Novel Ki Dunya
February 28, 2025 at 03:36 AM
#شاہ_اور_زہرا
#تحریر_عظمی_محمد_عثمان
#قلمی_نام_مٹھو_لاڈلی
#قسط_نمبر_20
#سرپرائز_قسط 😉
نورینہ اپنی ساس کے کمرے کے باہر کھڑی تھیں، انگلیاں مروڑتے بے چینی ہر انداز سے عیاں تھی۔ عرش کی سسکیوں کی آواز باہر تک آرہی تھی۔
وہ ماں تھیں اپنی لاڈلی بیٹی کا بڑا تو نا چاہ سکتی تھیں..یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے لڑکے کتنے تیز اور فلرٹی ہوتے ہیں...عرش تو معصوم تھی۔ اسے کیا پتا دنیا دکھائی کچھ دیتی ہے ہوتی کچھ اور ہے۔ (شاہ کا روشن اور نرم سے تاثر والا چہرہ ذہن کے پردے پر لہرایا تو وہ ایک لمحے کو سوچ میں پڑ گئیں،) پھر گڑبڑا کر خود کو ہی ڈپٹا۔ "شکل سے کیا ہوتا ہے اصل تو اخلاق اور جان پہچان ہونی چاہیئے،"
ہمت کر کے انہوں نے دروازے کو دھکا دیا تو وہ کھلتا گیا۔
عرش دادی کی گود میں سر رکھے سسک رہی تھی اور انکی ساس اسکے بالوں میں انگلیاں پھیرتے اسے پرسکون کر رہیں تھیں۔ سرور خان پاس پڑی چئیر پر آگے کو ہوکر بیٹھے ہوئے تھے۔
چہرے پر پریشانی کے آثار تھے دونوں ہاتھوں کو ایک دوسرے میں پرویا ہوا تھا۔
انکے جانے پر تینوں نے چونک کر انہیں دیکھا تھا۔
عرش نے انہیں دیکھ کر منہ مزید چھپا لیا
"آجائیے بیٹھئے یہاں" سرور خان نے اشارے سے بیڈ پر بیٹھنے کیلئے کہا
وہ بمشکل وہاں ٹک کے بیٹھیں۔
"آپکو اپنی تربیت، اور میری بیٹی پہ شک کرنی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟؟" سرور خان ضبط سے چبا کر بولے۔
"نورینہ بیگم کا پورا منہ کھل گیا۔
"مم..میں نے کب شک کیا؟ مم..میں نے تو بس رشتے سے انکار کیا تھا"
"عرش کی یونیورسٹی جانے ہر بھی پابندی عائد کردی؟یہی نہیں رشتے کا مجھ سے یا امی سے پوچھے بغیر خود ہی فیصلہ کردیا؟ آپ نے یہ تک نہیں سوچا کہ یہ اگر سہی سلامت یہاں بیٹھی ہے تو اللہ کے بعد اس لڑکے کی مہربانی ہے، شکریہ ادا کرنے بلایا تھا آپ نے اور یہ سب ہوا،، اگر ان خاتون کو میری بیٹی پسند آئی تو اس میں عرش کا کی قصور ہے؟" وہ غصے سے چلائے۔
"بات پسند نا پسند کی نہیں ہے، وہ لڑکا اسکے ساتھ یونیورسٹی میں پڑھتا ہے اسکی جان بچائی..ایک بلاوے پر یہاں اپنی ماں کو لیکر آگیا..گھر آتے ہی اسکی ماں کو عرش پسند آگئی،، اسکا یہی مطلب ہوا نا کہ وہ لڑکا اس میں انٹرسٹڈ تھا؟" کھویا ہوا اعتماد بحال کرتے وہ غصے سے گویا ہوئیں۔
"اس سب میں میری عرش کی کہاں غلطی ہے؟" سرور خان نے زور سے ٹیبل پر ہاتھ مارا۔ نورینہ بیگم کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔
عرش زور سے رونا شروع ہوچکی تھی۔
"ارے بہو اتنا بھی خیال نا آیا کہ جہاں "بیری ہو وہاں پتھر تو آتے ہی ہیں" اور یہ کوئی اچنبھے کی بات تو نہیں، کیا ساری زندگی بچی کو گھر بٹھانا ہے؟" ساس نے بھی منہ کھولا۔
"بات یہ نہیں ہے امی،" وہ بے چین سی ہو کر بیڈ سے اتر گئیں۔
"سرور آپ بھی سن لیں، بے شک اس لڑکے میں کوئی خرابی نہیں ہے، اسکے یونیورسٹی جانے میں بھی اب کوئی اعتراض نہیں ہے..مگر اگر اب یا کبھی بھی آئیندہ دس سالوں میں بھی. کسی لڑکے کے توسط سے رشتہ آیا.. تو میری طرف سے صاف انکار ہوگا، کیونکہ میں لو میرج کے حق میں نہیں ہوں، یہ شادیاں نہیں چلتیں، "لڑکوں کے سر پر جنون کی طرح عشق کا بھوت سوار ہوتا ہے،اور نشے کی طرح یہ جنون یہ خمار اتر جاتا ہے،میں اپنی اکلوتی بیٹی کو ساری زندگی کیلئے دکھی نہیں کروں گی، ارینج میرج ہوگی بس،" نورینہ فیصلہ کن انداز میں کہتی ہوئی کمرے سے نکل گئیں،
"سرور تمہاری بیوی کا دماغ خراب ہوگیا ہے..مگر کوئی بات نہیں ، عمر کا تقاضہ تو میرا ہے پاگل پن کا مگر حرکتیں یہ کر رہی ہے" دادی کو نئے سرے سے غصہ آیا تھا۔ .عرش روتے ہوئے اٹھی تھی اور اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔
"اسکو کس بات کا اتنا صدمہ ہے جو آنسو نہیں رک رہے؟" دادی اسکے مسلسل رونے س تپ گئیں
"امی روئے گی تو سہی نا..اسکی ماں اپنی اولاد کیے سامنے اتنی منفی باتیں کر رہی ہے،" سرور تنک کر گویا ہوئے۔
*****
"سرور خان اندر آئے تو نورنہ بیگم کا آنسو گراتے ہوئے کمرے میں کام نمٹا رہی تھیں۔
"یہاں بیٹھئے،" نورینہ بیگم کو بازو سے پکڑا اور اپنے سامنے بٹھایا۔
"اس موضوع پہ مجھے بحث نہیں کرنی، میری بیٹی پہ میرا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا آپکا،" انگلی اٹھا کر تنبیہہ کی۔
"بلکل اور آپکا حق ذیادہ ہے، میں اس ٹاپک پر آپ سے بات کر بھی نہیں رہا، میرا دوست اپنے بیٹے کیلئے بارہا بر مجھے کہ چکا ہے، مگر میں عرش کی پڑھائی، اور اسکے کچھ بن جانے تک بات ٹالتا رہا ہوں مگر اب سوچ رہا ہوں انہیں گھر بلا لوں،" وہ پر سوچ نگاہوں سے بیوی کو تولتے ہوئے بولے۔
"کیسا ہے انکا بیٹا کیا کرتا ہے؟ عمر کتنی ہے؟ دیکھنے میں کیسا ہے؟" وہ رونا بھول کر سوال پوچھے گئیں۔
"اب گھر بلائیں گے تو پتا چلے گا بیگم کون کیسا کے میں کل انہیں بلا لیتا ہوں، وہ عرش کو بھی دیکھ لیں گے پرسوں سے میری بیٹی یونیورسٹی چلی جائے گی، یہاں آرام تو شاید اسکی قسمت میں نہیں،"وہ نا چاہتے ہوئے طنز کرگئے۔
"ہاں میں ماں نہیں دشمن ہوں نا اپنی بیٹی کی،" انہوں نے بازو چھڑایا۔ اور پھر سے رونا آیا تھا....
******
اس دن نورینہ بیگم صبح صبح اٹھ گئیں تھیں، صبح سے کام نمٹاتے اب دوپہر ہونے کو آئی تھی۔ سرور خان نے اپنے دوست کو کال کرکے شام کو گھر بلا لیا تھا۔
"میں گروسری اور دیگر چیزوں کیلئے بازار جا رہی ہوں شاید ڈالمن چلی جاؤں،آپ ڈرائیور سے کہیں گاڑی تیار کرے، دوپٹہ سر پر ٹھیک کرتے وہ آگے کو آئیں۔
"کہہ دیتا ہوں،" صوفے پر نیم دراز سرور خان نے موبائل کان سے لگایا نورینہ بیگم لاؤنج سے باہر نکل آئیں۔
"ڈالمن میں ضروری اشیاء کی خریداری کے بعد وہ ٹرالی گھسیٹتے کاونٹر تک آئیں۔ سازو سامان سے بھری ٹرالی وہاں کھڑی کر کے وہ اپنی باری کا انتظار کرنے لگیں۔
"میم" کاونٹر پر کھڑے لڑکے نے رسید انکی طرف بڑھائی۔ اور رقم کیلئے انکے چہرے کی طرف دیکھنے لگا۔
نورینہ اپنا بیگ ڈھونڈنے لگیں انہیں لگا ٹرالی میں سامان کے ساتھ اندر چلا گیا ہے مگر پوری ٹرالی خالی کرنے کے بعد بھی بیگ برآمد نا ہوا تو وہ ایکسکیوزمی کہتے ہوئے گاڑی کی طرف گئیں،جس میں انکا کریڈٹ کارڈ بھی موجود تھا۔ مگر گاڑی میں بھی بیگ ندار...وہ واپس اندر کو آئیں۔ اب وہ حقیقتا پریشان ہوچکی تھیں، اتنے عالیشان مال میں وہ بغیر پیسوں کے چلی آئیں تھیں۔ انہیں یاد آیا نکلتے وقت بیگ انہوں نے صوفے پر رکھا تھا "اففففف" رسید ہاتھ میں لئیے وہ کھڑی تھیں۔
کاونٹر والا لڑکا اب سر غصے سے جھٹکتے کچھ بڑبڑاتے ہوئے سامان دوبارہ لے جا رہا تھا۔
"آنٹی؟ آپ ٹھیک ہیں،" شاہ نجانے وہاں کیا کرنے آیا تھا۔
وہ چونک کر اسے دیکھے گئیں کچھ لمحے لگے تھے اسے پہچاننے میں، اس سے مدد کا کہنا مطلب...شرمندگی...
"کچھ نہیں بیٹا، آپ شاپنگ کریں،" مسکرا کر اسے ٹالا
"آپ پریشان ہیں؟ کوئی پرابلم" وہ اردگرد دیکھتے ہوئے بولا۔
بلیک ہاف آستین کی شرٹ اور بلیک جینز..سر پر پی کیپ پہنے بے حد خوبرو لگ رہا تھا۔
مم..میں اپنا پرس گھر بھول آئی..ایکچوئلی آج کچھ مہمان آنے تھے تو..جلدی جلدی میں بھول آئی، مگر اب واپس جا رہی ہوں کسی کو بھیج کر منگوا لوں گی،"
"ایک منٹ"شاہ نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں روکا اور کاونٹر بوائے کو آواز لگائی جو انکی ٹرالی لئیے جا رہا تھا۔
"وہ مینجر کے پاس جا کر نجانے کیا کہا کہ اگلے پانچ منٹ بعد وہ ٹرالی سمیت انکے پاس آگیا۔ مینجر بھی اسکے ساتھ تھا۔
"کوئی بات نہیں میم...آپ یہ سامان لے جائیں، کسی کے ساتھ یا آنلائن پے کردیجئے گا" ہروفیشنل انداز میں کہتے وہ مینجر کاونٹر بوائے کو انکا سامان گاڑی تک پہچانے کے ہدایت کرتے وہاں سے چلا گیا۔
نورینہ بیگم کے گلے میں گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی تھی۔ ایسے کیسے ہزاروں کا سامان شاہ کے ایک بار کہنے پر انکے حوالے کیا تھا۔ اتنا پراثر لڑکا ...جبکہ اسنے پیمنٹ بھی نہیں کی تھی۔ بس کہنے پر؟؟؟
"بیٹا آپکو پے نہیں کرنی چاہئے تھی مجھے بلکل اچھا نہیں لگا.." وہ خفا سی گویا ہوئیں، اپنی بات کی تصدیق بھی کرنی چاہی
"میں نے پے نہیں کی آنٹی،میں جانتا تھا آپکو برا لگے گا، بس سامان آپکو واپس دلوایا ہے، پے آپ خود کردیجئے گا" شاہ نے گردن ترچھی کر کے سر کو خم دیا
وہ "شکریہ" کہتے وہاں سے چلی گئیں
شاہ کاونٹر کی طرف بڑھ گیا جہاں مینیجر منتظر تھا۔
"جب یہ پے کرینگی تب ہم یہ گھڑی اور سیل فون آپکو واپس کردینگے مسٹر شاہ،گو کہ یہ رول نہیں ہے مگر پھر بھی ہم نے آپکی بات مان لی،" پروفیشنل انداز میں کہتے وہ دراز میں دونوں چیزیں رکھ کے کسٹمرز کے ساتھ مصروف ہوگیا۔
اگلے آدھے گھنٹے میں گھڑی اور موبائل دونوں اسکے پاس تھے ببل غم چباتے وہ گاڑی کی چابی گھماتے وہ باہر کی جانب بڑھ گیا
"بیٹی کو مفت کی ٹیوشن دی، چلو سب خیر ہے...اب اتنی شاپنگ کا بل بھی دوں وہ بھی اس ساس کا جسکو میں پسند ہی نہیں، حق حلال کی کمائی ہے بابا کی،" وہ چڑ کر اپنے آپ سے گویا ہوا..
بے نیازی سی بے نیازی تھی کتنی لڑکیوں نے ایک سیکنڈ کیلئے سہی مگر اس مغرور چہرے پر نگاہ ضرور جمائی تھی
******
"یہ مہمان بلائے تھے آپ نے سرور؟اچھا ہوا میں نے عرش کو نیچے نہیں بلایا،میری بیٹی..میری لاکھوں میں ایک بیٹی ایک 29سالہ "پورے مرد" کو دے دوں؟ صرف اس بنا پر کہ وہ آپکے دوست کا بیٹا ہے؟؟ عرش اکلوتی بیٹی ہے آپ کی " نورینہ بیگم لاؤنج میں ٹہلتے غصے سے پھٹ رہی تھیں،
"بیگم ڈاکٹر اور انجینئر کوئی بچے نہیں ہوتے سالوں لگ جاتے ہیں..ڈگری لینے میں عمر کے ساتھ علم آتا ہے کرئیر بنتا ہے..آپ تو نجانے کس خوابوں میں ہیں، آسمان سے کوئی شہزادہ ہی آئے گا آپکے خیالوں پر پورا،"انسان کے بچوں" میں آپکو لاکھوں عیب نظر آتے ہیں" سرور خان غصے سے کہتے وہاں سے چلے گئے، عرش کو یونیورسٹی روانہ کرنا تھا صبح...
"اس سے بہتر تو وہی لڑکا تھا..اللہ...کیا نام تھا....شاہ ارسلان..ہاں..کتنی ملاحمت تھی چہرے پر..اور عمر بھی کم..کتنی پیاری جوڑی لگتی عرش کے ساتھ" مال والے واقعے کے بعد اسکی طرف سے چھائی بدگمانی ختم نا سہی کم ضرور ہوئی تھی۔ رہ رہ کر تاسف ہوا
وہ صوفے پر بیٹھ گئیں۔ "اللہ کچھ آسانی کردے..میری بچی کیلئے آسان فیصلہ کردے...میں نے تجھ سے مشورہ کئیے بغیر..انکار کردیا..اگر ایسے ہی بے جوڑ رشتے آتے..رہے..تو" وہ دہل سی گئیں، سر ہاتھوں میں گرا لیا۔
اتنے میں چوکیدار نے اندر آکر بتایا کہ وہی عورت آئیں ہیں جو ایک دو دن پہلے آئیں تھیں، انہوں نے اندر بھیجنے کا کہا
انشاء بیگم تھیں..وہ چونک گئیں..دوبارہ آنے کا مقصد ؟؟
سلام دعا کے بعد انساء نے مٹھائی کا ڈبہ کھولا
"میں شاہ کی بات ڈال آئی..یہیں بلاک فور میں..بس اپنے بیٹے کیلئے لڑکی کی تلاش تھی اور میں گھر گھر جاکر لڑکیاں دیکھنے کے حق میں نہیں تھی..بس آپکی بیٹی کو ایک نظر دیکھا اور دل کو بھا گئی..تو کہہ ڈالا آپ سے،میرے بیٹے نے مجھ پر چھوڑا ہوا ہے، جسے چاہے پسند کروں...آپ نے انکار کیا تو میری رشتے کی بھانجی نے بتایا تھا ایک رشتہ بس وہاں ڈال دی بات..آپ بیٹی والے ہیں نجانے آس میں رہتیں تو میں چلی آئی، مسکرا کر خوش اخلاقی سے کہتے شاہ کی ماں نے بڑی بڑی اداکاروں کو پیچھے چھوڑا تھا
برفی کھاتی نورینہ کی آنکھیں ابل آئیں،، جلدی سے حلق میں اتاری۔
"مطلب عرش کا رشتہ آپ نے اپنی خواہش پر مانگا تھا؟؟؟" ملال کی ایک کیفیت تھی جو نورینہ پر ٹوٹی تھی۔
"تو کیا مطلب ہے آپکا میرے بیٹے کی خواہش پر میں یہاں آئی تھی؟؟" انساء بیگم کھڑی ہوگئیں..جیسے بہت غصہ آیا ہو جیسے انکا بیٹا پسند کرتا ہو انکی بیٹی کو ....اوہو..ایسی کوئی بات تھی بھلا؟؟نا جی نا...تاثرات نہیں گویا قیامت تھی...
"ارے میرا مطلب یہ نہیں تھا، آپ بیٹھیں تو سہی..مجھے کوئی اعتراض نہیں اب" وہ جلدی سے بولیں..وہ نرم سے تاثر اور روشن چہرے والا لڑکا ہائے میری عرش کے ساتھ کیا کمال جوڑی ہوتی..
"اعتراض نہیں مگر کس بات پر؟" وہ معصوم بن گئیں
"وہ آپنے اس دن عرش کے رشتے کا کہا تھا نا..تو میں نے کرلیا اسکے بابا اور دادی سے مشورہ انہیں بھی کوئی اعتراض نہیں.." وہ جلدی جلدی بولتی گئیں
انساء بیگم کے دل کی کلی گویا کھل سی گئی..انکا دل کیا وہ رب کے حضور سجدہ ریز ہوجائیں...مگر ابھی اداکاری لازمی تھی
"آپ اب جواب دے رہی ہیں..اور میں جو وہاں بات ڈال آئی..خیر کوئی بات نہیں میری بھانجی سنبھال لے گی مجھے تو آپکی بیٹی دل و جان سے پسند ہے..بس میرا بیٹا.." جان بوجھ کے بات ادھوری چھوڑی
"آپکابیٹا کیا؟؟"
"کچھ نہیں میں تو اسکی مرضی معلوم کرلوں گی "بہت فرمانبردار بیٹا" ہے میرا افف نہیں کرے گا، آپ بس مجھے عرش کا ہاتھ دے دیں" روکتے روکتے بھی آنکھوں میں آنسو چمکے۔
مم..میں عرش کو اور اسکے بابا اور دادی کو بلا کر آتی ہوں صبح..اسکی فلائٹ ہے تو تیاری میں لگی ہوئی ہے.." وہ سیڑھیوں کی جانب لپکیں اوپر پہنچ کر نگاہیں آسمان کی طرف اٹھائیں..تھینک یو اللہ پاک میری دعا اتنی جلدی سننے کیلئے..بے شک ماں کی دعا اولاد کے حق میں سب سے اول قبول ہوتی ہے"
وہ عرش کے کمرے کی جانب گئیں...
******
ہیلو اسلام علیکم، عبدالہادی،" شاہ نے مسکرا کر موبائل کان سے لگایا۔
"وعلیکم سلااااام شاہ صاحب کیسے ہیں جناب.." نجانے وہ اس وقت اتنا تروتازہ تھا یا شگفتگی اسکے مزاج کا حصہ تھی۔
"پورٹ گرینڈ آجاو پیارے..، دوستوں کو پارٹی دی ہے تو آپکا آنا بھی بنتا ہے....نہیں نہیں منگنی نہیں..نکاح ہوگا..انشاءاللہ رخصتی آفٹر کمپلیٹ اسٹڈی....جی جزاک اللہ.... ہاں..اگلے ہفتے..
شاہ کے چہرے پر عجیب مسکراہٹ تھی
******
کوئی عرش کا حال بھی پوچھتا..؟؟
****
#جاری_ہے
❤️
👍
😮
😢
46