Novel Ki Dunya
February 24, 2025 at 04:59 PM
#شاہ_اور_زہرا
#تحریر_عظمی_محمد_عثمان
#قلمی_نام_مٹھو_لاڈلی
#قسط_نمبر_5
دسمبر کی چاندنی جیسی دھوپ یونیورسٹی کو چمکا رہی تھی یہاں سے وہاں آتے جاتے اسٹوڈنٹس
کوئ مفلر گردن میں لپیٹے تو کوئ شال میں خود کو ڈھانپے ہوئے۔
کچھ لڑکیاں ایسی بھی تھیں جنہوں نے سوئیٹر مفلر تو درکنار سلیولیس اور کٹ جینز میں خود کو سردیوں سے بےنیاز ثابت کئیے ہوئے تھیں۔
یہاں سے وہاں آتے جاتے اسٹوڈنٹس نوٹس چیک کرتے۔ رک کر کلاس فیلو سے سوال پوچھتے سمجھتے اور سر ہلاتے چل دیتے تقریبا کے مزاج سنجیدہ ہوچکے تھے۔ (امتحانات سر پر تھے)
اور پھر ہاسٹل میں جاو تو یہاں بھی کافی کے گرم بھاپ نکالتے مگ لے کر کتاب ہاتھ میں لئیے اپنے اسباق دہراتے تھیوریز سمجھتے دکھائ دیتے۔
ایسے میں ایک عرش زہرا ہی تھی جو اوندھ موندھ بستر پڑپڑی تھی پڑھائ سے زمانے سے ہر شے سے بے نیاز....کمبل سر تک تانے گہری نیند میں...
کسی نے اس کا کمبل کھینچا تھا کمرے میں چلتا ہیٹر بند کیا تھا۔
اور اسے ہڑبڑایا تھا۔ یہ میمونہ تھی جو اسے تین بار اٹھانے کے بعد بلا مبالغہ چوتھی بار اٹھانے آئ تھی۔ اب تو حد ہی ہوگی تھی وہ پوری تیار ہوچکی تھی اور زہرا کی نیندیں ہیں نہیں پوری ہوتی تھیں ابھی بھی وہ بلیک کافی کا مگ ختم کر کے جانے کیلئے تیار تھی پھر بھی آخری کوشش کے طور پر اسے اٹھانا چاہا۔
"میں جا رہی ہوں یونیورسٹی زہرا تم سوتی رہو تم اپنے بابا سے کئیے وعدے پورے کرو گی نا ہی تم اچھے مارکس لاو گی تم ،تم بس سوتی رہنا اور کھاتی رہنا اور ناک کٹوانا انکی ناکام لڑکی" میمونہ کہ برداشت سے باہر ہورہا تھا وعدہ کر کے پچھتائی تھی کہ وہ اسکا پڑھائ مین دل لگوانے اور پڑھنے میں اسکی مدد کرے گی وہ انجان تھی زہرا کی "نیندوں"سے
"اٹھ گئی ہوں یار" وہ کمبل میں خود کو ڈھانپتی اٹھ بیٹھی تھی۔
"اللہ کا لاکھ شکر ہے تم اٹھ گئ ہو ورنہ جس طرح تم قومہ میں تھیں مجھے لگا تھا ملک الموت ہی اٹھائیں گے" اسنے طنز کیا۔
وہ مارے باندھے اٹھ کر فریش ہوکر آئ تھی اب تولیہ ڈھونڈ رہی تھی جو کے اس پھیلاوے میں ملنا ناممکن تھا
'ٹاول نہیں مل رہا"
"یہ پکڑو منہ خشک کرو اور میرے ساتھ چلو" اسنے کاٹن کا دوپٹہ اسکی طرف اچھالا زہرا منہ بنا کر رہ گئی منہ تھپتپھا کر بالوں میں برش کیا میمونہ کی کافی ختم ہوچکی تھی وہ کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے سر پر خوبصورت سی حجاب بنائے تیار کھڑی تھی اسکا مطلب تھا کہ اب زہرا بغیر کچھ کھائے یونیورسٹی جائے گی۔
"میں نے بریک فاسٹ نہیں کیا" موہوم سی کوشش
"ادھر لیکچر کا ٹائم نکلا جا رہا ہے تم کینٹین میں کچھ کھا لینا ابھی چلو" وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر تقریبا گھسیٹتے ہوئے اسے لے جانے لگی۔
"یار کھاؤں گی نہیں سووں گی نہیں تو میں پڑھوں گی کیسے؟ .وہ دونوں ساتھ ساتھ چلنے لگیں
"تم کھاتی رہو گی سوتی رہو گی تو پڑھو گی کیسے؟ یہ سب قربان کرتا ہے میڈم نفس کو مارے بغیر علم نہیں ملتا"
"میں کرلوں گی تم دیکھنا آخری دنوں میں بھی" زہرا کے ارادے۔
"ہاں کر لو گی بلکل! تمہیں کچھوے اور خرگوش والی کہانی یاد ہے؟ لطیف سا طنز کیا
"ہاں یاد ہے"
"کچھوا سست ہوکر بھی جیت گیا تھا اور خرگوش اپنی چھلانگوں کے باوجود کچھوے کو انڈرایسٹمیٹ کرگیا تھا اور سونے کی وجہ سے ہار گیا اور کچھوا جیت گیا تھا تم وہی خرگوش ہو جو پڑھائی اور ایگزام کو انڈرایسٹمیٹ لے رہی ہو" اسنے جیسے زہرا کو شرم دلائی تھی۔
"تم یہ بھی تو دیکھو مونی خرگوش نے اپنی نیند تو پوری کرلی تھی نا" زہرا معصومیت سے بولی تھی۔
میمونہ کا دل چاہا سر پیٹ لے اپنا نہیں اس کاہل سست الوجود عرش زہرا کا۔
*****
کلاسز آف ہونے کے بعد وہ کیمپس سے باہر آئی تھے نرم گرم دھوپ ابھی بھی سر پی تنی بہت بھلی لگ رہی تھی۔
بھوک کے مارے پیٹ میں بل پڑ رہے تھے وہ یونیورسٹی کے سبززارہ میں چلی آئی میمونہ کو میسج کیا اور بینچ پہ بیٹھ کے ویٹ کرنے لگی۔
میمونہ اگلے پانچ منٹ بعد اسکے پاس تھی اور اسے شام کی ٹائمنگ بتا رہی تھی جس میں اسے شاہ سے کوچنگ لینا تھا۔ یہ طے ہوا تھا کہ وہ شام میں ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ انکے ہاسٹل میں آجایا کرے گا یا وہ لوگ لائبریری سے ملحقہ ہال میں جا کر پڑھ لیا کریں گی یوں معاملات خوش اسلوبی سے نمٹ گئے تھے۔
وہ مطمئن تھی بس کوچنگ کے مل جانے سے اسے ایسا لگ رہا تھا وہ ہوگئ کلئیر!
کینٹین سے برگر کھا کر وہ ہاسٹل آگئیں تھیں۔
زہرا کو ابھی بھی بھوک لگ رہی تھی مگر میمونہ کے سامنے وہ خود کو "بھوکی" ثابت نہیں کرنا چاہتی تھی اسلیئے چپ رہی۔ مبادا وہ اسے پیٹو سمجھ لے حلانکہ بس وہ خوش خوراک تھی جیسے باقی لڑکیاں ہوتی ہیں۔
وہ ہاسٹل آکر کتابیں لے کر بیٹھ گئی شام کیلئے تیاری کرنے لگی۔
"یہ لو زہرا کھا لو" میمونہ نے پلیٹ میں چکن پلاو نکال کر اسکے چمچ لگا کر پلیٹ اس کے آگے کی اور خود کمرہ سمیٹنے لگی۔
"یہ کہاں سے آیا؟؟؟ وہ ایک چمچ منہ میں رکھتے ہوئے پوچھنے لگی
"کہیں سے آتا بھی ہے کیا؟ آج میس میں جا کے اجازت لے کر بنایا ہے میں نے آدھا گھنٹہ لگا"
"اوہ مائ گاڈ بہت یمی ہے یار!
آئ کانٹ بلیو کہ تم نے بنایا ہے اپنے ہونے والے شوہر کے دل میں تمہارا ایک عدد بنگلہ پکا سمجھو"
"بکو مت زیادہ" وہ پھیلاوہ سمیٹ رہی تھی۔
زہرا مزے سے کھانے لگی ایک دم خیال آیا وہ چونکی ۔
"مگر تمہیں کیسے پتا چلا مجھے ابھی بھی بھوک لگی ہوئی ہے ہم نے تو برگر کھائے تھے نا کینٹین میں پھر تمہیں تو اتنی جلدی بھوک نہیں لگ سکتی پھر یہ پلاو؟؟ حیرت سے چمچ پلیٹ میں رکھا
"چار ماہ سے زائد عرصہ ہوچکا ہے میڈم عرش زہرا ابھی بھی تمہاری "بھوکی روح" کو نا جان پاؤں تو تف ہے میمونہ پر جانتی تھی صبح ناشتہ بھی نہیں کیا تھا اور ایک برگر سے اس "ہٹی کٹی جٹی" کا کچھ نہیں ہونے والا " وہ سکون سے کہنے لگی۔
زہرہ ہنس دی اسے واقعی بہت بھوک لگ رہی تھی مگر شکریہ کہنا اسے سر پر چڑھانے کہ مصداق تھا ایویں شوخی ہوجاتی۔ وہ سر جھکائے کھانے لگی سچ تو یہ تھا اسے میمونہ پر بہت پیار آیا تھا۔
*****
وہ دونوں ہاسٹل لائبریری سے ملحقہ ہال میں چلی آئیں تھی۔
میمونہ کو بصد اصرار زہرا ساتھ لے آئی تھی۔ میمونہ کا خیال تھا وہ بھی آرام سے پڑھائی کرلے گی۔
شاہ نیوی بلیو ہائ نیک اور جینز میں ملبوس بالوں کو جیل سے جمائے گھڑی دیکھتے ان کا ہی انتظار کر رہا تھا۔
"اسکو دیکھو اتنا تیار ہو کر آیا ہے جیسے یہاں اسکا ولیمہ ہونا ہے" زہرا نے میمونہ کے کان میں سرگوشی کی۔
"ٹیچر ہے تمہارا زہرا لحاظ کرلو"
جوابا میمونہ نے اسے کہنی چبھائی تھی۔
وہ سیدھی ہوگئی۔
"اسلام علیکم" لٹھ مار انداز میں سلام کر کے وہ کتابیں کھول کر بیٹھ گئی جیسے ایک لمحہ ضائع نا کرنا چاہتی ہو۔
وہ ٹکر ٹکر میمونہ کو دیکھنے لگا جیسے کہہ رہا ہو "عجیب"
میمونہ کھسیانی ہوکر زہرا کے برابر میں کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی۔
"زہرا تمیز کرلو خدا کا واسطہ" ڈانٹ بری طرح پسیج کر بدقت مسکرائ تھی۔
اگلے چار منٹ ان دونوں کو سرگوشیوں میں باتیں کرتا دیکھ کر شاہ کھنکھارا تھا۔
"میرا خیال ہے پڑھائی شروع کرنی چاہئے" وہ زہرا پر آنکھیں جمائے بولا
"جی کرنی تو ہے" وہ مودب بنی سر ہلانے لگی۔
"میں چند باتیں آپ پر واضح کردینا چاہتا ہوں"
امید ہے آپ غور کریں گی'" شاہ سنجیدہ ہوا تھا محبت اپنی جگہ مگر وہ اپنی ہونے والی بیوی کو
اس طرح فیل ہوتے نہیں دیکھ سکتا تھا (آہم)
وہ اسکا منہ تکنے لگی
"نمبر ون کہ آپ پڑھنے کے ٹائم بلکل باتیں نہیں کریں گی چاہے کتنی بھی ضروری بات ہو آپ کوچنگ کے بعد کرسکتی ہیں"
"نمبر ٹو پورا کونسیٹیٹ آپ اسٹڈی پر رکھیں گی اور اپنے اور میرے وقت اور اپنے ماں باپ کے پیسے کو ضائع نہیں کریں گی"
(لگتا ہے میمونہ سب کچھ ہی بتا چکی ہے" یااللہ اٹھا لیں اسکو کوئ اپنی دوست کی نالائیقیاں بھی اس کے ٹیچر کو بتاتی ہیں )
"نمبر تھری آپ وقت کی پابندی کریں گی اور خود بھی پڑھائی کو سنجیدگی سے لیں گی اور پوائنٹ نمبر تھری سب سے زیادہ امپورٹڈ ہے امید ہے آپ میرے ساتھ تعاون کریں گی"
زہرا گم سم ہوگئی تھی اور مارے باندھے سر ہلا کر رہ گئی میمونہ کو تکنے لگی اسنے کندھے اچکا دئیے۔
"اور آپ کی فیس؟" بے اختیار اسکے منہ سے نکلا تھا۔
"واٹ؟"
"میرا مطلب ہے ایگزام ہونے والے ہیں اور آپ کے بھی ہونگے تو کوچنگ دے آپ تو.."
"آپکو میں شکل سے اتنا مسکین لگتا ہوں؟ وہ برہم ہوا اسکی بات کاٹی
"نہیں وہ میرا مطلب تھا..
"آپ کا جو بھی مطلب تھا میں سمجھ چکا ہوں آئندہ اس طرح مجھے مادہ پرست ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔" وہ برہم ہوگیا تھا اور بیزار بھی
"سوری" زہرا شرمندہ ہوئی تھی
"اٹس اوکے ناو کونسیٹیٹ آن اسٹڈی" وہ بدقت مسکرایا تھا۔
زہرا اسکی مسکراہٹ دیکھنے لگی جو گھنی موچھوں تلے نمودار ہوئی تھی لمحے بھر کو بس...!!
وہ کتابوں پر جھک گئ دل ہی دل میں وہ اسے ستانے کے منصوبے بنا رہی تھی
وہ کم سے کم الفاظ خرچ کرتا کوشش کرتا تھا خود ہی سمجھ جائے مگر وہ بے خبر تھا یہ خود سمجھنے والی چیز نہیں تھی.
#جاری_ہے
❤️
👍
😂
♥️
😘
😡
52