Novel Ki Dunya
February 27, 2025 at 03:44 PM
#شاہ_اور_زہرا #تحریر_عظمی_محمد_عثمان #قلمی_نام_مٹھو_لاڈلی #قسط_نمبر_17 سمندر کی جھاگ اڑاتی ایک لہر زور سے پتھر سے ٹکرائی تھی۔ یہاں سے وہاں تک ٹھنڈے قطرے برسات کی مانند برس گئے۔ ٹھنڈا سورج مغرب کی جانب جھکاؤ کر رہا تھا۔ "کیا مطلب؟" شاہ نے نظریں چرائیں "میں نے پوچھا کہ تم کسی سے محبت کرتے ہو کیا؟" عبدالہادی مسکرایا۔ "عبدالہادی تم بھول رہے ہو شاید، تم ڈاکٹر ہو، پامسٹ یا نجومی نہیں" شگفتگی سے بات ٹال دی گئی۔ "ہاں مگر میری امی کہتی ہیں میں بہت اچھا فیس ریڈر ہوں، اور میرے قیافے،اندازے، بہت کم ہی غلط ہوتے ہیں" وہ سر نیچے کر کے ہنسا۔ عبدالہادی تھوڑا اوپر کی جانب بیٹھا تھا ایک گھٹنہ اوپر کئے اور ایک لمبا بچھائے ہوئے۔ ہاتھ گھٹنے کے اوپر لمبا کیا ہوا تھا۔ سفید شرٹ، اور بلو جینز میں ملبوس، شاہ کے بر عکس ہلکی موچھیں اور باریک داڑھی۔ شاہ کو دل بوجھل سا ہوتا محسوس ہوا۔ وہ ٹلنے والا نہیں تھا۔ اور نجانے کیوں اسکا دل کیا تھا کہ وہ اس اجنبی کو بتا دے سب۔ "تمہاری امی ٹھیک کہتی ہیں عبدالہادی" وہ پتھر کی پشت سے کمر ٹکا گیا اور سکون سے بیٹھ گیا۔ "اوہ دیٹس گریٹ..اور میں یہ بھی بتادوں کہ تمہاری محبت مشکل میں ہے آئی ایم رائٹ؟" "مشکل نہیں ناممکن سی ہے" آنکھوں میں شعلہ سا لپکا۔ " اوہ برو..اس زمانے میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہے، بس انسان مستقل مزاج ہونا چاہیے" اسنے فرضی کالر جھاڑے۔ "کیا تم بھی؟" "جی بلکل جناب میں بھی اسیر محبت ہوں، عنقریب منگنی ہونے والی ہے،بڑی مشکلات سے کھیل کر بڑی آزمائشوں کے بعد ملی ہے یہ محبت" وہ پیارا لڑکا پورے دل سے مسکرایا۔ "بہت مبارک ہو" شاہ مسکرایا، "یہ محبت بہت خوار کرتی ہے شاہ، یہ بندے کو رول کے رکھ دیتی ہے، یہ دل مانگتی ہے، آنسو مانگتی ہے، درد مانگتی ہے، قربانی مانگتی ہے، یہ آسان نہیں ہے، یہ کم نہیں ہوتی، یہ بڑھتی رہتی ہے کسی نیک پرہیزگار انسان کے درجات کی طرح، اوپر سے اوپر، یہاں تک کے عرش تک، پھر عرش والے تک لے جاتی ہے" عبدالہادی سر جھکائے نجانے کس جہان میں تھا۔ "دیکھنے میں تو بلکل لاابالی سے لگتے ہو،اور باتیں بہت گہری کرتے ہو عبدالہادی، کیا یہ بھی محبت کی کارستانی ہے؟" "ہاہا..بھائی جتنا میں بولنے لگا ہوں اتنا ہی "خاموش پتلا" ہوا کرتا تھا، یہ آپکی بھابھی کی مہربانیاں ہیں جنہوں نے مجھے "فل چارج"کردیا ہے" وہ دل کھول کے ہنسا۔ " مطلب میرا مستقبل بھی کچھ ایسا ہی ہونا ہے؟ اندر سے کچھ اور باہر سے کچھ اور "شاہ مسکرایا دل میں کلی سی کھل گئی۔ "انشاءاللہ بھائی مجھے سے بھی ذیادہ چارج کریں گی بھابھی آپکو، ویسے وہ بھی ذیادہ بولتی ہیں کیا؟" عبدالہادی نے پاس پڑا پتھر اٹھایا اور پانی میں اچھالا۔ دور کھڑی بحریہ آئیکون، اور ٹوئن ٹاور کی بیرونی لائٹس آن ہورہیں تھیں۔ "ذیادہ؟"شاہ ارسلان نے کانوں کو ہاتھ لگائے۔ عبدالہادی دیکھ کر ہنسنے لگا " بہت پیاری لڑکیاں ہوتی ہیں جو ذیادہ بولتی ہیں، اللہ کی نعمت ہی سمجھو، انکا نا..دل بہت پیارا ہوتا ہے..جو میٹھا میٹھا بولتی ہیں، کانوں میں رس گھلنے لگتا ہے..دل کرتا ہے بندہ سنتا رہے یہ بولتی رہے،" عبدالہادی سر جھکا کے بلااختیار کہتا گیا۔ "واقعی کانوں کا عذاب" شاہ نے لقمہ دیا۔ "ایسے تو نا کہو بعد میں پوچھوں گا" عبدالہادی جل سا گیا۔ بعد میں؟ مگر وہ کیسے جناب؟ پھر ہم کراچی اور آپ نواب شاہ" "تم بھول رہے ہو شاہ یہ جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے، ہر لمحہ باخبر رہا جا سکتا ہے، بشرطیکہ تعلق رکھنا ہو" عبدالہادی نے جینز کی جیب سے آئی فون نکالا "واٹساپ نمبر نوٹ کروائیں " وہ موبائل پر جھکا۔ "پہلی بار کسی نے نمبر مانگا وہ بھی لڑکے نے" شاہ کے تاسف زدہ لہجے کو دیکھ کر عبدالہادی نے سر سے پاؤں تک اسے گھورا، "جیسی تمہاری پرسنالٹی ہے نا لڑکیاں دور سے ہی تکتے ہوئے رہ جاتی ہونگی، بات کرنے کی ہمت کہاں" "تمہیں بڑا تجربہ ہے"شاہ نے موبائل نکالتے ہوئے طنز کیا۔ " ہاں میری ہونے والی منگیتر کی دوستیں بہت ہیں " وہ دونوں ہنس پڑے تھے۔ سورج کا گولہ بلکل ہی ٹھنڈا پڑ گیا تھا، نارنجی گولے نے آسمان کے کنارے بھی نارنجی کردیئے تھے۔ لہروں کی ساکت سی اٹھا پٹھک جاری تھی، اسٹریٹ لائٹس آن ہوگئیں تھیں، کھانے پینے کی اشیاء فروشوں نے ساحل کا رخ کرلیا تھا۔ وہ نارنجی گولہ ان دونوں کو دیکھتے ہوئے کہیں پانی میں گھل سا گیا تھا۔ **** "کب سے آؤ گی یونیورسٹی؟ بازو کیسا ہے؟ میں مس کر رہی ہوں تمہیں،" میمونہ ایک سانس میں بولتی گئی۔ "آجاونگی امی اجازت تو دے دیں، بازو بھی ٹھیک ہے اب پلاستر کھل گیا ہے بس گرم پٹی باندھی ہوئی ہے" عرش نے الماری کا ڈور بند کرتے ہوئے موبائل کندھے اور کان میں دبایا۔ پلاستر والا ہاتھ اب لٹکا ہوا نہیں آذاد تھا۔ بالوں میں ہاف کیچر ڈالا ہوا تھا باقی بال پشت پر آذاد تھے۔ چند لٹیں چہرے کے اطراف میں بکھری ہوئی تھیں۔ چہرہ شاداب سا تھا۔ "آنٹی سے کہو نا پڑھائی کا حرج ہورہا ہے، اور میمونہ بھی اکیلی ہوگئی ہے" "تم سے بات کرواونگی تم خود کہہ دینا یہ بات، میری تو وہ کچھ سنتی ہی نہیں ہیں،" عرش جل کر بولی۔ پھر سر پر ہاتھ مارا زبان دانتوں تلے دابی۔ "مجھے کچھ کہنا ہے میمونہ بات سنو" ہاں کہو میں سن رہی ہوں" "مجھے شاہ کا نمبر چاہئیے"، ہاتھ میں پکڑے ہوئے سوٹ پر گرفت سخت ہوگئی۔ "واٹ؟" میمونہ کی چیخ نکلی سو نکلی موبائل بھی ہاتھ سے گرتے گرتے بچا۔ "مم..مجھے غلط مت سمجھو..امی کو بات کرنی ہے..غالبا...انہیں شاہ کو تھینکس کہنا ہے.. اسلیئے چاہئے" وہ جھجک کر بولتی گئی "نوٹ کرو نمبر"، میمونہ سوال جواب چھوڑ کے اسے نمبر نوٹ کروانے لگی۔ "تم بھی کرلینا دو چار باتیں جب امی کر چکیں" میمونہ شوخ ہوئی "بکو مت، ویسے وہ تمہیں بھی اگر انوائیٹ کریں تو پلیز آجانا میں تمہیں پورا کراچی گھماوں گی" عرش نے لالچ دیا۔ "دعا کرو مامابابا مان جائیں ورنہ میں کل ہی آجاوں، مس کر رہی ہوں میں تمہیں، پورا ہاسٹل گویا سنسان ہوگیا ہے، ابھی برابر کمرے والی فاریہ پوچھ رہی تھی، کیا ہوا آج کل بڑا سکون ہے کمرے میں؟ اور ٹیرس پر بے فالتو کپڑے بھی نہیں بکھرے پڑے؟" میمونہ نے اسے جوش دلایا۔ "اس موٹی کی تو..اسے کہنا..."عرش جل کر راکھ ہوئی اور دو چار کھٹی سی صلواتیں میمونہ کے کانوں میں گھولیں.. میمونہ ہنسنے لگی تھی۔ بہت دنوں بعد عرش کا موڈ بہتر ہوا تھا اور یہ میمونہ کی کال کی وجہ سے.... ***** امی کو کال لگا کے دے کر وہ خود کمرے میں آگئی اور ناخن کترنے لگی۔ دروازے کی اوٹ سے وہ امی کی باتیں سننے لگی۔ "جی بیٹا میں عرش زہرا کی ماما بات کر رہی ہوں، آپکی یونیورسٹی میں جو پڑھتی ہے،جی بیٹا ٹھیک ہے وہ.... وہ دروازہ بند کر کے گیٹ سے پشت ٹکا گئی دل کی دھڑکن تھی کہ کانوں میں سنائی دے رہی تھی۔ "افف یہ مجھے کیا ہورہا ہے" وہ ڈریسنگ ٹیبل کے پاس آکر بلاوجہ ہی خود پہ اسپرے کرنے لگی۔ چند منٹ بعد نورینہ بیگم نے گیٹ کھولا تو عرش کے ہاتھ سے پرفیوم گرتے گرتے بچی۔ بلاوجہ ہی وہ گھبراہٹ کا شکار ہورہی تھی۔ "یہ لو موبائل، ہوگئی بات" انہوں نے موبائل اسکی طرف بڑھاتے ہوئے اسکے چہرے کو جانچا۔ وہ آنکھیں ادھر ادھر کئیے موبائل پکڑنے لگی گویا کسی چیز میں دلچسپی نا ہو "ادھر میری بات سنو عرش"امی نے اسے بائیں بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔ وہ خوفزدہ نظروں سے امی کو دیکھنے لگی جو پہلی بار اس طرح اسے دیکھ رہی تھیں انگلیاں تھیں کی بازو میں گڑ سی گئیں تھیں۔ " ہم نے تمہیں یونیورسٹی پڑھنے،اور صرف پڑھنے کیلئے بھیجا تھا، اگر اپنی تربیت اور تم پر یقین نا ہوتا تو تمہاری ماں تم پر سوالات کی بوچھاڑ کردیتی، اس لڑکے کو یہاں بلایا ہے اسکی ماں سمیت، میں پرکھنا چاہتی ہوں اسکا مفاد کیا ہے" وہ کڑے لہجے میں اسے کیا کچھ باور کروا گئیں "آپ مجھ پہ شک کر رہی ہیں امی؟" عرش کا دل رو دیا۔ آنکھوں سے بھی پانی گرنے لگا۔ بازو چھڑایا "شک نہیں کر رہی عرش،میں بیٹی کی ماں ہوں، مجھے اپنی بیٹی کو ٹوٹنے سے بچانا ہے، تم یونیورسٹی تب جاو گی جب میں اسے لڑکے اور اسکے گھر والوں سے مل لوں گی" وہ اسے تنبیہہ کر گئیں۔ عرش سناٹے میں رہ گئی "اتنی بے اعتباری؟" **** #جاری_ہے
❤️ 👍 😮 69

Comments