Novel Ki Dunya
February 27, 2025 at 05:09 AM
#شاہ_اور_زہرا
#تحریر_عظمی_محمد_عثمان
#قلمی_نام_مٹھو_لاڈلی
#قسط_نمبر_15
میمونہ اور اسکی دوست عرش کو سہارا دے کر ہاسٹل لائیں تھیں۔ ابھی تک اسکے گھر والوں کو بتایا نہیں تھا۔ اور عرش نے بھی منع کردیا تھا۔ آٹھ گھنٹے لگے تھے اسے وہاں سے نکالنے میں پھر ہاسپٹل سے اسکے ہاتھ پر پلاستر ہوا تھا۔ اب بازو گردن سے بندھا ہوا تھا۔ پیشانی ایک طرف سے چھلی ہوئی تھی اور آنکھیں سرخ سوجی ہوئی۔ وہ ایک بازو اور پیشانی کے بل گری تھی مغز کو اسنے زمین پہ لگنے سے بچایا تھا جسکے سبب وہ زندہ تھی۔
انہوں نے اسے بیڈ پہ بٹھا دیا۔
"بابا کو کال مت کرنا پلیز" وہ رندھی آواز میں بولی۔
"عرش آج نہیں تو کل انہیں پتا لگنا ہی ہے، تم خود سوچو کتنا خفا ہونگے، کتنا دکھی ہونگے وہ انکی بیٹی نے اتنی بڑی بات ان سے چھپائی، میمونہ اسکے سامنے بیٹھ گئی۔
"مگر میں کیسے انہیں بتاؤں کہ میں موت کہ منہ سے بچ کر آئی ہوں؟..میں پہاڑ سے گری ہوں، پہاڑ سے،کتنی مشکلوں سے اجازت لے کر گئی تھی میں بابا سے...ماما نے مجھے کہا بھی تھا، اپنا خیال رکھنا موبائل اور سیلفیز میں مصروف ہوکر اپنی جان کومت بھول جانا..اب میں کیسے انہیں بتاؤں؟"
آنسو گرنے لگے۔
"میمونہ اٹھ کے اسکے پاس آبیٹھی اور اسکا سر اپنے کندھے سے لگا لیا..اسےسمجھانے لگی
"دروازہ ناک ہوا تھا۔
گیٹ پہ شاہ کھڑا تھا۔ نڈھال سا۔ سیاہ شلوار قمیض میں پاؤں پہ بندھی بینڈیج چھپی ہوئی تھی۔
"یہ انکی میڈیسن اور کچھ فروٹ وغیرہ ہیں، ویکنس نا ہونے پائے، اور ایکسرسائز کا کہا ہے ڈاکٹر نے،" شاہ نے شاپر میمونہ کو پکڑایا۔
"اندر آو، کافی پی کر چلے جانا،" میمونہ نے راستہ دیا۔
نہیں میں گھر جاؤں گا کچھ دن، تم عرش کا خیال رکھنا،" شاہ نے سر بائیں جانب ہلایا۔
"مل تو لو، روئے جا رہی ہے بس وہ نا گھر پر بتانے پر آمادہ ہورہی ہے،" میمونہ نے شاہ کی آنکھوں میں چھایا حزن دیکھا پھر ابرو سے اندر کی جانب اشارہ کیا۔
"ہوں" شاہ اندر داخل ہوگیا۔
وہ گھٹنوں میں سر دئیے کمبل اپنے گرد لپیٹے بیٹھی تھی۔
"ٹھیک ہوجاؤ گی تم عرش" وہ بیڈ کے کنارے ٹک کے کھڑا ہوگیا۔
عرش کا سر مزید جھک گیا پتہ نہیں ندامت سے یا افسوس سے...
"اپنے بازو کی ایکسرسائز کرتی رہنا اور کھانے پینے کا خیال رکھنا، اور رونا مت،" وہ اسکے جھکے سر کو دیکھتے ذرا سا مسکرایا۔
"آپ نے میری خاطر خود کو خطرے میں کیوں ڈالا شاہ؟" جھکا ہوا سر اٹھا کر اسنے بازو پہ چہرہ جمایا آنکھوں میں آنسو..
"میں نے خود کو خطرے میں نہیں ڈالا عرش بلکہ "اپنی" ہی جان بچائی، تھوڑا خودغرض ہوں میں" وہ مسکرایا۔
عرش کی گردن میں ابھر کر معدوم ہوتی گلٹی واضع دکھائی دی۔
"آپکے گھٹنے کی چوٹ کیسی ہے؟" اسے کچھ اور سمجھ نا آیا۔
"اچھی ہے بہت" بڑے دل سے جواب دیا ظالم محبووب نے حال درفیات کیا تھا۔
"چوٹ ہے یا آپکی عزیز جو "اچھی" ہے؟" وہ مسکرائی۔
"اب تو عزیز ہی ہے بہت" دونوں ہاتھ سینے پہ باندھے۔
"تم اپنی فیملی کو انفارم کردو عرش، گھر چلی جاؤ، کچھ دن آرام کرو، اپنا خیال رکھو، میں بھی گھر جا رہا ہوں، امی کو بتا دیا تھا وہ رو رو کے ہلکان ہیں انکا بس نہیں چل رہا کہ وہ یہاں آکر خود لے جاتیں مجھے، تسلی کروانے کیلئے جارہا ہوں کہ میں ٹھیک ہوں " وہ ہلکے سے مسکرایا۔
"کرتی ہوں"
"گڈ گرل ہوں انفارم" وہ مسکرایا اور چلا گیا۔
عرش نے پھر سے گھٹنوں میں سر رکھا چند لمحے سوچتی رہی پھر سے پھوٹ پھوٹ کے رو دی۔
پتا نہیں درد کی وجہ سے... یا امی ابو کو بتا کر متوقع پریشانی کا سوچ کر...شاہ کیلئے بولے گئے پہلے الفاظ پر ندامت تھی..یا اب ہونے والی "مدد" اور "ہمدردی" پر شرمندگی، یا خیال رکھنے پر مشکور...وہ خود سمجھ نہیں پا رہی تھی
*****
"سرور خان مٹھیاں بھینچے آنکھوں میں نمی لئیے بیٹھے تھے۔ پاس نورینہ بیگم بیٹھی پھوٹ پھوٹ کے رو رہی تھیں، اور سرور خان کو کوس رہی تھیں۔ جنہوں نے عرش جیسی لابالی اور بیوقوف لڑکی کو اتنا دور پڑھنے کیلئے بھیجا سو بھیجا اس بے وقوف کی باتوں میں آکر اسے مری تک بھیج دیا۔
"پتا نہیں کتنا لگا ہوگا اسے لے آئیں سرور خان، میری بچی کو لے آئیں پلیز، مجھے نہیں پڑھانا اسے، میری بچی کی زندگی اسکے کرئیر سے زیادہ اہم ہے، اسے لے آئیں پلیز" وہ بلک رہی تھیں، عرش نے ایک گھنٹہ قبل انہیں کال کی تھی، اور کچھ بتانے کے بجائے رونے لگی تھی، ساری بات میمونہ نے بتائی اور شاہ کا ذکر بھی کردیا کہ۔
کس طرح اس نے اپنی جان کی پرواہ کئیے بغیر اتنئ اونچائی سے نا صرف چھلانگ لگائی، بلکہ عرش کو سہی سلامت واپس لے آیا، اور اسے ہاسپٹلائز کیا..،،
"اللہ بھلا کرے اس بچے کا، جس نے اسے وہاں سے نکالا اور لے کر آیا ورنہ میری بچی...، وہ منہ پہ دونوں ہاتھ ڈھکے رونے لگیں۔ اریب اور اظہر بھی سہمے ہوئے بیٹھے تھے انکی آپی پہاڑی سے گر گئیں تھیں۔
دادی کے ہاتھ میں تسبیح تھی۔
"اب بس کرو ٹھیک ہے وہ کچھ نہیں ہوگا اسے، ایک میں پریشان ہوں اوپر سے تم نے واویلے مچائے ہوئے۔ "
سرور خان کی آدھے گھنٹے بعد میں اسلام آباد کی فلائٹ تھی اور وہ یہ وقت کانٹوں پہ گزار رہے تھے،
*****
وہ عرش کو گھر لے آئے
نڈھال سی سرور خان کے بازو میں تقریبا جھولتی ہوئی ہاتھ میں چڑھا پلستر اور گردن سے لٹکا ہوا بازو، چہرے پہ جابجا خراشیں، اور چال میں لڑکھڑاہٹ..
سلکی بال کھلے ہوئے تھے کندھے پر بکھرے ہوئے۔ سر پہ وہی ٹوپی تھی کانوں کو ڈھکے ہوئے.. یہ شاہ نے وہاں سے اٹھا لی تھی اور اپنی جیب میں ڈال لی تھی بعد میں اسے دے دی تھی۔ اس پہ کتنی اچھی لگتی تھی۔ یہ کریم کلر کی ٹوپی جس پہ گیند لڑکھتی تھی ذرا سا سر ہلاتی اور وہ گیند یہاں سے وہاں گرنے لگتی۔
"عرش کیا حال ہوگیا تمہارا" نورینہ بیگم نے روتے ہوئے اسے تھاما۔
سرور خان اندر چلے گئے ان سے دیکھا نہیں جا رہا تھا۔
"میں ٹھیک ہوں امی" وہ بدقت مسکرائی۔
"کتنا منع کرتی تھی میں عرش نا جاو..صرف اسی ڈر سے..مجھے پتا تھا میں ماں ہوں نا...اولاد کو جانتی ہوں..میری اولاد موبائل میں اور اپنی مستی میں اپنی جان کا بھی خیال نہیں کرے گی..اسی لئیے منع کرتی تھی..عرش میں تمہارا کیا کروں" وہ اسے چھونے لگیں..رونے لگیں۔
"وہ لڑکا کون تھا؟ فرشتہ؟ کلاس فیلو؟ یا کوئی اور؟ اسے بلاو یہاں میں شکریہ ادا کروں اسکا...اسے بتاؤں کہ اس نے مجھ پر کتنا بڑا احسان کیا ہے..اسنے انسانیت کیلئے اپنی جان تم خطرے میں ڈال دے..ایسا فلاحی جذبہ اس میں کہاں سے آیا تھا؟ اللہ نے تمہیں بچانے کیلئے فرشتہ تو نہیں بھیجا تھا؟" وہ روتے ہوئے بول رہیں تھیں۔
عرش سناٹے میں آگئی
اس لمحے اسے ادراک ہوا تھا کہ اسنے شاہ کو شکریہ تک نہیں کہا تھا...نا پہلے نا اب..
اس کی وجہ سے وہ اے پلس لائی (یہ تو ابھی امی کو پتا نہیں تھا) اسی کی وجہ سے وہ مرتے مرتے بچی.. مگر عرش نے اسے تھینک یو تک نہیں کہا..کیوں؟ کیا وہ یہ اسکا حق سمجھی تھی؟ مگر کیسا حق؟ کیا فرض؟ اسے بے اختیار وہ الفاظ یاد آئے "نظرباز" "سستا استاد" اور نجانے کیا کیا
اسے رونا آیا پھر سے
******
#جاری_ہے
❤️
👍
😢
😂
63