے باہر جانے پر اور حمزہ کی اس حرکت پر رو کر اسے بد دعا دینے لگی شہری کار ڈرائیو کرتے آنسو بہاتا رہا شبانہ بیٹے کے گرتے آنسو دیکھ کر بے بس تھی الفاظ نہ تھے کہ بولے بیٹا چپ ہو جاؤ دیکھ کر خاموش رہی شہری گھر آتے ہی اپنے کمرے میں دروازہ بند کر کے اندر سارا دن پڑا رہا تبسم کی وہ ساری تصوریں کسی اور کے ساتھ سوچ کر روتا رہا اپنی قسمت کو کوستا رہا اسے یہ تھا کہ اگر تبسم کو کوئی اور پسند تھا تو مجھ سے شادی کر کے اتنا پیار جتلانے کی کیا ضرورت تھی اس نے مجھے کیوں دھوکا دیا کیوں میرے دل میں اپنے لیے پیار پیدا کر دیا غصے سے بیڈ شیٹ کھنچے کر نیچے پھینک دی تکیہ بھی خود نیچے ہی تھا وہی بیٹھ کر سگريٹ پر سگريٹ جلا کر دھواں دھواں پورے کمرے میں کیا ہوا تھا نہ جانے کتنے پیکٹ خالی کر چکا تھا شبانہ بیٹے کی حالت دیکھ کر بھوکھی پیاسی اپنے کمرے میں شوہر کو یاد کر کے روتی رہی شبانہ کو جب بھی کوئی دکھ تکلیف ہوتی اسے اپنا محروم شوہر بہت یاد آتا ________________ تبسم اپنے والدین کے ساتھ تھی ماں کی تو ممتا جاگ گئی تھی مگر ندیم کے دل میں بہت نفرت آ گئی تھی ہر وقت غصے میں رہنے لگے۔ تبسم اکثر خوابوں میں بھی شہری سے یہی الفاظ سنتی اور راتوں کو روتی اور اسے حمزہ کا شیطانی قہقہ بھی کانوں میں گونجتا وہ روتے ہوۓ ہمیشہ اسے بد دعائیں دیتی کہ یا اللہ جس نے میرا ہستا بستا گھر اجاڑا اسے دنیا آخرت میں زلیل کرنا اور زلت کی موت دینا اس کے سارے خاندان کو پکڑ ہو اس کی تب اسے احساس ہو کہ اس نے کیا کیا تھا۔ ۞۞۞۞۞ سات ماہ کے بعد ۞۞۞۞۞ سمیرا کی بھی کچھ تصوریں حمزہ کہ پاس تھی جو اس نے نٹ پر ڈال دی تھی جب سمیرا کو پتہ چلا بہت روتی رہی کہ اللہ تم سے بدلا لے گا سمیرا نے خوفزدہ ہو کر خودکشی کر لی تھی ___________ ادھر حمزہ کے گھر والوں کا بہت بری طرح اکسیڈنٹ ہوا سارا گھر اس کی آنکھوں کے سامنے چلا گیا اور اسکی ایک بازو اور ٹانگ کٹ گئی اور اتنے انجکشن لگتے رہے کہ اس کو خارش کی بیمار ہو گئی اور سارا دن خارش کرتا پورے جسم میں موت مانگتا موت بھی نہیں آئی وہ بہت مشکل سے باتھ روم گیا اور باتھ روم میں گر گیا اسے وہاں اپنے سارے گناہ یاد آنے لگے اس نے سمیرا کے ساتھ کیا کیا تھا تبسم کے ساتھ اور بھی جس کے ساتھ جو کیا سب اسے آج یاد آ رہے تھے وہ بے بس تھا آج بہت مشکل سے خود کو گھسیٹتا ہوا باتھ روم سے باہر آیا اور اس نے سوچا یہ سب میرے گناہوں کی سزا ہے شاید میں بتا کر کچھ سکون میں ہو جاؤں اس کا ایک بازو کٹ چکا تھا ایک ہاتھ سے موبائیل بیڈ پر رکھ کر فیس بک کھولی تبسم والی آئی ڈی کو مکمل ڈلیٹ کیا اور شہری کے اکاونٹ میں جا کر میسج ٹائپ کیا کہ میں اپنے کیے کی سزا پا رہا ہوں مجھے جسم میں کیڑے پڑ گئے اور میں موت کے منہ میں ہوں میں نے جو کچھ بھی آپ کو بھجا تھا سب کا سب فیک تھا میں نے ہی تبسم کے نام کی آئی ڈی بنا رکھی تھی وہ یونیورسٹی میں مجھے لفٹ نہیں کرواتی تھی مجھے سب کے سامنے زلیل کیا تھا تو میں نے بدلا لینے کے لیے یہ سب کیا اس کی کوئی غلطلی نہیں تھی اس نے شہری کے انبکس بھج دیے۔مگر شہری کافی عرصے سے فیس بک میسنجر سب ختم کر دیا تھا اب وہ یہ استمال نہیں کرتا تھا۔ __________ تبسم مسلسل دکھ میں رہ رہ کر باپ کی نفرت بھی سہہ کر دماغی مرض بن چکی تھی ۔ _________ شہری خاموش اداس بس اپنی ماں کے لیے زندہ تھا اسے اپنی زندگی سے ہی نفرت تھی ___________ اسی دوران پاکیزہ نے ریڈیو ایف ایم پر جاب شروع کی ہوئی تھی __________ ِجاری ہے

❤️ 👍 😢 😮 😂 🙏 182
Novel Ki Dunya
6/2/2025, 6:40:56 AM

#کبھی_دل_نہ_ٹوٹے #تحریر_عاصمہ_بلوچ #قسط_نمبر_13 شبانہ بیٹے کو اتنا خوش دیکھ کر ماتھا چومنے اور دعائیں دینے لگی شہری نے ماں سے پوچھا تبسم نہیں نظر آ رہی کہاں ہے پتہ نہیں صبع سے اپنے کمرے میں ہے باہر نہیں آئی پتہ نہیں کیوں اچھا آپ آرام کریں میں دیکھتا ہوں ساتھ اسے بھی خوش خبری سناتا ہوں یہ بول کر شہری اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔ کمرے میں آتے ہی لائٹ آن کی تو سارا کمرہ بکھرا پڑا تھا شہری نے اندر آتے ہی تبسم کو ڈھونڈھنے لگا تو دیکھا الماری کے پیچے کونے میں بیٹھی رو رہی ہے شہری تبسم کے دیکھ کر گھبرا سا گیا اور اس کے پاس بیٹھ کر پوچھنے لگا کیا ہوا ہے ایسے کیوں بیٹھی ہو رو کیوں رہی ہو طبعیت تو ٹھیک ہے نا شہری ایک ہی سانس میں سوال کیے جا رہا تھا تبسم شہری کو خود سے دور کرنے لگی ارے کیا ہوا بتاؤ تو تبسم اپنے آنسو صاف کرتےہوۓ بولی کچھ نہیں ہوا شہری نے اسے کندھے سے پکڑ کر اپنی طرف گھما کر پوچھا بتاؤ کیا بات ہے اتنا کیوں روئی ہو دیکھ بتاؤ ورنہ میں نے ناراض ہو جانا ہے تبسم نے ناراضگی کا سنا تو شہری کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور بولی شہری مجھے آپ سے عشق ہو گیا ہے اب میں آپ کے ساتھ کسی کو بھی برداشت نہیں کر سکتی آپ میرے ہو بس میرے شہری اس کی گردن اپنے کندھے پر رکھ کر آنسو صاف کرتے ہوۓ بولا ہاں تم میری ہو اور میں تمہارا کس نے کہا میں کسی اور کا ہوں تبسم نے شہری کو دیکھا اور بولی وہ عالیہ کون ہے؟ جس سے آج میٹنگ بھی تھی شہری ایک دم ہنستے ہوۓ بہت اسے پیار دینے لگا اور بولا اس لیے رو رہی ہو اففف وہ ہمارے آفس نئی آئی ہے تمہارے بابا نے نیو assistant رکھی ہے ہاہاہاہا اور تم یہاں میری گرل فرینڈ سمجھ کر سوگ منا رہی ہو ویسے تمہاری سوچ کچھ بری نہیں ہے تبسم نے پیار سے مکا مارتے ہوۓ سینے سے لگ گئی اور بولی شہری میں آپ کے پیار میں اب پاگل ہوں میں آپکی جدائی نہیں سہہ پاؤں گی ارے میری جان میں آپ پر قربان آپ میرے ساتھ ہی ہو کہیں نہیں جا رہا میں کیوں اتنا ٹینس لے رہی ہو اچھا اب جاؤ جلدی سے فریش ہو کر آؤ میں تمہیں بابا کے گھر ملوا کر لاتا ہوں کیوں؟ رو رو کر ایسے حال بنایا ہوا ہے خالہ جانی سے مل کر بات کرو گئی تو فریش ہو جاؤ گی تبسم نے شہری کو دیکھ کر ہاں میں سر ہلایا اور پھر شہری اسے لے کر اس کے میکے چلا گیا۔ ✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨ شہری اور تبسم وہاں پہنچے تو سامنے ہی صوفے پر ندیم اور شہلا آج کی میٹنگ میں ملنے والی خوشی کی باتیں کر رہے تھے تبسم کو اچانک اندر آتے دیکھ کر شہلا بولنے لگی تبسم میری جان آج یوں بنا بتاۓ اچانک کیسے ماما بس ویسے ہی شہری نے کہا تو سوچا گھوم آتے ہیں شہری بھی سلام کر کے بیٹھ گیا اور آج کی میٹنگ کی باتیں لے کر شروع ہو گئے تبسم نے شہری کو دیکھتے ہوۓ بولا آپ نے تو بتایا ہی نہیں آج کی میٹنگ کیسی رہی ارے میری پیاری بیگم صاحبہ آپ نے پوچھنے کی زحمت نہیں کی اور میں بھی بتانا بھول گیا اتنے میں ندیم آرائیاں بولے بیٹا مجھے آج احساس ہوا مجھے شہری جیسے داماد کی ہی ضرورت تھی یہ بیٹھے سے بڑھ کر ہے آج اس نے میرا برسوں پرانا خواب ایک پل میں پورا کر دیا جو میں پیچھلے 20 سال میں نہیں کر پایا باتوں کے دوران شہری بار بار ٹائم دیکھتا اور اٹھنے کی بات کرتا تو ندیم اور شہلا اسے واپس روک لیتے تبسم خوش کے اس دوست سے نہیں ملے گا۔ پتہ نہیں لڑکی ہے یا لڑکا جس کے لیے اتنا بےچین لازم لڑکی ہو گی آخر کار شہری کامیاب ہو ہی گیا اور اٹھ کر بولنے لگا میں رات میں آ کر تبسم کو لے جاؤں گا لیکن فلحال مجھے ضروری کام کے لیے کہیں جانا ہے یہ بول کر شہری تیزی سے باہر کی طرف نکل گیا اور کار اسٹاٹ کرتے ہی گانا لگا دیا (آج پھر تم پہ پیار آیا ہے بے حد اور بےشمار آیاہے ٹوٹے تو ٹوٹے تیری باہنوں میں ایسے جیسے شاخوں سے پتے بے حیا بکھرے تجھی سے اور سمیٹنے تجھی میں ساتھ خود بھی گنگنانے لگا اور سیٹ بیلٹ باندھ لیا اور گاڑی چلا کر سیدھا مال میں وہاں تبسم نے ایک سوٹ پسند کیا تھا مگر چھوڑ آئی تھی وہ شہری نے لیا اور اس کے ساتھ سب کچھ میچ کر کے لیا اور سونے کا برسلیٹ بھی لیا سب پیک کروا کر نکلا اسے یہی شام ہو گئی تھی تبسم ماں کے گھر میں تو تھی مگر دل دماغ شہری کے ساتھ تھےکہ پتہ نہیں کہاں کس سے مل رہا ہو گا اسے یہ بھی پکا نہیں تھا کہ وہ مرد ہے یا پھر عورت شہلا تبسم کو گم سم دیکھ کر پوچھنے لگی بیٹا میں دیکھ رہی ہوں جب سے شہری گیا ہے تم یہاں ہو کر بھی موجود نہیں ہو کوئی پریشانی تو نہیں ہے کیا؟؟ شہری کا برتاؤ کیسا ہے تمہارے ساتھ ماما کیا ہو گیا ہے یہی ہوں میں تو آپ کو پتہ نہیں کیوں ایسا لگ رہا ہے شہری بہت اچھے ہیں بہت خیال رکھتے ہیں بہت پیار کرتے ہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے آپ مجھے جانتی تو ہیں کہ میں کیسی ہوں ایسی بات چھپاؤں گی تھوڑا ہی اچھا ٹھیک ہے نزیرا ۔۔۔۔نزیرا ۔۔۔ شہلا آواز لگانے لگی جی بیگم صاحبہ؟ جاو تبسم کے لیے سنڈوچ لے آؤ تبسم نے نزیرا کو دیکھتے ہوۓ بولی نہیں نزیرا رہنے دو کچھ نہیں لانا مجھے کسی چیز کی ضرورت ہوئی خود لے لوں گی آپ اب آرام کریں سارا دن تو کام کرتی ہیں نزیرا کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ تبسم بول رہی ہے وہ حیرانی سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی اتنا بدلا ہوا انداز شہلا بھی اپنی بیٹی کو غور سے سر سے پاؤں تک دیکھنے لگی کہ اسے کیا ہو گیا مگر خاموش ہی رہی نزیرا حیران ہوئی وہاں سے چلی گئی شہلا نے تبسم سے پوچھا تمہاری طبعیت تو ٹھیک ہے نا؟ جی ماما میں بالکل ٹھیک ہوں آپ کیوں بار بار ایسے پوچھ رہی ہیں بیٹا تم میں اتنا بدلاؤ اچانک دیکھ کر حیران ہوں وہ نوکر ہے ہماری نوکروں سے اتنی نرمی رکھو تو کام کہاں کرتے ہیں تبسم نے مسکراتے ہوۓ ماں کو گلے لگا لیا اور بولی ماما وہ بھی انسان ہیں ہماری طرح اور انہیں مجبوری نے ہمارے گھر کام کرنے پر مجبور کیا ہے ان کا دل دکھانا سمجھو اللہ کو ناراض کرنا ہے ہمیں چاہیے ان سے اچھے سے پیش آئیں میں نے بھی نادانی میں بہت تکلیف پہنچائی ہے اب مجھے احساس ہو گیا اس چیز کا شہلا اور تبسم ایسے ہی آپس میں باتیں کرتی رہی دوسری طرف شہری تبسم کو سرپرائیز دینے کے لیے پاگل دیوانہ ہو رہا تھا یہ لو وہ لو ہوٹل بک کرو انہی کاموں میں بھاگ دوڈ کر رہا تھا۔ شہری ہوٹل کے منیجر سے بات کرتے ہوۓ بولا کہ آج مجھے دنیا کی سب سے اسپیشل برتھ ڈے کرنی ہے کیا آپ لوگ انتظام کر سکیں گے جی بالکل آپ بے فکر رہیں جیسے آپ چاہیں گے ویسا انتظام ہو گا شہری نے تبسم کی ہر پسند کی چیز کھانے میں دیکھنے میں سب کچھ تبسم کی پسند کا بولا گانے میوزک جو جیسے وہ سنتی وہی آرنج کیا شہری سب کر کے پھر تبسم کو لینے چلا گیا وہاں پہنچ کر کار کی چابی گھومتا سٹی بجاتا ہوا اندر آیا تو تبسم ویسی کی ویسی وہی پر بیٹھی ہوئی کیونکہ تبسم نے بہت بار شہری کو کال کی اور وہ بزی تھا سب کام میں ایک بھی کال نہیں اٹھائی تو اب وہ منہ بنا کر اس سے ناراض تھی شہری کو ایسے خوش دیکھ کر تبسم خاموش رہی شہری نے تبسم کو دیکھا اور ہنسی پر قابو کرتےہوۓ بولا تابوں جاؤ میرے لیے پانی لے آؤ یہ خالہ امی اور خالو جان نظر نہیں آ رہے کہاں ہیں؟ ماما ابھی ہی بابا کے پاس اندر گئی ہیں میں بس آپ کا ہی انتظار کر رہی تھی میری کال نہ اٹھانے کی کوئی خاص وجہ؟ شہری ٹانگ پر ٹانگ رکھتے ہوۓ صوفے پر بیٹھا اور ٹیک لگاتے ہوۓ بولا وہ دوست میں بزی تھا تو دھیان نہیں دیا تبسم نے غصے والا منہ بنا لیا اور نزیرا کو آواز دی کہ پانی کا گلاس لے آؤ ارے میری جان مجھے تمہارے یاتھ کا پینا تھا ایسے تو میں خود بھی ڈال کے پی سکتا ہوں تبسم نے منہ بنا کر بولا تو جائیں پی لیں نہیں نہیں رکو میں ایسا کرتا ہوں دوست کو کال کر کے بولتا ہوں پانی دے جاۓ شہری تبسم کے منہ بنانے اور غصے کو اچھے سے سمجھ رہا تھا کہ کیوں ہے پھر بھی اسے تنگ کر کے مزہ آ رہا تھا ویسے میم صاحبہ اتنا غصہ کس بات کا تبسم سے رہا نہیں گیا بولی کون سا ایسا خاص دوست تھا مجھے بتائیں افف جب تم جانتی نہیں اسے تو میں کیسے بتا سکتا کون تھا اتنے میں نزیرا پانی لے کر آ گئی شہری پانی پیتے ہوۓ ٹائم دیکھا اور بولا تابوں چلو اب گھر کے لیے نکلتے ہیں تبسم نے شکوہ نظروں سے دیکھتے ہوۓ بولی کھانا کھا کر چلیں ؟ نہیں مجھے بھوک نہیں ہے اگر تمیں ہے تو کھا لو شہری کو پتہ تھا وہ ایسے کبھی نہیں کھاۓ گی تبسم نے بولا مجھے بھی بھوک نہیں ہے میں ماما بابا کو بتا کر آتی ہوں کہ ہم لوگ جا رہے ہیں تبسم اتنی غصے میں تھی کہ تیزی سے اٹھی تو میز سے گلدان گر کر ٹوٹ گیا شہری اس کو ایسے دیکھ کر مزے لے رہا تھا دل ہی دل میں مسکرا رہا تھا تبسم بتا کر آئی تو دونوں کار میں آ کر بیٹھے شہری نے تبسم سے کہا تم تو کھا آتی تبسم نے بےروخی سے تیزی سے جواب دیا مجھے بھوک نہیں تھی شہری نے ایف ایم ریڈیو لگا دیا اور بہت آہستگی سے کار چلانے لگا تبسم شیشے سے باہر دیکھ رہی تھی شہری ڈرائیو کرتے بار بار تبسم کو دیکھ رہا تھا پورے رستے دونوں میں خاموشی چھائی رہی مگر درمیاں میں ایف ایم پر پروگرام چل رہا تھا اس پر ڈی جے نے کہا میں ہوں آپ کا میزبان رشید میرا اور آپ کا ساتھ ہوتا ہے رات دس سے بارہ تک اپنا نمبر بتاتے ہوۓ بولا ہم آپ کو سنتے ہیں آپ کی فرمائش پر آپ کا پسندیدہ گانا تو جلدی سے کال ملائیں اور سنے اپنی مرضی کا گانا اور اس کے نام کریں جس سے آپ بہت پیار کرتے ہیں اسی وقت پروگرام میں کال آتی ہے اس لڑکی کا نام عالیہ ہوتا ہے اور وہ بولتی ہے میں یہ گانا اپنے لوور کے نام کرنا چاہتی ہوں میزبان بولا عالیہ جی کیا وہ بھی پروگرام سن رہیں ہیں اس وقت عالیہ نے کہا جی سن رہیے ہیں اگر وہ سن رہا ہے تو آپ اسے اور بھی کچھ بولنا چاہیں گئی عالیہ نے کہا آئی لو یو جانی تبسم اس پروگرام کو بہت غور سے سن رہی تھی اور شہری کو بار بار دیکھ رہی تھی شہری بھی اگے سے مسکراۓ جا رہا تھا تو شہری کو ایک بات سوجی کہ کیوں نا تبسم کو تنگ کروں تو وہ بولا آئی لو یو ٹو اور اپنی ہنسی کو روکتا رہا تبسم نے غصے سے ایف ایم بند کر دیا اور چپ کر کے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی شہری نے بولا ارے تابوں کیوں بند کر دیا میں سن رہا تھا نا لیکن مجھے نہیں سننا آپ بعد میں سن لینا لیکن تابوں مجھے کسی نے سونگ ویش کیا وہ تو سن لوں شہری نے پھر سے ایف ایم آن کر دیا کار میں آواز گونجنے لگی ہم تم کو نگاہوں میں اس طرح چھپا لیں گے تم چاہیے بچو جتنا ہم تم کو چورا لیں گے تیری عاشقی میں جانا دنیا بھلا دیں گے تم چاہیے بچو جتنا ہم تم کو چورا لیں گے تبسم آگ بگولہ ہوتی رہی اور بار بار بند شہری واپس آن کرتا رہا اور انجواۓ کرتا رہا آج بہت ٹائم بعد اسے ایسا تنگ ہوتا دیکھ رہا تھا تبسم شہری کو دیکھ کر بولی ایک بات پوچھوں ہاں جی ایک کیوں جتنی مرضی پوچھو شہری یہ عالیہ کون ہے شہری ڈرائیو کرتے ہوۓ بولا کیوں کیا ہوا جو عالیہ کا پوچھ رہی ہو کچھ نہیں وہی صبع میسج دیکھا تھا میٹنگ والا شہری کو اور مزہ آ گیا تنگ کرنے کا اوو اچھا ۔۔ وہ۔۔۔وہ تو بس میٹنگ کے لیے بولا رہی تھی ہاں پتہ ہے مگر وہ ہے کون صبع بھی بات کو گول کر گئۓ تھے اب ٹھیک سے بتائیں ارے یار جو تم سمجھ رہی ہو ایسا کچھ بھی نہیں ہے وہ تو آفس میں ہی ہے اچھا تو پھر وہ دوست ہی بتا دو جس سے ملنے کے لیے اتنا بےچین ہو رہے تھے بار بار ٹائم دیکھے جا رہے تھے اور مل کر آۓ ہو تو تب سے انداز ہی بدلا ہوا ہے شہری بہت زور سے قہقہ لگا کر بولا ہاہاہاہا کیا تم اس سے ملنا چاہوں گی تبسم فورا بولی ہاں میں بھی تو دیکھوں اتنا خاص ہے کون جس نے آپ کے انداز ہی بدل دیے تو اس کے لیے تمہیں میری شرط ماننی ہو گی کیسی شرط؟ تم اسے دیکھ کر غصہ نہیں ہو گی وہ میرے دل کی دھڑکن ہے تبسم کی آنکھوں میں پانی آ گیا تم اس سے آرام سے عزت سے ملو گی تبسم ھممممم اس کے بعد تم مجھے اس کا ہمیشہ کا کر دو گی کیونکہ ہم دونوں ایک دوسرے کے ہونا چاہتے ہیں بس ہمارے بیچ یہ تمہارا غصہ آ گیا ہے تبسم سے برداشت نہیں ہوا وہ رو پڑی کیا شہری آپ نے اب تک مجھے معاف نہیں کیا کیا مجھے معاف نہیں کرو گے؟ شہری نے اس کے آنسو صاف کرتے ہوۓ ارے رو کیوں رہی ہو اور تم نے ایسا کام کیا نہیں معافی کس کی مانگ رہی ہو شہری میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں آپ کے بنا رہنا یا آپ کو شیئر کرنا مجھ سے نہیں ہو گا مگر تابوں مجھے اس سے محبت ہو گئی ہے شدید اب میں اس کے بغیر ایک پل نہیں رہ سکتا شہری تو کیا آپ مجھے چھوڑ دو گے؟ شہری نے کان کے پیچھے انگلی سے خارش کرتے ہوۓ بولا پتہ نہیں شہری مجھ میں کیا کمی ہے اتنا تو خود کو بدل دیا اور اب آپ مجھ سے بدل رہے ہیں شہری نے تبسم کا ہاتھ پکڑ کر بولا اب بالکل خاموش ہو جاؤ آنسو صاف کرو اب میں تمہاری آنکھوں میں کبھی آنسوں نہ دیکھوں اور اپنا حولیہ ٹھیک کرو اس سے ملوانے لے چلوں تبسم بار بار شہری کی طرف دیکھ رہی تھی اور اپنے آنسوں پر قابو نہیں کر پا رہی تھی جو مسلسل بہہ رہے تھے شہری کا اسے ایسے دیکھ کر سب کچھ بتانے کو دل کر رہا تھا مگر اس نے خود پر بہت ضبظ کیا ہوا تھا تبسم آنکھیں بند کر کے سیٹ سے ٹیک لگا لی اور آنکھیں برستی رہی سسکیاں لینے لگی شہری نے ایک دم بریک لگا کر تبسم کو دیکھا ارے پاگلی کیوں روۓ جا رہی ہو اب رونے کی کوئی خاص وجہ تو ہے نہیں میں ملوانے تمہارے بولنے پر لے جا رہا ہوں اور تم ہو روۓ جا رہی ہو شہری پلیز میں آپ کے بنا نہیں رہ پاؤں گی اب میں بھی کیا کروں مجھے بھی بہت محبت ہو گئی ہے وہ میرے لیے کیا ہے میں خود بھی نہیں جانتا شہری نہیں کرو نا ایسا میں ہاتھ جوڑتی ہوں پاؤں بولوں تو پڑتی ہوں اگر آپ کے دل میں کوئی بات ہے میرے لیے نکال دیں شہری نے کار روک دی اور بولا آنکھیں بند کرو اور میں پٹی کر کے لے جاؤں گا تبسم نے آنکھیں بند کی اور شہری ہی کا نام ہونٹوں پر تھا شہری نے پھر سے کار اسٹاٹ کر دی وہ اب خود کو بے بس محسوس کر رہی تھی شہری اس کو ایسے دیکھ کر اس پر بہت زیادہ پیار آ رہا تھا flying kiss بھی کرتا رہا تبسم روتی آواز میں بولی شہری دیکھنا میں اس سے آپ کی بھیک مانگ لوں گی شہری نے کہا اچھا اس سے لڑنا نہیں باقی جو جی میں آۓ کرنا اور مسکراتا رہا جب مطلوبہ جگہ پہنچا تو شہری نے تبسم کو کار سے تھام کے نکالا اور بولا بلکل نارمل رہو اور جیسے جیسے میں بولتا جاؤں ویسے قدم لیتی رہو میرے ساتھ شہری اسے بہت آرام سے لے جا رہا تھا جب ہوٹل کے درمیان پہنچا تو آنکھیں کھول دی سامنے اتنا بڑا کیک اور میوزک اس کے پسند کا گھول گھومتا دیکھائی دے رہا تھا ایک دم اپنے دونوں ہاتھ اپنے منہ پر رکھ لیے اتنے میں ہیپی برتھ ڈے ٹو یو کا سونگ لگ گیا شہری سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا تبسم نے بھاگ کر شہری کو سب کے سامنے گلے لگا لیا شہری اس کے کان بولتا رہا جانی لوگ دیکھ رہے مگر آج اسے کہاں پروا تھی پھر دور ہوتے ہوۓ بہت خوشی سے تھینکس تھینکس کرنے لگی شہری جیب سے برسلیٹ نکال کر اس کے بازوں میں پہننے لگا تبسم کی خوشی کی انتہا تھی وہاں موجود لوگ اسے ویش کرتے رہے اتنے میں شہری نے ہاتھ پکڑ کر کیک کاٹوایا اور ایسے پارٹی انجوۓ کر کے نکلے سارے رستے میں تبسم شہری کو موکے مارتی آئی اور پیار سے لڑائی بھی کہ اتنا خاص دن میرا صدمے میں گزارا بتایا کیوں نہیں اتنا کیوں مجھے تڑاپایا پھر زور زور سے بولنے لگی شہری آئی لو یو۔۔۔۔۔۔۔بار بار یہی بولنے لگی شہری نے اسے اتنا خوش دیکھ کر کہا جانی ایک اور گفٹ ہے تبسم بولی اب مجھے اور کچھ نہیں چاہیے مجھے میرے شہری مل گئے اور کچھ نہیں اب چاہیے اتنا کافی ہے میرے لیے گھر پہنچ کر کمرے میں آتے ہی شہری نے تبسم کا ہاتھ پکڑا اور اپنے پاس کھنچا تبسم شہری کو ایسے دیکھ کر بولی افف کیا ہوا تابوں میری جان کچھ نہیں چھوڑو۔۔۔۔ اب یہ کبھی نہیں چھوٹیں گے شہری وہ دیکھو چھکلی شہری نے جیسے اسے ڈیلا چھوڑا اور دیکھنے لگا تو وہ بھاگ کر باتھ روم گھس گئی شہری مسکرا کر دونوں ہاتھوں سے بال پیچھے کرتے ہوۓ بولا کب تک بھاگو گی چھپو گی اندر سے تبسم بولی جب تک سو نہیں جاتے تب تک شہری بیڈ پر بیٹھ کر بولا ظالم بیوی تبسم سن کر ہنستی رہی __________ ✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨ جاری ہے

❤️ 👍 😂 😮 🙏 😢 168
Novel Ki Dunya
6/3/2025, 10:36:48 AM

#کبھی_دل_نہ_ٹوٹے #تحریر_عاصمہ_بلوچ #قسط_نمبر_18 #آخری_قسط بارش بہت تیز تھی روڈ پر پانی پانی اور اوپر سے اور برس رہی تھی پاکیزہ گل شیر کے ساتھ گھر جا رہی تھی کہ ان کی کار رستے میں بند ہو گئی گل شیر پریشانی سے بارش میں نکل کر چیک کرنے لگا کافی دیر لگ گئی مگر کار اسٹاٹ نہیں ہو رہی تھی اوپر سے موبائل کے سگنل بھی نہیں آ رہے تھے کہ گھر بتا دے یا زیشان کی گاڑی منگوا سکے وہ دعا پڑھنے لگی کہ جلد مسلہ حل ہو جاۓ وہ کار میں پریشان بیٹھی دعا مانگ رہی تھی اتنے میں شہری سعدیہ کو چھوڑنے کی غرض سے وہاں سے جانے لگا تو گل شیر بارش میں کھڑا کار دیکھ رہا تھا شہری نے کار آئستہ کر کے تھوڑی پیچھے کی اور آواز دے کر پوچھنے لگا کیا ہوا ہے گل شیر نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تو شہری نے کار کی طرف اشارہ کر کے دوبارہ اشارے سے پوچھا کیا ہوا اسے گل شیر چلتا ہوا شہری کی کار کے پاس آیا سر شاید پانی چلا گیا بند ہو گئی اگر آپ مہربانی کریں مجھے کسی پاس مکینک کی شاپ چھوڑ دیں تو ہاں مگر اب بارش میں تو کوئی نہیں کرے گا بارش رکنے پر ہی کوئی آۓ گا اچھا صاحب ایک کام کر دو ہماری بیگم صاحبہ کار میں ہے ان کو گھر تک چھوڑ دو ہم آپ کا احسان ہمیشہ یاد رکھے گا۔ اوکے آپ بھی آ جاؤ اور اپنی بیگم صاحبہ کو بھی لے آؤ تمہیں ورک شاپ چھوڑ دیتا ہوں اور بیگم صاحبہ کو گھر شیر گل بہت دعا دیتا ہوا پاکیزہ کے پاس گیا کہ ان صاحب کے ساتھ آپ جاؤ میں کار ٹھیک کروا کے آ جاؤں گا پاکیزہ کے پاس اور کوئی رستہ نہیں تھا دعا پڑھ کر اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر کے شہری کی کار میں پیچھے سعدیہ کو سلام کرتی بیٹھ گئی اور گل شیر اپنی کار وہی لاک کر کے اگے شہری کے ساتھ بیٹھ گیا تھوڑی دیر کے بعد شہری نے گل شیر کو کار ورک شاپ اتارا گل شیر اترا تو پاکیزہ کو تھوڑی گھبراہٹ ہوئی کسی انجان آدمی کے ساتھ جاتے مگر وہاں سعدیہ سے بات چیت کرنے لگی اپنے آپ کو نارمل کرنے کے لیے تھوڑی دیر میں سعدیہ کا بس سٹاپ آ گیا وہ اتر گئی تو شہری نے سامنے والے شیشے سے دیکھا کہ بیگم صاحب ہے کون مگر پاکیزہ نقاب میں تھی مگر اتنی بارش میں گھبراہٹ سے پسنہ بار بار صاف کر رہی تھی شہری پاکیزہ سے بات کرتا مگر وہ جواب دینا کوئی ضروری نہیں سمجھ رہی تھی شہری حیران تھا عجیب ہی لڑکی ہے اتنے میں پاکیزہ کا نقاب کھل گیا وہ ابھی واپس ٹھیک کر ہی رہی تھی کہ شہری نے شیشے سے اس کو دیکھ لیا اور ایک دم سے ذور کی بریک لگا دی پاکیزہ ایک دم بریک سے اس کی سیٹ سے جا لگی شہری نے کہا سوری کافی بڑا پتھر تھا تو بارش کی وجہ سے دور سے نہیں دیکھائی دیا پاس سے ایک دم بریک لگانا پڑی پاکیزہ واپس نقاب کرتے ہوۓ بولی کوئی بات نہیں شہری اب کار کو آہستگی سے ڈرائیو کرنے لگا اور بولا مس میں نے آپ کو پہلے بھی کہیں دیکھا ہے پاکیزہ خاموش ہی رہی شہری نے کہا پیزا لینڈ میں کچھ عرصہ پہلے آپ کسی کی برتھ ڈے منا رہے تھے پاکیزہ کو ایک دم یاد آیا بولی جی ماما بابا کی تھی اور دوسری بار آپ کو مال میں دیکھا تھا آپ اپنے ہسبنڈ کے ساتھ شاپنک کر رہی تھی شادی کی شاید بہت اچھے شوہر تھے آپ کے پاکیزہ حیران ہوئی شوہر کے ساتھ نہیں شاید کبھی مجھے بھائی کے ساتھ دیکھا ہو گا میری تو ابھی شادی نہیں ہوئی شہری ایک دم بولا وہ آپ کا بھائی تھا پر آپ لوگ شادی کی شاپنگ کر رہے تھے اب پاکیزہ کا ڈر بھی ختم ہو گیا تو اچھے سے جواب دینے لگی ہاں وہ میرے بھائی کی شادی کی شاپنگ کر رہے تھے ہم شہری کو دل میں بہت سکون سا محسوس ہوا تھا ایف ایم لگا دیا غزل لگی تھی شہری بھی گنگنانے لگا پاکیزہ نے پوچھا آپ ایف ایم سنتے ہیں جی ہاں ایک پروگرام بہت شوق سے سنتا ہوں تم میرے ہو کی ہوسٹ پاکیزہ ہیں بہت زبردست پروگرام کرتی ہیں پاکیزہ ہنستے ہوئی بولی اچھا تو آپ بھی سنتے ہیں جی ہاں آفس کے لیے بہت سلو ڈرائیو میں جاتے سنتا جاتا ہوں اور آپ کیا کرتی ہیں؟ اتنے میں پاکیزہ کا گھر آ گیا وہ بنا جواب دیے اتر گئی شکریہ کرتی ہوئی۔ شہری آج بہت خوش تھا آج برسوں پہلے مانگی دعا شاید آج پوری ہو گئی تھی شہری نے پھر سے غلطی کر دی سب پتہ چل گیا پر نام تو اب بھی نہیں پتہ چل سکا ۔ گھر آتے ہی ماں کو گلے لگا کر بہت پیار کرنے لگا شبانہ آج بہت ٹائم بعد بیٹے کے چہرے پر اتنی خوشی دیکھ کر حیرانی سے وجہ پوچھنے لگی ماما مجھے آج وہ ملی تھی کون وہ؟ ماما مجھے نام نہیں پتہ اس کا پتہ نہیں کیا بولے جا رہے ہو افف ماما آپ نہیں سمجھیں گی وہ سیدھا اپنے کمرے میں آ گیا اور بیڈ پر کروٹیں لیتے گنگنانے لگا۔ کبھی مجھ کو ہنساۓ کبھی مجھ کو رولاۓ مجھے کتنا ستاتی ہے وہ لڑکی بہت یاد آتی ہے ______________ ✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨ شہری نے اب پاکیزہ کے بارے میں سب معلومات کر لی تھی وہ اپنی زندگی میں جیسے پھر سے لوٹ آیا تھا شہری نے اپنی ماما کو بتایا اور انہیں رستے کے لیے ان کے گھر لے گیا جمیلہ شبانہ سے ملی جو بہت اچھے اخلاق کی لگی اور شہری بھی بہت ہنڈسم تھا تو جمیلہ نے کہا ہم سوچ کر آپ کو جواب دیں گے زیشان تبسم اور لینہ کے ساتھ پندرہ دن کے لیے ملک سے باہر گھومنے گئے ہوۓ تھے خادم حسین نے بھی اپنی طرف سے شہری کا سارا بیک رونڈ پوچھ لیا تو سب کچھ اچھا تھا انہیں کوئی خامی نظر نہیں آئی تو انہیوں نے بیوی سے ہاں کر دی کہ یہ رشتہ بہت اچھا ہے پاکی کے لیے زیشان لوگ پندرہ دن بعد واپس لوٹے ماں نے زیشان سے مشورہ کیا تو اس نے کہا میں خود پاکی سے بات کروں گا اس کی مرضی سے ہونا چاہیے پھر وہ تصویر لے کر پاکیزہ کے پاس گیا پاکیزہ نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا سب رشتے کے لیے بہت خوش تھے تبسم کو یہ تو پتہ تھا کوئی اچھا رشتہ آیا مگر لڑکا کون ہے وہ اسے نہیں پتہ تھا کافی دن گزر گئے شہری کو خبر ملی کہ ہاں ہو گئی تو بہت اللہ کا شکر ادا کرنے لگا شبانہ نے کہا اب ہمیں دیر نہیں کرنی بس جتنی جلدی ہو سکے شادی کرنی ہے اس لیے میں ان سے کال پر بول دیتی ہوں ہم دن رکھنے آ رہے ہیں جمیلہ نے گھر میں اچھے سے صفائی اور کھانے پینے کا انتظام کروایا کہ وہ لوگ آ رہے ہیں پاکیزہ بھی بہت اچھے سے تیار ہوئی آج لینہ اور تبسم نے مل کر اسے تیار کیا تھا بہت پیاری لگ رہی تھی پاکیزہ نے لینہ اور تبسم کی پسند سے ہی سب کیا ___________ شہری نے کریم کلر کا سوٹ پہنا جس میں وہ اور نکھرا نکھرا لگ رہا تھا پیار تو وہ پہلے سے تھا ہی آج خوشی سے کچھ زیادہ ہی نکھار آ گیا تھا شہری اور اسکی فیملی کا زیشان اور خادم نے بہت اچھے سے ویلکم کیا اور انہیں ڈرینگ روم میں بیٹھایا زیشان اندر پاکیزہ کے پاس گیا اتنی پیاری تیار ہوئی دیکھ کر بہت تعریف کرنے لگا اور پاکیزہ کے روم اپنے بال ٹھیک کرتے شیشے سے تبسم کو آنکھ مار کر ہونٹ بنا کر کس کرنے لگا تبسم ہنستے ہوۓ شرمانے لگی اور نیچے جانے کا بولنے لگی دیکھا تو لینہ سینڈل بندھ رہی تھی بیٹھ کر اس کی مدد کرنے لگی زیشان پاکیزہ کو لے جانے لگا تبسم لینہ کی انگلی پکڑ کر ان کے پیچھے آنے لگی شہری بہت بےچین ہو رہا تھا بار بار دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا کوئی اس کے اندد کی خوشی نہیں سمجھ رہا تھا اتنے میں زیشان پاکیزہ کو لے آیا وہ سلام کرتی ہوئی اپنے ماما بابا کے درمیان بیٹھ گئی شہری بار بار اسے دیکھ رہا تھا مگر پاکیزہ کی نظریں جھکی ہی رہی شبانہ شہری کا سہارا لے کر اٹھنے لگی تھی کہ سامنے سے اندر آتی تبسم کو دیکھ کر وہی بیٹھ گئی تبسم شہری کو دیکھ کر حیران ہو گئی شہری تبسم کو دیکھنے لگا تو زیشان نے تبسم کے قریب ہو کر بولا افف میں آپ لوگوں سے اپنی بیوی ملوانا بھول ہی گیا یہ ہے میری کیوٹ وائف اور یہ ہے میری جان میری بیٹی لینہ اور تبسم کو بتانے لگا کہ یہ شہری ہے اور یہ ان کی ماما پاکیزہ ان کے ہاں جاۓ گی تبسم زیشان کو دیکھ کر بولی میں ان لوگوں کو بہت اچھے سے جانتی ہوں کسے بھول سکتی ہوں میں انہیں ۔ جمیلہ نے کہا تبسم بیٹا تم انہیں جانتی ہو جی ماما ان ہی لوگوں نے مجھے بنا چھان بین کے آسمان سے زمین پر گرایا تھا۔ شہری سن کر بہت گھبرایا کہ اب یہ لوگ رشتہ نہیں دیں گے خادم حسین اٹھ کر فیصلہ سننے ہی لگے تھے کہ شہری ان کے گھٹنوں میں آ کر سب کچھ بتانے لگا کے اسے پاکیزہ ہی ہمیشہ سے پسند تھی اور پھر مال میں کیسے دیکھا اور پھر ماں کی پسند سے یہ کی سب سچ سچ بتانے لگا کہ تبسم کیسے بنا اس کی مرضی کہ جاتی تھی تو بعد میں غلط فہمی میں سب ہوا خادم حسین شہری کا سن کا پیچھے ہو گئے شہری بہت بولنے کے بعد جب سمجھا کہ اب بات نہیں بن سکتی تو بہت مشکل سے کھڑا ہوا اور ماں کو تھام کر اٹھایا دل ہی دل میں اپنی قسمت کو کوسنے لگا پاکیزہ نے شہری کی باتیں سننی تو اس کا بھی دل پگل گیا مگر وہ ان کو دھیرے دھیرے جاتا دیکھ رہی تھی کچھ بول نہیں پائی خادم حسین اور جمیلہ تبسم کی وجہ سے مجبور تھے زیشان بھی تبسم کو ہی دیکھ رہا تھا پاکیزہ سب کا چہرہ دیکھ کر اداس ہوتی رہی کیونکہ اس کے جتنے بھی رشتے آتے ان میں کچھ نہ کچھ مسلہ ہوتا تھا تو یہ لوگ رجکٹ کر دیتے مگر یہ پسند تھا مگر تبسم کی وجہ سے خاموش ہو گئے تبسم پاکیزہ کو دیکھ کر مسکرانے لگی اور بولی روک لو اس سے پہلے کہ میری طرح دیر کر دو اچھے انسان کو پہچاننے میں خادم حسین سن کر مسکرا دیے شہری بہت دکھ میں گیٹ سے بس نکلنے ہی والا تھا کے لینہ نے اس کا بازو بھاگ کر پکڑ لیا وہ اسے دیکھنے لگا اس نے پیچھے اشارہ کیا تو زیشان آ رہا تھا آتے ہی گلے لگا لیا کہ اکیلے جا رہے ہو میری بہن کو ساتھ نہیں لے کر جانا شہری نے ماں کو دیکھا دونوں کے خوشی کے آنسو نکل آۓ اتنے میں سلطانہ سب کے لیے میٹھائی لے کر آ گئی وہی ان کی مانگنی کر دی گئی کچھ وقت کے بعد بہت اچھے طریقے سے رخصتی ہوئی پاکیزہ اپنے کمرے میں بیٹھی شہری کا انتظار کر رہی تھی شہری کمرے میں آتے ہی اسے پاکیزہ کو اتنے قریب دیکھ کر سوچنے لگا کہیں یہ خواب تو نہیں بیڈ پر بیٹھتے ہی بولا سنیں کیا آپ مجھے ہاتھ لگا سکتی ہیں پاکیزہ حیران پریشان کے اس کا دماغ تو نہیں خراب ہو گیا اشارہ کر کے پوچھا کہ کیوں؟ کیونکہ یہ سب مجھے خواب لگ رہا ہے پاکیزہ ہنس کر اس کا ناک کھنچا اور بولی اب ٹھیک ہے شہری ہنس کر بولا یہ تو حقیقت ہے اور ہنس کر اسے اپنے حصار میں لے لیا شہری نے اپنے خفیہ پیار کا اعتراف کیا اور بہت تعریف کی کہ اب تو مجھے ایف ایم بھی میرے پاس مل گیا دونوں ہنسنے لگے _______________ ایک دن بعد ولیمہ تھا پاکیزہ کی صبع آنکھ کھولی شہری کو سوتا دیکھ کر آرام سے اٹھ کر فریش ہونے چلی گئی پاکیزہ کا آج سسرال پہلا دن تھا مگر ان کے گھر شہری اور شبانہ کے علاوہ کوئی نہیں تھا شبانہ کو کافی ٹائم سے شہری ہی ناشتہ کھانا بنا کر دیتا دونوں کھاتے تھے پاکیزہ تیار ہو کر باہر نکلی شبانہ کے کمرے میں آئی جو تسبیح پڑھ رہی تھی انہیں سلام کر کے کچھ دیر باتیں کی پھر چپکے سے کچن میں آ کر سب چیزیں دیکھنے لگی کیا کہاں پڑا ہے شہری نے کروٹ بدلی تو پاس پاکیزہ کو نہ پا کر اٹھ کر باتھ روم کو ناک کیا جواب نہ پا کر کھول کر فریش ہونے لگا اور بالوں میں تولیا کرتا ہوا اگے پیچھے دیکھ کر کچن کی طرف ناشتہ بنانے جانے لگا اگے پاکیزہ سب کچھ کھول کر دیکھ رہی تھی ناشتہ بنانے کی تیاری میں تھی شہری نے آتے ہی اسے پیچھے سے بازوں کے گھیر میں لیتے ہوۓ بولا ہماری نیو نویلی دلہن یہاں کیا کر رہی ہے پاکیزہ شرماتے ہوۓ آپ سو رہے تھے سوچا ناشتہ بنا دوں ارے ہٹیے یہ میرا روز کا کام ہے فٹا فٹ کر لیتا ہوں نہیں اب میں ہوں نا کر دوں گئی ارے ایسے کیسے پاکیزہ نے کہا اچھا چلو مل کر کر لیتے ہیں اسطرح دونوں نے مل کر بنایا اور میز پر لگا کر اپنی ماں کو شہری لے آیا اور مل کر تینوں ناشتہ کرنے لگے۔ اگلے دن ولیمہ تھا پاکیزہ نے چاکلیٹی کلر کا شرارہ اور قمیض پہنی ہوئی تھی اور لمبے بال اب شیشے کے اگے جوڑے میں قید کر رہی تھی شہری تو بس اسے دیکھتا ہی رہا شہری نے بھی سفید کلر کا سوٹ پہنا اور دونوں تیار ہو کر شبانہ کو ساتھ لیا اور کار میں آ گئے شبانہ دونوں کو دعا دیتی رہی پاکی جب مسکراتی گال پر ڈمپل دیکھ کر شہری کا دل دھڑک جاتا سب دلہا دلہن کا ہال میں انتظار کر رہے تھے شہری نے ایک ہاتھ سے ماں کو سہارا دیا اور ایک سے پاکیزہ کا ہاتھ بازوں میں لیا اور ہال پہنچے سب سے ملنے لگے شہری پاکیزہ کو بار بار دیکھے جا رہا تھا پاکیزہ بھی دل بھی اللہ کا شکر ادا کرتی رہی کہ جیسے لائف پاٹنر چاہیے تھا ویسا کیرنگ ملا __________ تبسم کمرے میں تیار ہو رہی تھی زیشان انہیں کمرے سے لینے آیا لینہ تیار ہوئی بیٹھی تھی زیشان نے آتے ہی بولا پاپا کی جان یہاں بیٹھی ہے پھوپھو اسے وہاں ڈھونڈ رہی ہو گی لینہ نے پاکیزہ کا سنا تو بولی ماما بس کریں بہت پیاری لگ رہی اب مجھے پھوپھو پاس جانا ہے زیشان نے کہا لینہ جاؤ دیکھو دادا ابو اور دادو تیار ہیں لینہ اوچھلتی ہوئی باہر نکل گئی زیشان نے تبسم کو ایک دم ساتھ لگا لیا ارے آپ کدھر نکل رہی ہو میں تو بیٹی کو بھگایا تھا تبسم نے اس کی گردن میں بازو ڈال کر بولی شرم نہیں آتی ولیمہ کسی کا اور رومینس آپ کو سوج رہا ہے زیشان ہنستے ہوۓ کیوں مجھے منا ہے کیا اتنے میں لینہ نے آ کر دروازہ کھولا زیشان ایک دم دور ہوا تبسم بیڈ شیٹ ٹھیک کرنے لگی پاپا سب تیار ہیں چلو اب سب کار میں بیٹھے اور ہال آ گئے شہلا اور ندیم نے شبانہ کو اتنا کمزور اور ایسی حالت دیکھ کر ناراضگی ختم کر کے ان سے ملنے لگے شبانہ بھی ان سے مل کر بہت خوش ہوئی ثناء سمیر لینہ میں لائبہ کو دیکھ کر بہت پیار کرتے رہیے تبسم خادم حسین اور جمیلہ کی اپنے ماں باپ سے بڑھ کر خدمت کرتی _____________ ایک سال بعد تبسم کو زیان پیدا ہوا سب کو زیان کی فکر لگی ریتی اور تبسم کو لینہ کا ہی خیال رہتا کیونکہ لینہ کی وجہ سے اسکی زندگی میں خوشیاں آئی تھی۔ پاکیزہ کو بھی بیٹا عاصم ہوا اور شہری پاکیزہ کا بہت زیادہ خیال رکھتا شبانہ بچوں کو خوش دیکھ کر اب بالکل ٹھیک ہو گئی تھی سب ٹوٹے اور پھر جوڑے مگر پہلے سے زیادہ مصبوطی کے ساتھ گھوم پھر کر خوشیاں پھر سب کے پاس لوٹ آئی۔ ختم شد _________________ نوٹ ، ازقلم عاصمہ بلوچ ۔۔ میں اس ناول میں یہ بتانا چاہتی تھی کہ بنا ضرورت اپنی تصوریں نہیں لینی چاہیے اور خاص کر میڈیا پر تو کبھی بھول کر بھی مت ڈالو دوسرا یہ کہ انسان غلطی کہیں کرتا ہے مگر سزا کہیں جا کر ملتی ہے جہاں وہ بالکل بے قصور ہوتا ہے اسے یہی ہوتا ہے میں بے قصور ہوں مگر اپنی کی غلطی بھول جاتا ہے مگر اللہ بھولنے والا نہیں مگر انسان توبہ کرے لے دل سے تو نہ صرف معاف کر دیتا ہے بلکہ پہلے سے بہتر نوازتا ہے ہم ہی صبر اور انتظار نہیں کرتے انسان ہر بات میں جلدی چاہتا ہے مگر ہوتا وہی ہے تو منظورِ خدا ہوتا ہے اللہ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا اور نہ ظلم کرتا ہے انسان اپنے آپ پر خود ظلم کرتا ہے انسان اگر ایک جگہ سے ٹوٹ جاتا ہے تو لازم اس سے بہتر اسے ملنے والا ہوتا ہے مگر وہ اسی کے سوگ میں بیٹھا ہوا ہوتا ہے ہمت کبھی نہیں ہارنی چاہیے یہ نہیں کہ ایک جگہ سے ٹوٹے تو بس زندگی اب ختم ہو گئی نہیں جس طرح کچی پنسل ٹوٹنے پر وہ ضائح نہیں ہو جاتی بلکہ اسے دونون سمت سے شاپ کر کے نیۓ سرے سے استمال میں لائی جاتی ہے ایسے ہی ہماری زندگی بھی ہے مگر کوئی سمجھے تو۔ میری پوری کوشش تھی کسی کے ساتھ نا انصافی بھی نہ ہو اور میرا میسج جو ناول کے زریعے دینا تھا وہ بھی پہنچا سکوں تو میں کہاں تک کامیاب ہوئی یہ اب آپ کے کمینٹس بتائیں گے آپ سب کا بہت شکریہ۔

❤️ 👍 😂 🙏 😢 😮 351
Novel Ki Dunya
6/3/2025, 8:32:56 AM

بے حد دکھ اور افسوس سے بتایا جا رہا ہے کہ خواتین ڈائجسٹ کی مشہور و مقبول مصنفہ سائرہ رضا آپی رضائے الٰہی سے وفات پا گئی ہیں۔اُن کو کل ہارٹ اٹیک آیا تھا جس سے وہ جانبر نہ ہو سکیں اور ابھی کچھ دیر پہلے اللہ کی میزبانی میں چلی گئی ہیں اللہ تعالیٰ سائرہ آپی کو جنت مکین کریں آمین ثم آمین دل بے حد بوجھل ہو گیا ہے

😢 ❤️ 😮 😂 👍 🙏 503
Novel Ki Dunya
6/3/2025, 2:23:49 AM

#کبھی_دل_نہ_ٹوٹے #تحریر_عاصمہ_بلوچ #قسط_نمبر_16 لائبہ کی ڈلیوری کے دن بہت قریب تھے سب خوش تھے آج اتوار کا دن تھا سب گھر پر موجود تھے خادم حسین اور جمیلہ آج شاپنگ کر کے لے آۓ تھےلائبہ پاکی زیشان صوفے پر بیٹھے بچے کا نام سوچ رہے تھے لڑکی ہوئی تو یہ لڑکا ہوا تھا یہ ۔۔زیشان ساتھ لائبہ کو سیب کاٹ کر دے رہا تھا اور لائبہ کو زبردستی کھانے پڑ رہے تھے وہ منہ بھی بنا رہی تھی مسکرا بھی رہی تھی اب بس کرو آپ دونوں بہن بھائی نام سوچو مجھے چلنے پھرنے دو پاکی نے کہا لڑکی ہوئی تو امائمہ لڑکا ہوا تو زمان رکھیں گے زیشان نے کہا نام تو اچھے ہیں مگر بےبی گرل کا نام میری بیگم کے نام سے شروع ہونا چاہیے پھر لائبہ کو گھورا کے یہ سب ختم کرو اور جوس بھی ابھی پینا ہے مجھے میرا بچہ موٹو سا چاہیے تمہاری طرح اوے کیا میں موٹی ہوں؟ پاکیزہ ہنسے لگی لو اب آپ کی لڑائی شروع بعد میں لڑنا ماما بابا کچھ لے کر آ گئے پیچھے دیکھو زرا خادم حسین اور جمیلہ بچے کی شاپنگ کر کے آ گئےتھے بہت سارے کپڑے اور کھلونے سب کے چہرے پر خوشی تھی۔ وہ سب سے باتیں کرنے لگے اور پاکیزہ سارا کچھ کھول کر دیکھاتی رہی اتنے میں سلطانہ سب کے لیے لمیوں کا جوس لے آئی سب کے اگے گلاس کرتی رہی سب پینے لگے زیشان نے بےبی کے کپڑے دیکھے تو بولا افف ماما آپ سارے پنک اور بلو اٹھا کر لے آئی اور کوئی کلر نہیں ملا تھا کیا لائبہ ہنستے ہوۓ فورا بولی زیشان بچوں کے یہی کلر ہوتے ہیں بےبی بوۓ کے لیے بلو اور بے بی گرل کے لیے پنک ہوتا ہے جمیلہ بولی بیٹا لائبہ بالکل ٹھیک بول رہی ہے دکان والے بھی ہمیں یہی بول رہے تھے پاکیزہ بولی افف اللہ کتنے شونے پارے چھوٹے چھوٹے شوز ہیں نا۔ زیشان پاکیزہ سے لیتے ہوۓ بہت پیار سے مسکراتے ہوۓ دیکھنے لگا تب لائبہ بولی زیشو میں اپنے کمرے میں جا رہی ہوں آپ جب آؤ یہ سب چیزیں لے آنا۔ زیشان نے بولا صبر ساتھ ہی چلتے ہیں زہشان لائبہ کا ہاتھ پکڑ کر کمرے تک گیا ۔ پاکیزہ اور اس کی ماں سارا سامان سمیٹنے لگی اور خادم حسین فریش ہونے چلے گئے۔ کمرے میں جا کر زیشان نے لائبہ سے کہا جان میں سوچ رہا ہوں اب تمہارے دن پورے ہیں تو میں اب آفس سے چھٹیاں لے لوں درخواست دے آؤں لائبہ نے کہا افف ابھی سے چھٹیاں نہیں ماما بھی ہیں سلطانہ آپا ہے شیرگل بھی ہے آپ اتنا ٹنس کیوں لے رہیے ہو۔ویسے بھی ابھی ایک ہفتہ ہے زیشان لائبہ کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوۓ بولا کہ اب کسی وقت بھی طبعیت خراب ہو سکتی ہے میرا ہونا بھی ضروری ہے میں رسک نہیں لے سکتا اتنے مہنے تمہاری سنتا آیا اب نہیں سنوں گا افف اچھا بابا کل جا کر آپ چھٹیاں لے لینا میری طرف سے تو جاب ہی چھوڑ دیں ہاے میری جان تم نے تو میرے دل کی بات چھین لی جاب چھوڑنے والی۔ واہ لو جی اب ہو گیا دماغ خراب اب جائیں میری دوائی لے آئیں جی جی ابھی لایا میں آپ کا فرمابردار شوہر ہوں ۔لائبہ ماتھے پر ہاتھ مارتی ہنسے لگی۔ صبع زیشان بہت خوش تھا خوشی سے تیار ہو رہا تھا لائبہ سو رہی تھی بال بکھرے ہوۓ تھے زیشان نے اسے ایسے سوتے دیکھا اس کا دل کرنے لگا آج بھی چھٹی کر لے مگر رات لائبہ نے بولا تھا تو جانا پڑے گا زیشان تیار ہو کر لائبہ کے پاس آیا پیار سے اس کے چہرے سے بال ہٹاۓ ابھی پیار کے لیے جھکا ہی تھا لائبہ کی آنکھ کھل گئی زیشان کو تیار دیکھ کر مسکرانے لگی زیشان نے اس کے ماتھے پر بوسہ لیا اب تم آرام سے سو جاؤ میں سلطانہ سے بول کر جاؤں گا ناشتہ اور دوا دے جاۓ گئی وہ اسے پیار کر کے نکل گیا لائبہ واپس سو گئی ۔ زیشان جا کر ناشتہ لگا تھا ناشتہ کرنے لگا وہی پاکیزہ بھی ناشتہ کر رہی تھی زیشان اسے دیکھ کر بولا اتنا آہستہ ناشتہ کرتی ہو پتہ نہیں شادی کے بعد تمہارا کیا بنے گا پاکیزہ چڑ کر بولی زیشو تمہیں اس ٹاپک کے علاوہ اور کوئی نہیں آتا کیا ؟ زیشان کو اسے غصہ دلا کر مزا آ گیا نہیں نا اور کوئی ٹاپک ہے نہیں بیوی کے پاس بےبی کا ماما پاس گھر کی باتیں بابا پاس جاب کی باتیں اور تمہارے پاس آ کر بہت مزے کا ٹاپک ملتا ہے ہاہاہا زیشو نہیں کرو نا مجھے یہ ٹاپک نہیں پسند دونوں میں پیار بھری نوک جوک ہوتی رہی اور پھر زیشان نے پاکیزہ کو ایف ایم آفس چھوڑا خود اپنے آفس نکل گیا ____________ لائبہ نیند سے اٹھی زیشان کو نہ پا کر مسکرا کر فریش ہونے چلی گئی آج سلطانہ کی طبعیت کچھ خراب تھی بخار اور سر درد تھا وہ ابھی کام کر کے بیٹھی ہی تھی کہ اندر سے جمیلہ نے آواز دی سلطانہ جگ میں پانی دے جاؤ ختم ہو گیا ہے سلطانہ مشکل سے اٹھی اور جگ بھر کر جانے لگی تو اسےچکر سا محسوس ہوا جگ اس کے ہاتھ سے گر گیا اور وہ خود بھی سر پکڑ کر بیٹھ گئی اتنے میں لائبہ فریش ہو کر کمرے سے باہر ناشتے کے لیے نکلی تو سلطانہ کو ایسےدیکھا تو اسے سہارا دینے جا رہی تھی نیچے پانی نہیں دیکھا تو سلیپ ہو گئی بہت زور کی گری اور زور سے چلائی ماما۔۔۔۔۔ماما اتنے میں سلطانہ بھی چکرا کر گر گئی جمیلہ آواز سنتے ہی باہر بھاگی اگے دیکھا لائبہ اور سلطانہ دونوں گری ہوئی تو چلانے گئی زیشان کے بابا ۔۔۔زیشان کے بابا۔۔۔ خادم حسین نے جمیلہ کی گھبرائی ہوئی آواز سن کر بھاگتے ہوۓ آۓ شیر گل کی مدد سے لائبہ اور سلطانہ دونوں کو ہسپتال لے گئے۔ ______________ ✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨ خادم حسین اور جمیلہ لائبہ اور سلطانہ کو ہسپتال لے آۓ لائبہ کو تو فورا آئی سی او میں لے کر جانا پڑا اور سلطانہ کو انجکش وغیرہ دینے لگے خادم حسین اور جمیلہ آئی سی او کے باہر بہت پریشان چکر کاٹ رہے تھے اتنے میں زیشان پاکیزہ کے ساتھ بھاگتا ہوا آیا ابھی وہ پہنچے ہی تھے کہ ان کے پیچھے ہی لائبہ کے ماں باپ بھی آ گئے ان کے ساتھ ثناء سمیر اور نجو بھی تھے زیشان بہت فکر مند ادھر اُدھر چکر کاٹنے لگا پاکیزہ زیشان کو تسلی دینے لگی کچھ نہیں ہو گا سب ٹھیک ہو جاۓ گا تم آرام سے بیٹھو یہاں ماما بابا کے پاس اتنے میں سمیر قریب آ کر بولنے لگا یار آرام سے بیٹھو پانی پیو ٹنس کی بات نہیں ہے زویا کا بھی آپریشن سے بے بی ہوا میری بیوی کا بھی تو اتنے کیوں فکر مند ہو ابھی سمیر اسے تسلی دے ہی رہا تھا کہ آئی سی او سے ڈاکٹر نکلا اور بولا آپ کی پیشنٹ کو خون کی بہت ضرورت ہے آپ میں کسی کا +A ہے تو جلدی سے دیں زیشان نے کہا میرا -O ہے یہ سب کو لگ جاتا ہے ڈاکٹر نے بولا آپ آ جائیں جلدی زیشان خون دے آ کر بیٹھ گیا کچھ گھنٹے بعد ڈاکٹر باہر آئی سب ڈاکٹر کے فورا پاس آ کر اسے دیکھنے لگے ڈاکٹر نے کہا کہ پیشنٹ کے ہسبنڈ کدھر ہیں زیشان فورا بولا جی میں ہوں یہ لیں یہ فارم پُر کر دیں پاکیزہ بولی یہ فارم کس لیے ہیں ؟ ڈاکٹر نے کہا کہ یہ فارم اس لیے ہوتے ہیں کہ اندر جو پیشنٹ ہے اگر اسے اسے کچھ ہو جاۓ تو یہ ہماری زمہداری نہیں ہے اگر آپ چاہتے ہیں ہم اپنی کوشش جاری رکھے تو یہ فارم فیل کرنے ہوں گے نہیں تو آپ اپنے پیشنٹ کو کسی اور ہسپتال لے جا سکتے ہیں زیشان نے کہا میں کرتا ہوں پُر زیشان سارا فیل کر کے دے دیا ڈاکٹر بولی آپ بس دعا کریں اور واپس اندر چلی گئی سب دعا کرنے لگے پھر سے آئی سی او کا دروازہ کھولا سب کی نظریں وہی پر تھی ایک دوسری ڈاکٹر نکلی اور سب اس کے پاس پہنچ گئے ڈاکٹر نے کہا مرض کی حالت بہت خراب ہے ہم دونوں میں سے ایک کو بچا سکتے ہیں ماں یا بچہ آپ کو کیا چاہیے سب ایک دوسرے کو دیکھنے لگے زیشان کے آنسو گر رہے تھے ایک دم سے بولا ماں کو بچا لیں ۔ سب بہت دعا کرتے رہے اندر ڈاکٹر پوری کوشش کرتے رہیے ایک بار پھر آئی سی او کا دروازہ کھولا اور ڈاکٹر نے بےبی لپیٹا اٹھایا ہوا تھا سب نے بچہ دیکھا بہت خوش ہوۓ اتنے میں ڈاکٹر نے بولا آئی ایم سوری ہم نے بہت کوشش کی دونوں کو بچا سکیں مگر ماں کو نہیں بچہ پاۓ بس یہی اللہ کی رضا تھی زیشان ایک دم اپنے بال کھنچتے ہوۓ وہی کھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور رونے لگا ثناء کی اکلوتی چھوٹی بہن تھی وہ سن کر ایک دم مردہ سی ہو کر زمین پر گرتی چلی گئی لائبہ کی ماں رفعیہ جو پہلے سے شوگر کی مریض تھی اس کے دل کو کچھ ہو گیا پاکیزہ دیوار کے ساتھ لگ کر رونے لگی خادم حسین جمیلہ کو سہارا دینے لگے جس سے بچہ بھی نہیں اٹھایا جا رہا تھا سب دکھ سے الگ الگ نڈھال تھے اتنے میں نرس اور کمپوڈر نے سٹیچر آئی سی او سے نکالی جس پر لائبہ سفد چادر میں تھی سب زارو قطار رونے لگے اور وہاں کے عاملے کی مدد سے ایمبولینس میں ڈالا گیا سب ایک دوسرے کو تسلی دیتے رہے سلطانہ بخار میں تھی اسے بھی پتہ چلا روتی پیٹتی ہوئی آئی بہت درد بھرا منظر بن چکا تھا ہر دل دکھی تھا ہر آنکھ اشک بار تھی اسطرح دکھ میں ایک مہنہ گزر گیا بےبی گرل ہوئی تھی جو دیکھنے میں بالکل لائبہ جیسی لگتی تھی سب اپنے دکھ میں ہی رہے بچی کو بھی سلطانہ ہی زیادہ دیکھتی رہی اور جمیلہ بھی زیشان اتنا دکھ میں تھا کہ بچی کی بھی ہوش نہیں تھی ایک ماہ بعد جا کر اس نے اپنی بیٹی اٹھائی اور اپنے بیڈ روم لے کر بہت پیار کرتا رہا لائبہ اس کو ہر دم ساتھ نظر آتی رہی جو دونوں نے بچے کے ایک ساتھ خواب دیکھے تھے اسطرح وقت گزرتا رہا وقت کے ساتھ انسان دکھ کو کم محسوس کرنے لگتا دو ماہ بعد زیشان نے واپس اپنے آفس جانا شروع کر دیا روزانہ اپنی بیٹی سے مل کر جاتا اور آتے ہی اسے دیکھ کر جیسے ساری تھکان بھول جاتا بچی سب گھر والوں کے لیے ایک خاص تحفہ تھا جس نے غم کو کچھ کم کر دیا تھا بےزبان نہ سمجھ میری خاموشی کو شور کرتا نہیں _____ کبھی گہرا پانی. __________________ لینہ زیشان نھنی پری سارا دن اپنی دادو کے پاس ہوتی اور جمیلہ بہت ہی پیار سے اسے پال رہی تھی زیشان اور پاکیزہ اپنی اپنی جاب میں مصروف ہو گئے تھے زندگی چل رہی تھی وقت گزر رہا تھا وقت بہت بڑا مرہم ہے زخم کو سلا دیتا ہے درد نہیں ہونے دیتا مگر پھر کبھی ہلکی سی بھی ٹھس لگ جاۓ سارے پرانے زخم بھی تازہ ہو جاتے ہیں یہ بھی بات ہے مگر ان کی زندگی ٹھیک چل رہی تھی سب کچھ معمول کے متابق تھا۔ لینہ اکثر زیشان کے کپڑے خراب کر دیتی تھی اور پاکیزہ ہنستی زیشان لینہ کو دیکھ کر کہتا پاپا کی جان بڑی ہو لے مل کر پھوپھو کی کلاس لیں گے۔ ______________ ایک سال بعد ______________ پاکیزہ ریڈیو ایف ایم پر اپنا پروگرام کر رہی تھی اس کے بہت سارے فین تھے پہلے وہ ایک گھنٹے کا پروگرام کرتی تھی مگر سب کے اسرار پر اب تین گھنٹے کا پروگرام کرنے لگی تھی بہت لوگ اس کی سویٹ آواز کے دیوانے تھے اوپر سے بہت عمدہ طریقے سے شو کرتی تھی۔ شہری بھی اکیلے میں ایف ایم ہی سنا کرتا تھا اور اس کو بھی پاکیزہ کا پروگرام بہت پسند تھا جیسے اس کا شو ٹائم ہوتا سب کام چھوڑ کے سنتا ۔پاکیزہ کی بات چیت اور شعری سنانے کا انداز ہی الگ تھا۔ شہری بھی اب اپنی زندگی میں اب مصروف ہو گیا تھا ایک دن فری بیٹھا تھا تو یوہی اس کا بہت ٹائم بعد فیس کھولنے کو دل کیا جیسے ہی اس نے فیس بک کھولی تو انبکس میں میسج کی بھر مار دیکھ کر کھولنے لگا جو کے حمزہ کے نام سے تھے شہری سب کچھ دیکھنےلگا اور حیران پریشان ہو گیا تبسم کو پھر سے آج یاد کرنے لگا اس کا دل بہت اداس ہو گیا تو آفس سے چھٹی لے کر گھر کی طرف آ رہا تھا اور عادت سے مجبور ایف ایم آن کر لیا تب پاکیزہ اپنا شو کر رہی تھی ۔پاکیزہ کچھ اداس شعری کر رہی تھی شہری تبسم کو سوچتا گھر تک پہنچا۔ماں کو سلام کر کے سیدھا اپنے کمرے جا کر تبسم کی باتیں سوچنے لگا اور اپنی جلدی بازی میں کیے ہوۓ فیصلے پر پیچھتا رہا تھا تم جو بچھڑے ہـو ___جَلدبازی میں یار تم رُوٹھ بھی تو____سکـتےتھے! جیسے کسی نے زخموں کے ٹانکے ادھڑ دیے ہوں آنسو بہا رہا تھا آج پھر اسں کے سارے زخم تازہ ہو گئےتھے۔ ______________ تبسم اب بالکل خاموش سی کھوئی کھوئی سی رہتی رماغی مرض بن چکی تھی شہلا سے اپنی بیٹی کی یہ حالت نہیں دیکھی جاتی ماں تھی آخر اکلوتی اولاد تھی اسے دیکھ ماں کی ممتا ترپتی تھی۔ تبسم ہمیشہ اپنی ساری بات بتاتی مگر اس کی بات پر کسی کو یقین آتا ہی نہیں تھا ندیم باپ ہو کر اپنی بیٹی سے ایک سال سے بالکل بات چیت بند کی ہوئی تھی اس سے لاتعلق تھا۔ تبسم باپ کی محبت شفقت کو ترس گئی تھی بےزبان نہ سمجھ میری خاموشی کو شور کرتا نہیں ___ کبھی گہرا پانی.. ______________ شہری بہت دیر روتا رہا پھر فریش ہوا اسے سکون نہیں مل رہا تھا کہیں بھی وہ اپنی غلطی کی معافی مانگنے تبسم کے گھر جا پہنچا نزیرا کو دیکھ کر سلام کیا اور شہلا تبسم کا پوچھنے لگا نزیرا بھی دیکھ کر خوش اور حیران بھی تھی۔ اتنے میں شہلا بیگم تبسم کے کمرے سے نکل کر باہر آ رہی تھی کہ سامنے شہری پر نظر پڑی چونک سی گئی اور شہری کے پاس آ کر آنے کی وجہ پوچھنے لگی شہری نے فورا سلام کیا اور بولا میں تبسم سے ملنا چاہتا ہوں شہلا غصے کے انداز میں بولی اب تمہارا اس سے کوئی رشتہ نہیں رہا اور نہ وہ اس حالت میں ہے کہ کسی سے مل کر بات کر سکے اب میری بیٹی کو اس کے حال پر چھوڑ دو جو سانس لے رہی ہے وہی کافی ہے شہری نے شہلا کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے مجھے کچھ پل کے لیے بس ملنے دیں میں اپنے کیے کی معافی مانگنا چاہتا ہوں میرا دل بہت بے چین ہے مجھے آخری بار ہی سہی مگر کچھ دیر کے لیے ملنے دیں شہلا نے کہا نکل جاؤ یہاں سے اب مجھے ساری کہانی پتہ چل گئی ہے پلیز خالہ بس ایک بار اس کے بعد میں کبھی نہیں آؤں گا تم جاتے ہو یہاں سے یا میں چوکیدار کو بلواؤں اور دھکے دے کر نکلواؤں میری بیٹی کی زندگی جہنم بنا کر اب آ گئے ہو مصعوم بن کر شہری کو غصہ تو بہت آیا مگر خاموشی کے ساتھ نکل کر بہت تیز ڈرائیو کرتے گاڑی وہاں سے نکالی اور اب شہری نے حمزہ کی تلاش میں دن رات ایک کر دیا مگر حمزہ کا آتا پتہ اسے کہیں سے نہیں مل سکا۔ وہ اب تنہائی میں اکثر پاکیزہ کے شو سے اداسی دور کرتا تھا ایک دن شہری نے پاکیزہ کے شو میں کال کی تو پاکیزہ نے کہا کیا آپ کچھ سنانا پسند کریں گے؟ شہری نے کہا جی ہاں شہری نے اشعار پڑھنے شروع کیے کہیں سے نیلے کہیں سے کالے پڑے ہوئے ہیں ہمارے پیروں میں کتنے چھالے پڑے ہوئے ہیں ہماری خاطر بھی فاتحہ ہو برائے بخشش ہم آپ اپنے پہ خاک ڈالے پڑے ہوئے ہیں ہماری آنکھوں میں جب سے اترا ہے چاند کوئی ہماری آنکھوں کے گرد ہالے پڑے ہوئے ہیں یقیں نہیں ہے خود اپنے ہونے کا ہم کو ورنہ کئی مثالیں کئی حوالے پڑے ہوئے ہیں ہمارے کمرے میں اس کی یادیں نہیں ہیں فاضل کہیں کتابیں کہیں رسالے پڑے ہوئے ہیں۔ ارے واہ واہ زبردست پاکیزہ بہت تعریف کرنے لگی ________________ شہلا اب اپنی بیٹی کو نارمل زندگی میں لانے کی ہر ممکن کوشش کرنے لگی ______________ ایک سال بعد ______________ تبسم اب بالکل نارمل ہو چکی تھی مگر شہری کو اب نیند نہیں آتی تھی نہ ہی سکون تھا وہ اپنی جلدی بازی کی سزا بھگت رہا تھا بہت بار کوشش کی کہ تبسم سے معافی مانگے اسے بتاۓ کہ وہ بےقصور تھی مگر اب تک اسے موقح نہیں مل پا رہا تھا ایک دن تبسم اپنے گھر کے لان میں اکیلی بیٹھی آنکھیں موند کر کرسی سے ٹیک لگاۓ تازہ ہوا لے رہی تھی شہری آج پھر سے منتیں کرنے آیا تھا کہ تبسم سے ملوا دیں مگر اس بار نہ تو ندیم گھر پر تھا اور نہ ہی شہلا شہری نے دور سے تبسم کو دیکھا تو خوش ہو گیا کے آج یہی مل گئی وہ چلتا ہوا اس کے پاس آ گر خاموش کھڑا ہو گیا تبسم اسی طرح بند آنکھیں ٹیک لگاۓ سکون لے رہی تھی کچھ دیر شہری اسے دیکھتا رہا پھر کھانس کر اپنی موجودگی کا اسے احساس دلانے لگا تبسم نے کھانسی کی آواز سنی تو ایک دم آنکھیں کھول کر دیکھنے لگی تو شہری کو سامنے کھڑا پایا ایک سال بعد بھی اس نے بات کرنا گوارا نہیں کی جوتے پہنتی ہوئی اٹھ کر جانے لگی شہری نے تبسم کو روک کر اس کے سامنے کھٹنے ٹیک کر بیٹھ گیا اور ہاتھ جوڑ لیے اور معافی مانگنے لگا تبسم نے اسےدیکھا اس کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے شہری اسے سب حمزہ کی بات بتا کر اپنے کیے پر نادم تھا تبسم بہت رونے والی بھاری آواز میں بولی میں نے اپنا سب کب سے اپنے رب پر چھوڑ دیا ہے میں نے کچھ کیا نہیں اس کی سزا پائی ہے میری بھی غلطی تھی میں اپنی تصوریں جو اتنی پوسٹ کرتی رہی بس جو ہوا اس میں میرے رب کی مرضی شامل تھی میں اب اُس کی رضا میں راضی ہوں اور رہی معافی کی بات تو میں نے تمہیں معاف کر دیا اتنا کچھ کوئی بھی دیکھتا سنتا تو ایسے ہی کرتا مجھے تم سے اور تمہارے نام سے نفرت ہو گئی ہے یہ کہہ کر تبسم وہاں سے تیزی کے ساتھ اپنے بیڈ روم آ گئی اور لیٹ کر روتی رہی اور وہی سو گئی۔ جاری ہے

❤️ 👍 😢 😮 😂 🙏 179
Novel Ki Dunya
6/2/2025, 1:35:32 PM

😂😂

😂 ❤️ 👍 😮 🙏 😢 146
Video
Link copied to clipboard!