Novel Ki Dunya
February 25, 2025 at 02:29 AM
#شاہ_اور_زہرا #تحریر_عظمی_محمد_عثمان #قلمی_نام_مٹھو_لاڈلی #قسط_نمبر_6 یہ وقت نے ثابت کردیا تھا کہ شاہ سے ٹیوشن لینے کا فیصلہ کتنا درست تھا۔ وہ کند ذہن نہیں تھی بس پڑھائی سے بھاگتی تھی اور جب شاہ پڑھانے لگتا تو وہ نا چاہتے ہوئے بھی دلچسپی لینے پر مجبور ہوجاتی۔ شاہ کم سے کم الفاظ خرچ کرتا جیسی اسکی عادت تھی وہ بتا کر خاموش ہوجاتا پھر زہرا پر ڈیپینڈ کرتا تھا کہ وہ خود سمجھے اور اور بتائے کتنا سمجھ آیا۔ اب زہرا نا سمجھتی تو "کم عقل اور "کند ذہن" ثابت ہوتی شاہ کے آگے سبکی کا احساس اور بابا سے کئیے ہوئے وعدے نے دلچسپی لینے پر مجبور کردیا تھا۔ بلاشبہ وہ دل لگا کر پڑھ رہی تھی۔ وہ پڑھنے کے دوران بولتی تو شاہ ناگواری سے اسے ٹوک دیتا وہ دکھ سے چور ہوتی (بظاہر) منہ بناتی پڑھنے لگتی۔ شاہ لبوں میں ہی مسکراہٹ روک لیتا۔ مبادا وہ دیکھ لے اور ہنگامہ کردے۔ مگر پھر چند منٹوں بعد اسے کچھ کچھ نا کچھ یاد آتا اور وہ شاہ سے پوچھنے لگتی یا بتانے لگتی۔ وہ دلچسپی سے (دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر) سننے لگتا اسکی عادت پڑ رہی تھی وہ لڑکی عادت بن رہی تھی۔ "شاہ آپکو پتا ہے مجھے کیمسٹری اور فزکس زہر لگتی ہے اور میتھ تو میں مر کے بھی نہیں سمجھ سکتی اور بائیو" اس نے ناک چڑائی "بائیو کی تو بکس دیکھ کر مجھے الٹی آتی ہے" وہ کتاب پہ کہنی رکھے اور ہتھیلی میں چہرہ رکھے دوسرے ہاتھ سے نوٹ بک پر دائرے بنا رہی تھی۔ "پڑھ لیں ابھی؟ اسکے بعد باتیں کر لینا میں یہیں ہوں" گھڑی پہ نظر دوڑاتے وہ طنز پہ اتر آیا شاہ جیسا خاموش سامع میسر آیا تھا دل کھول کے بولنا چاہتی تھی اور یہ بندہ تھا کہ بولنے سے پہلے ہی ٹوک دیتا تھا آنکھوں میں ڈھیر و ڈھیر خفگی اتر آئی تھی بک جھپٹا مار کے اٹھائی اور آنکھوں کے سامنے کرلی کہ چہرہ نظر نا آئیے۔ "میسنا خود تو "گونگا" ہے مجھے بھی بولنے نہیں دیتا۔ ہائے اللہ امی ابو اللہ پوچھے آپکو کس "عذاب"میں جان ڈال دی میری" وہ ہلکی آواز میں بڑبڑانے لگی "زہرہ پڑھ لو پلیز آج کلاس آف ہونے کے بعد ایک گھنٹہ آپکے لئیے تم تھک گئی ہوگی تھوڑی فریش ہوجانا حق بنتا ہے اور میمونہ کے ہاتھ کی کافی بنوا لیں گے ہم" وہ سکون سے بیٹھے کہنے لگا کب پڑھتے پڑھتے ان تینوں کا گروپ بن گیا تھا پتہ ہی نہیں چلا تھا۔ " میں پڑھ ہی رہی ہوں شاہ " ایک جھٹکے سے زہرا نے کتاب کے پیچھے سے چہرہ نکالا تھا۔ لال ہوتے چہرے کے ساتھ۔ "کتاب الٹی پکڑی ہوئی تھی اسلیئے کہا " کندھے اچکاتے وہ ہنسی روک کے بولا تھا۔ اس نے بک دیکھی جو واقعی الٹی تھی گڑبڑا کے اسنے بک سیدھی پکڑ کے چہرے کے آگے کی تھی اور اب سچ میں خجالت سے منہ چھپایا تھا۔ ******* ہاسٹل کے باہر لان میں اتنی سردی میں واک کرنے کا آئیڈیا سوائے عرش زہرا کے اور کسی کا نہیں ہوسکتا تھا میمونہ اسکا پروگرام سنتے ہی کانوں کو ہاتھ لگاتے بکس اٹھاتی معذرت کرتے چلی گئی تھی وہ تو دن میں بھی سوئیٹر میں "پیک"رہتی تھی کہاں رات کے دس بجے کڑکڑاتے دسمبر میں ہیٹر والا کمرہ چھوڑ کے لان میں واک کرنا۔ زہرا کا سخت موڈ آف ہوا تھا "ہم دونوں چلیں اگر تم چاہو تو؟ شاہ کافی مگ کے ہونٹوں سے لگاتے پوچھنے لگا زہرا نے اسے سر اٹھا کر دیکھا وہ یوں گھورنے پر گڑبڑا گیا "اٹس اوکے نہیں جاتے میں اپنے روم میں جارہا ہوں رافیل کے میسج آرہے ہیں وہ لوگ کمبائن اسٹڈی کیلئے بلا رہے ہیں" وہ موبائل جیب میں ڈالتے ہوئیے کہنے لگا "میں نے منع کب کیا بس "کنفرم" کر رہی تھی آنا بھی ہے یا یونہی کہہ رہے ہیں " وہ جلدی سے بولی کہیں وہ واقعی چلا ہی نا جائے۔ "مگر کافی تو ختم ہوگئی" "میں اور بنا لاتی ہوں" کمبل پرے پھینکتی وہ کچن میں گئی اور اگلے پندرہ منٹ میں دو مگ لئیے سر پہ اونی ٹوپی چڑھائے اور لمبا سو کوٹ پہنے تیار تھی کسی صورت وہ یہ "پڑھائ سے دوری" کے لمحے ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ لان میں آگئے شاہ نے ٹوپی کا تکلف نہیں کیا تھا۔ وہ سرمئی بونینزا سوئیٹر میں تھا اور گردن پہ مفلر لپیٹا ہوا تھا۔ "آپکو پتا ہے شاہ میمونہ کہتی ہے میں "سردی پروف" ہوں" ہنستے ہوئیے بتاتے اسنے گفتگو کا آغاز کیا "تمہیں اتنی سردی میں واک کرنے کا شوق کیوں ہے اس دن بھی تم لائبریری کے باہر گھوم رہی تھیں؟" شاہ نے کافی کا سپ لیتے ہوئے پوچھا عادتا سر کو دائیں جانب جھٹکا "مجھے حقیقتا سردی بہت ذیادہ لگتی ہے بس مجھے شوق ہے موسموں کی شدت محسوس کرنے کا' میں جون جولائی کو بھی اینجوائے کرتی ہوں" وہ محفوظ ہوتے بتانے لگی "اور جب میں گھر ہوا کرتی تھی تو چاہے مجھے سردی لگے یا نا لگے میں سوئیٹر پہنا کرتی تھی اور ماما سے فرمائش کر کے سوپ بنواتی بابا سے ڈرائ فروٹ منگواتی پھر لاوئنج میں کوئی ہارر مووی لگا کر ہم سب دیکھا کرتے تھے" "اور پتا ہے شاہ مجھے یہ سب بہانے لگتے تھے اکھٹے بیٹھنے کے پھر سب اپنے اپنے کام اٹھا کر لاوئنج میں آجاتے تھے میں نے کبھی سنگل باول میں سوپ نہیں پیا نا ہی ایک پلیٹ میں ڈرائی فروٹ نکالتی تھی۔ میں ٹرے تیار کرتی تھی اور سب کیلئے نکالتی تھی پھر ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ کوئ انکار کرے اریب اظہر بھی آجاتے تھے تایا ابو تائی اماں دادی سب لوگ" وہ مسکراتے ہوئے نم آنکھوں سے ماضی میں کھو سی گئی اور اب سب مجھے بہت یاد کرتے ہونگے میں جانتی ہوں اب لاوئنج میں یوں رونق بھی نہیں ہوتی ہوگی محبت کی عادت ڈالی ہے میں نے کوئی ایویں نہیں" وہ سر جھٹک کر خود ہی ہنسنے لگی شاہ اسکے پل پل بدلتے روپ دیکھ رہا تھا خاموشی سے اسے سننا ذیادہ اچھا تھا نا کے اسے کریدنا۔ اسے اس لمحے جیسے فخر سا محسوس ہوا وہ مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا جو اب اپنی انگلی کی پور سے نمی جھٹک رہی تھی شاہ مبہوت رہ گیا پہلی بار وہ یوں اس سے اپنی فیلینگس شئیر کر رہی تھی اور یوں اس کے سامنے جذباتی ہوئی تھی "تمہیں واقعی سب بہت مس کرتے ہونگے جتنا تم بولتی ہو سب کو کمی تو محسوس ہونی ہی ہے ٹھیک ٹھیک " وہ زور زور سے سر ہلاتے موضوع بدلتے اسے چڑانے لگا "اور آپکے گھر والوں کو تو محسوس بھی نہیں ہوا ہوگا کہ گھر کا کوئی فرد کم ہے جو یہاں بیس اکیس سال گزار کے گیا ہے" اسنے اسکی کم گوئی پہ چوٹ کرتے بدلا لیا فورا "دن میں چار بار" موبائل کی اسکرین اس کے سامنے لہرائی "چار بار ماما کال کرتی ہیں اور دادو بابا الگ" وہ جتانے لگا ہنسنے لگا "اسلام آباد کے موسم کا حال پوچھنے کیلئے کال کرتے ہونگے". "ہر دو گھنٹے بعد یہاں برف یا آگ نہیں آتی محترمہ عرش زہرا جو اسکی بابت پل پل باخبر رہیں" وہ ہنسنے لگا سر دائیں جانب جھٹک کے عرش زہرا اسکی موچھوں کے پیچھے جھانکتے موتیوں جیسے دانتوں کو دیکھنے لگی کتنا پیارا ہنستا تھا وہ کوئی نہیں" وہ نظریں چراتی گئی "اب چلیں واک پریڈ ختم ہوا ہو اگر؟" "ہاں چلتے ہیں میری کافی بھی ختم ہوگئی" "میری بھی"شاہ نے اپنا خالی مگ بھی اسے تھمایا "آپکی تو "چارج" بھی ختم ہوگئی ہوگی" وہ مگ تھامتے ہاسٹل کی جانب بڑھی "مطلب؟" "مطلب یہ کہ اتنا بول لیا تو آپکی ٹالکنگ بیٹری ڈیڈ ہوگئی ہوگی نا" وہ شرارت سے کہتے بھاگتی گئی شاہ نے قہقہہ لگایا تھا "تم رکو" وہ اسکے پیچھے بھاگا "جائیں اب" اسنے ہاتھ سے نا رکنے کا اشارہ کرتے وہ نظروں سے اوجھل ہوگئی بھاگتے ہوئے شاہ نے ہنستے ہوئے سر جھٹکا تھا موبائل کی ٹون بھی تھی رافیل کی دس مس کالز تھیں موبائل سائلینٹ پہ تھا "اوہ مائی گاڈ وہ وہاں ویٹ کر رہے ہونگے" شاہ نے پیشانی مسلی پھر زہرا کے ہاسٹل کی سائیڈ دیکھ کر مسکرایا تھا "خیر ہے" ***** #جاری_ہے
❤️ 👍 ♥️ 🖕 😮 41

Comments