Novel Ki Dunya
February 28, 2025 at 07:18 AM
#شاہ_اور_زہرا
#تحریر_عظمی_محمد_عثمان
#قلمی_نام_مٹھو_لاڈلی
#قسط_نمبر_21
عرش اور سرور خان تو دم بخود تھے..کہ پل بھر میں یہ کیا ماجرا ہوگیا؟؟
وہ ساری بات بتا کر اب خوشی سے باقاعدہ ہانپ رہیں تھیں۔
"کیا مطلب ہے آپکا؟؟ وہ جو لو میرج ارینج میرج کا آپ نے تکیہ کلام لگایا ہوا تھا...وہ سب کیا تھا؟" سرور خان پھر سے بے چین ہوئے تھے۔
"ارے...آپ بیٹھیں یہاں"سرور کو بازو سے پکڑ کر بیڈ پر ٹکایا اور خود برابر بیٹھ گئیں...عرش ہکا بکا کھڑی "ان دونوں" کو دیکھے جا رہی تھی۔ جو اسکے وجود سے بے نیاز تھے
"میں نے پہلے اس رشتے سے انکار اسلئے کیا تھا کیونکہ مجھے لگا تھا کہ یہ رشتہ لڑکے کے توسط ے آیا ہے، جب کہ اب مجھے پتا چلا بلکہ یقین ہوگیا ہے کہ وہ لڑکا انوالو نہیں ہے، تو اس رشتے میں کوئی برائی نہیں بلکہ..،بلکہ کمال جوڑی بنے گی دونوں کی اسلیئے میں انکار نا کرسکی"وہ جوش سے آنکھیں میچتے ہوئے ساری بات بتاتی گئیں
"کل تک تو آپکا کہنا تھا کہ وہ لڑکا انوالو ہے اور آپ مرتے دم تک لو میرج نہیں ہونے دیں گی یکایک یہ کایا پلٹ؟؟"سرور خان ابھی بہت الجھے ہوئے تھے۔
"دیکھیں اگر وہ لڑکا انوالو ہوتا...تو انکار کے بعد مجھے متاثر کرنے کی کوشش کرتا..ہاتھ آیا موقع کبھی نا جانے دیتا..آپکو پتا ہے مال میں..." انہوں نے مال والا واقعہ دہرایا تو سرور خان کے چہرے پر بھی اطمینان کی جھلک چھلکی۔
"مطلب یہ سو فیصد ارینج میرج ہے" وہ اٹھے اور کوٹ کے بٹن لگائے نیچے جانے کیلئے گویا تیار تھے۔
اگلے ہی لمحے وہ باتیں کرتے وہاں سے چلے گئے
عرش کے ذہن میں الفاظ ہتھوڑے کی مانند لگنے لگے، وہ سوچنے سمجھنے سے قاصر تھی۔
"مطلب شاہ کی مما نے اسکا دوسری جگہ رشتہ ڈال دیا تب بھی اسے کوئی اعتراض نا تھا...امی کو اسنے متاثر تک نا کیا(اب عرش کو کیا معلوم ایک ماں کو "متاثر نا کرکے" کتنا "متاثر" کیا تھا، وہ واقف تھا یہ گھی سیدھی انگلی سے نہیں نکلنےوالا تب ہی ایک تیر سے نجانے کتنے شکار😉)نا ہی دوبارہ پیغام بھیجا..مطلب یہ واقعی "ارینج میرج"ہے؟ شاہ کو مجھ سےمحبت نہیں؟" پہلی بار اسکا دل دکھا..گلہ رندھ گیا...پچھلی ساری باتیں وہ یکسر فراموش کر چکی تھی۔
چند لمحوں کے بعد اسے بھی نیچے بلایا گیا تھا
وہ روبوٹ کی طرح چلتی گئی تھی انساء بیگم نے لپٹایا تھا آنکھوں میں پانی لئیے اسکا سر چوما تھا شگن کے روپے وارے تھے..اور ہاتھوں ہاتھ منگنی..نہیں جی..نکاح..کا پیغام دے دیا تھا جو کہ منگنی کی جگہ بہتر و مناسب فیصلہ تھا....
وہ سر ہلاتی رہی پھر کمرے میں آگئی۔ روبوٹ کی طرح ہی وہ کھانے پر آئی رات سوتے ہوئے بھی سوچنے سمجھنے سے قاصر تھی سب اتنا اچانک ہوا تھا۔
پھر اگلی صبح وہ "منگنی شدہ"ہوکر ہاسٹل آئی تھی۔
*****
ہاسٹل میں اسکا سامنا میمونہ سے نا ہوا کیونکہ وہ اپنے گھر گئی ہوئی تھی اسے آج آنا تھا..عرش میکانکی انداز میں رات گزار کر صبح یونیورسٹی کیلئے تیار ہوئی اور یونیورسٹی آگئی..
یہاں وہاں نظریں دوڑاتے اسے لگا وہ یہ سب پہلی بار دیکھ رہی ہے...
وہ چلتی گئی.. کلاسز اٹینڈ کیں...وہ چھٹی ہونے پر کلاس سے باہر نکلی تو کچھ لڑکیوں نے آکر اسے مبارکباد دی..نجانے کس نے یہاں افواہ اڑا دی تھی
وہ سوال جواب کرنے کی پوزیشن میں بھی نا تھی۔ بس ٹکر ٹکر سب کی شکل دیکھے جاتی
ہر مبارکباد پر آنسوؤں کا طوفان اوپر کو اٹھتا جارہا تھا
"چپ اب" وہ ڈبڈبائی نظروں سے سب کو چپ کرواتی ہاسٹل بھاگتی آئی، لڑکیاں اسے رشک سے دیکھتی رہ گئیں
میمونہ آچکی تھی۔ (جسکو شاہ نے ساری بات بتا دی تھی،)
"عرش" سامان ٹھکانے لگاتی میمونہ نے سرخ چہرے والی عرش زہرا کو دیکھا تھا۔
عرش اندر آکر بیڈ پر بیٹھ گئی۔
"بہت مبارک ہو،مجھے شاہ نے بتادیا سب، کل آنٹی رسم بھی کر گئیں،" میمونہ نے اسے گلے لگایا اور اسکا ماتھا چوما.
عرش میں کوئی حرکت نا ہوئی
گہری گہری سانسیں لیتی اب عرش زہرا پھٹنے کو تھی۔ (ہاں دنیا کے سارے دلدر بیسٹی کے سامنے ہی نکلتے ہیں)
"تم ٹھیک ہو؟" اسے چھوا
"چپ" لال بھبھوکا چہرہ
میمونہ کو زور کی ہنسی آئی مگر وہ خاموش رہی
"اوکے میں چپ"اچھے بچوں کی طرح انگلی ہونٹ پہ رکھی۔
"ہوا کیا ہے" ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
جوابا عرش کو پھپھک پھپھک کے روئی تو سنبھالنا مشکل تھا میمونہ آدھے گھنٹے تک اسے خاموش کرواتی رہی ٹشو کا ایک انبار تھاجو عرش زہرا نے لگایا تھا۔
عرش زہرا نے ساری بات اسے بتائی..
"تو تمہیں اعتراض کس بات پر ہے؟، کیا تمہیں اس انجینئر سے منگنی نا ہونے کا دکھ ہے؟ "ریجیکٹ" ہونے کا دکھ ہے؟لو میرج نا ہونے کا دکھ ہے؟"یا ارینج میرج ہونے کا؟" ہنسی کو لبوں میں کہیں اندر دباتے ہوئے میمونہ نے اہم پوائنٹ اسکے سامنے رکھے۔
"تم جانتی ہو شاہ مجھ سے محبت کا دعویدار تھا" آنسوؤں کا ایک سیلاب تھا جو بہہ رہا تھا
" ہاں تو تھا..اور تم اسے ناپسند کرتیں تھیں،ایک منٹ، کہیں تمہیں شاہ سے منگنی ہونے کا دکھ تو نہیں؟ کیونکہ تم اسے ناپسند کرتی رہی ہو؟" میمونہ بے چینی سے نیچے اتر گئی
"تمہیں کیا لگتا ہے میں اتنی کٹھور ہوں..؟جو اے پلس کے بعد اپنی جان بچانے کے بعد بھی اسے ناپسند کرتی رہوں گی؟" اس دن جو ادراک ہوا تھا یہ اسکا اثر تھا جو آج عرش زہرا کے دل میں اسکی قدر ہوئی تھی۔ اسنے ہاتھ کی پشت سے آنسو رگڑے
"مطلب تم اسے پسند کرنے لگی ہو،اور وہ تمہاری محبت سے دستبردار ہوگیا،،ہممم تو یہ دکھ ہے؟"میمونہ اسکے گھٹنے پر ہاتھ رکھے ہمدردی سے بولی (دل تو لوٹیاں کھا رہا تھا،شاہ کی کارگزاری سن کر تو دل کر رہا تھا وہ اسکی بلائیں لے ڈالے)
عرش پھر رونے لگی تھی میومنہ غمگین صورت بنائے وہاں سے اٹھی اور واشروم میں بند ہوگئی...
عرش نے دروازے کی سمت میں دیکھا اور "سمجھ گئی کہ میمونہ بھی اسکا "دکھ"سمجھ گئی ہے"
اندر میمونہ ہنستے ہسنتے پیٹ پہ ہاتھ رکھے فرش پہ بیٹھ گئی تھی...
*****
شاہ یونیورسٹی کینٹین میں موجود تھا کہ وہاں عرش اور میمونہ آئیں تھیں۔ سوجی ہوئی آنکھوں والی عرش زہرا...
"وہ کچھ فاصلے پر بیٹھ گئیں، عرش کی نگاہیں بھٹک بھٹک کر اسکے چہرے کے گرد جا رہی تھیں..جو پہلے سے ذیادہ تروتازہ لگ رہا تھا رافیل ارسل لوگوں کا بل بھی پے کر رہا تھا (غالبا ٹریٹ دے رہا ہے،منگنی کی، عرش کے دل نے امید پکڑی)
وہ سب کھانا کھا کر بغیر ان دونوں کی طرف آئے چکے گئے تو عرش کی مسکراہٹ سمٹ گئی۔ وہ انکی ٹیبل پر آیا اور اجازت لے کر بیٹھ گیا۔
میمونہ گلا کھنکارتی "ایکسکیوزمی مجھے اریبہ بلا رہی ہے" کہتی ہوئی وہاں سے چلی گئی
"عرش اسٹرا کو گلاس میں گھماتے ہوئے کنفیوز سی تھی
شاہ اسکی اسٹڈی کے متعلق اس سے سوالات کرنے لگا
"آپ..آپ خوش ہیں؟" عرش زہرا نے ہمت پکڑ کر اسکی آنکھوں میں جھانک کر بلکل ہی مختلف سوال کیا۔
"کس سے؟" معصومیت کی کوئی انتہا تھی،جس پر شاہ ارسلان تھا
"منگنی سے" عرش نے اب کی بار دانت کچکچائے
"اوہ ہاں خوش ہوں، بہت تعریف کر رہی تھیں امی،دوسری جگہ پتا نہیں کہاں انہوں نے بات کی تھی وہ بھی کینسل کردی، بہت اچھی لگی تم انہیں،" اوہو جیسے شاہ تو تب بھی ایسے ہی "نارمل" ہوتا جب "دوسری جگہ" اسکی بات پکی ہوجاتی۔
"آپکی چوٹ کیسی ہے؟"اور کچھ سمجھ نا آیا عرش کو تو رندھے ہوئے گلے سے پوچھے گئی۔
"بہت لگاؤ ہوگیا ہے میری چوٹ سے؟" کوئی کوندا سا لپکا تھا شاہ کی آنکھوں میں وہ ٹیبل پر جھکا تھا۔ وہ نظریں چرا گئی کن انکھیون سے اسے دیکھا..جو بھرے بھرے چہرے اور خوبصورت موچھوں کے ساتھ دنیا کا خوبصورت انسان لگ رہا تھا..دل تو جیسے کرچی کرچی ہوگیا۔
"ویسے بھی ان سوالوں کے رومانوی جواب تو وہاں ملتے ہیں جہاں لو میرج ہو، ہماری تو ارینج میرج ہے، ارینج میں تو ماں باپ کی خوشی میں خوش" جاتے جاتے وہ عرش کو آگ کے کنویں میں دھکا دے گیا۔
بری طرح نتھے پھلاتی عرش زہرا نے خبر تھی کہ یہ جملہ اب اسکا تکیہ کلام بننے والا ہے،"
*****
شاہ کو امی کی کال آئی تھی، دادی بے حد غصے میں تھیں، بے خبر رکھے جانے پر..اب نکاح اتوار کو ہونا تھا اور باقاعدہ شادی شاہ کے ڈاکٹر بننے کے بعد اور عرش کی یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد،
*****
اتوار کو نکاح تھا آج منگل تھی،
شاہ کا دل چاہنے لگا تھا وہ اس سے باتیں کرے اسے پوچھے وہ خوش ہے؟ وہ اسے کتنا خوش رکھ سکتا ہے وہ اس سے کتنا پیار کرتا ہے..منگنی کے یہ چند دن تھے پھر نکاح ہوجانا تھا..وہ ان دنوں کی خوبصورتی محسوس کرنا چاہتا تھا..
اسے ایک خیال آیا اور اسنے میمونہ کو کال لگائی..وہ اسکی دوست ہی نہیں "مددگار" بھی بن گئی تھی، جو ہر لمحہ کی رپورٹ اس تک پہنچایا کرتی
"جی کیا حکم ہے جیجو"وہ شوخی سے بولی
"سالی صاحبہ میری منگیتر کو کال پر باتیں کرنےپر آمادہ کریں اور پہلی کال بھی اسی سےکروائیں..کیونکہ میں تو بات نہیں کرنا چاہتا تھا نا" وہ اپنے کمرے میں بیڈ پرلمبا ہوکر لیٹ گیا کھلی ہوئی کھڑکی سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اسے نیند کی وادیوں میں لے جانے لگے۔
"آپ اس کی جان لے کر رہیں گے؟؟ اتنا روئی ہے نا آج وہ آپکے بی ہیوئیر کی وجہ سے..."وہ ساری بات بتاتی گئی جو عرش نے اسکے گوش گزار کی تھی وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ آنکھیں نیچے کیں نچلا لب دانتوں میں دابا، مونچھیں ذرا اور نیچے کو آکر اوپری ہونٹ چھپا گئیں تھیں....وہ مسکرایا تھا دل سے...
ابھی بہت امتحان باقی تھے
****،
#جاری_ہے
❤️
👍
😂
😮
50