Novel Ki Dunya
February 24, 2025 at 12:57 PM
#شاہ_اور_زہرا
#تحریر_عظمی_محمد_عثمان
#قلمی_نام_مٹھو_لاڈلی
#قسط_نمبر_4
وہ ہفتے کو گھر آگئ تھی اور آکر جو اس نے سوچا تھا کہ وہ سب سے منہ پھلائے رکھے گی یا لفٹ نہیں کروائے گی۔ تو اسکی یہ ساری سوچیں ہوا ہوئی تھیں۔ وہ دادی امی اور تائ کے پاس انکی گود میں سر رکھ کے باری باری روئ تھی۔ اپنے دکھڑے سنائے تھے۔ ہاسٹل کی میس کے حال سنائے تھے۔ دادی کا دل موم ہوا تھا انہوں نے اس کے سامنے سرور خان کے لتے لیئے تھے۔ مگر سوائے خجالت سے سر ہلانے کے وہ کچھ نا کر پائے۔ جی بھر کے لاڈ اٹھوا کر اریب اظہر کو تنگ تنگ کر کے بابا نے ڈھیر ساری شاپنگ کروا کےاسکا دل بہلایا تھا۔
وہ ایک ہفتہ گزار کے یونی واپس آنے کی تیاری کرنے لگی تھی۔
دل تھا کہ جانے پر آمادہ ہوتا ہی نا تھا۔
بابا نے اسے پیسے دئیے تھے۔ کہ اگر اسے میس کے کھانے نہیں اچھے لگتے تو وہ کینٹین سے کھا لیا کرے
وہ حیران ہوئ تھی بابا نے اس قدر چھوٹ تو اسے کبھی نہیں دی تھی۔
اسکی یہ حیرانی کافور ہوئ تھی جب جانے سے ایک دن پہلے سرور خان نے اسے اپنے پاس بٹھا کر لیکچر دیا تھا جسکی شروعات "پڑھنے میں دل لگانا بیٹا" سے ہوئ تھی اور اختتام "ہماری محنت اور پیسے کو برباد مت کرنا برا رزلٹ لا کر" پر ہوا تھا۔
گویا ساری نوازشیں اسکے لئے نہیں "رزلٹ" کے لئے تھیں اسکا سخت موڈ آف ہوا تھا مارے باندھے وعدہ کر کے وہ ہاسٹل آگئ تھی۔
*****
زہرا نے حامی بھر تو لی تھی مگر اب اسے پڑھنا محال لگ رہا تھا جیسے ہی کتاب کھولتی اسے چکر آنے لگتے بھوک لگنے لگتی یا بولنے کا دل کرتا- وہ تھوڑی دیر نفس سے لڑنے کے بعد کتاب بند کردیتی۔
جیسے جیسے امتحانات قریب آرہے تھے باقی اسٹوڈنٹس کے برعکس اس کے کچھ زیادہ ہوش اڑتے جا رہے تھے سب کی کچھ نا کچھ تیاری تھی ایک وہ ہی تھی جو اتنے ماہ فضول کی ضد میں برباد کئے بیٹھی تھی۔ اب پہلے سمسٹر میں ہی اسکی ناک کٹنے والی تھی یہ خیال ہی سوہان روح تھا۔
وہ دانتوں سے ناخن کرنے لگتی۔
یہاں سے وہاں چلتے ہوئے واک کرتے کبھی دھیمی آواز میں کبھی بلند آواز میں رٹے لگاتی۔
سوالوں کو قسطوں میں یاد کرتی۔ تب جا کہ کچھ یاد ہوتا۔ نالائقییوں کے اس قدر ریکارڈ ٹوٹ رہے تھے کہ جو یاد کرتی اگلے دن بھول جاتا۔ وہ تنگ آجاتی۔ کتاب پٹخ کے اٹھ کھڑی ہوتی۔ گھر یاد آنے لگتا۔
وہ جھلا جاتی۔
میمونہ اسے دیکھ کے ہنسنے لگتی کبھی اسے مشوروں سے نوازنے لگتی۔ جس پر زہرا اسے "اپنے کام سے کام رکھنے" کی تلقین کردیتی۔
وہ کندھے اچکا کر رہ جاتی۔
اسے لگتا تھا جیسے وہ بھرے پڑے جہان میں اکیلی پڑ گئ ہے۔ میمونہ سے مدد مانگنا مطلب اسکا لیکچر سننا "آگئ ہو نا لائن پہ" وہ سوچ کر رہ جاتی۔
جو کچھ کرنا تھا اکیلی ہی کرنا تھا یہ تو وہ جانتی ہی تھی۔
صرف ایک ماہ رہتا تھا سمسٹر میں اور اس نے اسائنمنٹ یا نوٹس کچھ بھی تیار نہیں کئیے تھے۔
اس نے میمونہ سے مدد طلب کرنے کا سوچا کیونکہ اکیلی تو وہ کچھ نہیں کر پا رہی تھی۔ اور کلاس میں کسی سے اسکی بنتی نہیں تھی۔
وہ دو کپ کافی بنا کر میمونہ کے بیڈ پہ لے آئ۔
میمونہ شکریہ کے ساتھ کافی لے کر اپنی بک پر جھک گئ۔
اسے لگا تھا پھر سے زہرہ کوئ نا کوی "یونی اسٹوری ، یا کوئ واقعہ یا گھر میں ہونی والی کوئ "نہایت دلچسپ گفتگو" شئیر کرنے آئ ہوگی" جو اسے اچانک یاد آئ ہوگی اور میمونہ اسے سے محروم نا رہ جائے اس لئے سنانے آئ ہوگی۔
مگر کافی کا آدھا کپ خالی کرنے تک زہرہ بلکل خاموش تھی کسی سوچ میں گم۔ خلاف معمول دس منٹ سے بلکل چپ۔
"آر یو اوکے؟؟" میمونہ نے کپ سائیڈ میں رکھتے ہوئے اسے ہلایا۔
"ہاں ٹھیک ہوں" مرجھایا سا چہرہ
"تم پریشان کیوں لگ رہی ہو سب ٹھیک ہے نا؟" میمونہ اسے بہت پسند کرتی تھی۔ اسکی شرارتیں بھی باتیں بھی سب انجوائے کرتی تھی بلکہ وہ تو ببانگ دہل کہا کرتی تھی "آکر رونق ہی لگا دی ہے اس بورنگ زندگی میں اچھا ہے تم پڑھنے کو سیریس نہیں لیتیں ورنہ مجھے انٹرٹین کون کرتا؟" وہ شرارت سے کہتی عرش کشن اٹھا کر اسے دے مارتی۔
اور آج اسے یوں گم سم دیکھ کر میمونہ نے سوچا تھا "کچھ لوگ بولتے ہوئے لڑتے جھگڑتے ہوئے اور مسکراتے ہی اچھے لگتے ہیں اداسیاں ان سے دور ہی رہیں تو اچھا ہے بھئ! اچھا بھلا بندہ ان خوش مزاج لوگوں کو اداس دیکھ کر اداس ہوجاتا ہے"۔
اسے ہنوز خاموش دیکھ کر میمونہ نے کافی ختم کر کے اپنا اور اسکا کپ ٹیبل پر رکھا اور تکیہ گود میں لیکر زہرہ کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لئے۔
"کیوں اداس ہے میری کیوٹ سی دوست؟" نرمی سے پوچھا۔
"اداس نہیں ہوں میمونہ میں پریشان ہوں" وہ جیسے تھک گئ تھی۔
"کیا بات ہے مجھے بتاؤ میں ہوں نا ابھی پریشانی کو چٹکی میں اڑاتے ہیں" ہلکے پھلنے لہجے میں اسے بہلایا
"بابا نے مجھے کہا ہے میں دل لگا کر پڑھوں اور اچھے نمبر اور رزلٹ لاوں، اور تم جانتی ہوں مجھ سے نہیں پڑھا جاتا، کجا کہ اچھا رزلٹ لانا میں نے کہا بھی تھا مجھ سے نہیں ہوگا یہ سب، اور ابھی ایگزام ہورہے ہیں کسی کے پاس اتنا ٹائم نہیں ہوگا کہ وہ اپنے ایگزام کی تیاری کرنے کی بجائے مجھے تیاری کروائے اور اتنے کم ٹائم میں مجھے ٹیوٹر بھی نہیں پڑھائے گا نا ہی کوئ کوچنگ دیگا"
" بس اتنی سی بات؟؟ یہ تو سب کے ساتھ ہوتا ہے پڑھائ کرتے رہنے والے سٹوڈنٹس کے مقابلے میں پڑھائ چھوڑ کے کنٹینیو کرنا پڑھنے کا موڈ بنانا اور ایگزام دینا اچھے نمبر لانا زیادہ اہم ہے"
لیکن یہ سب کے ساتھ ہوتا ہے" اسنے جیسے اسکا حوصلہ بڑھایا مگر یہ زہرہ کے لئے تسلی کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔
وہ ہممم کر کے رہ گئ۔
"مجھے ایک دن دو میں کل تک تمہیں یہیں پر ٹیوٹر کا بندوبست کردوں گی اور خود بھی تمہاری مدد کروں گی وعدہ" میمونہ نے اسے یقین دلایا۔ وہ سر ہلا کے رہ گئ۔
"یہ دوستیں بھی نا.....جذباتی ہی ہوجاتی ہیں بھلا اتنی نالائق اور پڑھائ سے بیزار لڑکی کو کس پاگل نے پڑھانا ہے؟؟ اور وہ بھی ایک منتھ میں میمونہ سینئر تھی اور بزنس کلاس کی سٹوڈنٹ۔ اسکے کافی کانٹیکس ہونگے کیا پتا کوئ مان جائے تیاری کیلئے"۔ وہ سوچنے لگی ناامیدی سے۔
******
اگلی صبح وہ یونی میں داخل ہوئ تو میمونہ کی کلاس فیلو فرح اور نتاشہ اسکی طرف بھاگتی ہوئ آئیں تھیں سانس پھولا ہوا تھا۔ وہ ناگواری سے انہیں دیکھنے لگی۔
"تمہیں شاہ ٹیوشن دیں گے؟؟"نتاشہ نے جیسے اسکے سر پر بم پھوڑا تھا
"واٹ؟؟" یہ تمہیں کس نے کہا.؟" وہ برہم ہوگئ
"ابھی ابھی میمونہ نے مجھے صائمہ اور فرح کو بتایا کہ سوائے شاہ کے کوئ بھی تمہیں کوچنگ دینے پر راضی نہیں"
فرح اسے بتانے لگی
"کاش ہم بھی تھوڑا نالائق ہوتے تو اس مسٹر ایٹی ٹیوڈ سے کوچنگ مل جاتی اور اسی بہانے انکی گھمبیر آواز بھی کانوں کو سننے کیلئے مل جاتی مگر ہائے نصیب!" نتاشہ نے فرح کو کہنی مارکے ہنستے ہوئے کہا تھا۔
ان دونوں سے بعد میں نمٹنے کا سوچ کر وہ میمونہ کو ڈھونڈنے بھاگی تھی۔
"وہ لائبریری میں ہے"پیچھے سے فرح نے آواز لگائ تھی اور ہنستی چلی گئیں تھیں۔
وہ جلتی بھنتی میمونہ کے سر پہ پہنچی تھی۔
"تم نے اس سڑیل اور "گونگے"کو میرے لئے ٹیوٹر چنا ہے" وہ اندر اٹھتے جوار بھاٹے کو بمشکل روکتے ہوئے بولی تھی۔
"شاہ کے علاوہ کوئ راضی نہیں زہرہ اور وہ صرف ایک دفع کہنے پر مان گیا ہے"وہ اپنی کتابیں سنبھالتی لائبریری سے باہر آئ۔
"میمونہ تم اچھی طرح جانتی ہو ہمارے کس قدر اختلافات ہیں اور میں اس سے کیا پڑھوں گی جو مجھے برداشت ہی نہیں ہے،" وہ غصے سے بولتی گئ
"میں جانتی ہوں مگر میڈم عرش زہرا آپ کو اس کا اس وقت احسان مند ہونا چاہئے سائینس بائیو کا لائق فائق اسٹوڈنٹ اپنے سیمیسٹر کے دوران اس قیمتی وقت میں اپنی تیاری کرنے کی بجائے آپکو دو گھنٹے ٹیوشن دیگا جسٹ تھنک اباوٹ دس" اس نے جیسے اسے بتایا تھا
"میری اس سے بنتی نہیں ہے اور میں اسکے احسان لیتی پھروں تم کسی اور سے بات کرو پلیز"
"ہاں میں کروں گی بات تمہارے بابا سے تم پر خرچہ کرنے کی بجائے کسی دارالامان میں رقم خرچ کردیں تو بہتر ہے کیونکہ ادھر انویسٹ کرنے کے بعد انہیں کسی جہان میں اسکا "اجر" کسی صورت نہیں ملنے والا۔" وہ طنز کرنے پہ آگئ۔
عرش کو بابا سے کیا گیا وعدہ یادآگیا۔ اور سر پہ آتے امتحانات اور اپنی نالائقی بھی۔
"مگر وہ سمجھائے گا کیا مجھے پڑھائے گا کیا یار اشارہ کردے گا آگے میری جان ہلکان ہوتی رہے گی میں کسی کی آنکھوں کے اشارے نہیں سمجھتی "پڑھائ کے اشارے" خاک سمجھوں گی میں آرٹس کی نالائق اور وہ سائنس کا لائق فائق کا اسٹوڈنٹ" اسنے دکھڑا رویا
میمونہ کو ہنسی آگئ
"اسکی فکر مت کرو وہ پڑھا لے گا نالائق کو بھی لائق فائق کرلے گا" وہ ہنسنے لگی۔
پتا نہیں کس دل سے مانا ہوگا
کیا پتا میمونہ نے اسے "قسمیں واسطے" دئیے ہوں مجھے پڑھانے کیلئے۔ اففف اتنی بار تو لڑ چکی ہوں اب پڑھوں گی کیسے" وہ سوچوں کے گھوڑے دوڑانے لگی
اس بات سے بے خبر کہ شاہ ارسلان نے خود اپنا آپ پیش کیا تھا اسے پڑھانے کیلئے اور وجہ وہ خود بھی نہیں جانتا تھا بس اسے اتنا سمجھ آیا تھا کہ روز اتنے گھنٹے وہ عرش کے ساتھ سپینڈ کرے گا اور اس نے بلا سوچے سمجھے "ہاں میں کرلوں گا کوئ مسئلہ ہی نہیں میری تیاری ساری ہے" کہہ دیا تھا
پوری یونی میں یہ بات پھیل چکی تھی۔
"شاہ ارسلان عرش زہرا کو ٹیوشن دیگا" جس نے سنا "ہیں؟" کئے بغیر نا رہ سکا۔
******
#جاری_ہے
❤️
👍
♥️
🌸
😂
43