Novel Ki Dunya
February 26, 2025 at 04:08 PM
#شاہ_اور_زہرا
#تحریر_عظمی_محمد_عثمان
#قلمی_نام_مٹھو_لاڈلی
#قسط_نمبر_13
ٹھنڈی اور نیلی شام اس ہاسٹل کو ایک خوبصورت تاثر دے رہی تھی۔ اس کے کمرہ نمبر 32میں جاؤ تو وہاں عرش زہرا سرور خان کے ساتھ کال پہ باتوں میں لگی ہوئی تھی۔ اور میمونہ مسکراتے ہوئے اپنے نیلز فائز کر رہی تھی۔ اور سارا دھیان عرش زہرا کی باتوں کی طرف تھا۔
"بابا مجھے خود یقین نہیں آرہا تھا۔ آپ یقین کریں میں نے خود کتنی بار غور غور سے دیکھا اور خود کو یقین دلایا کہ یہ میں ہی ہوں، جسکا اےپلس آیا ہے" عرش نے بات کرتے کرتے تکیہ پیچھے سیٹ کیا اور اس سے کمر ٹکا لی۔
"گفٹ کیا چاہیے میری شہزادی کو اس کامیابی کے بعد؟؟" سرور خان مسکرائے۔
"بابا گفٹ؟" عرش کی آنکھیں چمکیں۔
اشارے سے میمونہ سے پوچھا "کیا مانگوں؟"
"اپنے بابا سے کہو ابھی کچھ نہیں چاہئے سوچ کے بتاؤں گی" میمونہ نے اسکے کان میں سرگوشی کی اسے وہ ٹرپ یاد آیا جو عرش زہرا اور وہ بنایا کرتی تھیں اور عرش کی فیملی منع کردیا کرتی تھی۔
"بابا میں آپ کو ایک دو دن میں سوچ کے بتاؤں گی کیا چاہیے، آپ منع نہیں کریں گے؟؟" اسنے ہاتھ کے ہاتھ وعدہ لیا۔ میمونہ نے اشارے سے اسے ٹرپ یاد دلایا۔
"بابا نہیں کریں گے منع" سرور خان نےیقین دلایا
کچھ دیر اور بات کر کے عرش زہرا نے کال کاٹ دی۔
"کیا تم نے بھی وہی سوچ کے ٹائم مانگا جو میں نے؟؟" کن انکھیوں سے میمونہ کو دیکھتے اس نے پوچھا۔
"نادران ایریاز ٹرپ" دونوں کے منہ سے بیک وقت نکلا تھا۔
یہ پلان یونیورسٹی میں پچھلے ہفتے سے گردش کر رہا تھا میمونہ کی فیملی نے اسے بخوشی اجازت دے دی تھی مگر عرش کے گھر والے رضامند نا تھے۔ پھر میمونہ بھی عرش کے بغیر اپنا نام لسٹ میں لکھوانے کیلئے راضی نا ہوئی اب دو دن رہتے تھے۔ اور عرش کو لگا تھا قسمت اسے سیر کرائے بغیر واپس بھیجنے پر راضی نہیں ہے۔ آج بابا نے گفٹ کی صورت اسے ایک نوید تھما دی تھی۔ اب یہ چانس وہ گنوانا نہیں چاہتی تھی۔ کسی بھی صورت۔
******
"ایم اے اردو کرے گی عرش زہرا" نورینہ بیگم نے مٹر کے دانے نکالتے ہوئے اپنی ساس کو آگاہ کیا۔
"اچھا ماشااللہ، اللہ کامیاب کرے، ویسے مجھے اللہ نے عرش زہرا کی یہ خوشی دیکھنے کیلئے زندہ رکھا تھا" وہ شگفتہ انداز میں گویا ہوئیں۔
"امی جان ابھی آپ نے عرش زہرا کے بچے کھلانے ہیں، پردادی بننا ہے،" نورینہ بیگم نے انکے گھٹنے پر ہاتھ رکھا۔
"نورینہ، بیٹا زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں،آج کل تو جوان جوان اموات اتنی ہوتی ہیں دل ہول سا جاتا ہے، مجھ بیمار اور لاغر وجود میں بس اب یہی چاہت ہے میں اپنی پوتی کی اپنے ہاتھوں سے رخصتی کروں، اسے پڑھانا تم دونوں میاں بیوی کی خوشی کی تھی تو میں نے انکار نہیں کیا، اب شادی نا سہی اسکی منگنی ہی کردینے کا سوچتی ہوں۔پھر ہوتی رہے گی پڑھائیاں شادی کے بعد بھی"
نورینہ بیگم کے چہرے پر ایک ناگوار سی لہر آئی عرش زہرا کو پڑھانا انکا بھی اولین خواب تھا۔
اور ساس جنہوں نے انہیں ہمیشہ بیٹیوں سا پیار دیا انکی خواہش رد کرنا بھی انہیں مناسب نہیں لگا۔ وی خاموش سی ہوگئی تھیں۔
*******
"بابا نے ہاں کردی" عرش نے میمونہ کو زور سے دبوچا تھا۔
"واٹ؟ کیسے؟ کیا کہا تم نے ان سے؟اوہ مائی گاڈ!" میمونہ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔
"یار بابا سے میں پھر پوچھا ٹرپ کا تو انہوں نے منع کردیا صاف انکار، کہ پڑھائی کا حرج ہوگا پھر اکیلے جانا یہ وہ، پھر میں نے انہیں انکا وعدہ یاد دلایا اور یقین دلایا کہ پڑھائی کا کوئی حرج نہیں ہوگا تھوڑی منٹ سماجت کے بعد وہ تو مان گئے پھر امی اور دادی جان غصہ کر رہی تھیں انہیں بابا نے سنبھال لیا" عرش نے چٹخارہ لے کر ساری سٹوری سنائی۔
"کیا خیال ہے تیاری شروع کریں؟"
"ہاں کیوں نہیں" ایک ادا سے بال پیچھے کو جھٹکے۔
"کتنا مزہ آئے گا نا...نا امی نا ابو بس فرینڈز ٹیچرز اور ہم دونوں، سوچو کوئی ہیرو مل جائے۔" میمونہ بے حد پرجوش تھی۔ اسلام آبادی چڑیا کو بس فن چاہئے تھا اور آزادی سے گھومنا پھرنا۔
"امی ابو کے ساتھ ذیادہ مزہ آتا ہے بی بی فیملی ہو، تائی اماں تایا ابو اظہر،اریب، اور آلہ دین جائے انسان...پورٹ گرینڈ..یا کلفٹن۔ " وہ یاد کر کے بتانے لگی۔
"دفع دور ایسے نہیں آتا مزہ" میمونہ نے اسے پڑے جھٹکا۔
وہ کھلکھلا کے ہنسنے لگی۔
"اچھا سنو شاپنگ پہ جائیں گے کل۔ اور پرسوں صبح کیمپس سے گاڑی نے نکلنا ہے" عرش نے اسے پروگرام بتایا۔
وہ پروگرام ڈسکس کرنے لگیں۔
******
"شاہ تم چل رہے ہو نادرن ایریاز؟ میں نے رافیل اور اپنے نام کا اندراج کروایا ہے" ارسل نے اس سے پوچھا۔ بنا پوچھے وہ اس روڈ بندے کا نام نہیں ڈلوا سکتے تھے مبادا وہ منع ہی کردیتا۔
"اونہوں موڈ نہیں"شاہ نے سر کو بائیں جانب جھٹکا۔ "اوکے ایز یو وش" ارسل نے کندھے اچکائے۔
"کون کون جا رہا ہے؟" ایک خیال کے تحت اسنے پوچھا۔
"سب کا تو نہیں پتا بٹ آرٹس ڈیپارٹمنٹ سے چار اسٹوڈنٹس ہیں...کامرس ڈیپارٹمنٹ سے پانچ اور ہماری کلاس سے تقریبا سب ہی جا رہے تمہارے علاوہ"
شاہ چونکا۔ ارسل اسکا رازدان تھا۔ وہ اس سے پوچھ سکتا تھا۔
"عرش بھی جا رہی ہے؟" میگزین کے صفحے کو پلٹتے اس نے حتی الامکان لہجہ سرسری بنایا۔
دل رک کے زور سے دھڑکا تھا اسکا نام لینے پر۔
"ہاں عرش اور اسکی وہ بیسٹ فرینڈ بھی"
"اچھا" شاہ سوچ میں پڑ گیا۔
"تمہیں بتایا اس نے؟ اے پلس آیا ہے عرش زہرا کا" چینل کی سرچنگ کرتے ارسل نے اسے اطلاع دی
"واقعی" وہ اٹھ بیٹھا۔
"ہاں واقعی، ویسے حیرت ہے اس نے تمہیں نہیں بتایا حلانکہ تم نے تو اسے پڑھایا تھا۔
وہ سر جھٹک کر ہنس دیا مردہ سی ہنسی۔
"میرا نام بھی لکھوا دو"
شاہ نے اسے کہا اور آئینے کے سامنے کھڑا ہوگیا۔
میمونہ نے اسے بتایا تھا کہ وہ اسکے بارے میں کیا خیالات رکھتی ہے۔ اسے دکھ ہوا تھا، بے حد، مگر اس نے ظاہر نہیں کیا تھا۔
"کوئی بات نہیں میں کنارہ کر لوں گا" وہ سر کو جنبش دے کر میمونہ کی تسلی کر آیا تھا۔
پھر وہ اسے دور سے دیکھ لیا کرتا وہ منہ پھیر لیتی۔ یا نگاہ بھی نا ڈالتی۔
میمونہ نے بتایا وہ اس "دیکھنے" کو بھی کتنے غلط انداز میں لے رہی ہے۔
اسنے دیکھنا بھی چھوڑ دیا۔
آج پانچواں دن تھا کہ اسے دیکھا نہیں تھا۔
دل تھا کہ اس سے ناراض سا تھا۔
آنکھوں کو بھی شکایت سی ہونے لگی تھی کہ وہ نظر میں کیوں نہیں آئی۔
وہ خود کو شیشے میں تکنے لگا۔ مونچھیں کچھ اور بڑھ کر اوپری ہونٹ کو اپنے تلے چھپا گئیں تھیں آنکھیں سرخ تھیں۔ اور دل، دل تو جیسے دکھتا ہوا پھوڑا۔
"ابھی تو عشق کے "عین" بھی نہیں سمجھا اور یہ حال ہے" وہ بڑبڑایا۔
اسنے جھکتی ہوئی موچھوں کو تاؤ دے کر اٹھایا۔
*****
#جاری_ہے
❤️
👍
😂
😢
30