Novel Ki Dunya
February 25, 2025 at 06:25 AM
#شاہ_اور_زہرا #تحریر_عظمی_محمد_عثمان #قلمی_نام_مٹھو_لاڈلی #قسط_نمبر_7 امتحانات آنے والے تھے زہرا جو ایک دو دن گھر جاکر ذہن کو فریش کرنے کا سوچ رہی تھی تو شاہ نے اسکی تمام سوچوں پر پانی پھیر دیا تھا۔ یہ کہہ کر کہ "خدا خدا کر کے تمہارا پڑھائی کی جانب دل راغب ہوا ہے اب گھر جاو گی تو پھر سے دل ہمکنے لگے گا" وہ اپنا سا منہ لے کر رہ گئی تھی۔ "اب میں گھر بھی انکی اجازت سے جاؤں؟" زہرا کوفت سے سوچ کر رہ گئی خیر جو بھی ہے بات تو ٹھیک ہے۔ وہ دل سے نا سہی مگر متفق ہوگئی تھی۔ یوں مجموعی طور پر وہ ایک ماہ سے گھر نہیں گئی تھی۔اور اسے ایسا لگ رہا تھا صدیوں سے نہیں گئی بات بات پر پھاڑ کھانے کو دوڑتی لمحہ کے ہزارویں سیکنڈ میں آنکھوں میں نمی آجاتی وہ کڑوے گھونٹ اتار لیتی۔ ڈیٹ شیٹ آگئی تھی اگلے ہفتے سے ایگزام شروع ہونے تھے سب کے ہی رنگ فق تھے گو کہ امتحانات کی تیاری اپنی جگہ مگر پھر بھی خود اعتمادی کا فقدان تھا۔ ایسی ہی ایک سرد سی شام وہ ہاسٹل میں کتاب کھولے اس پہ نظریں جمائے بیٹھی تھی مگر دھیان کہیں اور تھا۔ آج کوچنگ نہیں لیا تھا اس نے شاہ کا وائیوا تھا اور وہ مصروف تھا تو انہوں نے ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھا تھا گو کہ اس نے انکار نہیں کیا تھا مگر پھر بھی زہرا کو ٹھیک نہیں لگا تھا۔ اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ دل لگا کر خود ہی پڑھے گی۔ وہ کتاب میں غرق تھی سر پہ اونی ٹوپی پہنے ہوئے تھی۔ جس پر اوپر ایک بال سی لڑھکتی تھی۔ کبھی یہاں کبھی وہاں۔ "بڑی پڑھائیاں ہورہی ہیں بھئی" میمونہ اپنے رجسٹر سنبھالے اس کے برابر دھپ سے بیٹھ گئی۔ "کوشش کہو پڑھائی نہیں" دلگرفتہ انداز کیوں بھئی؟ "کیونکہ میں جتنا مرضی پڑھ لوں نا میرے مارکس اچھے آئیں گے اور نا ہی میں کلئیر ہو سکوں گی یہ سچ ہے اور تلخ حقیقت ہے" رجسٹر بند کیا اور آنکھوں پہ ہاتھ رکھے لیٹ گئی۔ میمونہ تاسف سے سوچنے لگی۔ تین چار دن کوچنگ سے دوری کا نتیجہ تھا جو وہ پرانی روش پہ آچکی تھی۔ اسے شاہ ہی سیدھا رکھا کرتا تھا۔ ہر دم پر امید اور عزم سے... ******** امتحانات کا ہوا آیا تھا اور جھونکے کی طرح گزر گیا تھا۔ ہوتے ہونگے لوگ فریش کرتے ہونگے ہلہ گلہ امتحانات کے بعد! رزلٹ کا خوف کچھ اسٹوڈنٹس ک خون خشک کئیے رکھتا ہے انہیں قبل از رزلٹ ہلے گلے سے باز رکھتا ہے ...مگر ایک "چھٹکارے" اور "آذادی" کی کیفیت تھی جس کا "عرش زہرا مجسم تھی" ہوتی ہے خوشی اطمینان مگر اتنا؟ اس طرح؟ ہر آنے جانے والا اسے مبارک باد دے رہا تھا۔ کچھ اس طرح کے جملے ہونی میں "عرش زہرا" کو مل رہے تھے "بہت بہت مبارک ہو زہرا" یہ آنساء تھی اسکی کلاس فیلو جس سے زہرا کی کبھی نہیں بنی تھی "خیر مبارک! مگر کس بات کی ابھی رزلٹ تو نہیں آیا؟" لٹھ مار مغرور انداز لوٹ آیا تھا عرش زہرا کا "سنا ہے تم نے شکرانے مان رکھے تھے کہ ایگزام اچھے ہوجائیں اور جلدی گزریں"ہنستے ہوئے کہا گیا کیا طنز تھا شہد میں بھیگا ہوا۔ زہرا کھول گئی تھی ہاں اس نے مانے تھے شکرانے اور ادا بھی کردئیے تھے مگر اتنی "اندر کی بات" کس نے لیک کی تھی؟ میمونہ نے؟ وہ کبھی نا کرتی پھر؟ "تمہیں کس نے بتایا؟" وہ پھاڑ کھانے کو دوڑی جب پریئر ہال میں تیس چالیس نوافل ایک ساتھ ادا کئیے جائیں تو سب دیکھیں گے ہی" یہ جملہ زرنش کی طرف سے آیا تھا جو اپنا چشمہ ناک پہ جماتے ہوئے بولی تھی۔ زہرا نے دانت پسیجے تھے خود کو کوسا تھا کیا تھا جو کمرے میں آکر پڑھ لیتی؟ مگر نہیں خوشی اتنی تھی کہ اسے لگا تھا ابھی سجدہ شکر وقت پہ نا ادا کیا تو گویا "قضا" ہوجائے گا۔ "بلکل! اللہ کے حضور تو سب سے پہلے سر جھکانا چاہئے نا..اس سے اپنی خوشی سب سے پہلے شئیر کرنی چاہئے..وہی تو کامیابی دیتا ہے..اور انسانوں سے تو بعد میں شئیر کرنی چاہئے..بس اللہ ہی ہے جو ہماری خوشی دیکھتا ہے ہم سے خوش ہوتا ہے..انسانوں کا کیا ہے؟ وہ تو سنتے ہیں..اوپر سے خوش ہونے کی اداکاری کرتے ہیں اور پیٹھ پیچھے برائیاں کرتے ہیں اور پھر "حسد" بھی..تو اللہ سے ہی شئیر کرنی چاہئے نا؟؟" وہ بنا گھبرائے بنا جھجکے سینے پہ ہاتھ لپیٹے اپنی ازلی اعتماد سے سکون سے بولتی گئی۔ زرنش آنساء اور ایک دو اور لڑکیاں جو اسکا مذاق بنانے کیلئے خیال سے وہاں کھڑی تھی وہاں سے کھسکنے لگیں۔ اللہ کا حوالہ ہی اتنا معتبر ہوتا ہے.. زہرا سر جھٹک کر ہنہ کر کے رہ گئی۔ "تھینک یو اللہ جی" وہ آسمان کی طرف منہ کر کے بولی تھی ******** شاہ کا میسج آیا تھا کہ وہ آرہا ہے زہرا نے میمونہ کو بھیج دیا تھا کہ وہ شاہ کو کمپنی دے۔ "تم جاو میں بس پندرہ منٹ میں حلیہ درست کر کے آتی ہوں" وہ میمونہ کو دھکیلتے ہوئیے بولی۔ "تمہارے سسرال والے نہیں آئے جو تیار ہونے جا رہی ہو یاد رکھو وہ تمہارا ٹیچر ہے اور تم اسے سخت نا پسند کرتی ہو" میمونہ سے جتایا تھا۔ "افوہ تم جاو تو سہی بس آدھا گھنٹہ" وہ کمرہ بند کر کے گہری سانس لے کر رہ گئی تھی پھر کچن میں گھس گئی تھی ایک تو ٹائم ویسے ہی کم تھا۔ "عرش نہیں آئی؟ وہ تو اس سے ملنے آیا تھا اور وہ آئی ہی نہیں تھی عجیب..!! وہ ہاسٹل کے باہر میٹنگ روم میں بیٹھے تھے۔ "بس آرہی ہے آتی ہوگی " میمونہ نے اسے بتایا تھا کچھ لمحے اور سرکے تھے وہ گھڑی دیکھنے لگا تھا۔ "ٹن ٹران" عرش زہرا ٹرالی گھسیٹتے اندر آئی تھی وہ تو حلیہ بہتر کرنے گئی تھی اور، اور یہ کیا حلیہ بنا کے آئی تھی؟؟ وہی سوٹ جو وہ دو دن سے چڑھائے ہوئے تھی اس پر ایپرن پہنا تھا جو ہوگا کسی زمانے میں سفید براق مگر ابھی کتھئ کالے اور سرمئی دھبوں کا عجیب نمونہ لگ رہا تھا۔ اور سر پر وہی اونی ٹوپی تھی۔ چہرے پر بھی جابجا دھبے لگے تھے اور رنگت تمتما رہی تھی کچھ کچن کی گرمی سے کچھ شدت جذبات اور خوشی سے... میمونہ اپنے کھلتے منہ پہ ہاتھ رکھے ہوئے تھی وہ ٹرالی میں برتن لگا رہی تھی اور ٹرالی اشتہا انگیز کھانوں سے بھری ہوئی تھی جو عرش زہرا نے بنائے تھے۔ بریانی، میکرونی، فروٹ ٹرائفل، فرائ فش، چپاتیاں، یہاں تک کہ فرنچ فرائز بھی..اور ایک چھوٹا سا ایک پونڈ کا کیک.. پوری کی پوری دعوت تھی جو اس نے ان دونوں کو دی تھی.. "یہ سب؟ وہ اچھنبے سے پوچھے بنا نا رہ پایا تھا "ہاں میں نے" زور سے پلکیں جھپکتے وہ شدت جذبات سے بولی تھی "تم نے بنایا یہ سب؟؟ میمونہ اپنی جگہ سے اٹھ گئی تھی خوش رنگ کھانوں کی طرف دیکھا تھا۔ "ہاں بس فرنچ فرائز" زور سے آنکھیں پٹپٹائیں.. "باقی سب؟ شاہ سیدھا ہوا تھا "کینٹین سے" دعوت آپ دونوں کیلئے' وہ پلیٹوں میں نکالنے لگی شاہ اور میمونہ ہونق بنے ایک دوسرے کو تکتے رہے..پھر ہنس دئیے تھے میمونہ شاہ کی آنکھوں میں جذبات دیکھ رہی تھی جو بہت کوشش کے باوجود اپنا جذبہ منوا رہے تھے.. **** #جاری_ہے
❤️ 👍 😂 🙏 ♥️ 🌝 👙 💗 50

Comments