Novel Ki Dunya
February 27, 2025 at 04:32 PM
#شاہ_اور_زہرا
#تحریر_عظمی_محمد_عثمان
#قلمی_نام_مٹھو_لاڈلی
#قسط_نمبر_18
#سرپرائز_قسط 😉
آنکھوں سے موتی ٹوٹ ٹوٹ کے گرنے لگے وہ بازو دیکھنے لگی جو سرخ ہوگیا۔
"اتنی بے اعتباری؟ وہ بھی امی؟ کیا انہیں مجھ پر اور اپنی تربیت پر بھروسہ نہیں، کیا میں اتنی بری ہوں؟" وہ خودکلامی کرتے ہوئے رونے لگی۔
امی کی باتیں ذہن کے پردے پر گونجنے لگیں۔
"یونیورسٹی تک بھیجنے سے انکاری ہوگئیں،" اسنے گھٹنوں میں سر دے لیا اور رونے لگی
"سب کچھ شاہ کی وجہ سے،جو میری اپنی ماں مجھ سے بے اعتبار ہوگئی،" اسکی آنکھوں میں جیسے حزن و طیش اتر آیا۔
*****
"امی، امی...." شاہ انساء بیگم کو آوازیں دیتا اندر داخل ہوا۔
انساء بیگم شاہ کا منہ تکنے لگیں، جو فرط مسرت سے چمک رہا تھا۔
"کیا ہوا؟
"امی...میری امی..." شاہ نے انہیں بازووں سے پکڑ کر گھما ڈالا۔
"ارے ہوا کیا ہے شاہ..، بتائیں بیٹا کچھ،" انساء بیگم اسے روکتے ہوئے بولیں اسے تکنے لگیں جو مجسم خوشی لگ رہا تھا۔
"امی آپ مجھے کہا کرتی تھیں نا مجھے عرش کے گھر لے جاؤ....میں کیسے لیکر جاتا..دیکھیں آج، آج اسکی ماما نے خود کال کر کے مجھے اور آپکو انوائٹ کیا ہے..اتنا تھینکس کر رہی تھیں وہ..کہ میں نے عرش کو بچایا..رئیلی ماما میری اتنی چھوٹی،معمولی سی کوشش کو انہوں نے احسان کی طرح لیا ماما..یہ تو میرا فرض تھا نا..." وہ جذبات سے بوجھل لہجے میں جوش سے بولتا گیا۔
"اوہ میرے خدا...کب بلایا ہے؟ اور کب جانا ہے؟" وہ حقیقتا خوش ہوئیں تھیں، انکا لاڈلا بیٹا انکی کل کائنات انہیں اسکی خوشی کیوں نا عزیز ہوتی؟ انہوں نے اس کا چہرہ ہاتھوں میں تھاما۔
"کل ماما...کل چلیں گے..پھر پرسوں سے میں یونیورسٹی چلا جاؤں گا، اور آپ مجھے نہیں روکیں گی پلیز پہلے ہی میرا اتنا حرج ہوگیا ہے ماما..بہت برڈن ہوگیا ہے اسٹڈی کا" وہ انہیں بازو کے حصار میں صوفے تک آیا۔
"انشاءاللہ شاہ چلیں گے کل، اللہ کامیاب کرے، ہر مشکل میں ہر، ہر مسئلے میں، تمہاری ماں کی دعا تمہارے ساتھ ہے"انہوں نے دل سے دعا دی اور اسکا ماتھا چوما.....
"ماں کے لبوں سے دعا نکلی تھی، اور شاہ کے سر پر مثل نور سایہ فگن ہوگئی تھی"
*****
نورینہ بیگم سارے میں طائرانہ نظر گھماتے ہوئے جائزہ لے رہیں تھیں، عرش سے انکا دو دن سے سامنا نہیں ہوا تھا۔
وہ دوپٹہ کاندھے پہ ٹھیک کرتے ہوئے عرش کے کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔ دروازے کو ہاتھ لگایا تو وہ کھلتا گیا۔
اس سے قبل عرش کمرہ بند کر کے فل والیوم میں میوزک چلایا کرتی... یا کمرے میں کپڑے وغیرہ پھیلائے ہوتے اسکی وجہ سے وہ نا کھولتی جب تک کمرے کی حالت درست نا ہوتی۔
وہ اندر گئیں، کمرے کی لائٹس بھی آن تھیں وہ کروٹ لے کر لیٹی ہوئی تھی۔ اسکی پشت نورینہ بیگم کی طرف تھی۔ انکے آنے پر بھی اس میں جنبش نا ہوئی تھی۔
"عرش ابھی تک سو رہی ہو چار بجنے والے ہیں" انہوں نے اسکے پاس بیٹھ کر اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرے۔
عرش کو ساری ناراضگی کافور ہوتی محسوس ہوئی۔ اور آنکھوں سے پانی بہنے لگا۔
"دو دن سے کمرے میں کھانا منگوا کر کھا رہی ہو، اور دو نوالے سے ذیادہ کھاتی بھی نہیں ہو؟ اتنا غصہ آیا ہوا ہے اپنی ماں پر،کہ دیکھنا بھی گوارا نہیں ماں کو؟"
وہ اٹھ کر بیٹھ گئی، بندھا ہوا جوڑا ڈھیلا سا ہو کر پشت پہ پھیل گیا۔ چہرے کے اطراف میں کٹی ہوئی لٹیں جھول رہی تھیں۔ آنکھیں سوج گئیں تھیں
"امی آپ نے مجھ پر شک کیا، مجھے ابھی تک یقین نہیں آرہا، میری اپنی ماں مجھ سے اس طرح بازپرس کرسکتی ہے،" وہ بے آواز رونے لگی۔
"شک نہیں کیا عرش، ماں پوچھے گی..کسی اور کو پوچھنے کی اجازت نہیں دے گی، ماں کو حق ہے سوال کرنے کا، تم شک کی بات کرتی ہو؟ یہ شک نہیں احتیاط ہے، ایک ماں اپنی بیٹی کو روکتی ہے سوال کرتی ہے اسکا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس پر شک کرتی ہے..ماں کو اپنی اولاد پر بھروسہ اور یقین ہوتا ہے مگر دوسروں پر نہیں، اولاد کی زندگی آنکھوں کے سامنے گزری ہے کسی غیر کی نہیں،کون کیسا ہے اولاد سے بہتر ماں باپ جانتے ہیں، اسلیئے روکتے ہیں سوال کرتے ہیں عرش،"
وہ اسکے آنسو صاف کرنے لگیں
عرش کی سمجھ میں بات آئی تو وہ سر جھکا گئی
"اور میری عرش تو بہت معصوم ہے، اسے کیا پتا دنیا کے بھید کا.."اسے کیا پتا لوگ جو دکھائی دیتے ہیں ویسے ہوتے نہیں ہیں" انہوں نے ٹھوڑی سے اسکا چہرہ اوپر کیا
"آئن سوری امی" جیسے ہی دل سے غبار صاف ہوا وہ امی سے لپٹ گئی۔
"اٹس اوکے" انہوں نے اسکا سر چوما۔ "اب اٹھ کے تیار ہوجاؤ، جن کو بلایا تھا ایک گھنٹے میں انہوں نے آجانا ہے، میں مل لوں ان سے تاکہ تمہیں بے فکر ہوکر یونیورسٹی بھیج سکوں" وہ مسکرائیں۔
"ہوتی ہوں تیار امی" وہ بمشکل مسکرائی دل عجیب سا ہوگیا۔
****
"بہت پیارے بیٹے کی ماں ہیں آپ انساء " نورینہ بیگم چائے کا کپ ہونٹوں سے لگاتے ہوئے مسکرائیں
"جی الحمداللہ" انہوں نے سر کو خم دیا آخر شاہ کی ماں تھیں۔
"مجھ سے ذیادہ انکی دادی اور بابا کا ہاتھ ہے انکی تربیت میں نورینہ، مجھ سے ذیادہ وہ اس سے اٹیچ ہیں، میرا بیٹا وہ واحد بیٹا ہے جسکی بچپن میں بھی کبھی شکایت نہیں آئی" انکے لہجے میں فخر عود کر آیا۔
شاہ نے چائے کا کپ پرچ میں رکھا اور عرش کی تلاش میں نظریں دوڑائیں۔ وہ نروس تھا اور بے چین سا کچھ تھا جو مصنوعی تھا۔
وہ عرش کی ماما کو دیکھنے لگا جو اسے دیکھ رہیں تھیں پھر نگاہوں کے تصادم پر وہ مسکرا کر انساء سے باتیں کرنے لگیں تھیں۔
وہ سر جھکا گیا۔
وہ عبدالہادی کی طرح چہرے تو نہیں پڑھ سکتا تھا مگر وہ اتنا اندازہ لگا پایا تھا کہ عرش کی ماما کے دل میں کچھ ہے جو بلکل بھی ٹھیک نہیں ہے نجانے کیوں شاہ کو نورینہ بیگم کے تاثرات مصنوعی لگے۔
وہ نظریں چرا گیا اور اپنے جوتوں کو تکنے لگا۔
ماما ان سے عرش کو بلانے کا کہہ رہیں تھیں وہ اسے دیکھنا چاہتیں تھیں، شاہ کا بھی دل چاہا وہ اسے دیکھے بس ایک نظر...کیسی ہے وہ..اس دن ہاسٹل میں کمرے میں بستر پر چھوڑ کر اسے دوبارہ دیکھا ہی نا تھا۔
"آآں..وہ تھوڑی تھکی ہوئی ہے اور بیمار بھی..چلنے میں بھی دقت ہے، آپ ایسا کریں میرے ساتھ آئیں میں آپکو اس کے کمرے میں لے چلتی ہوں،" انہوں نے مسکرا کر بات مکمل کی۔
"کوئی بات نہیں میں چلتی آپکے ہوں ساتھ کمرے میں" انساء بیگم یہ موقع کسی طور ضائع نا کرنا چاہتی تھیں۔
وہ عرش کا کمرہ ناک کر کے اندر داخل ہوئیں۔
"وہ ڈریسنگ ٹیبل پر چیزوں کو بلاوجہ ہی ٹھیک کر رہی تھی۔
انساء بیگم کمرے کے دروازے میں ہی ٹک گئیں وہ یک ٹک اسے تکنے لگیں جو مجسمہ حسن یا مجسمہ معصومیت تھی۔ اسکی ناک..ناک بہت پیاری تھی نازک سی چھوٹی سی میرون کلر کی شارٹ قمیض اور میرون پائجامے میں ملبوس تھی شیفوں کا دپٹہ کاندھے پر جھول رہا تھا۔ کتھئی سی آنکھیں حزن میں ڈوبی ہوئیں تھیں۔
"اسلام علیکم، آنٹی" وہ آگے آکر سلام کرتے ہوئے پیار لینے کو جھکی۔
وہ ہڑبڑا کر حال میں آئیں اسکے سر پر پیار کیا۔
"ماشااللہ بہت ہی پیاری اور اخلاق والی بیٹی ہے آپکی، نورینہ اسے تو آپ مجھے ہی دے دیں آپ کا احسان ہوگا،" وہ رندھی آواز میں کہتی گئیں
عرش کی آنکھوں میں بے یقینی اتر آئی
نورینہ بیگم کے چہرے کے تاثرات سخت ہوئے وہ بمشکل اپنے غصے کو قابو میں کیا۔
" آ...پ..چلیں، ہم باہر چل کر بات کرتے ہیں، عرش تم ریسٹ کرو، انہوں نے انساء بیگم کو مزید گوہر افشانی سے روکا۔
عرش نے میکانکی انداز میں میں دروازہ بند کیا اور گیٹ سے کمر ٹکا لی دل و دماغ میں آندھیاں سی چل رہی تھیں۔
کب وہ لوگ گھر گئے کچھ معلوم نہیں تھا وہ کمرے میں ہی بند تھی۔
گیٹ پر رخصت ہوتے وقت نجانے نورینہ بیگم نے انساء بیگم سے کیا کہا کہ شاہ نے انکے چہرے کو واضع طور پر بجھتے ہوئے دیکھا۔ وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گئیں تھیں۔
****
"عرش زہرا" نورینہ بیگم کے لہجے میں ایک دھاڑ سی تھی۔ عرش کا خون خشک ہوگیا تھا۔
#جاری_ہے
❤️
😢
👍
😮
😂
🙏
41