Novel Ki Dunya
February 27, 2025 at 06:18 PM
#شاہ_اور_زہرا #تحریر_عظمی_محمد_عثمان #قلمی_نام_مٹھو_لاڈلی #قسط_نمبر_19 عرش سر سے پاؤں تک کانپ گئی تھی۔ ساری زندگی لاڈو و ناز میں گزاری تھی امی نے کبھی اونچی آواز میں ڈانٹا تک نا تھا اور اب عجیب سا ماحول تھا گھر کا۔ "تمہارا رشتہ مانگ کے گئی ہیں وہ،" وہ اسکے کمرے میں آئیں تھیں لہجے میں طنز ہی طنز تھا۔ "دیکھ لئیے دنیا کی ہمدردی میں مفاد؟" بازو سے جکڑ کر اسے سامنے کھڑا کیا۔ "کب سے چاہ رہا ہوگا وہ موقع کہ....بس بہانہ بنے اور ...اور ایک بےوقوف لڑکی کو اپنے جال میں پھنسایا جائے،" وہ تنفر سے گویا ہوئیں، ایسی ہی بدگمانی کبھی عرش کو بھی تھی۔ یہی سوچ یہ انداز اسنے بھی ماں سے لیا تھا۔ دوراندیشی تھی احتیاط تھا....جو بھی تھا ٹھیک تھا...مگر "کسی" کیلئے ٹھیک نہیں تھا۔ "امی میں سولہ سو ساٹھ میں نہیں رہتی، جہاں لڑکی کا باہر سے رشتہ آنے پر اسے زدوکوب کیا جائے، یہ دوہزار انیس ہے، میرا اس رشتے سے کوئی لینا یا دینا نہیں ہے نا ہی میری کسی شہہ پر یہ سب ہوا ہے،آپکی مرضی ہے مجھے کسی کھونٹے سے بھی باندھ دیں تو میں افف نہیں کروں گی، آپکو ہاں کرنا ہے تب بھی مجھے اعتراض نہیں نا کہنا ہے تب بھی نہیں، اس حوالے سے مجھے ٹارچر نا کریں میں بابا سے کہہ دوں گی" وہ بھی عرش زہرا تھی۔ کردار سب سے اول تھا۔ ماں کے ذہن پہ چھائی ہوئی بدگمانی کو دور کرنے کیلئے وہ کسی بھی حد تک جا سکتی تھی۔ انہوں نے اسکا بازو چھوڑا۔ "ٹھیک ہے میں صاف انکار کردوں گی، ویسے بھی تمہارے بابا کے فرینڈز کے بیٹوں کے کافی پرپوزل ہیں، ڈاکٹرز انجینئرز..." کہتے ہوئے انہوں نے عرش کے تاثرات جانچے۔ عرش رکی آگے کو ہوئی اور نورینہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں۔ ایک حزن کی کیفیت تھی۔ "امی، کل کا کرتی آپ آج اور ابھی کریں انکار، میری جوتی کو بھی پرواہ نہیں، میں کل سے یونیورسٹی بھی جوائن کرلوں گی اب آپ مجھے نہیں روکیں گی،میں جا رہی ہوں بابا اور دادی کے پاس ساری بات انہیں بتانے..، کیونکہ میرے دل میں چور نہیں " وہ پیچھے کو ہوئی، بد لحاظی سے کہتے ہوئے اس نے سر تاسف سے جھٹکا۔ گویا امی کی سوچ پہ بہت افسوس ہوا ہو۔ "کوئی ضرورت نہیں ہے ڈھنڈھورا پیٹنے کی، رکو عرش..عرش.." وہ آوازیں دیتی رہ گئیں عرش کمرے کی دہلیز اور نیچے جاتی سیڑھیاں بھی پار کر گئی۔ "شاہ ارسلان، یہ سب تمہاری وجہ سے...، اس سے بہتر تھا تم مجھے خود اس کھائی میں دھکا دے دیتے، یا میرے ایگزام کلئیر نا ہوتے، اس سب سے بہتر تھا...،" دادی کے کمرے کے باہر کھڑی عرش نے زور سے مٹھیاں بھینچیں، آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی، مگر چہرہ گویا پتھر کی مورت تھا۔ اسے زندگی میں پہلی بار اتنا غصہ آیا تھا۔ وہ بھی شاہ ارسلان پر.... **** آپ نے بات کی امی؟" ڈرائیو کرتے شاہ نے گردن ترچھی کر کے ماں سے پوچھا۔ "ہوں..کی تھی،" وہ کسی سوچ میں گم تھیں۔ "کیسی لگی آپکو وہ؟ اور کیا کہا انہوں نے؟" وہ مسکرا کر گاڑی کو گئیر میں ڈال چکا تھا۔ "اچھی ہے..معصوم سی..اور تمہارے لئیے..موزوں،" انساء بیگم نے اوپری مسکراہٹ سے جواب دیا۔ شاہ ایک ہاتھ سے ڈرائیو کرتے دوسرے ہاتھ سے دوسرے ہاتھ سے ڈیش بورڈ میں پڑے موبائل کو اٹھایا۔ سرسری میسج دیکھ کر واپس رکھ دیا۔ وہ اب پرسکون ہوکر گاڑی چلا رہا تھا۔ انساء اسے تکنے لگیں...کیسے اسے بتاتیں..کہ عرش کیلئے اسکی امی نے کتنے عذر تراشے.. وہ اسے دیکھے گئیں۔ وہ الفاظ نہیں مل رہے تھے جس سے وہ گفتگو شروع کرتیں شاہ تو شاہ.. خود انہیں وہ کتنی پسند آئی تھی۔ جیسے یہی تو سوچی ہوئی تھی...خدا نے انکی پسند کے مطابق سانچے میں ڈال کر سدھا کر بھیجا ہو..شوخ سی آنکھیں..کٹاؤ دار لب...اور من موہنی سی آواز.. انہیں لگا وہ شاہ کو سچ بتا کر اسے مایوس اور ناخوش کردیں گی۔ وہ آنکھوں میں آئی نمی کو لئیے منہ پھیر گئیں۔ شیشے سے باہر دیکھنے لگیں۔ سرد ہوا کے تھپیڑے منہ کو جما رہے تھے مگر وہ شاہ کی جانب دیکھنے سے گریز کر رہی تھیں۔ "امی آپنے بتایا نہیں انہوں نے کیا کہا" شاہ نے انکا کندھا ہلایا۔ "ہوں..وہ چونک گئیں "وہ انہوں نے.." جھوٹ کیلئے الفاظ ڈھونڈنے لگیں "سچ" تو تلخ تھا۔ "ہاں بیٹا..وہ کہہ رہیں تھیں اسکے بابا سے مشورہ کریں گی..اور." وہ خاموش ہوئیں تھوک نگلا۔ "انہوں نے انکار کردیا نا امی؟" وہ مسکراتے ہوئے مین روڈ ہی نظریں جمائے ہوئے تھا۔اب دونوں ہاتھوں سے گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا۔ انکا رنگ فق ہوا "کوئی بات نہیں شاہ، مم..میں تمہارے لئیے اس سے بھی پیاری..لڑکی.." "نہیں امی نا پیاری نا سوہنی، بس وہی... مجھے معلوم تھا یہ لو میرج نہیں ہوسکتی، ارینج میرج ہوگی، میں "نارمل " ہوں، دیکھیں، کل یا پرسوں آپ انکے گھر جاکر کہہ دیجئے گا، شاہ کی بات پکی ہوگئی ہے..اور رشتے سے معذرت بھی کر آئیے گا...ساتھ مٹھائی کا ڈبا بھی لے جائیے گا، مسکراہٹ دبائے کہتے۔ شاہ نے گاڑی گھر کے راستے پر ڈالی۔ انساء بیگم ہکا بکا اسکا منہ تکنے لگیں **** #جاری_ہے
❤️ 👍 😮 😢 37

Comments