Novel Ki Dunya
February 25, 2025 at 10:31 AM
#شاہ_اور_زہرا #تحریر_عظمی_محمد_عثمان #قلمی_نام_مٹھو_لاڈلی #قسط_نمبر_8 عرش زہرا امتحانات کے بعد گھر جانے کی تیاری کرنے لگی اور یہ ٹور کچھ لمبا تھا باقی پچھلے ٹور سے کیونکہ رزلٹ آنے میں ابھی بھی ایک ماہ باقی تھا میمونہ بھی اپنے گھر حیدرآباد جا رہی تھی پھر اسکا کوئی جواز نہیں بنتا تھا ٹہرنے کا۔ اس نے شاہ نے اور میمونہ نے پیر کو جانے کا سوچا تھا اور آج ہفتہ تھا سارا سامان وہ پیک کرچکی تھی پہلے الگ الگ جانا تھا سب نے پھر زہرا کے بابا نے اسکی ٹکٹ بھیج دیں تھیں اور اتفاق ہی تھا میمونہ بھی اسی دن جا رہی تھی۔ پھر شاہ نے بھی اسی دن کی سیٹیں بک کروائیں... تینوں جانتے تھے یہ ٹور لمبا ہے اور ایک دوسرے کو سب نے مس کرنا تھا۔ زہرا تو شاہ کی مشکور ہوئی جاتی اتنی اچھی تیاری کروانے پر اور ایگزام کے بعد تو وہ کچھ زیادہ ہی مطمئن تھی۔ شاہ اسے ٹوک دیتا "میں نے کوئی احسان نہیں کیا زہرا یہ میرا فرض تھا اب اس طرح شرمندہ مت کرو" "اوکے اب نہیں کہوں گی" وہ بچوں کی طرح منہ پہ انگلی رکھ لیتی۔ اتوار کی رات پھر سے زہرا کی وہی رٹ تھی "واک پہ چلتے ہیں، یا سینیٹوریم پہ شاپنگ کیلئے،سردی اینجوائے کرنے دو کراچی جا کر بہت مس کروں گی" وہ دہائی دینے لگی۔ "یہ میرے ہاتھ دیکھو بہن، میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں مجھے اتنی سردی میں برف بننے کا بلکل بھی شوق نہیں ہے مجھے سونے دو کل دوپہر دو بجے میں نے جانا ہے گھر" میمونہ نے کمبل سے باہر منہ نکالا تقریر کر کے واپس سو گئی۔ "سوتی رہو مرو" زہرا نے زور سے اسکے اوپر تکیے پٹخے اور بڑبڑانے لگی "پتہ نہیں کوئی ایک دوست تو ایسی ہوتی ہی ہے جو پورا برف کا گولا ہوتی ہے سردی سردی، اور سردی، جیسے باہر نکلے گی تو جم ہی جائے گی ایک ہم ہیں مرے جارہے ہیں اینجوائے کرنے کیلئے" باآواز بلند بڑبڑانے لگی "تم شاہ کو میسج کرو وہ لے جائے گا" کمبل کے اندر سے آواز آئی "بی بی میرے ماں باپ کو پتہ لگ گیا نا میں یہاں ایک ہینڈسم بندے کو لئیے لئیے لورلور گھومتی ہوں تو وہ مجھے پڑھانے کے خواب سمیت مجھے بھی دفنا دیں گے اور میری دادی تو فاتحہ بھی نہیں پڑھیں گی" وہ تاسف بھری آواز میں بولی "ماں باپ کو یہ بھی بتا دینا وہ ہینڈسم بندہ تمہارا ٹیچر ہے، اور انکے خوابوں کو انکی بیٹی سے زیادہ وہ پورا کر رہا ہے، ہوسکتا ہے تمہیں درگور کرنے کے بعد وہ اسے گود لے لیں خواب تو پورے ہو ہی جائیں گے پلا پلایا پڑھا لکھا ڈاکٹر بیٹا بھی مل جائے گا" کمبل سے پھر آواز آئی تھی۔ عرش زہرا جل بھن گئی اسکا کمبل جیسے تیسے کر کے کھینچ کے پرے پھینک دیا "اس کمبل کی آڑ میں تم کچھ زیادہ ہی بول رہی تھی" وہ چڑ گئی۔ میمونہ اٹھ بیٹھی "دیکھو تمہیں منہ سے جو کہنا ہے کہو مگر یہ" کمبل کی طرف اشارہ کیا "یہ دہشتگردی کرنے کی ضرورت نہیں ہے، خود تو پوری پیک ہوکر بیٹھی ہو"میمونہ ہاتھ بڑھا کر کمبل اٹھانے لگی فرش بہت ٹھنڈا تھا پاؤں رکھتے ہی چھینکیں شروع ہوجاتی تھیں.. زہرا اٹھی اور کمبل دور پھینک دیا فل شرارت کے موڈ میں۔ "زہرا یہ مت کرو" میمونہ کانپنے کی ایکٹنگ کرنے لگی۔ عرش زہرا نے اپنی ٹوپی ڈھونڈی اسے پہن کر کانوں تک کھینچی دائیں بائیں سر ہلایا شرارت سے مسکرائی۔ کوٹ جسم پہ ڈالا بٹن بند کئیے اور سوئچ کی جانب جاکر فل اسپیڈ سے پنکھا چلا دیا۔ میمونہ نے جو کمبل کے سہارے ہی زندہ تھی اور جسم پہ سوائے دوپٹے کے کسی چیز کا تکلف نہیں کیا تھا بڑی طرح سے ٹھٹھرنے لگی۔ "ظالم پنکھا بند کرو زہرا، یہ کیا مذاق ہے میں مر جاؤں گی؟" وہ جو چیز ہاتھ میں آتی اٹھا کے زہرا کے جانب پھینکنے لگی۔ تکیہ بیڈ شیٹ گول مول کر کے زہرا کی جانب پھینکے اور مجبورا ٹھنڈے فرش پہ پاؤں رکھے اور سوئچ بند کیا عرش کے پیچھے بھاگتی تو وہ یہاں سے وہاں پھدک جاتی۔ "زہرا کی بچی تم بچ جاؤ آج مجھ سے" میمونہ دانت پیستی اسکے پیچھے لگی زہرا ہنستے ہوئے مرنے والی ہوگئی بیڈ پہ چڑھ گئی اور تکیہ کو اپنی حفاظت کے لئیے ڈھال بنا لیا میمونہ بھی بیڈ پہ چڑھ گئی اور اسکا تکیہ چھین کے نیچے پھینکا۔ زہرا دوسرا تکیہ اٹھانے جھکی۔ میمونہ نے بھی وہی تکیہ تھاما۔ دونوں کی گرفت مضبوط تھی تکیہ تاب نا لاتے ہوئے پھٹ گیا اور سفید برف کی رنگت جیسی روئی باہر ابل آئی۔ میمونہ بھی ہنسنے لگی وہ دونوں ایک دوسرے کو اور تکیے کو دیکھ کر ہنسنے لگیں پھر زہرا نے ساری روئی ہوا میں اچھال دی میمونہ بھی بیڈ پہ اچھلنے لگی اور زہرا بھی جمپنگ کرنے لگی بے ساختہ اور بے وجہ کی ہنسی سفید برف کی رنگت والی روئی ان کے اوپر گر رہی تھی یہاں وہاں پھیل رہی تھی۔ ایک اور تکیہ بھی زہرا نے کھول کے اڑا دیا۔ "انسان بنو زہرا ہاسٹل والے نکال دیں گے" میمونہ کمرے کا حال دیکھ کے متوحش تھی۔ اور ہنسنے لگی تھی "نکالتے ہیں تو نکال دیں "دو تکیے پھاڑنے کے جرم میں، جان چھوٹ جائے گی میری اس پڑھائی سے" کیسی شاپنگ کہاں کی شاپنگ آوٹنگ وہ سب بھول گئی تھی۔ ******* شاہ گھر آگیا تھا۔ دادی جان تھیں کہ لمحے کیلئے نظروں سے اوجھل نا ہونے دیتیں، ہزار قسم کے سوالات اور جانچتی پرکھتی نگاہوں سے اسے دیکھتیں "کہیں ذیادہ بولنے تو نہیں لگا؟، پتلا دبلا تو نہیں ہوگیا؟، تسلی کر لینے کے بعد وہ مطمئن ہوجاتیں صدقے واری جانے لگتیں۔ شاہ ہمیشہ کی طرح پہلے دادی کے کمرے میں کمرے میں آیا تھا وہ چشمہ لگائے پلنگ پہ انہماک سے کسی کتاب کے مطالعے میں مصروف تھیں وہ ابھی بھی ایسی ہی تھیں چست چاک و چوبند چہرے پہ اتنی جھریاں بھی نہیں تھیں جتنی عموما اس عمر میں دادیوں اور نانیوں کے چہرے پہ نمودار ہوجاتی ہیں... "اسلام علیکم دادی جان"وہ سلام کر پیار لینے کے لیئے جھکا۔ "وعلیکم سلام جیتے رہو خوش رہو آباد رہو میرا بیٹا" وہ کھل سی گئیں آج بھی اتنا ہی پیارا تھا ہر بار اسکے آنے پر ایسے ہی کھل جایا کرتی تھیں۔ "کیسی ہیں دادی جان" شاہ نے انہیں دبوچا ماتھے پہ بوسا دیا دادی چھپ سی گئیں کیا کڑیل جسم تھا انکے شہزادے کا گرفت اتنی قوی۔ روشن چہرہ اس پر گھنی موچھیں۔ دادی نے اسے خود سے دور کیا اور شکوہ کناں نظروں سے دیکھنے لگیں۔ "اپنے آپ کو دیکھو اور مجھ دھان پان سے جان کو، کیا دم نکالنا ہے دادی کا" "اللہ نا کرے دادی اور کس نے کہہ دیا آپ دھان پان سی ہیں ابھی بھی ماشااللہ سے فٹ اور ایکٹیو ہیں امی جان سے زیادہ" وہ انکے گھٹنے پہ سر رکھے لیٹ گیا جان بوجھ سے متنازع موضوع چھیڑا۔ "ہنہ بیٹا جان کو "ہلانا" پڑتا ہے یہ نہیں بندہ مشینوں اور ملازموں پہ ہی انحصار کرتا رہے" وہ اسکے بالوں میں انگلیاں چلانے لگیں۔ شاہ آنکھیں موندے لیٹ گیا۔ "تمہاری ماں تمہاری ہاؤس جاب کے بعد تمہاری شادی کا کہہ رہی ہے" دادی نے اسکی سماعتوں میں نئی بات ڈالی۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ "کیا؟" "ہاں نا " وہ مطمئن تھیں. "اچھا ہے نا کوئی تو میرے پوتے کا ہاتھ بٹائے، کوئی ڈاکٹر انجینئر آکر اس خاندان میں چار چاند لگائے" "مگر دادی مجھے ابھی شادی نہیں کرنی" وہ متوحش ہوگیا دادی کے ارادے سن کر انہیں کیا پتا وہ آرٹس کی نالائق اسٹوڈنٹ کو اس گھر میں لانا چاہتا تھا۔ "میری ترجیحات میں ابھی کہیں شادی کا نمبر نہیں ہے" آنکھوں کے سامنے زہرا کا سراپا لہرایا تھا دل لرزا تھا کہیں ان سب نے لڑکی نا فائنل کرلی ہو وہ سوفٹی پاوں میں اڑستے امی کے پاس گیا۔ ****** "امی میں یہ کیا سن رہا ہوں" سلام دعا کے بعد اصل مدعا پہ آیا۔ "کیا سنا ہے؟" "آپ میری شادی کردینا چاہتی ہیں؟ ہاؤس جاب کے بعد؟" "تو بیٹا اس میں حرج ہی کیا ہے؟ آپکی دادی جان نے آپکی زبان بند کی سو کی، اسکے بعد خود بھی گفتگو سے بیزار ہوئیں ہر وقت کمرہ بند کئے ذکر و اذکار میں مصروف، بابا آپکے ڈاکٹر جن کی زندگی کی اولین ترجیح انکا پیشہ ہے اور آپ سدھار گئے ہاسٹل میں یہاں کس جرم میں تنہائی کاٹوں؟" انہوں نے شاہ کا ہاتھ اپنےگھٹنے سے ہٹایا۔ "اور کس سے کریں گی آپ میری شادی؟ شاہ نے بمشکل تھوک نگلا تھا۔ انساء بیگم مسکرائیں "بیٹا یہ کام تو آپکی ماں خود سرانجام دے گی" ورنہ آپکی دادی کا پورا پلان ہے ایک ڈاکٹر یا انجینئر لڑکی اس گھر میں لانے کا، جس سے بات کرنے کیلئے ہم ترسا کریں گے اور وہ محترمہ یہ جا وہ جا کہاں کی محفلیں کہاں کی رونق ایک اور خاموش فرد کا اضافہ اس گھر میں، اور ایسا میں ہونے نہیں دونگی" "تو آپ نے لڑکی فائنل نہیں کہ آئم رائٹ؟ شاہ نے دھک دھک کرتے دل کے ساتھ پوچھا تھا۔ "نہیں کی فائنل مگر جلد ہی کرلوں گی" وہ مسکرائیں۔ "اور کیسی لڑکی؟ لگے ہاتھوں ماں کی پسند جاننی چاہی۔ "لڑکی تو ہوگی کوئی من موہنی سی جسکی میٹھی میٹھی باتیں ہونگی۔ جو میرے ساتھ مل کر کھانا پکائے، میرے سر میں تیل ڈالے یہاں گھر میں رہ کر تمہارا انتظار کرے میرے پاس آکر بیٹھے میری تنہائی دور کرے" امی آبدیدہ ہوگئیں "شاہ ہنس دیا سر دائیں جانب جھٹک کے (شکر) "اگر ایسی لڑکی میں آپکو خود لا کر دوں امی تو آپ وعدہ کریں امی آپ اپنے بیٹے کو غلط نہیں سمجھیں گی اور میری پسند پہ بھروسہ کریں گی " وہ بولتی مینا آنکھوں کے سامنے اپنی پٹ پٹ کرتی آنکھوں کے ساتھ براجمان تھی۔ انساء بیگم کی آنکھیں پھٹ سی گئیں گوکہ انہیں شاہ سے اس قسم کی بات کی امید نہیں تھی مگر انہیں اپنے بیٹے پہ پورا بھروسہ تھا اسکی روشن آنکھیں اسکی پاکیزگی کی گواہ تھیں۔ اگر اس نے اپنے لئیے لائف پارٹنر پسند کی تھی تو انہیں کوئی اعتراض نا تھا وہ جابر ماں نہیں تھیں۔ "مجھے اپنے بیٹے پہ پورا بھروسہ ہے" انہوں نے اسکا سر چوما۔ "میں آپکو چلتی پھرتی بولتی ہوئی گڑیا لا کردوں گا امی من موہنی سی" وہ شرارت سے مسکرایا تھا۔ "شاہ" انساء بیگم اسے آنکھیں دکھانے لگیں۔ "اف امی " شاہ نے سر دائیں جانب جھٹکا پھر ہنس دیا "دادی سے پہلا اختلاف وہ بھی لڑکی کےمعاملے میں یا اللہ آسانی کر" شاہ نے بیئرڈ میں انگلی گھماتے دعا کی تھی ******* #جاری_ہے
❤️ 👍 😂 ♥️ ❣️ 💋 😘 😢 42

Comments