Novel Ki Dunya
February 26, 2025 at 05:39 PM
#شاہ_اور_زہرا
#تحریر_عظمی_محمد_عثمان
#قلمی_نام_مٹھو_لاڈلی
#قسط_نمبر_14
ابھی دھوپ بھی پوری طرح نہیں نکلی تھی کرنوں سے کھالی آسمان جیسے خود پر سے سیاہی ہٹا کے سپیدی جلد از خود پہ چڑھانے کے درپے تھا۔ ہلکی نیلی صبح ایک یخ ٹھنڈا تاثر لئیے ہوئے تھی۔ یونیورسٹی کی چھت پہ جا کہ دیکھو تو دور کہیں نظر آتے پہاڑیوں پہ برف جمی ہوئی تھی۔ ایسے میں یونیورسٹی کے پارکنگ ایریا میں ایک ہینو بس ان سب کی منتظر تھی۔ علی الصبح سفر کا ارادہ کچھ اسٹوڈنٹس کا تھا۔ جس میں عرش زہرا بھی شامل تھی۔ اب گرم کپڑوں جیکٹوں ٹوپیوں میں ملبوس اسٹوڈنٹس اپنے اپنے سامان بس میں رکھنے میں مصروف تھے۔
میمونہ اپنی کلاس فیلوز کے ساتھ بس کے باہر کھڑی باتوں میں مصروف تھی کہ عرش زہرا آتی دکھائی دی۔ سر پر وہی ٹوپی جس پہ ایک گیند نما پھندا سا لڑھکتا تھا۔ اور پنک کلر کا لمبا سا کوٹ پہنا ہوا تھا جسکی بیک پر ایک چمکتی ہوئی گڑیا بنی ہوئی تھی۔ جسکے بال گولڈن چمک سے اٹے ہوئے تھے۔
جنوری کی اس درمیان میں بھی سردی کا زور ہنوز برقرار تھا۔ بات کرتے ہوئے منہ سے دھواں نکلنے لگتا۔ ہاتھ یخ ہونے لگتے۔ اور پاوں تو جیسے فروسٹ بائٹ ہوچکے تھے جسے آگ کے علاوہ کوئی چیز گرم کرتی ہی نا تھی۔
"سارا سامان رکھ دیا اندر؟" عرش ہاتھوں کو ایک دوسرے سے رگڑتے ہوئے پوچھنے لگی۔
" جی میڈم رکھ دیا ہے، بس آپ کا انتظار تھا، کہ جناب آئیں تو ہماری کارگردگی کا جائزہ لیں" میمونہ طنزیہ انداز میں گویا ہوئی۔
"احسان نہیں کیا سامان چڑھا کے میں بھی تو رات سے پیکنگ میں لگی ہوئی تھی" عرش نے حساب چکایا۔ اور بس کی ٹھنڈی راڈ پکڑ کے اندر گھس گئی۔ گاڑی میں ہیٹر لگا ہوا تھا اور کھڑکیوں پر دبیز پردے تھے۔ گاڑی اندر سے کافی کشادہ تھی۔ عرش اپنے لئیے موزوں جگہ کی تلاش میں پوری گاڑی میں گھومنے لگی۔اور پھر ایک داہنی طرف والی سیٹوں میں سے ایک سیٹ پہ اسنے اپنا بیگ اچھال دیا۔ کھڑکی سے پردہ بھی تھوڑا سا کھسکا دیا۔ اور بیٹھ گئی۔ ہینڈ فری کانوں میں اڑسی۔ اپنے سمارٹ فون کو کوٹ کی جیب میں ڈال کر ببل چبانے لگی۔
میمونہ اور اسکی دوستیں بھی آگئیں میمونہ عرش کے برابر میں بیٹھ گئی۔
"کھڑکی والی جگہ خود قبضہ جما لیا، عرش دوستی اپنی جگہ مگر اس غداری کیلئے میں تمہیں معاف نہیں کروں گی،" میمونہ اسے گھورتے ہوئے کہنے لگی۔ پھر سامنے والی سیٹوں پر میمونہ نے اپنی دوستوں کو بٹھایا۔ لڑکیاں پچھلی سائیڈ پر بیٹھی تھیں۔ اور لڑکے آگے۔
وہ خوش گپیوں میں مصروف تھیں سب، بے انتہا ہنسی بے فکری اور انجوائمنٹ، لڑکے بھی نک سک سے تیار ہوکر اپنی اپنی سیٹوں پر براجمان ہوگئے تھے۔ عرش میمونہ اور چند اور لڑکیاں جو پہلے جا چکی تھیں وہ بتانے لگیں کہاں جانا ہے اور کتنی ٹیم بنے گی،کس کس کو ساتھ لینا ہے۔
"پتا ہے جب کراچی میں ہم کسی پکنک پہ جایا کرتے تھے،تو کھانا گھر سے بنایا کرتے تھے، اور پیک کر کے بابا ڈگی میں رکھتے تھے،اور میں ہمیشہ ونڈو سیٹ پہ قبضہ جمایا کرتی تھی۔ جس پہ اظہر مجھے "قبضہ مافیا" کہا کرتا تھا "عرش زہرا کے نان سٹاپ مکالمے جاری تھے۔
گاڑی اسٹارٹ ہورہی تھی کہ یکایک رک گئی غالبا کچھ اسٹوڈنٹس جو رہ گئے تھے وہ اب آئے تھے سب دروازے کی سمت میں دیکھنے لگے۔ شاہ ارسلان ارسل اور رافیل دروازے سے داخل ہوئے شاہ نے سب سے آگے والی سیٹ جو کہ خالی تھی۔ تقریبا سب ہی لڑکوں نے لڑکیوں کے قریب والی سیٹوں پہ اپنا بوریا بستر ڈالا ہوا تھا۔ شاہ نے اسی سیٹ کے اوپر بنے کیبنٹ میں اپنا مختصر سا سامان ڈال اور بیٹھ گیا۔ کانوں میں ہینڈ فری اڑسی اور اپنے ہڈ کو آنکھوں تک لا کر سیٹ کی پشت سے سر ٹکا کر آنکھیں موند لیں، (عرش زہرا پہ ایک نظر ڈالنا بھی گوارا نا کیا)
"اوہ مائی گاڈ،شاہ بھی آئے ہیں، مجھے پتا نہیں تھا یہ سفر اتنا خوشگوار ثابت ہوگا" میمونہ کی دوست اریبہ نے دل پہ ہاتھ رکھتے ہوئے ہلکی آواز میں خود کو یقین دلایا۔ اسے سیکرٹ قسم کا شاہ پہ کرش تھا۔
عرش نے ناگواری سے پہلو بدلا اور ناک سکیڑی۔ پورا موڈ خراب ہوگیا تھا۔ بولتی بھی بند ہوئی تھی۔
وہ کانوں میں پھر سے ہینڈ فری ٹھونس کے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی تھی۔
پھر سارا سفر اس سب نے بہت اچھے سے کاٹا تھا۔ کوئی منچلا گٹار بھی لایا تھا۔ کسی نے سب کو گیٹ سنایا مگر دو فرد اس گاڑی میں تھے شاہ اور زہرا۔
ایک نے سارا سفر کھڑکی سے باہر دیکھتے اور ایک نے سوتے ہوئے اپنا ہڈ آنکھوں تک ڈالے نکالا تھا۔
میمونہ نے عرش کو مخاطب کرنا چاہا تو اسنے "کیا ہے" کہہ کر بری طرح گھوری ڈالی اور پھر سے باہر دیکھنے لگی تھی۔
*****
"اب چلیں؟" زہرا نے جوتوں کے تسمے باندھتے ہوئے کوفت سے میمونہ کو پوچھا جو اریبہ کے ساتھ باتوں میں مصروف تھی۔
اریبہ،میمونہ،عرش،اور چند لڑکیوں کا گروپ تھا شاہ ارسلان،رافیل،ارسل اور انکے علاوہ دولڑکے بھی تھے جو بغیر آرام کئیے سیر پرنکلنا چاہ رہے تھے۔ وہ نو بجے کے قریب پہنچ گئے تھے۔ اور انکا پہلا پڑاؤ مری کا ہوٹل تھا جو سبزہ زار اور برف سے ڈھکے پہاڑ پر بنا ہوا تھا۔
وہ سب تیار ہوکر باہر آگئیں کمرہ بھی ایک ہی شئیر کیا تھا۔
"سامنے سے آتی لڑکوں کی ٹیم بھی انکے ساتھ تھی عرش کو ناگواری محسوس ہوئی۔ وہ باتیں کرتے آگے بڑھنے لگے اونچے بلند و بالا پہاڑوں پر بنت مکانات اور دشوار گزار راستوں پر پیدل چلنا عرش زہرا کا پہلا ایڈوینچر تھا۔
اونچے نیچے دشوار راستوں پہ چلتے ہوئے خوف سا آنے لگتا تھا۔
"تم میرے ساتھ چلو" عرش نے آگے آگے بڑھتی میمونہکا بازو پکڑ کے پیچھے کھینچا۔
"تم چل کہاں رہی ہو بی بی،رینگ رہی ہو"؟ میمونہ نے ناگواری سے بازو چھڑایا اور اس کے ساتھ چلنے لگی۔
"یہ تم جن "لفنگیوں" کے ساتھ اتنا گھل مل رہی ہو
نا ادھر، ہاسٹل میں بھی گرم بستر سے نکل کر کافی بنانے کیلئے انہیں ہی بلانا، اور انکے ہی میک اپ کپڑوں کا ناس مارنا،"عرش نے اپنی بھڑاس نکالی۔
"ہاہاہاہا، صاف کہو تم جلیس ہورہی ہو، کیا تم میری بیسٹی ہو جو تمہیں میرا کسی اور سے فرینک ہونا برا لگ رہا ہے" میمونہ نے برا مانے بغیر اسے چڑایا۔
"جلتی میری جوتی، ان کھمبوں سے، نا منہ نا شکل، ہنہ" وہ دونوں سب سے پیچھے چل رہی تھیں لڑکے سب سے آگے پیچھے اریبہ لوگ، پھر سب سے آخر میں عرش اور میمونہ۔
اب تو آگے والے نظر آنا بھی بند ہوگئے تھے۔
"تم جیلس ہوئی یو عرش زہرا، یو نو آج مجھے تمہاری محبت کا پتا چل گیا"
"میں نہیں جیلس ہوتی یہ میری نیچر نہیں،"عرش نے منہ بنایا اور آگے چلنے لگی۔
"آو اس پتھر کے پاس سیلفی لیتے ہیں، پیچھے گہرائی میں بنے ہوئے گھر یہ سبزہ، پہاڑوں پر جمی برف، اور برف کو صاف کر کے بنائے گئے راستے، سب کچھ کتنا حسین اور مکمل لگ رہا ہے نا؟" میمونہ نے دونوں ہاتھ ہوا میں پھیلائے اور آنکھیں بند کیں۔
"ہاں بس ایک ہینڈسم ہیرو کی کمی ہے" عرش نے لقمہ دیا۔ اور کھڑے ہونے کیلئے کوئی مناسب جگہ دیکھنے لگی۔
"ہینڈسم بھی ہے اور ہیرو بھی، اور ساتھ بھی ہے،،بس تمہاری نظر ذرا کمزور ہے بی بی"
"تم کیا بڑبڑا رہی ہو؟" عرش نے اسکے ہلتے ہونٹوں کو دیکھ کر پوچھا۔
"آہاں کچھ بھی نہیں آو سیلفی لیں،"
عرش اگے کو ہوئی اور نیچے نظر آتے گھروں کو دیکھنے لگی۔ پھر وہ ایک نسبتا بڑے پتھر پر بیٹھ کر نیچے گہرائی کا اندازہ کرنے لگی۔
معائنہ کرنے کے بعد انہوں نے سیلفی لی۔ عرش نے میمونہ کے ہاتھ سے موبائل چھینا اور پتھر پر جا بیٹھی۔
وہ ویڈیو بنانے لگی تھی۔
"سنبھل کے عرش" میمونہ نے اسے یوں چھلانگ مار کے اترتے دیکھ کر کہا۔
اسنے موبائل واپس پکڑایا۔ اور شولڈر سے لٹکے بیگ میں سے چپس کا پیکٹ نکالا
وہ چلتے چلتے کافی دور نکل آئیں تھیں نا وہ لڑکیاں نظر آرہی تھیں نا ہی وہ لڑکے۔
عرش ایک جگہ رکی میمونہ بے بسی سے اسے دیکھنے لگی۔ (اب اور کتنی سیلفیاں لے گی یہ سیلفی کوئن؟)
عرش نے موبائل نکالا اور ہاتھ اوپر کر کے سیلفی اسٹک میں موبائل سیٹ کرنے لگی۔ اور اینگل سیٹ کیا، اب وہ وہ اس طرح کھڑی تھی کہ موبائل ایک ہاتھ میں اوپر اور دوسرا ہاتھ کمر پر۔ پیچھے گہری کھائی اور بڑی بڑے پتھر،
دور کھڑی میمونہ کا دل دھڑکا۔ خدانخواستہ اگر ذرا سا پاوں پھسلتا یا توازن برقرار نا رہتا تو عرش زہرا پیچھے نیچے گر جاتی۔
"عرش تھوڑا آگے آکر سیلفی لو، یہ کیا طریقہ ہے، وہ اسکے پاس آنے لگی۔
اور،اور ایک لمحے کت ہزارویں سیکنڈ کا کھیل تھا کہ عرش زہرا کا پاؤں رپٹا تھا، وہ جہاں کھڑی تھی وہاں گول چپٹے اور اور ہر طرح کے چھوٹے بڑے پتھر سے انہی میں سے ایک پتھر پہ عرش کھڑی ہوئی تھی۔ موبائل اور سیلفی اسٹک گری اور عرش، عرش نظر آنا بند ہوگئی۔
"زہرا......" میومنہ کی چیخ سے پوری مری کی وہ برفیلی وادی گونج اٹھی تھی۔
"یا میرے اللہ میں کیا کروں یا اللہ، مدد فرما رحم فرما، وہ چیخیں مارتے ہوئے روتے ہوئے آگے آئی بلکل کنارے پر۔
یہاں وہاں دیکھا وہ سڑک جہاں ہر منٹ بعد کوئی نا کوئی سیاح گزرا کرتے تھے اب اس سڑک پہ سناٹا تھا۔
وہ ایک بڑے سے پتھر پر پاوں رکھے نیچے دیکھنے لگی ہاتھ پیر کانپ رہے تھے اور ذہن مفلوج تھا۔
"یااللہ عرش یہیں کہیں ہو میرے اللہ اسے بچا لینا"
اسنے نیچے دیکھا اور گڑگڑا کے دعا مانگی، اسے کچھ نظر نہیں آرہا تھا نیچے جانے کا راستہ کوئی نہیں تھا۔ بس پتھر تھے اور پتھروں کے پیچھے وادی اور پہاڑ.....
وہ ایک اونچے سے پتھر پہ چڑھ گئی اور نیچے جھانکنے لگی تھی۔ دل بند ہوا جا رہا تھا۔
"کوئی آجاو پلیز" کوئی مدد کردو میری دوست نیچے گر گئی ہے کوئی آجاو" وہ بہتے آنسوؤں کے ساتھ نیچے وادی میں چلائی تھی۔ دماغ کام نہیں کر رہا تھا ورنہ وہ انتظامیہ کے پاس جاتی مری کی انتظامیہ بہت اچھی ہے مگر دماغ بند تھا۔ اور دل،دل بند ہونے کے درپے تھا۔
پتھر پہ چڑھ کے اسنے اپنا پاؤں مضبوطی سے جمایا اور اور نیچے دیکھا۔
اسے عرش کی اونی ٹوپی نظر آئی۔
اور ایک ہاتھ،
مطلب وہ نیچے کھائی میں نہیں پہاڑ سے نکلے ہوئے ایک پتھر پہ گری ہوئی تھی۔ جو قریب ہی تھا۔ وہاں جایا جا سکتا تھا مگر..مگر کیسے..
اسے عرش کو دیکھ کر امید بندھی تھی۔ دماغ کام کیا تھا۔
اسنے کانپتے ہاتھوں سے موبائل نکالا اور نمبر ملانے لگی۔ ہر نمبر ملانے کے بعد مٹا دیتی کراچی فون کرنے کی غلطی وہ کر نہیں سکتی تھی۔ "شاہ، شاہ ضرور آئے گا،
اسنے فون لسٹ میں سے شاہ کا نمبر نکالا اور موبائل کان سے لگایا۔ کال جا رہی تھی۔ اور ریسو بھی ہوگئی۔
"شاہ"..وہ روپڑی۔
"کیا ہوا میمونہ؟ تم رو کیوں رہی ہو، اور کہاں ہو تم دونوں ہم لوگ تو اتنا آگے آچکے ہیں تم ٹھیک ہو،عرش کہاں ہے؟ وہ ٹھیک ہے نا" دھک دھک ہوتے دل کے ساتھ وہ پوچھتا گیا۔
"عرش،عرش..گر گئی... شاہ.. وہ نیچے گر گئی،...پتھر پہ... نظر آرہی وہ..شاہ اسے..اسے بچا لو پلیز سب کو.. لیکر آو پلیز میرا دماغ کام نہیں کر رہا...." وہ ہچکیوں کے درمیان بولتی گئی۔
"کیا"شاہ کی آنکھیں پھٹ گئیں ارسل اور رافیل اسے تکنے لگے، کیا ہوا ہے؟ارسل نے پوچھا۔ "میری عرش زہرا وادی میں گر گئی" لمحوں میں آنکھیں لال انگارہ ہوئیں تھیں....موبائل جیب میں ڈالا اور الٹے راستے پر بھاگا۔
رافیل اور ارسل بھی اسکے پیچھے بھاگے۔ لمحوں میں سب کو خبر ہوچکی تھی۔
اور سب ہواس باختہ ہوکر بھاگے آئے تھے۔
"کہاں ہے وہ"شاہ نے روتی بلکتی میمونہ کو جھنجوڑ کے پوچھا۔
"وہاں..وہ.. اس پتھر... کے پیچھے... سے نظر آرہی ہ..ے..شا..ہ...وہ بے..ہوش ہے....پتا..نہیں..و..ہ..زندہ..بھی.. ہے..یا..نہیں.. "میمونہ سے بولا نہیں جارہا تھا۔ کچھ لڑکیاں اسے تسلی دینے لگیں..شاہ سب کو چھوڑ کر نیچے وادی میں اترنے لگا بیٹھ کر چل کر جیسے بھی۔
رافیل ارسل اور بھی چند مزید لڑکے جن کے دل میں انسانیت کا مادہ موجود تھا سب اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالے ہوئے تھے۔
شاہ جیسے تیسے کر کے نیچے اتر رہا تھا۔
"یااللہ میری عرش کو بچا لیں"..روم روم دعا گو تھا۔ آنسو تھے کہ گر رہے تھے....لب بھینچے ہوئے تھے۔
وہ ایک جگہ آکر رک گیا۔ اب مزید نیچے راستہ نہیں تھا۔ اوپر سب کا رش لگ گیا تھا۔ کسی نے انتظامیہ کا کال کردی تھی۔ کچھ مقامی افراد اسے نیچے سے اوپر آنے کا کہہ رہے تھے کچھ واپس بلا رہے تھے۔ مگر وہ سن تھا...اس پتھر کو دیکھ رہا تھا جو ابھی مزید بیس فٹ تک نیچے تھا....اور جانے کا ایک ہی راستہ تھا "چھلانگ" اور لمحوں میں اس نے اپنا بیلنس ٹھیک کیا اور..اور..چھلانگ لگا دی ...یا جیئے یا مرے.....محبت کم نہیں تھی...بس اسکی خوشی عزیز تھی۔
وہ اس پتھر کے بلکل کنارے پر گرا تھا گھٹنوں کے بل...وہ کوئی فلم نہیں تھی کہ وہ چھلانگ لگا کر بلکل سہی سلامت اپنے پاؤں کے بل کھڑا ہوجاتا.. یہ حقیقت تھی...اسنے اندازے سے چھلانگ لگائی تھی...کی وہ اس بڑے سے پتھر جو کہ پہاڑ کا حصہ تھا اسکے وسط میں گرے گا...مگر وہ کنارے پر گرا تھا...اور اللہ نے اسے بچایا تھا. اتفاق اور خوش قسمتی تھی کہ وہ اس پتھر کو کراس کر کے نیچے وادی میں نہیں گر تھا ورنہ شاید......نا بچ پاتا...اسکا پاؤں مڑ گیا تھا اور جسم میں جھٹکا آیا تھا..وہ ہر چیز نظر انداز کئے آگے بڑھا اور عرش کے پاس آیا...وہ کچھ نہیں لگتی تھی اسکی...مگر اسکا سب کچھ تھی...وہ اسکے گال تھپتھپانے لگا تھا....اردگرد کہیں خون کا نام و نشان نہیں تھا..شاہ کو حوصلہ سا ہوا....وہ بے ہوش تھی اسکی سانسیں چل رہی تھیں ..شاہ نے اپنے دستانے اتارے اور گرم ہاتھ اسکے چہرے پر لگائے وہ کراہی..شاہ کا دل کیا وہ وہیں سجدہ ریز ہوجائے...اسکی عرش زہرا زندہ تھی...مگر حرکت نہیں کر پا رہی تھی ....وہ سیدھے بازو کے بل گری ہوئی تھی...غالبا اسنے اپنا سر بچانے اور دماغ کو چوٹ سے بچانے کیلئے اپنا سر اونچا کر لیا تھا گرتے وقت...اسی وجہ سے زندہ تھی...شاہ نے اسے اٹھانا چاہا..وہ کراہی تھی...غالبا اسکے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹی تھی...اور درد کی تاب نا لاتے ہوئے وہ بے ہوش ہوگئی تھی پھر سے شاہ کے آنسو اسکے چہرے پر گرنے لگے تھے... وہ اس پر جھکا اور...اور. رو دیا...ساری خلش جو اتنے عرصے سے دل جسم اور روح کو کھا رہی تھی اس خلش کو بہنے دیا....وہ یہ بھی نہیں سوچ رہا تھا کہ اب واپس کیسے جانا ہے اوپر کیسے جانا ہے...بس وہ رو رہا تھا..اسنے عرش کا سر اپنے گھٹنے پر رکھا۔ اور اپنی جیکٹ کی اندرونی جیب سے موبائل نکالا...ارسل کو کال لگائی...
"تم کسی کو نیچے سے بھیجو ارسل...عرش کا شاید ہاتھ ٹوٹ گیا ہے..وہ ٹھیک..ہے زندہ ہے مگر حرکت نہیں کر پا رہی...ہاں میں بھی ٹھیک ہوں..نہیں. نیچے نہیں گرا..وہ ہنس دیا...ہاں مجھے کچھ نہیں سوجھا ... تم بھیجو کسی کو ...ہاں کوئی بات نہیں لگ جائے ٹائم. . میں عرش کو ہوش میں لانے کی کوشش کرتا ہوں " کال کاٹی اور اسنے بے ہوش پڑی عرش زہرا پر نگاہ جمائی...جو اسکے گھٹنے پر سر رکھے پڑی تھی...ہوش میں ہوتی تھی تو دیکھنے بھی نا دیتی تھی اور اب اتنے پاس تھی......"
اسکی ٹوپی ٹیڑھی ہوگئی تھی...شاہ نے اسکے سر پر ٹھیک سے جمائی...اور اسکے گال جو رگڑ کھا کے سرخ ہوگئے تھے چھل بھی گئے تھے ..وہ اسے دیکھنے لگا اور خود پیچھے ٹیک لگا لی....اسے جگانے لگا..ایک گھنٹہ لگا تھا..ریسکیو ٹیم اور انتظامیہ کو اوپر تک آنے میں اور کچھ مقامی لوگ جو ان پہاڑوں پر روز ہی چلا کرتے تھے وہ بھی ساتھ تھے...
#جاری_ہے
❤️
👍
😢
😮
58