Novel Ki Dunya
February 27, 2025 at 01:21 PM
#شاہ_اور_زہرا #تحریر_عظمی_محمد_عثمان #قلمی_نام_مٹھو_لاڈلی #قسط_نمبر_16 "مجھے اس سے ملوانے لے جاو شاہ" انساء بیگم کچن سے پاستا باول اٹھا کر کمرے میں آئیں۔ "وہ آپکو نہیں جانتی امی" صوفے پہ پاؤں پسارے چینل سرچنگ کرتے شاہ نے تاسف سر ہلایا۔ "تمہیں تو جانتی ہے نا؟ساتھ پڑھتے ہو تم، میں اسی بہانے اسے دیکھ بھی لوں گی،اور عیادت بھی کر آؤں گی، میں اسکے ماں باپ کی رائے بھی دیکھنا چاہتی ہوں شاہ" انساء بیگم پاس بیٹھتے ہوئے ایپرن کھولنے لگیں۔ "امی آپ اتنا کچھ سوچ چکی ہیں،وہ اور اسکے گھر والوں کو کچھ بھی نہیں پتا، میں نے صرف اس کی دوست کے ذریعے عرش کی رائے لینا چاہی تھی تو وہ،وہ تب سے مجھے دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی تھی" شاہ نے ماں کو حقیقت کی دنیا میں لانا چاہا۔ "شاہ وہ برگشتہ ہوگی، تم بتاتے رہے ہو مجھے، وہ نادان ہے کم عقل ہے، اسی لئیے اچھے برے کا فرق نہیں پتا اسے، تم بس لے جاو مجھے، بھلا میرے اتنے خوبرو بیٹے کو بھی کوئی لڑکی انکار کر سکتی ہے،غلط فہمی ہوئی ہوگی اسے یا تمہیں" انہوں نے پیار سے اسکے بال سنوارے اور محبت پاش نظروں سے دیکھنے لگیں۔ "یہ آپکی ممتا ہے امی، سچ تو بہت کڑوا ہوتا ہے" شاہ نے انکا ہاتھ تھام کر ہونٹوں سے لگا کر مسکرایا "ماں کی ممتا سے ذیادہ سچا تو کچھ بھی نہیں ہے شاہ، ماں سے ذیادہ اولاد کو کوئی نہیں جانتا اولاد کی برائی بھی، اچھائی بھی، ماں بہتر جانتی ہے" اسے لگا اس بحث میں وہ امی سے ہار جائے گا، شاہ کو لگا شاید امی ان ماؤوں میں سے تھیں جو اولاد کے بارے میں کچھ بھی منفی بات سن نہیں سکتیں۔ **** عرش کے کمرے کی بتیاں گل تھیں۔ مغرب کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ وہ گھٹنوں میں منہ دئیے بیٹھی تھی۔ ہاتھ ہنوز گردن سے لٹکا ہوا تھا،البتہ چہرے پر سوجن اور نشانات میں کمی تھی۔ "عرش بیٹا اذان ہونے والی ہے کیوں اتنا سناٹا اور اندھیرا کیا ہوا کمرے میں" نورینہ بیگم کمرے میں آئیں، اور سوکٹ پہ ہاتھ مارا ساری لائٹس روشن ہوگئیں عرش نے آنکھیں مذید بھینچ لیں جیسے اس روشنی سے بھاگ جانا چاہتی ہو "کیا ہو بیٹا بخار ہے کیا" وہی ماؤوں کی ازلی فکرمندی۔ "نہیں امی میں ٹھیک ہوں" بازو پہ گال ٹکایا "بیٹا میں نے تم سے کہا تھا اس لڑکے کو کھانے پہ بلا لو تمہارے بابا اور میں ملنا چاہتے ہیں اس سے کم سے ایک "تھینک یو" ڈنر یا لنچ ہونا چاہئے، میں دیکھنا چاہتی ہوں اسے، ملنا چاہتی ہوں" عرش کو وہ لنچ پارٹی یاد آئی جس میں اس نے انواع اقسام کھانوں سے میمونہ اور شاہ کی دعوت کی تھی ایک خوشگوار ماحول میں کھائی گئی وہ تھینک یو پارٹی یا ٹریٹ، کتنی حیرت ہوئی تھی اسے جب اسنے عرش کو یہ سب کرتے دیکھا تھا، اور جب انہیں پتا لگا کہ سب باہر کا ہے...تو انہوں نے کتنا مذاق بنایا تھا اسکا۔ مگر تب وہ بس ایگزام سے فارغ ہوئی تھی، جو کہ بہت اچھے ہوئے تھے، ایگزام کا اور اے پلس کا تھینکس بھی ابھی باقی تھا۔ "میں کہہ دوں گی تھینکس ، آپ فکر نہیں کریں، اتنے مینرز ہیں مجھ میں، اور بھی بہت احسانات باقی ہیں" آخری جملہ منہ میں بڑبڑائی۔ "میں تم سے کہہ رہی ہوں اسے یہاں بلواو، آخر کون تھا وہ جو اتنی اونچائی سے سپر مین کی طرح تمہارے لئیے اوپر سے کود گیا، اپنی "جان" کی پرواہ کئیے بغیر، یہاں تو مرتے ہوئے سگے یا عزیز کو لوگ خطرے سے نکالنے نہیں جاتے مبادا کہیں ہمیں نا کچھ ہوجائے اور وہ..وہ اتنا کچھ "کر" گیا تو "اور بھی" کچھ "کرنا" چاہتا ہوگا تمہارے لئے عرش، جسکے لئیے اپنی جان اہم نا رہی تمہارے لئیے وہ انسان کتنا مخلص ہوگا.. بغیر وجہ کے یہاں پتہ بھی نہیں ہلتا" نورینہ بیگم اسکے اوپر غرائی تھیں۔ عرش سن رہ گئی جو بات وہ اتنے عرصے میں نہیں سمجھ پائی تھی یا سمجھنا نہیں چاہتی تھی امی دو دن میں سمجھ گئیں تھیں وہ کچھ بولنے کی پوزیشن میں ہی نا رہی۔ "مم..میں میمونہ سے کہوں گی، یا اس سے نمبر لے کر آپ کو دوں گی آ..آپ بات کرلیجئے گا" عرش نے بمشکل تھوک نگلا "ہوں..ذرا جلدی ہوجانا چاہئے یہ کام" وہ اٹھ گئیں "اب لیٹ جاؤ کمر اکڑ جائے گی اس طرح بیٹھ بیٹھ کر، میری میمونہ سے بھی بات کروانا، بھلی بچی ہے، میری عرش کا اتنا خیال رکھا، اسے بھی ساتھ ہی انوائیٹ کردوں گی، اسکی ماما کو بھی تاکہ انہیں پرابلم نا ہو" وہ جاتے ہوئے اسے ہدایات کرگئیں۔ گیٹ لاک ہوا تھا۔ عرش نے گھٹنوں پہ سر رکھا پلاستر والے بازو کو گود میں کیا اور ایک ہاتھ گھٹنے کے گرد لپیٹ کر گھٹنوں میں سر دے دیا۔ اسے رونا آیا تھا بے حد بے تحاشا۔ کتنے برے القابات استمعال کئیے تھے اس نے شاہ کیلئے۔ کتنا خیال رکھا کرتا تھا وہ ، اسے پڑھاتے ہوئے وہ کس طرح رک کے اسے دیکھنے لگتا، رک جاتا...کھو جاتا...اتنا کہ عرش کو چٹکی بجا کر اسے ہوش کی دنیا میں لانا پڑتا، وہ مسکرا کر جھک جاتا آنکھیں نیچے کرلیتا... تب ایسا کچھ خیال آیا ہی نا تھا..اتنی پاکیزگی تھی اسکی آنکھوں میں، اتنی ملاحت..اور حیا، بھلا اتنی اجلی آنکھوں والا شخص گھٹیا سوچ رکھ سکتا؟ یا کوئی مفاد ہوتا اسکا؟ اگر میمونہ سے وہ رشتے کی بات نا کرتا...یا میمونہ اسے نا بتاتی تو وہ قیامت تک لاعلم رہتی... سارے اظہار گویا اسکی آنکھوں میں کہیں اندر قید تھے۔ اب جب اسنے انکار کیا تھا، اسے بدنگاہ اور "نظرباز" شاگرد پہ نظر رکھنے والے کا طعنہ دیا تھا تب سے...تب سے وہ اسے دیکھا بھی نہیں کرتا تھا..بس اس دن پتا نہیں کیسے..وہ ٹرپ پر ساتھ آگیا..شاید عرش کو بچانے کیلئے..اونہوں...کیا کہا تھا بھلا اسنے؟ "اپنی "جان" بچائی ہے" ہاں شاید عرش کی حفاظت کیلئے ہی آیا ہوگا...ہاں وہ دو ماہ ٹیوشن پڑھی تھی اسے سے جان گیا ہوگا کتنی لابالی ہے وہ، اسی لئیے آگیا ہوگا... کیسے اتنی دور سے وہ بھاگتے ہوئے اسکے لئیے آیا تھا۔ پھر اسے گود میں لئیے بیٹھا تھا۔ عرش کو یاد آیا اسکے چہرے پر شاہ کے آنسو گرے تھے... وہ اسکے خلوص پہ شک کر رہی تھی جس پر ساری یونی کی لڑکیوں کا کرش تھا۔ وہ خود گواہ تھی کتنا کم گو تھا وہ کبھی کسی سے بات کرتے نا دیکھا گیا۔ کسی کی خلوص پہ شک کرنا گناہ ہے تو کسی کی بے غرض محبت پہ شک کرنا کیا ہے..اسے سمجھنا آئی...بس وہ روتی گئی۔ ہاں اتنا ادراک کوا تھا کہ اسے شاہ کی محبت پہ یقین سا آیا تھا۔ **** وہ چائنہ پورٹ چلا آیا اتنے ٹھنڈے موسم میں جیسے ساحل ویران سا تھا۔ کوئی اکا دکا شوقین نوجوان نظر آجاتے دوستوں کے ساتھ یا پارٹنر کے ساتھ۔ وہ ایک چاک کے بڑے سے پتھر پہ بیٹھ گیا، اور پاؤں نیچے ٹکراتے پانی میں لٹکا لئیے۔ گہری نیلی شال کندھوں پہ پڑی ہوئی تھی۔ ہوا سے بال اڑ رہے تھے آج جیل لگا کے سیٹ نہیں کر کے آیا تھا۔ مونچھوں پہ انگلی پھیرتے وہ سورج کے اس گولے کو دیکھنے لگا جو ڈوبنے کے قریب تھا... " بھائی سن میں یہاں بیٹھ جاؤں؟ میں بھی تیری طرح سنگل ہوں،" ایک خوش شکل سا نوجوان پتھر پہ کھڑے اس سے اجازت لینے لگا۔ لمبا سا نوجوان جس کہ چہرے پہ ایک ملاحت سی تھی۔دونوں ہاتھ جینز کی جیبوں میں ڈالے ہوئے تھے۔ "آجاؤ بھائی"شاہ نے مسکرا کر اسے جگہ دی وہ جمپ لگا کر اسکے پاس آ بیٹھا۔ " کیا کرتے ہو اور اکیلے کیوں ہو؟ کیا تم بھی میری طرح آؤٹ آقگ سٹی سے ہو؟" وہ لڑکا کافی باتونی سا تھا شاید ایک سانس میں تین سوال پوچھ بیٹھا۔ "نمبر ون تو یہ کہ میں ڈاکٹر بن رہا ہوں، نمبر دو: دل کر رہا تھا کچھ وقت اپنے ساتھ گزارنے کا اسلیئے یہاں چلا آیا، نمبر تین یہ میرا اپنا شہر ہے،"شاہ نے مسکرا کر خوشدلی سے تفصیلی جواب دیا۔ "اوہ نائس ٹو میٹ یو، سیم پروفیشن، میں بھی ڈاکٹر ہوں ہاوس جاب چل رہی میری، اور میں نواب شاہ سے ہوں، یہاں میں ایک دوست کے پاس آیا تھا، آج اسے ضروری کام سے جانا پڑ گیا، شرمندہ ہورہا تھا پھر میں نے اسے بمشکل رخصت کیا اور ادھر چلا آیا، کیونکہ کراچی میں تو پارکس وغیرہ میں سنگل بندہ مشکل سے ہی جا سکتا ہے..ہوٹل میں جانا بیکار..سو یہاں چلا آیا..اور یہاں بھی ہر بندہ بزی..تم نظر آئے مجھے سو یہاں چلا آیا تمہارا سر کھانے" اتنا باتونی بندہ دیکھ کر شاہ کو اسکے ڈاکٹر ہونے پر شک ہوا۔ "نام کیا ہے تمہارا؟"شاہ نے گردن ترچھی کر کے اسے دیکھا۔ "ڈاکٹر عبدالہادی، اور تمہارا؟ "اٹس شاہ ارسلان،" "مجھے آج پتا چلا ڈاکٹرز بھی بور نہیں ہوتے اور خوش مزاج بھی ہوتے ہیں عبدالہادی، میں بھی تمہاری طرح ہونا چاہوں گا"شاہ مسکرایا "تم کسی سے محبت کرتے ہو ارسلان؟" عبدالہادی اسکے چہرے کو بغور دیکھتے اچانک پوچھ بیٹھا شاہ ک رنگ فق ہوگیا۔ علامات محبت چہرے سے نظر آنے لگی تھیں اور یہ اچھی بات نہیں تھی۔ #جاری_ہے
❤️ 👍 😂 😢 😮 53

Comments